کارٹون تنازعہ: یورپی اخبارات کی یکجہتی

کارٹون تنازع: مقرر اشاعت پر موقف (بحوالہ بی بی سی اردو )


ان متنازع کارٹونوں کی وجہ سے پوری عرب دنیا سراپا احتجاج ہے۔
فرانس، اٹلی، جرمنی اور ہسپانیہ کے اخباروں نے بھی پیغمبرِ اسلام کی مبینہ توہین پر مبنی ڈینش آرٹسٹ کے متنازع کاٹون شائع کیے ہیں۔

یورپی اخباروں میں کارٹونوں کی اشاعت کا بنیادی مقصد ڈنمارک کے اخبار کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔

اس سے پہلے ڈنمارک میں ان کارٹونوں کی اشاعت پر کئی عرب ملکوں میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔

جن اخباروں میں یہ کارٹون شائع ہوئے ہیں ان میں پیرس سے شائع ہونے والا اخبار فرانس سواغ، جرمنی کا ڈائی ویلٹ، اٹلی کا لا سٹیمپا اور سپین کا ایل پیریڈیکو
شامل ہیں۔

پیرس سے شائع ہونے والے اخبار فرانس سواغ کا کہنا ہے کہ کارٹونوں کی اشاعت کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک سیکولر معاشرے میں مذہبی کٹرپن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

فرانس سواغ کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے کہا ہے کہ وہ آزادیِ صحافت کی حمایت کرتی ہے لیکن مذاہب اور عقائد کا احترام کیا جانا چاہیے۔

اسلام میں پیغمبرِ اسلام یا اللہ کی تصویر بنانے اور اس کوشائع کرنے کی ممانعت ہے۔

اخبار فرانس سواغ کی شہ سرخی ہے ’ہاں، ہمیں خداتعالی کا خاکہ اڑانے کا حق حاصل ہے‘ ۔

اخبار کے صفحہِ اول پر شائع ہونے والے ایک کارٹون میں بدھ مت، یہودی مذہب، اسلام اور عیسائیت کے خداؤں کو ایک بادل پر اڑتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

کارٹون میں لکھی عبارت میں عیسائی خدا پیغمبراسلام سے کہہ رہا ہے ’اے محمد شکایت مت کریں، یہاں ہم سب کا خاکہ اڑایا گیا ہے۔‘

فرانس سواغ کے اندرونی صفحات میں ڈنمارک میں چھپنے والے تمام کارٹونوں کو شائع کیا گیا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ کارٹونوں کی اشاعت کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک سیکولر معاشرے میں مذہبی کٹرپن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

’کاٹونوں پر اٹھنے والے اس تنازعے نے جمہوری معاشرے میں توازن، رواداری، ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کے احترام اور آزادیِ اظہار جیسے نظریات کے فروغ میں کچھ نہیں کیا۔‘

فرانسیسی مسلمانوں نے فرانس سواغ میں کارٹونوں کی اشاعت پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

فرینچ کونسل آف دی مسلم فید کے صدر دلیل بوبکر نے فرانس سواغ میں کارٹونوں کی اشاعت کو فرانس میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کارٹونوں کی اشاعت اخبار فرانس سواغ کی انفرادی ذمہ داری ہے۔

’فرانس کی حکومت آزادیِ اظہار کے حق کی حمایت کرتی ہے لیکن اس حق کا استعمال کرتے وقت رواداری اور دیگر افراد کے مذہبی عقائد کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔‘

دریں اثناء برلن سے شائع ہونے والے اخبار ڈائی ویلٹ نے ڈینش کارٹونوں کا صفحہِ اول پر جگہ دی ہے۔

جرمن اخبار کا کہنا ہے کہ مغرب میں مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کی اجازت ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسلام میں طنز کے نشتروں کے عہدہ برآ ہونے کی اجازت ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
ہم تو پہلے سے اٹے ہیں تب ہی ہمیں ٹلانے کی کوشش کی جا رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ تم قدامت پرست ہو اور جمہوری معاشرہ میں ایسی سخت گیری روا نہیں ، تو پھر ڈنمارک کے اخبار کی تائید میں یا کہیے کہ آزادی صحافت (اگر آزادی دل آزاری کا نام ہے تو ) اس کے حق میں اٹ جانا کیا یہ سخت گیری نہیں ؟
خیر جناب ہم تو کسی کے پیغمبر کی توہین کرنے سے رہے، بلکہ ہم تو مساوات پر اٹے ہیں ، اور اٹے رہیں گے ۔ شاید یہی انہیں گوارا نہیں ۔۔۔
 
نہیں جناب یہ معاملہ بہت ہی سنگین نوعیت کا ہے اور اس پر کوئی بھی آپ سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ قدامت پسند ہیں آپ۔ اگر کسی فرد کی کسی پوسٹ پر اعتراض ہو سکتا ہے اور اسے سرزنش ہو سکتی ہے تو یہ تو امت کا اجتماعی مسئلہ ہے جس میں کسی لچک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
 

ام طلحہ

محفلین
بے شک اس معاملے پر امت مسلمہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ اٹھی ہے ۔ یہاں امارات میں تو ڈینش مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے ۔ مگر کیا ایسی توہین کا تعلق آزادی اظہار سے جوڑا جا سکتا ہے ۔ ۔؟ یقینا نہیں ۔ آزادی اظہار کا تعلق کسی معاملے سے جڑی ہوئی حقیقت کو بیان کرنے کی حد تک ۔ کسی بات کو درست انداز میں کرنے اور کسی کی غلطی بتانے کی حد تک تو ہو سکتا ہے مگر کسی مذہبی عقیدے یا مذہبی شخصیت کی توہین کی دنیا کے کسی بھی قاتون میں اجازت نہیں ہونی چاہیئے ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ امت مسلمہ میں عوامی سطح پر تو بائیکاٹ ہو رہا ہے ۔ لوگ اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں مگر اس معاملے پرتمام حکومتی برژمھر خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ آزادی اظہار کی آڑ لیکر کفار اب مسلمانوں کی بچی کھچی (یہ بچی کھچی ہی ہے اور اس کا مطلب مجھے مکمل طور پر معلوم ہے) غیرت کو تہس نہس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا تعلق ان کے رسول سے ختم کیا جائے ، اور ان کو مکمل بے غیرت بنایا جایا۔ ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔
مذہبی نفرت کا پیروکار ملک ڈنمارک ہے اسکا مکمل بائیکاٹ کرو۔
 
کیا صورتحال

شارق مستقیم نے کہا:
محب برطانیہ میں کیا صورتحال ہے؟

شارق صد شکر کہ برطانیہ اس دوڑ میں شریک نہیں ہوا اور یہاں کے اخبارات نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے یہاں بھی مگر چونکہ یہاں پر کسی نے آزادی رائے کے نام پر کھل کر حمایت نہیں کی اس لئے ویسا احتجاج بھی نظر نہیں آرہا۔ بی بی سی نے اس معاملہ کو بہتر طریقے سے پیش کیا اور مسلمانوں کے احتجاج کو موثر طور پر پیش بھی کر رہی ہے۔ اب تک مجھےپاکستان سے کسی احتجاج کی کوئی خبر نہیں ملی جو کہ خاصی حیران کن خبر نہیں۔ پاکستانی عوام اتنی بے خبر تو نہیں ہو سکتی تو پھر احتجاج نہ کرنا چہ معنی دارد؟
 

نعمان

محفلین
مجھے اس معاملے میں کوئی اعتراض نہیں میرے خیال میں ڈینش قوانین کے تحت ڈنمارک کے اخبار کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ ایسا کرے۔ ان کے ممالک کا سیکولر کلچر انہیں اس بات کی آزادی دیتا ہے اور پہلے بھی یورپی اخبارات مذاہب بشمول عیسائیت اور مذہبی رہنماؤں پر کارٹون وغیرہ چھاپتے رہے ہیں ایسا نہیں کہ وہ مسلمانوں کے ہی دشمن ہیں۔ لیکن جس طرح ڈینش اخبار کو آزادی اظہار ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی احتجاج کا پورا حق حاصل ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
میرا فرمایا ہوا :

میرا مطلب
محب صاحب اور دیگر دوستان محفل کے نام
مغرب والے اور جیسا کہ فرانس کے اخبار کی تنبیہ آئی کہ تم یعنی مسلمانوں جیسے قدامت پرستوں کی جمہوری معاشرہ میں جگہ نہیں۔
چونکہ ہم مسلمان تمام انبیاء کا احترام کرتے ہیں لہذا جواب آں غزل کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرنے سے رہے، کہ ان کی تعظیم بھی ہمارا ایمان ہے،
اور یہی ہمارا دین وسط ہے، کہ سب کی تعظیم کرو، چونکہ ہم اس دین وسط پر اٹے ہیں لہذا ہمارے معتقدات کو ٹھیس پہنچا کر ہمیں اکسایا جاتا ہے کہ تم بھی ہماری طرح ایک دوسرے کی توہین میں لگ جاؤ ۔
مگر کیوں ؟ ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے پیش نظر اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے،
اخبار کے کارٹون کی مخلافت یقینا کرنا ہے، اور میں کرتا ہوں، لیکن یہاں فورم پر خامہ فرسائی سے کیا ملے گا، فورم کا صحیح استعمال یہ ہے کہ ہم میں ہر ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا ایک واقعہ سیرت کے زمرے پر لکھتا ، اور اس سے ملنے والے سبق کو واقضح کرے خود بھی عمل کرتا اور دوسروں کو بھی عمل کی دعوت دیتا،
رہی بات اخبار اور کارٹون کی مخالفت کی، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اخبار اور اس کے ایڈیٹر کا ای میل پتہ یہاں درج کرکے ایک مذمتی مضمون بھی انگریزی میں یہاں دیا جاتا اور ہر شریک محفل اس کو اپنے ای میل سے روانہ کرے۔
 

شعیب صفدر

محفلین
میرا فرمایا ہوا :

farid rasheed kavi نے کہا:
رہی بات اخبار اور کارٹون کی مخالفت کی، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اخبار اور اس کے ایڈیٹر کا ای میل پتہ یہاں درج کرکے ایک مذمتی مضمون بھی انگریزی میں یہاں دیا جاتا اور ہر شریک محفل اس کو اپنے ای میل سے روانہ کرے۔[/color][/size]
اچھی رائے ہے بلکہ اس میں ذرا اضافہ کر کے اسے یوں کر لیں کہ تمام وہ اضبار جنہوں نے اس سلسلے میں اظہار یکجہتی اور آزاد صحافت کے نام پر یہ حرکت بد کی ہے ان کے ای میل بھی۔۔۔ اور اگر ہو سکے تو دنمارک کے وزیر اعطم کا ای میل بھی
 
نعمان نے کہا:
مجھے اس معاملے میں کوئی اعتراض نہیں میرے خیال میں ڈینش قوانین کے تحت ڈنمارک کے اخبار کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ ایسا کرے۔ ان کے ممالک کا سیکولر کلچر انہیں اس بات کی آزادی دیتا ہے اور پہلے بھی یورپی اخبارات مذاہب بشمول عیسائیت اور مذہبی رہنماؤں پر کارٹون وغیرہ چھاپتے رہے ہیں ایسا نہیں کہ وہ مسلمانوں کے ہی دشمن ہیں۔ لیکن جس طرح ڈینش اخبار کو آزادی اظہار ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی احتجاج کا پورا حق حاصل ہے۔

نعمان اگر آپ کو بحیثیت ایک سیکولر شخص کے کوئی اعتراض نہیں تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو یہ حق مل جائے کہ دنیا کے دوسرے بڑے گروہ کے ہردل عزیز اور بے انتہا مقدس ہستی کو تضحیک اور مذاق کا نشانہ بنائے۔ ایسا حق کہیں بھی کسی کو بھی اخلاقی طور پر حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی قوم یا گروہ ایسا مذاق گوارہ کرتا ہے تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کو اسی معیار پر پرکھا جائے خاص طور پر جب یہ چیز سب پر عیاں ہے کہ مسلمان قوم ایسے مذاق قطعاً برداشت نہیں کرتی اور نہ کسی اور مذہب کے اکابرین پر ایسے طنز کرتی ہے۔ یہ کام ڈینش اخبار نے پہلی بار نہیں کیا اس سے پہلے ستمبر میں بھی کارٹون شائع کیے جس پر عرب ممالک اور پاکستان کی طرف سے تحریری مذمت کی گئی اور کچھ احتجاج کے بعد معاملہ دب گیا مگر شاید اس سے ڈینش اخبار کی تسلی نہیں ہوئی اور دوبارہ اس چنگاری کو بھڑکایا گیا اور پھر سے کارٹون والی تصاویر چند اور چھبتے ہوئے تبصروں سے شائع کی گئی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کارٹون پر پاکستان کا احتجاج

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں تعینات ڈنمارک کے سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر ایک ڈینش اخبار میں پیغمبر اسلام کے بارے میں چھپنے والے کیری کیچرز کی اشاعت پر احتجاج کیا گیا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈنمارک کی حکومت اس بات پر غور کرے گی کہ آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے۔
پاکستان میں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی طرح تو ان کیری کیچرز کی اشاعت پر احتجاج نہیں کیا گیا تاہم متحدہ مجلس عمل کے رہنما لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ کل یعنی جمعہ کو ان کیری کیچرز کی اشاعت پر دینی جماعتیں احتجاجی جلسے کریں گی۔
مزید

ربط
 

الف نظامی

لائبریرین
فرید بالکل مذمتی مضمون بنایا جایا اور فورم کا ہر فرد اسکو ای میل کرئے۔ احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
آزادی صحافت اور اظہار رای کو تسلیم کر بھی لیں، اور ڈنیش قوانین میں اس کی حیثیت کو مان لیں تب بھی سوال یہ ہے کہ کسی کو ایسا کارٹون بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ سوچنے کی بات یہ ہے !!! بات آزادی کی نہیں، تمہیں کسی نے گالی دی، ایذا پہنچائی ، اور تم اس کی مخالفت میں اپنی رای کا ظہار کرو تو کسی کے منع کرنے پر اس کو آزادی رای کا حوالہ دے سکتے ہو، مگر اس شخص کو کیا ضرورت پیش آئی جس نے اولا آپ کو گالی دی، وہ آپ کو گالی دینے کے لے ہر گز آزادی رای کا حوالہ نہیں دے سکتا ،
اگر میں رات کو سونے کے وقت محلہ میں اسپیکر لگا کر اپنا من پسند گیت بجانا شروع کر دوں تو یہ مجھے اس کی آزادی ہونی چاہیے یا نہیں ؟
ہوائی جہاز میں مجھے سونے کی خواہش ہو اور میں پاؤں پسار چند سیٹیں لے کر سو جاؤں اور آزادی کا حوالہ دوں تو ؟
ہاتھ ہلانے کی آزادی کے بہانے کسی کے گال پر پانچ نشان لگا دوں تو ؟
اصل وہ ذہنیت ہے جو اسلام دشمنی پر پرورش پاتی ہے اور جسے ڈنش وزیر اعظم آزادی صحافت کے حوالہ سے مزید پروان چڑھاتا ہے،
میری دوستان محفل سے درخواست ہے کہ بحث کو صحیح سمت میں لے جانے کے اصولی بحث فرمائیں اور وہ عوامل تلاش فرمائیں جس کے نتیجہ میں یہ سب ظہور پذیر ہوتا ہے ۔
درج لنک پر ایک پاورپوئنٹ فلم ہے، اس میں اس واقعہ کا پس منظر اور اس کے کردارروں کی نقاب کشی کی گئی ہے، یہ فلم عربی انگلش میں ہے، اخیر کے حصہ میں انگریزی زیادہ ہے، لہذا عربی سمجھ کر ترک نہ کر دیں ، پورا دیکھ لیں ، خصوصا راجہ صاحب اور نعمان صاحب ،
لگتا ہے راجہ صاحب اور نعمان صاحب ایک لکیر کے دو آخری نقطے بن گئے ہیں ۔
http://www.saaid.net/Doat/shaya/14.ppt
 

الف نظامی

لائبریرین
آزادی صحافت الگ چیز ہے اور مذہبی نفرت پھیلانا دوسری چیز۔
اور میں آزادی صحافت کا مخالف نہیں۔
توہینِ رسالت کرنے والے کی ایسی کی تیسی ۔
 

جیسبادی

محفلین
بہت سے لوگوں کو ڈنمارک کے بارے علم نہیں۔ اس کی political elite سخت دشمن واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ افغانستان میں ان نے F-16 کے سکوارڈن بھیجے ہوئے ہیں، جو غریب عوام پر بمباری کرتے رہتے ہیں۔ iceland پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے بحری جہاز کینڈا کے شمالی جزیروں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس واقعہ کا اظہار کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی سکیم پر عمل کر رہے ہیں۔

جو لوگ اسے آزادی ، رائے کا مسلئہ سمجھ رہے ہیں، ان کیلئے ٹورانٹو سٹار
 

الف نظامی

لائبریرین
قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مغربی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلائے جن ممالک میں پیغمبر اسلام کے کارٹون شائع کیئے گئے ہیں

مولانا فضل الرحمان جو متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں میں بھی شامل ہیں نے حکومت سے کہا ہے کہ مذکورہ ممالک کے سفارت خانوں کو بھی بند کیا جائے

کوئٹہ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرے ہوئے انہوں نے کہا جن ممالک میں کارٹون شائع کیئے گئے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا جائے

فضل الرحمان نے مذکورہ مغربی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے

انہوں نے لیبیا ، سعودی عرب اور قطر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کی تقلید کرے ہوئے مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے

پاکستان میں آج مغربی ممالک کے متعدد اخباروں میں شائع کردہ پیغمبر اسلام کے کارٹونوں کیخلاف احتجاج کیا جائے گا اور جلسے منعقد کیئے جائینگے

مظاہرین سے متحدہ مجلس عمل اور دیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین خطاب کرینگے

مشرق وسطی میں متعدد ممالک نے ڈنمارک کی اشیا، کا بائیکاٹ کر دیا ہے

ادھر فلسطین میں ایک جرمن شہری کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا

حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے ڈنمارک میں تیس ستمبر کو کارٹون کی اشاعت کے فوری بعد ڈنمارک کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروا دیا تھا

تاہم حکومت پاکستان کی طرف سے عرب ممالک کی بہ نسبت سخت رویہ سامے نہیں آیا
حوالہ
http://www.urdu-service.net/pakistan_news/0206/pakistan_protest_ags_ca.shtml
 
Top