ڈیٹا ریکوری یا تبدیلی

ن

نامعلوم اول

مہمان
جناب وہ صرف ایک لنک تھا۔ میں یہاں ایسے کئی پیش کرسکتا ہوں جہاں اس مشکل ترین سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ دیکھیں:
http://scienceblogs.com/startswithabang/2012/10/15/what-happened-before-the-big-bang/
http://www.news24.com/MyNews24/Before-the-Big-Bang-Something-or-Nothing-20121205
http://www.theatlantic.com/technolo...-bang-the-new-philosophy-of-cosmology/251608/
http://io9.com/5881330/what-happened-before-the-big-bang
آپکا یہ سوال اتنا ہی بے منطقی ہے جیسے بندہ پوچھے کہ خدا سے "پہلے" کون تھا یا نعوذباللہ خود خدا کا خالق کون ہے؟

میں اپنے سوال کو مذہب کی طرف ہرگز نہیں لے کر جانا چاہتا۔ کیونکہ یہ نہایت غیر مناسب بات ہوتی ہے اور اس سے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
اتنی گزارش کروں گا کہ میں برسہا برس تک علم منطق پڑھتا رہا ہوں۔ کم سے کم سوال کے منطقی ہونے کی رعایت تو ملنی چاہیے۔ ہے نا؟ اور جو لنک آپ نے ابھی تک پوسٹ کیے ہے وہ ان سوالوں کے جوابات دینے کی ٹھیک سے کوشش تک نہیں کرتے۔ اگر آپ کو اس سوال پر اصل تحقیق پڑھنی ہے تو سٹیفن ہاکنگ کی کتاب اور تحقیق پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہ تو پتا چل جائے گا کہ دنیا کے عظیم ترین ماہرین طبیعات میں سے ایک اس سوال کو غیر منطقی نہیں سمجھتا۔

مثال کے طور پر آپ کے دے گئے لنک اس طرح کی باتیں کرتے ہیں:

What existed before the big bang? What is the nature of time? Is our universe one of many? On the big questions science cannot (yet?) answer, a new crop of philosophers are trying to provide answers.
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
" وقت " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ انسان کا دل دھڑکتا ہے ۔ خون کی روانی کو قائم رکھتا ہے ۔ جسم میں حرکت کی قوت پیدا ہوتی ہے ۔
اور یہی " دل کا دھڑکنا " ہر "دھڑکن " پر انسان کو بصورت " گھڑیال دیتا ہے یہ منادی کہ گردوں نے اک گھڑی عمر کی اور گھٹا دی " ۔۔۔ ۔
یہی " دھڑکن " دھڑک کر ماضی بنی ۔۔۔ دھڑکتے " حال " کہلائی " اور اس دھڑکن کا انتظار " مستقبل " ٹھہرا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

یہ کوئی "تعریف" نہیں۔ محض "نفسیاتی وقت" کے واقعاتی اظہار کی مثالیں ہیں۔ میرے سوال کی اساس "نفسیاتی" نہیں بلکہ "طبیعاتی" وقت تھا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ہم اپنے ماضی کو تو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن اپنے حال پر کام کرکے مستقبل کو بہتر کر سکتے ہیں۔

ہم تو یہ ہی نہیں جانتے کہ "ماضی، حال اور مستقبل" کس "مٹی" سے بنے ہیں۔ کیا یہ بس ایک خیال ہے؟ یا پھر وقت ایک طبیعی حقیقت ہے؟ اگر ایسا ہے تو:

1۔ کیا وقت خود بھی دائروں میں قید ہے؟ یا پھر،
2۔ یہ ایک ایسی "طبیعی" حقیقت ہے جو دائروں سے آزاد ایک سمت میں سفر کر رہی ہے؟
3۔ اگر یہ سفر یک سمتی بھی ہے تو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ بالآخر ایک بڑے دائرے کی صورت میں اختتام پذیر نہ ہو گا؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وقت کیا ہے یا کیا نہیں، میں نہیں جانتا۔
میرا مقصد اپنے اندر کی خامیوں کو خود ختم کرنا اور پھر نیا آغاز کر کے زندگی جینے کے بارے میں اپنی اور اپنے دوستوں کے ساتھ ساتھ سب کی اصلاح کرنا ہے
 
ہم تو یہ ہی نہیں جانتے کہ "ماضی، حال اور مستقبل" کس "مٹی" سے بنے ہیں۔ کیا یہ بس ایک خیال ہے؟ یا پھر وقت ایک طبیعی حقیقت ہے؟ اگر ایسا ہے تو:

1۔ کیا وقت خود بھی دائروں میں قید ہے؟ یا پھر،
2۔ یہ ایک ایسی "طبیعی" حقیقت ہے جو دائروں سے آزاد ایک سمت میں سفر کر رہی ہے؟
3۔ اگر یہ سفر یک سمتی بھی ہے تو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ بالآخر ایک بڑے دائرے کی صورت میں اختتام پذیر نہ ہو گا؟
کاش کہ ایک ریٹنگ "پرپیچ" کی بھی ہوتی:rolleyes:
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
محترم بھائی ۔۔ نفسیاتی و طبیعاتی وقت میں تفریق کیسے کی جا سکتی ہے ۔ ؟
"نفسیاتی وقت" کا انحصار انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر ہے۔ جبکہ "طبیعاتی وقت" انسان کی حسّیات اور ذہن کا تابع نہیں۔ نفسیاتی وقت ہمیشہ "آگے" کی سمت میں بڑھتا ہے۔ مزید یہ کہ انسان کا ذہن اس قابل نہیں کہ وہ وقت کی مختلف رفتاروں کا تصور کر سکے۔ اس کے برعکس، "طبیعاتی وقت" کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لازما "آگے" کی سمت میں ہی بڑھتا ہے۔ اگر ایسا ہو تب بھی، مختلف مقامات پر اس کی رفتار کا مختلف ہونا تو ثابت ہو ہی چکا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
"نفسیاتی وقت" کا انحصار انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر ہے۔ جبکہ "طبیعاتی وقت" انسان کی حسّیات اور ذہن کا تابع نہیں۔ نفسیاتی وقت ہمیشہ "آگے" کی سمت میں بڑھتا ہے۔ مزید یہ کہ انسان کا ذہن اس قابل نہیں کہ وہ وقت کی مختلف رفتاروں کا تصور کر سکے۔ اس کے برعکس، "طبیعاتی وقت" کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لازما "آگے" کی سمت میں ہی بڑھتا ہے۔ اگر ایسا ہو تب بھی، مختلف مقامات پر اس کی رفتار کا مختلف ہونا تو ثابت ہو ہی چکا ہے۔
گویا " وقت " طبیعاتی طور پر ایسی شئے ٹھہرا جو کہ " بیرون ذات " سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور مختلف حالات و واقعات سے منسلک رہتے اس کی رفتارو سمت " تغیر " کی حامل ہوتی ہے ۔ اور " نفسیاتی " طور پر یہ " درون ذات " سوچنے سمجھے اور احساسات پر قائم ہوتے اپنی رفتار کو " مستقل " رکھتے اک مخصوص سمت کی جانب رواں رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
گویا " وقت " طبیعاتی طور پر ایسی شئے ٹھہرا جو کہ " بیرون ذات " سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور مختلف حالات و واقعات سے منسلک رہتے اس کی رفتارو سمت " تغیر " کی حامل ہوتی ہے ۔ اور " نفسیاتی " طور پر یہ " درون ذات " سوچنے سمجھے اور احساسات پر قائم ہوتے اپنی رفتار کو " مستقل " رکھتے اک مخصوص سمت کی جانب رواں رہتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ؟
آپ کا موجودہ بیان حقا ئق کو آسان بنانے کی ایک کوشش تو ہے۔ مگر تضادات اور دائراتی حوالہ جات کی موجودگی کے سبب اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید براں "بیرونِ ذات" یا "درونِ ذات" کوئی سائنسی اصطلاحات نہیں، یہ تو شاعرانہ سے الفاظ ہیں، جن کا بغیر تفصیل بیان کیے استعمال محلِ اشکال ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اساطیر، مذاہب، فلسفہ، تصوف اور سائنس کے حوالے سے ہی "وقت" کی تعبیر کی جا سکتی ہے وگرنہ اگر اسے موضوعی معاملہ بنا دیا جائے تو پھر بات آگے بڑھ نہ پائے گی ۔۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اساطیر، مذاہب، فلسفہ، تصوف اور سائنس کے حوالے سے ہی "وقت" کی تعبیر کی جا سکتی ہے وگرنہ اگر اسے موضوعی معاملہ بنا دیا جائے تو پھر بات آگے بڑھ نہ پائے گی ۔۔۔
ہماری خواہش ہے کہ صرف سائنسی اور منطقی بنیادوں پر معروضی بحث کی جائے۔ مذہب اور تصوف کو بیچ میں لانا مناسب نہیں لگ رہا (وجوہات معلوم)۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ایک مکتبہء فکر کا خیال یہ ہے کہ وقت ایک بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے اور واقعات اس دریا کے دھارے میں پیچھے کی سمت بہتے جا رہے ہیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ایک مکتبہء فکر کا خیال یہ ہے کہ وقت ایک بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے اور واقعات اس دریا کے دھارے میں پیچھے کی سمت بہتے جا رہے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر یہ معروضیت سے عاری ایک شاعرانہ بیان ہے۔ شاعری سے یاد آیا، آپ کے ہمنام "شہزاد احمدشہزاد" نے بھی اس موضوع پر ایک بڑی اچھی نظم لکھی ہے - "طنابِ وقت کٹ چکے، تو خیمہءِ فلک گرے"۔ کہیں ہاتھ لگے تو ضرور پڑھیے گا۔ مزہ آئے گا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہیں سنا تھا کہ شہزاد احمدشہزاد صاحب فلسفے میں بھی خوب دسترس رکھتے تھے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
فلسفے میں تصور وقت کی تین صورتیں ملتی ہیں۔ ایک یہ کہ وقت محض ایک ذہنی کیفیت ہے۔ دوسرے یہ کہ وقت صرف آن موجود ہے اور گزرا ہوا اور آنے والا لمحہ محض مدفون اور ممکنہ تبدیلی کی علامتیں ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کائنات میں ہر شے کے لیے وقت کے مختلف پیمانے اور مدارج ہیں جن کی انتہا زمان حقیقی پر ہوتی ہے جو وقت کے تمام پیمانوں سے ماورا ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
سائنس میں وقت کو اضافی کہا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں وقت اور فاصلے کا کوئی ایک پیمانہ مقرر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایسے پیمانے سے حاصل کردہ معلومات کو حتمی کہا جا سکتا ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
زمانہ خدا ہے از ن م راشد

زمانہ خدا ہے
اسے تم برا مت کہو
مگر تم نہیں دیکھتے، زمانہ فقط ریسمان خیال
سبک مایہ، نازک، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی
انہیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی، موجود ہیں وہ کہیں
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہ وصال
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
وقت ٹھہرا ہوا ہے ۔۔۔ وزیر آغا

زماں کی روانی فقط واہمہ ہے
زماں ۔۔۔ گول منکوں کا اک ڈھیر جس کو
مری انگلیاں رات دن گن رہی ہیں
مری انگلیوں کو پتا ہے کہ ہر گول منکا
جو بے حس پڑا ہے
فقط ایک پل ہے کہ جس میں
ازل بھی نہیں
اور ابد بھی نہیں ہے
مگر دیکھنے والے کہتے ہیں
منکے رواں ہیں
مری انگلیوں سے گزرتے چلے جا رہے ہیں
زماں کی روانی فقط واہمہ ہے
ہر اک شے
خود اپنی جگہ پر
حنوطی ہوئی لاش ہے
وقت کی منجمد قاش ہے
وقت ٹھہرا ہوا ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
امروز ۔۔۔ مجید امجد


ابد کے سمندر کی اک موج جس پر، مری زندگی کا کنول تیرتا ہے
کسی ان سنی راگنی کی کوئی تان۔۔۔۔۔آزردہ، آوارہ، برباد
جو دم بھر کو آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کے سنگیت میں ڈھل گئی ہے
زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دو چار لمحوں کی میعاد
طلوع و غروبِ مہ و مہرکے جاودانی تسلسل کی دو چار کڑیاں
یہ کچھ تھرتھراتے اجالوں کا روماں، یہ کچھ سنسناتے اندھیروں کا قصہ
یہ جو کچھ کہ میرے زمانے میں ہے، یہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں ،میں ہوں
یہی میرا حصہ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے، بس یہی میرا حصہ
یہ صہبائے امروز ، جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر
بدور حیات آ گئی ہے! یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں ، پانی کے نلکے پہ ، یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دنیائے امروز میری ہے،میرے دل زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چارصبحیں ، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں!
انہیں چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
 
Top