کاش ہماری تمام بیٹیاں ایسی ہی خاص بن جائیں

سعود الحسن

محفلین
آج کے جنگ کی مرکزی سرخی اور اسٹوری یہ ہے

اسلام آباد(رپورٹ…انصار عباسی) ملک بھر کے ہزاروں طلبہ کے حقوق کو بڑے پیمانے پر رد کرتے ہوئے وفاقی بورڈ برائے ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ نے ملک کے سب سے بڑے جج کی صاحبزادی کو غیر قانونی طور پر اضافی نمبر دیکر ان کے امتحانی نتیجے کو بہتر بنا دیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آئی ایس ای کے تحریری احکامات، نامناسب عجلت میں تمام قواعد کی خلاف ورزی اور ان میں نرمی، یہاں تک کہ اعلی عدالت کے کچھ فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرح حمید ڈوگر کے ایف ایس سی کے نتیجے کو اس طرح بہتر بنایا کہ 640 نمبر میں گریڈ ” سی “ کو بڑھا کر اسے ” بی “ گریڈ میں تبدیل کر دیا اور اس طرح انہیں ملک میں کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست دینے کیلئے اہل بنا دیا۔

دی نیوز کو دستیاب دستاویز شہادتوں، پس پردہ انٹرویوز اور فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے متعلقہ حکام کے ساتھ ریکارڈ پر ہونے والا تبادلہ خیال یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام آباد بورڈ نے فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں اپنے معمول سے ہٹ کر دوبارہ چیکنگ، دوبارہ جائزہ لینے اور یہاں تک کہ ان کے امتحان کی جوابی کاپیوں پر ان کو فائدہ پہنچانے کیلئے اور 642 سے 660 کے درمیان نمبر لینے والے ہزاروں طالب علموں سے انہیں آگے کرتے ہوئے دوبارہ نمبر دینے کے پورے عمل کو نہایت تیزی سے مکمل کیا ۔

تاہم چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے قریبی ذرائع اصرار کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کی جانب سے ان کی صاحبزادی کے معاملے میں کوئی اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا گیا تھا اور اگر بورڈ نے کوئی اقدام کیا تھا تو انہوں نے ایسا لازماً قواعد کے تحت یا بورڈ کے چیئرمین کو حاصل اختیارات کے تحت کیا ہوگا۔

دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیئرمین ایف بی آئی ایس ای نے یہ تمام کام قواعد میں نرمی کرکے کیالیکن گزشتہ سپریم کورٹ نے اکتوبر 1995 ء ، جنوری1996 اور نومبر 2001 ء میں اپنے فیصلوں میں کسی بھی امیدوار کو خواہ وہ کتنا ہی بااثر یا طاقتور کیوں نہ ہوامتحانی نظام میں اس طرح کی گڑبڑ سے خاص طور پر ممانعت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ امتحا ن کے عمل کو مصلحت کی بنیاد پر قربان کرنے نہیں کیا جا سکتا اور اس عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔امتحانی نظام کے ماہرین کا اصرار ہے کہ قواعد چیئر مین کو یا کسی بھی بااختیار اہلکار کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ حاصل کردہ نمبروں کو بڑھانے کیلئے پہلے سے مارک کردہ پیپر کو دوبارہ جائزہ لے یا دوبارہ امتحان لے یا ان پر دوبارہ نمبر ڈالے۔درحقیقت 24 جولائی 2007 کی تاریخ کے ایف بی آئی ایس ای کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق وہ امیدوار جو اپنے نمبر یا گریڈ بہتر بنانا چاہتے تھے انہیں خواہ مکمل طور پر یا جزوی طور پردوبارہ امتحان دینا تھا ۔اس اعلامیہ کے تحت طلبہ کو بتایا گیا تھا کہ گریڈ یا نمبر بہتر بنانے کی سہولت کو امیدواروں کیلئے اس طرح توسیع دی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کے دو مضامین یا پرچوں میں دوبارہ بیٹھ سکتے ہیں اور اسی دوران وہ پالیسی بھی برقرار رہے گی کہ وہ متعلقہ امتحان پاس کرنے کے ایک سال کے اندر پارٹ ون یا پارٹ ٹو یا دونوں پارٹس یا پورے امتحان میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فرح حمید ڈوگر، جو اسلام آباد کالج برائے خواتین F-6/2 سے ایف ایس سی (پری میڈیکل) کے پرچے دے چکی تھیں، قواعد کے مطابق اپنی بعض امتحانی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے کی درخواست دے چکی تھیں۔ ان کی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے پر ان کے نمبروں میں صرف ایک نمبر کے اضافے سے ان کے مجموعی نمبر 640 سے 641 ہوگئے تھے۔ لیکن بعد میں بورڈ کے چیئرمین نے حکم دیا کہ ان کے پرچوں کی دوبارہ پڑتال کی جائے جس کے لئے وہ 4 ممتحن طلب کئے گئے جنہوں نے پہلے انکی کاپیاں چیک کی تھیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ دوبارہ نمبر دیں۔ اس مشق کے نتیجے میں فرح حمید ڈوگر کو 21 زائد نمبر ملے جس سے ان کا گریڈ ” سی “کے بجائے ” بی “ہوگیا اور جس کا آغاز 60 فیصد نمبروں سے ہوتا ہے اور یہ پاکستان کے کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست دینے کیلئے پیشگی شرط ہے۔

ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ پارٹ ٹو سالانہ امتحان برائے 2008ء کے رزلٹ گزیٹ بتاریخ 4 اگست 2008ء کے صفحہ نمبر 350 پر واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ فرح حمید ڈوگر (رول نمبر 545207) بنت چیف جسٹس آف پاکستان نے 640نمبر یعنی گریڈ سی حاصل کیا ہے۔ 20 اگست کو امیدوار نے رسمی طور پر 4 مضامین انگریزی، اردو، مطالعہ پاکستان اور فزکس پارٹ ٹو کی کاپیاں دوبارہ چیک کرانے کی درخواست دی اور اس مقصد کیلئے 300 روپے فی پرچہ کے حساب سے 12 سو روپے کی ادائیگی کی۔ 29 اگست کو انہوں نے فیڈرل بورڈ کو ایک اور درخواست دی جس میں کیمسٹری اور بائیولوجی کی کاپیاں چیک کرنے کیلئے کہا گیا۔ دوسری درخواست کے ساتھ 600 روپے کی بینک رسید اور رزلٹ کارڈ (مارک شیٹ) بھی منسلک کی گئی تھی۔ درخواست فارم کی پشت پر واضح طور پر درج تھا کہ ”کسی بھی امتحان میں امیدوار کی جوابی کاپی کی کسی بھی صورت میں دوبارہ پڑتال (Re-assess) نہیں کی جائے گی“۔ درخواست فارم پر مزید درج ہے کہ ”کاپیاں دوبارہ چیک (Re-check) کرنے کو ان کی دوبارہ پڑتال (Re-Assesment) ہرگز نہ سمجھا جائے“۔ ان ہدایات سے یہ بھی واضح تھا کہ کاپیوں کی دوبارہ چیکنگ صرف اس بات کا اطمینان کیا جائیگا کہ ” (1) جوابی کاپی کے ابتدائی صفحے پر مجموعی نمبروں میں کوئی غلطی نہیں (2) سوالات کے مختلف حصوں میں دیئے گئے نمبروں کو صحیح طریقے سے جمع کیا گیا ہے اور انہیں ہر سوال کے آخر میں صحیح طریقے سے لکھا گیا ہے (3) تمام کل نمبروں کو جوابی کاپی کے ابتدائی صفحے پر صحیح طریقے سے جمع کرکے تحریر کیا گیا ہے (4) جواب کا کوئی حصہ بغیر نمبروں کے نہیں رہ گیا (5) جوابی کاپی میں درج نمبر مارک شیٹ سے مطابقت رکھتے ہیں اور (6) امیدوار کی ہاتھ کی لکھائی جوابی کاپی جیسی ہی ہے۔

اگلے ہی روز جب فرح حمید ڈوگر نے فیڈرل بورڈ میں ایک اور درخواست دائر کی تو اس وقت کے چیئرمین کموڈور (ر) محمد شریف شمشاد نے اپنی ہینڈ رائٹنگ میں فارم پر لکھا کہ ”میں ان کی کاپیاں بذات خود بھی دیکھنا چاہتا ہوں“۔ فائل پر ان کے ریمارکس یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ذاتی طور پر دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم گزشتہ جمعہ کو جب ان سے رابطہ کیا گیا اور یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے اس طرح کی ذاتی دلچسپی کیوں لی تھی تو چیئرمین ایف بی آئی ایس ای کو اول تو معاملہ بالکل یاد ہی نہیں آیا اور انہوں نے دی نیوز کو بتایا کہ ” میں بالکل سچ بول رہا ہوں“۔ جب دوبارہ زور دیا گیا اور فائل پر ان کے خصوصی ریمارکس یاد دلائے گئے جس سے ان کی گہری دلچسپی ظاہر ہوتی تھی تو ریٹائرڈ کموڈور نے اصرار کیا کہ انہیں یاد نہیں آ رہا کہ انہوں نے کسی کیس کے سلسلے میں امتحانی پرچوں کی دوبارہ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ عام طور پر ری چکینگ کے معاملے سے، جو ہزاروں کی تعداد میں بورڈ میں آتے ہیں، ایف بی آئی ایس ای کا متعلقہ خفیہ ونگ نمٹتا ہے۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ملک بھر میں ایک ہی وقت میں 30 انٹر میڈیٹ بورڈز نے ہزاروں طلبہ کا امتحان لیا، 21 اضافی نمبروں کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک اقدام سے کم از کم مذکورہ طالبہ کو ایک لاکھ طلبہ پر فوقیت دی گئی لیکن چیف جسٹس کی صاحبزادی کے معاملے میں ان کے 6 پرچے ، ایف بی آئی ایس ای کے قواعد کے تحت ، ری چیکنگ کمیٹی کے سامنے پیش کئے گئے۔جس نے 30 اگست کو صرف ایک نمبر بائیولوجی کے مضمون میں دینے کی سفارش کی کیونکہ نمبر درست طور پر جمع نہیں کئے گئے تھے۔ لیکن بائیولوجی کے ممتحن نے لکھا کہ ”ری چیک کرلیا ہے اور دیئے گئے نمبر سختی کے ساتھ مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں۔ لیکن سوال نمبر چار میں صرف ایک نمبر کا اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ نمبروں کو جمع کرنے میں غلطی ہوگئی تھی اور اب حاصل شدہ نمبر 13 میں سے 12 ہیں۔ لہٰذا اب مجموعی نمبر 70 ہیں“۔ مطالعہ پاکستان کے ممتحن نے لکھا کہ ”کاپی دوبارہ چیک کی گئی اور یہ پایا کہ دیئے گئے نمبر بالکل درست اور مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں۔ مزید نمبر نہیں دیئے جاسکتے“۔ کیمسٹری کے ایگزامنر نے لکھا کہ، ”کاپی دوبارہ چیک کی گئی اور یہ پایا کہ دیئے گئے نمبر بالکل درست اور مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں۔ مزید نمبر نہیں دیئے جاسکتے“۔

تاہم، دستاویزات اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ 13 ستمبر کو انگلش کے پرچے کی پڑتال (Re-assesment) ایف جی کالج فار مین H-9 اسلام آباد کے منیر حسین انجم نے کی اور امیدوار کی کاپی میں دیئے گئے نمبروں کو 58 سے بڑھا کر 67 کردیا۔ اردو کی کاپی کی پڑتال ایف جی سرسید کالج راولپنڈی کے ڈاکٹر آلِ اظہر انیس نے کی اور 62 نمبروں کو 67 کردیا۔ فزکس کا پرچہ Re-assess کرنیوالے اعجاز احمد نے 32 نمبر کو بڑھا کر 38 کردیا۔ اس غیر معمولی پڑتال کے بعد فائل کو چیئرمین کی منظوری کیلئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھیجا گیا۔ چیئرمین سے سفارش کی گئی تھی کہ ” مذکورہ بالا تبدیلی کے باعث، نمبر (مارکس) بڑھ گئے ہیں اور نتیجے کی صورتحال پہلے کے 640 مجموعی نمبروں کی بجائے 661 نمبر ہوگی۔ زیر غور نمبروں کا یہ معاملہ منظوری کیلئے آگے بڑھا جارہا ہے اور ہدایت کے مطابق موجودہ قواعد (Vol-II)میں رعایت دیکر نمبر 640 سے بڑھا کر 661 کردیئے گئے ہیں“۔ 15ستمبر کو چیئرمین نے اس کی منظوری دیدی جس کے بعد چیئرمین کی ہدایت پر امیدوار کو اسی دن تبدیل شدہ نمبروں کی مارک شیٹ جاری کردی گئی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے بعد جب چیئرمین سے دی نیوز نے جمعہ کو رابطہ کیا تو انہیں کچھ یاد نہیں آیا۔ اس وقت کے کنٹرولر منظور احمد سے، جو اب بھی ایف بی آئی ایس ای میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور چیئرمین شمشاد کے تحت کام کر چکے ہیں، جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ چیئرمین نے فرح حمید ڈوگر کے پرچوں کی ازسرنو پڑتال کا حکم دیا تھا۔ احمد نے یہ تصدیق بھی کی کہ قواعد ایسی کسی از سرنو پڑتال کی اجازت نہیں دیتے لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ مجاز حکام کے احکامات کی پیروی کی گئی۔ ایک ذریعے کے مطابق قائم مقام ڈائریکٹر جاوید اقبال ڈوگر نے اس معاملے میں سہولت بہم پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا لیکن انہوں نے بھی اس بات سے انکار کیا کہ وہ اس معاملے کے متعلق کچھ جانتے ہیں۔اگرچہ ڈوگر کا دعوی تھا کہ وہ اس معاملے کے متعلق کچھ نہیں جانتے لیکن ایک بہت قابل بھروسہ ذریعے نے بتایا کہ وہ کچھ اعلی عدالتی حکام اور اس وقت کے چیئرمین ایف بی آئی ایس ای کے مابین رابطہ کار رہا ہے اور انہیں اسلام آباد میں کچھ اہم جگہوں پر لے کر گیا ہے۔ رابطہ کرنے پر بورڈ کے اس وقت کے ڈپٹی کنٹرولر طارق پرویز نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ قواعد میں کاپیوں کی دوبارہ پڑتال کی اجازت نہیں البتہ فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں فیڈرل بورڈ کے چیئرمین کے فیصلے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ متعلقہ اسسٹنٹ کنٹرولر چوہدری اختر اس نمائندے سے گفتگو میں متذبذب تھے۔ فرح ڈوگر کے نمبروں میں اضافہ کرنے والے ممتحنوں میں سے ڈاکٹر آلِ اظہر انیس نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بورڈ کے کہنے پر اردو کے پرچے کی از سرنو پڑتال کی تھی اور اس کیلئے بورڈ کے چیئرمین نے تحریری طور حکم جاری کیا تھا۔ فزکس کے ممتحن اعجاز احمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس طرح کا کوئی معاملہ یاد نہیں ہے۔تیسرے ممتحن منیر حسن تک رسائی نہ ہو سکی۔


jangCJDogarmarksheet.gif



jangCJDogar.gif
 

mfdarvesh

محفلین
سعود بھائی شکریہ اس پر افسوس کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے ہم سب ایسے ہی ہیں جب اختیار ملتا ہے تو نہ جانے کیا بن جاتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں کوئی قانون نہیں ہے، ہے تو صرف یہ کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اور اسلام آباد والوں کے لیے تو " جس کس جتنا عہدہ، اس کی اتنی دھونس"
 

طالوت

محفلین
سچ تو یہ شمشاد کہ ہماری اکثریت ان چیزوں کی مذمت کرتی نظر آئے گی، روئے گی ، پیٹے گی ، مگر جب خود ان کو موقع ملے تو قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں ذرا سا وقت بھی نہیں لیتے ۔۔
وسلام
 

زینب

محفلین
یہ تو بس ایک خبر ہے چھوٹی سی جو باہر آگئی اور پتا نہیں کیا کیا گھپلے ہوتے ہوں گے اللہ پوچھے گا ان سے
 

زین

لائبریرین
اس طرح کی بہت سی اور خبریں بھی ہوتی ہیں جو صرف اور صرف دباؤ کے باعث منظر عام پر نہیں لائی جاتیں
ملک میں‌میڈیا اب بھی آزاد نہیں اور کسی بڑے شخص یا آٍفیسر کے خلاف خبر دینا صحافیوں‌کے لیے بہت مشکل کام ہوتا ہے
 

جوش

محفلین
کیا چیٹ جسٹس کے خلاف حکومت ریفرنس داخل کرے گئ اختیارات کا ناجایز استعمال کرنے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
حکومت خود اسی کام میں مصروف ہے، میرا مطلب ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے، تو وہ کسی کو کیا پوچھے گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
معاملہ یکطرفہ طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اور جنگ اخبار کا تو پچھلی حکومت سے جو اللہ واسطے کا بیر تھا، وہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

خبر از بی بی سی:
پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن نے کہا ہے کہ صرف چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کے ہی نہیں بلکہ قواعد کے مطابق دیگر دو سو ایک طلباء کے امتحانی نتائج میں نظر ثانی کے بعد نمبروں میں تبدیلی کی گئی ہے۔

اگر ایسا ہے، تو جنگ اخبار انتہائی جھوٹا اخبار ہے جہاں انہوں نے اپنی خبر کو سنسنی خیز بنانے کے لیے جھوٹ بولا ہے۔

از بی بی سی:
واضح رہے کہ منگل کے روز پاکستان میں اردو کے ایک بڑے اخبار جنگ اور انگریزی اخبار دی نیوز میں خبر نمایاں طور پر چھپی تھی کہ اعلی عدالتی فیصلوں اور بورڈ کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کو اکیس اضافی نبمر دلوائے گئے ہیں ۔ خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد بورڈ نے معمول سے ہٹ کر جوابی پرچوں کی دوبارہ چیکنگ کی اور چیف جسٹس کی بیٹی فرح حمید ڈوگر کے نتیجے میں حاصل کردہ کل نمبروں میں مزید اکیس نمبروں کا اضافہ کر کے انھیں ملک کے کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست دینے کے اہل بنا دیا ہے ۔

اپنے جھوٹ کو مزید رنگین بنانے کے لیے مزید جنگ اخبار نے اس میں "میڈیکل کالج" کے رنگ کا بھی اضافہ کر لیا ہے۔

ذرا سوچئیے پاکستان کا وہ کونسا میڈیکل کالج ہے جہاں 60 فیصد پر داخلہ ملتا ہے؟ [60 فیصد کی شرط ہونا الگ بات ہے اور میرٹ الگ چیز]
اور جسٹس ڈوگر صاحب کی اتنی تنخواہ تو ہو گی کہ وہ اپنی بیٹی کو کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج میں پڑھوا سکیں۔

اور اگر انہوں نے فقظ 21 نمبروں کی چوری کی ہے تو چیف جسٹس صاحب تو عظیم ہیں، ورنہ ان سے قبل کے چیف جسٹس صاحب نے تو اپنے بیٹے کو میڈیکل کالج میں داخلہ دلانے سے لیکر پولیس میں بھرتی کروانے تک، اور لاکھوں روپے کے پٹرول کی جعلی رسیدوں سے لیکر پتا نہیں کیا کچھ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹہریئے، پچھلے چیف جسٹس تو معصوم فرشتے ہو گئے تھے اور قانون سے بالاتر ہو گئے تھے اور کوئی انکے خلاف انکوائری ہی نہیں کروا سکتا تھا۔ اور وجہ تھی صرف مشرف دشمنی۔
آج نواز شریف ان 21 نمبروں کی وجہ سے کہہ رہا ہے کہ چیف جسٹس ڈوگر کو فورا عہدے سے ہٹا دو۔
مگر جب کل افتخار چوہدری پر اس سے کہیں بڑھ کر کرپشن کے الزامات تھے تو یہی نواز شریف اور پیپلز پارٹی والے سیاستدان ان کے بل بوتے پر اپنی سیاست چمکا رہے تھے۔
 

زین

لائبریرین
اور اگر انہوں نے فقظ 21 نمبروں کی چوری کی ہے تو چیف جسٹس صاحب تو عظیم ہیں، ورنہ ان سے قبل کے چیف جسٹس صاحب نے تو اپنے بیٹے کو میڈیکل کالج میں داخلہ دلانے سے لیکر پولیس میں بھرتی کروانے تک، اور لاکھوں روپے کے پٹرول کی جعلی رسیدوں سے لیکر پتا نہیں کیا کچھ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر ٹہریئے، پچھلے چیف جسٹس تو معصوم فرشتے ہو گئے تھے اور قانون سے بالاتر ہو گئے تھے اور کوئی انکے خلاف انکوائری ہی نہیں کروا سکتا تھا۔ اور وجہ تھی صرف مشرف دشمنی۔
آج نواز شریف ان 21 نمبروں کی وجہ سے کہہ رہا ہے کہ چیف جسٹس ڈوگر کو فورا عہدے سے ہٹا دو۔
مگر جب کل افتخار چوہدری پر اس سے کہیں بڑھ کر کرپشن کے الزامات تھے تو یہی نواز شریف اور پیپلز پارٹی والے سیاستدان ان کے بل بوتے پر اپنی سیاست چمکا رہے تھے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے ، بیس جولائی دو ہزار سات کا فیصلہ بھی اسی لیے ان کے حق میں آیا۔
میرے علم کے مطابق دو سو ایک طلباء میں سے اضافی نمبر صرف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کو ہی دیئے گئے ۔
اس حوالے سے بورڈ کی طرف سے جاری کیاگیا ایک وضاحتی بیان
جسٹس ڈوگر کی بیٹی کے پیپرز کی ری چیکنگ قواعد کے مطابق کی گئی،فیڈرل بورڈ
معاملے کی مکمل تحقیقات ہوگی کوئی قصور وار پایا گیاتواس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی چیئر پرسن بورڈشاہین خان
اسلام آباد…… فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے کہا ہے کہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کی درخواست پر پیپرز کی دوبارہ چیکنگ قواعد کے مطابق کی گئی۔بورڈ کی طرف سے جاری کئے گئے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ رزلٹ آنے کے بعد ایک ہزار تیرانوے امیدواروں نے ری چیکنگ کی درخواست دی تھی اور ری چیکنگ کے بعد دو سو ایک طلبا کے نمبر تبدیل کئے گئے جن مین چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی کی بیٹی فرح حمید ڈوگر بھی شامل ہیں۔فیڈرل بورڈ کی چیئرپرسن شاہین خان نے نجی ٹی وی سے بات بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہوگی اوراگر کوئی قصور وار پایا گیاتواس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی بیٹی کو قواعد کے خلاف اضافی نمبر دلوانے کے مبینہ معاملے کی تحقیقات سنجیدگی اور باریک بینی سے کرائی جائیں گی۔اس سے پہلے اسلام آباد میں وزارت تعلیم کے حکام کا اجلاس ہوا جس میں اس مبینہ معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا

چیف جسٹس کی بیٹی کو اضافی نمبر دینے پر چیئرمین وفاقی تعلیمی بورڈ طلب
A
اسلام آباد………قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین نے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کے نمبر بڑھانے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج جمعرات کو طلب کر لیا۔تذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی صاحبزادی کو اضافی نمبر دلوانے کے معاملہ کا نوٹس لے لیا چیئر مین فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کو ریکارڈ سمیت آج(جمعرات کو)پارلیمنٹ ہائوس میں ہو نے والے اجلاس میں طلب کر لیا گیا اجلاس کمیٹی کے چیئر مین چوہدری عابد شیر علی کی صدارت میں منعقد ہو گا اجلاس میں وفاقی وزارت تعلیم کی مجموعی کار کردگی کا جائزہ بھی لیا جائے گا اس ضمن میں اعلی حکام کمیٹی کو بریفنگ دیں گے جبکہ فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے متعلقہ افسران چیف جسٹس آف پاکستان کی صاحبزادی کو اضافی نمبر دینے کے معاملے کے حوالے سے کمیٹی کی صورتحال سے آگاہ کریں ۔کمیٹی کے چیئرمین عابد شیر علی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ میں کسی بھی سرکاری شخصیت کے ملوث ہونے پر سخت کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس کی بیٹی کو غریب اور مستحق طالب علموں پر فوقیت دی گئی ہے جوظلم اور ناقابل معافی جرم ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وفاقی سیکرٹری تعلیم اور فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کی چیئرپرسن سمیت وزارت تعلیم کے اعلی حکام کو بھی طلب کر لیاہے جو آج جمعرات کو ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس واقعہ پر کمیٹی کو بریفنگ دیں گے
 

مہوش علی

لائبریرین
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے ، بیس جولائی دو ہزار سات کا فیصلہ بھی اسی لیے ان کے حق میں آیا۔
ثابت کیسے ہوتے؟
کیا اتنی معصومیت اچھی ہے کہ یہ چیز گول کر دی جائے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو قانون سے بالاتر کر دیا گیا تھا اور انکے خلاف کوئی تحقیقات ہونے ہی نہیں دی گئیں اور نہ ہی کسی عدالت میں ان کے خلاف کوئی کاروائی کی اجازت دی گئی۔
تو ذرا یہ بتلائیے کہ کیسے ممکن تھا کہ افتخار چوہدری کے خلاف الزامات ثابت ہوں؟


میرے علم کے مطابق دو سو ایک طلباء میں سے اضافی نمبر صرف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کو ہی دیئے گئے ۔
اس حوالے سے بورڈ کی طرف سے جاری کیاگیا ایک وضاحتی بیان
واللہ پتا نہیں کس نظر سے آپ نے اوپر والی خبر پڑھی ہے اور کس نظر سے خود یہ اقتباس پیش کیا ہے۔
بھائی جی، استدعا ہے کہ دوبارہ پڑھیں۔
/////////////////////////////////

اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ اضافی 21 نمبرز تو کسی بھی وجہ سے ہو سکتے ہیں، مگر کیوں جنگ اخبار کے عباسی صاحب اسے زبردستی میڈیکل کالج سے جوڑنے پر تلے ہیں۔
تو مجھے یاد آیا کہ شاید عباسی صاحب نے یہ اس لیے کیا کیونکہ اس سے قبل افتخار چوہدری پر یہ الزامات ہیں کہ پولیس میں بھرتی کروانے سے قبل افتخار چوہدری نے اپنے بیٹے کو غیر قانونی طریقے سے میڈیکل کالج میں بھرتی کروایا تھا۔ :)
 

طالوت

محفلین
مہوش بی بی مجھے آپ کی سمجھ نہیں آتی کہ اتفاق تو میری طرح آپ بھی اجماع امت سے نہیں کرتیں مگر آپ ہر معاملے میں نہیں کرتیں ۔۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف حکومتی ریفرنس کا کیا انجام ہوا ساری دنیا نے دیکھا آپ کی دنیا پتا نہیں کون سی ہے ؟
اور آپ کا یہ فرمانا کہ چیف کے خلاف تحقیقات نہیں کرنے دی گئیں تو آپ کے اس مضحکہ خیز بیان پر میں اور کیا کہوں کہ ایک تو آپ ہر بات مخصوص نقطہ نظر کے حوالے سے کرتی ہیں ، آپ کے ثبوت بھی اسی کے حوالے سے ہوتے ہیں ، دوسرا آپ اپنی رائے کو ہی اصل خبر بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ۔۔ اب آپ کہیں گی کہ آپ لوگ ذاتیات پر اتر آتے ہیں میری بہن اتنا جذباتی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سامنے کی چیز دکھائی نہ دے ۔۔ امید ہے کہ آپ اس مراسلے کو ذاتیات کا ایشو نہ بنائیں گی بلکہ اپنے طرز عمل پر غور کریں گی ۔۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
ثابت کیسے ہوتے؟
کیا اتنی معصومیت اچھی ہے کہ یہ چیز گول کر دی جائے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو قانون سے بالاتر کر دیا گیا تھا اور انکے خلاف کوئی تحقیقات ہونے ہی نہیں دی گئیں اور نہ ہی کسی عدالت میں ان کے خلاف کوئی کاروائی کی اجازت دی گئی۔
تو ذرا یہ بتلائیے کہ کیسے ممکن تھا کہ افتخار چوہدری کے خلاف الزامات ثابت ہوں؟
آپ کے اس سوال کا جواب کسی حد تک طالوت بھائی نے دیدیا ہے ۔
اورچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سارے الزامات غلط ہی تھے ، ورنہ مشرف کی طاقتور حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کس طرح فیصلہ دے سکتی تھی ؟
واللہ پتا نہیں کس نظر سے آپ نے اوپر والی خبر پڑھی ہے اور کس نظر سے خود یہ اقتباس پیش کیا ہے۔
بھائی جی، استدعا ہے کہ دوبارہ پڑھیں۔
/////////////////////////////////

اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ اضافی 21 نمبرز تو کسی بھی وجہ سے ہو سکتے ہیں، مگر کیوں جنگ اخبار کے عباسی صاحب اسے زبردستی میڈیکل کالج سے جوڑنے پر تلے ہیں۔
تو مجھے یاد آیا کہ شاید عباسی صاحب نے یہ اس لیے کیا کیونکہ اس سے قبل افتخار چوہدری پر یہ الزامات ہیں کہ پولیس میں بھرتی کروانے سے قبل افتخار چوہدری نے اپنے بیٹے کو غیر قانونی طریقے سے میڈیکل کالج میں بھرتی کروایا تھا۔ :)

میں‌نے بورڈ کا موقف پیش کیا ہے ، میرا اس خبر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
ویسے بھی ہمیشہ اس طرح کے واقعات کے بعد حکومت کی جانب سے تردیدی بیان جاری کرنے یا کمیٹی بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیاجاتا
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بی بی مجھے آپ کی سمجھ نہیں آتی کہ اتفاق تو میری طرح آپ بھی اجماع امت سے نہیں کرتیں مگر آپ ہر معاملے میں نہیں کرتیں ۔۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف حکومتی ریفرنس کا کیا انجام ہوا ساری دنیا نے دیکھا آپ کی دنیا پتا نہیں کون سی ہے ؟
اور آپ کا یہ فرمانا کہ چیف کے خلاف تحقیقات نہیں کرنے دی گئیں تو آپ کے اس مضحکہ خیز بیان پر میں اور کیا کہوں کہ ایک تو آپ ہر بات مخصوص نقطہ نظر کے حوالے سے کرتی ہیں ، آپ کے ثبوت بھی اسی کے حوالے سے ہوتے ہیں ، دوسرا آپ اپنی رائے کو ہی اصل خبر بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ۔۔ اب آپ کہیں گی کہ آپ لوگ ذاتیات پر اتر آتے ہیں میری بہن اتنا جذباتی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سامنے کی چیز دکھائی نہ دے ۔۔ امید ہے کہ آپ اس مراسلے کو ذاتیات کا ایشو نہ بنائیں گی بلکہ اپنے طرز عمل پر غور کریں گی ۔۔
وسلام
بھائی جی، معذرت کہ مجھے آپ کے اعتراض کی الف سمجھ آئی نہ ب۔
اور مشرف صاحب کی حکومت کو مضبوط کہنے سے اصل حقائق تبدیل نہیں ہوتے کہ مشرف صاحب کی حکومت ایک آزادانہ ماحول فراہم کر رہی تھی جس میں میڈیا کو اور عدالت کو مکمل آزادی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ کریں۔
مگر سب سیاستدانوں نے مل کر [جو کہ ویسے تو ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے ہیں، مگر مشرف صاحب کے خلاف اکھٹے ہو گئے تھے] چوہدی افتخار کا قصہ سڑکوں پر لے آئے۔ اور میڈیا نے اس پر واویلا مچا دیا۔
اسکے بعد عدالت اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھِی، مگر اُس نے وہ تاریک فیصلہ کیا جس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور وہ یہ کہ چیف جسٹس ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہے۔
ایسا تو کسی اسلامی ریاست کے سربراہ کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ چیف جسٹس کی وقتی معطلی قانون کے خلاف ہے تو بھی فیصلہ صرف اس وقتی معطلی کے خلاف ہو سکتا تھا، مگر جب ججوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات ہی نہیں ہو سکتیں تو آپ اور زین زیڈ صاحب آج اسے مشرف صاحب کی مضبوط حکومت جیسے عجیب و غریب استدلال سے ٹھکرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ خود بتلائیے میں ایسے اعتراض کا کیا جواب دے سکتی ہوں۔
///////////////////////////

میں‌نے بورڈ کا موقف پیش کیا ہے ، میرا اس خبر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
عجیب بات کر رہے ہیں بھائی صاحب آپ۔
خود ہی تو آپ نے اپنے علم کے مطابق اپنا موقف بیان کر دیا تھا کہ:
از زین زیڈ:
میرے علم کے مطابق دو سو ایک طلباء میں سے اضافی نمبر صرف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کو ہی دیئے گئے ۔
آپکا یہ علم بالکل غلط ہے اور اضافی نمبر صرف فرح حمید ڈوگر کو ہی نہیں بلکہ دو سو ایک طلباء کو دیے گئے ہیں۔ [یعنی فرح حمید ڈوگر کے علاوہ دو سو طلباء اور ہیں جن کے نمبر دوبارہ ری چیکنگ کرنے پر بڑھے ہیں۔]
 

زین

لائبریرین
عجیب بات کر رہے ہیں بھائی صاحب آپ۔
خود ہی تو آپ نے اپنے علم کے مطابق اپنا موقف بیان کر دیا تھا کہ:
اب آپ اپنا یہ پیغام دوبارہ پڑھے اور جو ہدایت آپ نے مجھے کی ہے اس پر خود بھی عمل کرے۔
واللہ پتا نہیں کس نظر سے آپ نے اوپر والی خبر پڑھی ہے اور کس نظر سے خود یہ اقتباس پیش کیا ہے۔
بھائی جی، استدعا ہے کہ دوبارہ پڑھیں۔


آپکا یہ علم بالکل غلط ہے اور اضافی نمبر صرف فرح حمید ڈوگر کو ہی نہیں بلکہ دو سو ایک طلباء کو دیے گئے ہیں۔ [یعنی فرح حمید ڈوگر کے علاوہ دو سو طلباء اور ہیں جن کے نمبر دوبارہ ری چیکنگ کرنے پر بڑھے ہیں۔]
آپ کس بنیاد پر میری بات کو غلط قرار دے رہی ہو؟؟؟،یا صرف ""حکومتی ""بیان پڑھ کرآپ نے بھی یہ بیان داغ دیا ہے ۔
 
Top