کابینہ نے حج پالیسی کی منظوری دیدی، سبسڈی نہ دینے کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
کابینہ نے حج پالیسی کی منظوری دیدی، سبسڈی نہ دینے کا فیصلہ
ویب ڈیسک جمعرات 31 جنوری 2019

وفاقی حکومت نے فی حاجی 45 ہزار سبسڈی دینے کافیصلہ کیا ہے، بریفنگ

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حج پالیسی 2019 کی منظوری دے دی گئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں حج پالیسی 2019 پیش کی گئی اور حج اخراجات اور سہولیات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس سال وفاقی حکومت نے فی حاجی 45 ہزار سبسڈی دینے کافیصلہ کیا ہے تاہم اس فیصلے کو مسترد کردیا گیا اور رواں برس سبسڈی نہ دینے کا فصیلہ کیا گیا ہے۔

حج کے اخراجات کو دو زونز میں تقسیم کیا گیا ہے، شمالی زون کے حج اخراجات 4 لاکھ 36 ہزار 975 روپے اور جنوبی زون کے حج اخراجات 4 لاکھ 26 ہزار روپے ہوں گے،اجلاس میں پالیسی کے مندرجات پر غور کے بعد حج پالیسی 2019 کی منظوری دے دی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دوران بریفنگ کابینہ کو بتایا گیا کہ اس سال 80 سال یا زائد عمر کے افراد کو بغیر قرعہ اندازی حج پر بھجوایا جائے گا اور مسلسل 3 سال ناکام رہنے والوں کو بھی اس سال بغیر قرعہ اندازی حج پر بھجوایا جائے گا جب کہ سرکاری کوٹا 60 اور نجی ٹورز آپریٹرز کا کوٹا 40 فی صد ہوگا، حج درخواستیں 20 فروری سے وصول کی جائیں گی اور اس سال ایک لاکھ 84 ہزار 210 پاکستانی فریضہ حج ادا کریں گے۔

اجلاس میں مستقبل کے ورک پلان سے متعلق سمری پیش کی جائے گی اور سول سروس ریفارمز اورری اسٹرکچرنگ سے متعلق سمری بھی پیش کی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
سبسڈی دینے کا فیصلہ یا نہ دینے کا؟
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں حج پالیسی 2019 پیش کی گئی اور حج اخراجات اور سہولیات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس سال وفاقی حکومت نے فی حاجی 45 ہزار سبسڈی دینے کافیصلہ کیا ہے تاہم اس فیصلے کو مسترد کردیا گیا اور رواں برس سبسڈی نہ دینے کا فصیلہ کیا گیا ہے۔
متعلقہ محکمہ نے سابقہ حکومتوں کی طرح سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم کابینہ نے اس سال اسے مسترد کر دیا۔ حج اسلامی فریضہ ہے مگر اپنے خرچے پر۔ اس لئے نئی حکومت اس میں شریک کار نہیں بنے گی۔
 
شمالی زون کے حج اخراجات 4 لاکھ 36 ہزار 975 روپے
پچھلے سال شمالی زون کی اخراجات 2 لاکھ 80 ہزار تھے اور لگ بھگ 40 ہزار کی سبسڈی تھی۔ سبسڈی نا ہوتی تو تو لاگت 3 لاکھ 20 ہزار (2900 ڈالر) ہوتی۔ اب اگر روپے کی قیمت گرنے اور سبسڈی ختم کرنے سے حج کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو زیادہ سے زیادہ اخراجات 4 لاکھ تک جانے چاہیے۔ یہ باقی 36 ہزار کی دیہاڑی کون لگا رہا ہے ؟
 

جاسم محمد

محفلین

محمد وارث

لائبریرین
متعلقہ محکمہ نے سابقہ حکومتوں کی طرح سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم کابینہ نے اس سال اسے مسترد کر دیا۔ حج اسلامی فریضہ ہے مگر اپنے خرچے پر۔ اس لئے نئی حکومت اس میں شریک کار نہیں بنے گی۔
درست ہے حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے وہ بھی زندگی میں صرف ایک بار چاہے کوئی پہلے حج کے بعد پچاس سال زندہ رہے یا سو سال۔ اس لیے ملک کے ٹیکس گزاروں کی رقم سے حجاج کرام کو دی جانے والی غیر ضروری سبسڈی ختم ہونی چاہیئے بلکہ جو دوسری تیسری بار حج کرنے کے متمنی ہیں ان پر مزید ٹیکس ہونا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
درست ہے حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے وہ بھی زندگی میں صرف ایک بار چاہے کوئی پہلے حج کے بعد پچاس سال زندہ رہے یا سو سال۔ اس لیے ملک کے ٹیکس گزاروں کی رقم سے حجاج کرام کو دی جانے والی غیر ضروری سبسڈی ختم ہونی چاہیئے بلکہ جو دوسری تیسری بار حج کرنے کے متمنی ہیں ان پر مزید ٹیکس ہونا چاہیے۔
DyULMu0XgAAss2m.jpg

سینیٹ میں اپوزیشن کے شور شرابہ کرنے کے بعد حکومت نے اس بہترین حج پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا پتا یوٹرن لے لیں۔
 
متعلقہ محکمہ نے سابقہ حکومتوں کی طرح سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم کابینہ نے اس سال اسے مسترد کر دیا۔ حج اسلامی فریضہ ہے مگر اپنے خرچے پر۔ اس لئے نئی حکومت اس میں شریک کار نہیں بنے گی۔

حکومت حج کے لیے درخواست کم و یش 6 ماہ قبل لیتی ہے، مطلب اگر تین لاکھ لوگوں نے بھی اپلائی کیا تو حکومتی خزانے میں سوا کھرب روپیہ جمع ہو جائے گا جس پر حکومت چار سے پانچ ماہ تک رج کے 'منافع' وصولے گی۔ پہلی حکومتیں جو سبسڈی دیتی تھیں ۔۔۔۔۔ آگے تسی آپ سارے سمجھدار او
 

فاخر رضا

محفلین
حکومت حج کے لیے درخواست کم و یش 6 ماہ قبل لیتی ہے، مطلب اگر تین لاکھ لوگوں نے بھی اپلائی کیا تو حکومتی خزانے میں سوا کھرب روپیہ جمع ہو جائے گا جس پر حکومت چار سے پانچ ماہ تک رج کے 'منافع' وصولے گی۔ پہلی حکومتیں جو سبسڈی دیتی تھیں ۔۔۔۔۔ آگے تسی آپ سارے سمجھدار او
یہ منافع بینک کو ہوتا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
بین الاقوامی منڈی میں تیل کی کم ہوتی ہوئی طلب کے باعث سعودی عرب کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں کہ وہ حج اور عمرہ کے ذریعے اپنی آمدن کے ذرائع میں اضافہ کرے۔

چنانچہ آج سے دو سال قبل سعودی اخبارات میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق سعودی حکومت نے اگلے پانچ سال میں یعنی 2022 تک حج اور عمرہ کی مد میں حاصل ہونے والے ریوینیو کو بڑھا کر ایک سو پچاس ارب ڈالرز تک کردینا تھا۔

اس پالیسی کے تحت ہر سال سعودی حکومت نے حج اور عمرے کے اخراجات میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔ موجودہ سال 2019 میں یہ اضافہ تقریباً ستر فیصد تک ہوچکا جس کی چیدہ چیدہ تفصیلات سکرین شاٹ میں لگا دی گئی ہیں۔

یہ اخراجات کی وہ مد ہے جو حکومت پاکستان کی بجائے سعودی عرب کے پاس جاتی ہے۔ اس پر نظر دوڑائیں تو بلڈنگ کرایہ سے لے کر ٹرانسپورٹ، کھانے پینے کے اخراجات، ٹرین کا کرایہ، مدینہ میں رہائش، حتی کہ قربانی تک کے اخراجات میں اضافہ کردیا گیا۔

پچھلے سال یہ اخراجات ایک لاکھ چھتیس ہزار چار سو روپے تھے جو کہ اس سال بڑھ کر دو لاکھ 41 ہزار سات سو چالیس ہوچکے۔

اسی طرح ویزہ فیس سے لے کر مختلف ایڈمنسٹریٹو اخراجات میں بھی بیش بہا اضافہ ہوچکا۔ موجودہ حج پالیسی میں سبسڈی ہٹا دی گئی لیکن حج فیس میں سے حکومت ایک ٹکا بھی اپنی جیب میں نہیں ڈالے گی - سب کچھ سعودی عرب میں ہی خرچ ہوگا اور وہاں کی حکومت کے طے کردہ اخراجات کے تحت ہی خرچ ہوگا۔

واضح رہے کہ ان حکومتی وزیر علی محمد خان نے ان اخراجات کی تفصیل سینیٹ میں جمع کروا دی ہے جہاں تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائیندگی موجود ہے۔ اگر ان جماعتوں کو لگتا ہے کہ یہ اعدادوشمار غلط ہیں تو منسٹر علی محمد خان کی تقریر کو بنیاد بناتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کریں - سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

لیکن جس طرح پچھلے پانچ ماہ میں ن لیگ، پی پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے سوائے جھوٹ بولنے کے اور کچھ نہیں کیا، اسی طرح حج اخراجات کے معاملے میں بھی یہ لوگ ہمیشہ کی طرح اپنا منہ کالا کرکے آخرت میں رسوائی کا سامان ہی کریں گے۔

بقلم خود باباکوڈا

 

ربیع م

محفلین
بین الاقوامی منڈی میں تیل کی کم ہوتی ہوئی طلب کے باعث سعودی عرب کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں کہ وہ حج اور عمرہ کے ذریعے اپنی آمدن کے ذرائع میں اضافہ کرے۔

چنانچہ آج سے دو سال قبل سعودی اخبارات میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق سعودی حکومت نے اگلے پانچ سال میں یعنی 2022 تک حج اور عمرہ کی مد میں حاصل ہونے والے ریوینیو کو بڑھا کر ایک سو پچاس ارب ڈالرز تک کردینا تھا۔

اس پالیسی کے تحت ہر سال سعودی حکومت نے حج اور عمرے کے اخراجات میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔ موجودہ سال 2019 میں یہ اضافہ تقریباً ستر فیصد تک ہوچکا جس کی چیدہ چیدہ تفصیلات سکرین شاٹ میں لگا دی گئی ہیں۔

یہ اخراجات کی وہ مد ہے جو حکومت پاکستان کی بجائے سعودی عرب کے پاس جاتی ہے۔ اس پر نظر دوڑائیں تو بلڈنگ کرایہ سے لے کر ٹرانسپورٹ، کھانے پینے کے اخراجات، ٹرین کا کرایہ، مدینہ میں رہائش، حتی کہ قربانی تک کے اخراجات میں اضافہ کردیا گیا۔

پچھلے سال یہ اخراجات ایک لاکھ چھتیس ہزار چار سو روپے تھے جو کہ اس سال بڑھ کر دو لاکھ 41 ہزار سات سو چالیس ہوچکے۔

اسی طرح ویزہ فیس سے لے کر مختلف ایڈمنسٹریٹو اخراجات میں بھی بیش بہا اضافہ ہوچکا۔ موجودہ حج پالیسی میں سبسڈی ہٹا دی گئی لیکن حج فیس میں سے حکومت ایک ٹکا بھی اپنی جیب میں نہیں ڈالے گی - سب کچھ سعودی عرب میں ہی خرچ ہوگا اور وہاں کی حکومت کے طے کردہ اخراجات کے تحت ہی خرچ ہوگا۔

واضح رہے کہ ان حکومتی وزیر علی محمد خان نے ان اخراجات کی تفصیل سینیٹ میں جمع کروا دی ہے جہاں تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائیندگی موجود ہے۔ اگر ان جماعتوں کو لگتا ہے کہ یہ اعدادوشمار غلط ہیں تو منسٹر علی محمد خان کی تقریر کو بنیاد بناتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کریں - سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

لیکن جس طرح پچھلے پانچ ماہ میں ن لیگ، پی پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے سوائے جھوٹ بولنے کے اور کچھ نہیں کیا، اسی طرح حج اخراجات کے معاملے میں بھی یہ لوگ ہمیشہ کی طرح اپنا منہ کالا کرکے آخرت میں رسوائی کا سامان ہی کریں گے۔

بقلم خود باباکوڈا

کبھی کسی ایسے شخص سے پوچھیں جس نے وزٹ ویزے پر حج کیا ہو کہ اس کا کتنا خرچ آیا ان شاءاللہ تشفی ہو جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کبھی کسی ایسے شخص سے پوچھیں جس نے وزٹ ویزے پر حج کیا ہو کہ اس کا کتنا خرچ آیا ان شاءاللہ تشفی ہو جائے گی۔
ماشاءاللہ۔ حرمین شریف کے اصل مالکا ن سے بھی پوچھ لیں کہ وہ 2022 تک حج کیلئے 150 ارب ڈالر کس مد میں کما رہے ہیں۔ حج دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دینی فریضہ ہے۔ ایسے میں سعودیہ کو اخراجات مناسب رکھنے چاہئے۔ یاد رہے کہ پاکستان واحد غریب ملک نہیں ہے۔
 

ربیع م

محفلین
ماشاءاللہ۔ حرمین شریف کے اصل مالکا ن سے بھی پوچھ لیں کہ وہ 2022 تک حج کیلئے 150 ارب ڈالر کس مد میں بڑھا رہے ہیں۔ حج دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دینی فریضہ ہے۔ ایسے میں سعودیہ کو اخراجات مناسب رکھنے چاہئے۔ یاد رہے کہ پاکستان واحد غریب ملک نہیں ہے۔
حرمین شریفین کے مالک تو اللہ ہیں حرمین کا نوکر بننا بھی دنیا کا گنہگار سے گنہگار مسلمان اپنا اعزاز سمجھتا ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
حرمین شریفین کا مالک تو صرف اللہ ہے اس کا نوکر بننا بھی دنیا کا گنہگار سے گنہگار انسان اپنا اعزاز سمجھتا ہو گا۔
حج وعمرہ کے انتظامی معاملات بہرحال حرمین شریف کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہیں۔ سعودی حکومت کا حج کے اخراجات بڑھانے پر دنیا بھر کے تمام حاجی متاثر ہوتے ہیں۔ اور خاص طور پر غریب مسلم ممالک سے آنے والے حاجیوں کیلئے حج کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
 

محمّد

محفلین
درست ہے حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے وہ بھی زندگی میں صرف ایک بار چاہے کوئی پہلے حج کے بعد پچاس سال زندہ رہے یا سو سال۔ اس لیے ملک کے ٹیکس گزاروں کی رقم سے حجاج کرام کو دی جانے والی غیر ضروری سبسڈی ختم ہونی چاہیئے بلکہ جو دوسری تیسری بار حج کرنے کے متمنی ہیں ان پر مزید ٹیکس ہونا چاہیے۔
سر یہ سبسڈی ختم والی بات تو ٹھیک، لیکن ٹیکس مزید ہونا چاہیے کی سمجھ نہیں آئی۔
 
Top