ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
متروکہ کلام سے ایک اور پرانی نظم پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ آپ دوستوں کا یہی تقاضا تھا ۔ اس نظم کا نام اردو میں نہ ہونے کے لئے معذرت۔ باوجود کوشش کے ڈیژا وُو کا اردو متبادل مجھے نہیں مل سکا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ڈیژا وُو عالمی طور پر شاید ہر زبان میں معروف ہے اس لئے اسی عنوان کو برقرار رکھتا ہوں ۔ آپ اپنی رائے سے ضرور آگاہی بخشئے گا ۔ ممنون رہوں گا۔
ڈیژا وُو
(جھیل مشی گن کےکنارے)
٭
جھیل کی سرد ہوا ہے یہ مرے چاروں طرف
یا کسی بھولی ہوئی یاد کا جھونکا ہے کوئی
مجھے چُھوتی ہوئی گذری ہے تو محسوس ہوا
جیسے اک یاد کے یخ بستہ دریچے پہ کہیں
عکسِ امروز نے موہوم سی دستک دی ہے
اسقدر ماند ہے اس موجۂ احساس کی رو
سرمئی دھند میں لپٹا ہوا دن ہو جیسے
یادِ ماضی کا یہ بھولا ہوا لمحہ بھی کبھی
وقت کی رو میں گلابوں کی طرح تازہ تھا
اپنے ماحول کے سب رنگوں کی ساری حدت
اپنے دامن میں لئے پوری طرح زندہ تھا
جیسے ہوتا ہے مگر ویسے ہی رفتہ رفتہ
فکرِ فردا کے زمستانوں کی ژالہ باری
تہ بہ تہ دل کی زمیں پرہوئی ایسے شب و روز
منجمد ہو گئے سوئی ہوئی یادوں کے نقوش
آج اس جھیل مشی گن کے کنارے سے اِ دھر
ہلکی برسات میں بھیگے ہوئے گیلے پتے
اپنی رعنائی کی خوشبو سے مہک کر خود ہی
تال پر بوندوں کی بجنے لگے دھیرے دھیرے
دُور اک موجۂ بےتاب نے اٹھ کر جیسے
ساتھ اُڑتے ہوئے سِیگل کا چمکتا سا بدن
ذرا دھیرے سے چُھوا اور یونہی چھوڑ دیا
جانے کیا وعدۂ و پیماں ہوئے اُس لمحے میں
پاس اک شرمگیں چہرے پہ دھنک پھیل گئی
گل ستاں جیسے سمٹ جائے کسی غنچے میں
رقص کرتی ہوئی کچھ شوخ سی بیباک ہوا
اک کھلی زلف سے اُلجھی تو یہ سوچا میں نے
جھیل کی سرد ہوا ہے یہ مرے چاروں طرف
یا کسی بھولی ہوئی یاد کا جھونکا ہے کوئی
یہ سمے مجھ پہ کہیں پہلے بھی ہو گذرا ہے
یا کہیں میرے تصور کا یہ دھوکا ہے کوئی
٭٭٭
ڈور کاؤنٹی (وسكانسن)۔۔۔۔ ۲۰۰۲
ڈیژا وُو
(جھیل مشی گن کےکنارے)
٭
جھیل کی سرد ہوا ہے یہ مرے چاروں طرف
یا کسی بھولی ہوئی یاد کا جھونکا ہے کوئی
مجھے چُھوتی ہوئی گذری ہے تو محسوس ہوا
جیسے اک یاد کے یخ بستہ دریچے پہ کہیں
عکسِ امروز نے موہوم سی دستک دی ہے
اسقدر ماند ہے اس موجۂ احساس کی رو
سرمئی دھند میں لپٹا ہوا دن ہو جیسے
یادِ ماضی کا یہ بھولا ہوا لمحہ بھی کبھی
وقت کی رو میں گلابوں کی طرح تازہ تھا
اپنے ماحول کے سب رنگوں کی ساری حدت
اپنے دامن میں لئے پوری طرح زندہ تھا
جیسے ہوتا ہے مگر ویسے ہی رفتہ رفتہ
فکرِ فردا کے زمستانوں کی ژالہ باری
تہ بہ تہ دل کی زمیں پرہوئی ایسے شب و روز
منجمد ہو گئے سوئی ہوئی یادوں کے نقوش
آج اس جھیل مشی گن کے کنارے سے اِ دھر
ہلکی برسات میں بھیگے ہوئے گیلے پتے
اپنی رعنائی کی خوشبو سے مہک کر خود ہی
تال پر بوندوں کی بجنے لگے دھیرے دھیرے
دُور اک موجۂ بےتاب نے اٹھ کر جیسے
ساتھ اُڑتے ہوئے سِیگل کا چمکتا سا بدن
ذرا دھیرے سے چُھوا اور یونہی چھوڑ دیا
جانے کیا وعدۂ و پیماں ہوئے اُس لمحے میں
پاس اک شرمگیں چہرے پہ دھنک پھیل گئی
گل ستاں جیسے سمٹ جائے کسی غنچے میں
رقص کرتی ہوئی کچھ شوخ سی بیباک ہوا
اک کھلی زلف سے اُلجھی تو یہ سوچا میں نے
جھیل کی سرد ہوا ہے یہ مرے چاروں طرف
یا کسی بھولی ہوئی یاد کا جھونکا ہے کوئی
یہ سمے مجھ پہ کہیں پہلے بھی ہو گذرا ہے
یا کہیں میرے تصور کا یہ دھوکا ہے کوئی
٭٭٭
ڈور کاؤنٹی (وسكانسن)۔۔۔۔ ۲۰۰۲
آخری تدوین: