دیکھے محترم بھائی جان مجید امجد بلاشبی بہت اچھے اور بہت بڑے شاعر ہیں ان کے لئے تو الفاظ بھی نہیں کہ ان کی شخصیت کو کیسے بیان کیا جائے رہا بندا کا سوال تو محترم ایک عام قاری تک بندا تب پہنچی جب لوگ کنگن پڑھنے میں لگے ہوئے تھے اور یہ مقبولیت کی بلندیوں پر تھی تب لوگوں کو خیال آیا بندا کا اس سے پہلے کہاں تھے ؟
جی ہاں۔ سچ کہا ، آپ نے ، شاید یہ شعر آپ کے لیے تفہیم کے در وا کرے :
اصل پر فر ق کچھ نہیں پڑتا -------ہیں عجب تو عجب گزرتے ہیں
ویسے سرقہ اور چربہ کہ تعریف پڑھ لیجے گا کہیں سے ۔،
ایک حوالہ آپ میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں ربط یہ ہے
مصرعے سیدھے بھی یوں ہی نہیں ہو جاتے اس کے لئے بھی ریاضت چاہییے اور ہر بھیری والا اپنے طور صحیح ہی ہوتا ہے جب تک اسے اس کی غلطی بتانے والا نہ ملے باقی مجھے ادب کی سمجھ نہیں آئی کیا ادیب صرف ادیبوں کے لیے لکھے ؟
پہلے تو ایک بات کہ جذبات میں آ کر آپ املا کی غلطیاں کرنے لگے اس سے حذر بہتر ہے،
پھیری والوں کی جو بات کر رہا ہوں وہ مصرعے بحر ہی میں کہتے تھے۔ مگر وہ ادب کا حصہ نہ بنے۔
ایک شعر سنیے ، یہ اسی کی روداد ہے:
گنگنا تا جا رہا تھا اک فقیر ---------- دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
یا پھر شاعر کی شاعری صرف شاعروں کے لئے ہے اور عام آدمی کی دسترس میں نہیں ؟ اور کیا شاعر اپنی بک پرنٹ کروا کر فری میںتقسیم کرے ؟
کیا صرف ادب اسی کا نام ہے ؟
معاف کیجے کا جناب ، شاعر یا ادیب کوئی درباری مسخرہ نہیں کہ ’’ انٹر ٹین ‘‘ کرتا پھرے ، ادیب معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے اور اس کی اصلا ح کے لیے کام کرتا ہے، شعری مجموعہ لانا ، اسے تقسیم کرنا یا بیجنا ، اس سے ادب کو کوئی سرو کار نہیں، یہ ذاتی منفعت ہے یا وہ مفادات ہیں جو آج کے نام نہاد شعرا ء و ادباء اپنے آپ کو تسلیم کرانے اور طے کرانے میں جوڑ لیتے ہیں۔کیا اقبال کو شہرت چاہیے تھی ، یا کتاب بیچنی تھی، غالب کو شہر ت چاہیے تھی، میر کو دیوان چھپوا کر بیچنے تھے،فیض صاحب کو کتابیں بیچنی تھیں، ۔۔۔ بتائیے۔۔؟؟ معافی چاہتا ہوں یہ کہتے ہوئے کہ مجھے آپ سے بات کر کے دکھ ہوا کہ ادب آپ کے نزدیک محض ’’ چکاچوند ‘‘ کا نام ہے ۔ یہی رویہ گرد میں دبا دیتا ہے اور اوپر سے وقت کا پہیہ گزر جاتا ہے۔۔۔ مگر اس میں قصور وار آپ تو نہیں ، ہر آنے والا خیال اور لفظ قدرت سے توفیق کے مطابق ملتا ہے، جسے ملتا ہے سو ملتا ہے جسے نہیںملتا سو نہیں ملتا ، کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیںکہ لفظ وخیال پر انہیں قدر ت ہے اور وہ سب ’’ خود ‘‘ کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ قاری کا ہونا چاہیے کہ وہ ادیب تک رسائی کرے ، ہمارے معاشرے میں اگر گنگا الٹی بہائی جارہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔