کاش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی نظم

الف عین

لائبریرین
یہاں بحث چھڑی ہوئی ہے، میں نے وصی شاہ کا نام ہی سنا ہے، زیادہ پڑھا تو نہیں۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ رومانی شاعر ہیں۔ قد آور کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ قد ناپنے کا آلہ ملا ہے نہ یہ حضرت۔ ناپوں کیوں کر؟
سلیمان جاذب کی نظم اچھی ہے، اور صرف اس حد تک کہ رومانی ہے، اگر رومانی پسند کرتے ہوں تو بہت اچھی ہے، اور اگر رومانی شاعری کو ہی رد کر دیا جائے تو اس کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے!!
ویسے اس سے قطعِ نظر، مجھ کو تو پسند آئی۔
 

مغزل

محفلین
سلمان صاحب اسی محفل میں یہ پوسٹ بھی دیکھیے ، اور یہ لڑی بھی

ًمغل صاحب یہ نعمان بلوچ صاحب کون ہیں‌- اور ایک اور بات وصی شاہ کے بارے میں کہ ایک بار ہم نے ایک سٹیج پلے گجراتی سے اردو میں‌انتظار حسین صاحب سے ترجمہ کروایا تھا اور وہ سٹیج پلے کیا بھی تھا - وصی شاہ اسکا سکرپٹ لے اڑا اور اس میں تھوڑی سی تبدیلیاں کر کے اسکا نام "جب آنکھیں بھیگ جاتی ہیں" کر دیا اور لاہور میں‌اسے سٹیج پر اپنے نام سے چلا دیا -

عالمی اخبار میں بھی یہ بحث ملاحظہ کیجے ، کوئی ’’ سنجیدہ شخص ‘‘ اور ’’ شاعر ‘‘ وصی کو پسند نہیں‌کرتا، آپ مستشنیٰ ہیں۔
محمد وارث نے کہا ہے:
April 12, 2009 بوقت 6:17 pm
آپ نے بالکل بجا کہا وصی شاہ کے بارے میں، لیکن مجید امجد کی روح اور ماہرینِ فن وصی شاہ کو مجید امجد کی شاہکار نظم ‘کاش میں‌ تیرے بُنِ گوش میں بندا ہوتا’ کی چوری بلکہ سینہ زوری پر کبھی معاف نہیں کریں‌ گے!
 

مغزل

محفلین
اور یہ بھی:

محمد وارث نے کہا ہے:
April 13, 2009 بوقت 6:34 am
السلام علیکم، عموماً شعرا اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں، اور کوئی ایک شعر کہتے ہوئے بھی اس بات سے خائف رہتے ہیں کہ مبادا توارد نہ ہو جائے اور سرقہ کا الزام لگ جائے لیکن کچھ لوگوں‌ کی دیدہ دلیری حد سے بڑھی ہوتی ہے۔

پہلے مجید امجد کی نظم ‘بُندا’ جو کم و بیش چالیس سال پہلے کہی گئی تھی:

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا

اور اب وصی شاہ کی نظم “کنگن’ جس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ہر طرف وہ اس سرقے اور چربے کے کنگن کی وجہ سے جانے جاتے ہیں:

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے دہک سا جاتا
رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی
میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

اور انکے ایک ڈرامے کے بارے میں بھی اس ربط پر انکے ایک جاننے والے کا تبصرہ پڑھا جا سکتا ہے۔

م۔م۔مغل (ناطقہ) نے کہا ہے:
April 13, 2009 بوقت 6:46 am
بہت شکریہ جناب ،
وصی کی نظم کے حوالے سے کیا کہا جائے ، کہ بندا اور کنگن میں‌کیا تفریق ہے۔بہر کیف اگر یہی رویہ اپنا لیا جائے تو کام ہوگیا ، کہ شہر میں بس ایک ہی رونا رہ گیا کہ ادب روبہ زوال ہے اب کیوں روبہ زوال ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ، ہم تو اتنا ہی کہیں گے کہ : جو زرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ بہر کیف میں وارث صاحب کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ یہ رویہ کوئی مثبت نہیں۔

شکریہ
والسلام
م۔م۔مغل
میرا بلاگ ناطقہ
http://naatiqa.blogspot.com/
 
محترم آپ لوگ کی بحث اور عالمی اخبار پر تبصرے پڑھے ہیں مکمل پڑھ نہیں پایا کیونکہ اس کے لئے بھی قوقت چاہیے جیسے ہی میسر ہو گا ضرور پڑھوں گا۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن اگر دیکھا جائے تو مجید امجد کے بندا کو جو شہرت ملی وہ تو کنگن کی وجہ سے ہے
 
یہاں بحث چھڑی ہوئی ہے، میں نے وصی شاہ کا نام ہی سنا ہے، زیادہ پڑھا تو نہیں۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ رومانی شاعر ہیں۔ قد آور کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ قد ناپنے کا آلہ ملا ہے نہ یہ حضرت۔ ناپوں کیوں کر؟
سلیمان جاذب کی نظم اچھی ہے، اور صرف اس حد تک کہ رومانی ہے، اگر رومانی پسند کرتے ہوں تو بہت اچھی ہے، اور اگر رومانی شاعری کو ہی رد کر دیا جائے تو اس کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے!!
ویسے اس سے قطعِ نظر، مجھ کو تو پسند آئی۔

بہت شکریہ عبید صاحب نظم پسند کرنے کا اور اپنی قیمتی رائے دینے کا
 
گوگل پر وصی شا ہ چور کے نام سے سرچ کرلیں، وگرنہ ہمارے پیٹ میں کوئی درد تھوڑی ہی ہے۔:rollingonthefloor:

یہ جو کچھ لوگ اپنے من کی بھڑاس نکالنے کے لئے بھی اس طرح کے بلاگز بنا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ ویسے ایک بات ہے بات جو بھی ہو اور جیسی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی یار لوگوں کو اس کی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی نجانے کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ( مغل بھائی میں‌آُ پ کی بات نہیں کر رہا )
 
میرے ذہن میں ایک اور سوال اٹھ رہا تھا سوچا وہ بھی شئیر کئے دیتا ہوں کہ
کیا کسی بڑے شاعر کی شاعری سے متاثر ہو کر اس جیسا لکھنے کی کوشش کرنا اردو ادب میں‌جرم ہے ؟
 

مغزل

محفلین
محترم آپ لوگ کی بحث اور عالمی اخبار پر تبصرے پڑھے ہیں مکمل پڑھ نہیں پایا کیونکہ اس کے لئے بھی قوقت چاہیے جیسے ہی میسر ہو گا ضرور پڑھوں گا۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن اگر دیکھا جائے تو مجید امجد کے بندا کو جو شہرت ملی وہ تو کنگن کی وجہ سے ہے

جی سچ کہا ، سبحا ن اللہ، واہ واہ ،، کیا عمدہ بات کہی ، کہ مجید امجد کی نظم بند ا کو شہر ت وصی سے ملہی ۔۔ واہ واہ ۔واہ

یہ جو کچھ لوگ اپنے من کی بھڑاس نکالنے کے لئے بھی اس طرح کے بلاگز بنا سکتے ہیں ۔۔۔
۔۔ ویسے ایک بات ہے بات جو بھی ہو اور جیسی بھی۔ کئی یار لوگوں کو اس کی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی نجانے کیوں ؟ ( مغل بھائی میں‌آُ پ کی بات نہیں کر رہا )

آپ میری بھی بات کرلیں کوئی حرج نہیں، بہر حال جب آپ کا مسئلہ ادب ہے ہی نہیں تو ، آپ تو قابلِ‌معافی ہوئے نا۔
مصرعے سیدھے کرنا اگر شاعری ہے اور ادب کا حصہ ہے تو گلی میں پھیر ی لگانے والے تو بہت بڑے شاعر ہوگئے ۔ واہ واہ

خیر ۔۔ میں بھی سوچتا ہوں ’’ مجید امجد ‘“ کی کوئی اور ’’ نظم چوری ‘‘ کرکے ، مجید امجد کو زندہ کردوں ۔:rollingonthefloor: :biggrin:
 
جی سچ کہا ، سبحا ن اللہ، واہ واہ ،، کیا عمدہ بات کہی ، کہ مجید امجد کی نظم بند ا کو شہر ت وصی سے ملہی ۔۔ واہ واہ ۔واہ
۔:rollingonthefloor: :biggrin:

دیکھے محترم بھائی جان مجید امجد بلاشبی بہت اچھے اور بہت بڑے شاعر ہیں ان کے لئے تو الفاظ بھی نہیں کہ ان کی شخصیت کو کیسے بیان کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہا بندا کا سوال تو محترم ایک عام قاری تک بندا تب پہنچی جب لوگ کنگن پڑھنے میں لگے ہوئے تھے اور یہ مقبولیت کی بلندیوں پر تھی
تب لوگوں کو خیال آیا بندا کا اس سے پہلے کہاں تھے ؟
 
آپ میری بھی بات کرلیں کوئی حرج نہیں، بہر حال جب آپ کا مسئلہ ادب ہے ہی نہیں تو ، آپ تو قابلِ‌معافی ہوئے نا۔
مصرعے سیدھے کرنا اگر شاعری ہے اور ادب کا حصہ ہے تو گلی میں پھیر ی لگانے والے تو بہت بڑے شاعر ہوگئے ۔ واہ واہ

خیر ۔۔ میں بھی سوچتا ہوں ’’ مجید امجد ‘“ کی کوئی اور ’’ نظم چوری ‘‘ کرکے ، مجید امجد کو زندہ کردوں ۔:rollingonthefloor: :biggrin:
مصرعے سیدھے بھی یوں ہی نہیں ہو جاتے اس کے لئے بھی ریاضت چاہییے اور ہر بھیری والا اپنے طور صحیح ہی ہوتا ہے جب تک اسے اس کی غلطی بتانے والا نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی مجھے ادب کی سمجھ نہیں آئی کیا ادیب صرف ادیبوں کے لیے لکھے ؟
یا پھر شاعر کی شاعری صرف شاعروں کے لئے ہے اور عام آدمی کی دسترس میں نہیں ؟ اور کیا شاعر اپنی بک پرنٹ کروا کر فری میں‌تقسیم کرے ؟
کیا صرف ادب اسی کا نام ہے ؟
 

مغزل

محفلین
دیکھے محترم بھائی جان مجید امجد بلاشبی بہت اچھے اور بہت بڑے شاعر ہیں ان کے لئے تو الفاظ بھی نہیں کہ ان کی شخصیت کو کیسے بیان کیا جائے رہا بندا کا سوال تو محترم ایک عام قاری تک بندا تب پہنچی جب لوگ کنگن پڑھنے میں لگے ہوئے تھے اور یہ مقبولیت کی بلندیوں پر تھی تب لوگوں کو خیال آیا بندا کا اس سے پہلے کہاں تھے ؟

جی ہاں۔ سچ کہا ، آپ نے ، شاید یہ شعر آپ کے لیے تفہیم کے در وا کرے :
اصل پر فر ق کچھ نہیں پڑتا -------ہیں عجب تو عجب گزرتے ہیں

ویسے سرقہ اور چربہ کہ تعریف پڑھ لیجے گا کہیں سے ۔، ایک حوالہ آپ میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں ربط یہ ہے

مصرعے سیدھے بھی یوں ہی نہیں ہو جاتے اس کے لئے بھی ریاضت چاہییے اور ہر بھیری والا اپنے طور صحیح ہی ہوتا ہے جب تک اسے اس کی غلطی بتانے والا نہ ملے باقی مجھے ادب کی سمجھ نہیں آئی کیا ادیب صرف ادیبوں کے لیے لکھے ؟

پہلے تو ایک بات کہ جذبات میں آ کر آپ املا کی غلطیاں کرنے لگے اس سے حذر بہتر ہے،
پھیری والوں کی جو بات کر رہا ہوں وہ مصرعے بحر ہی میں کہتے تھے۔ مگر وہ ادب کا حصہ نہ بنے۔
ایک شعر سنیے ، یہ اسی کی روداد ہے:
گنگنا تا جا رہا تھا اک فقیر ---------- دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک

یا پھر شاعر کی شاعری صرف شاعروں کے لئے ہے اور عام آدمی کی دسترس میں نہیں ؟ اور کیا شاعر اپنی بک پرنٹ کروا کر فری میں‌تقسیم کرے ؟
کیا صرف ادب اسی کا نام ہے ؟

معاف کیجے کا جناب ، شاعر یا ادیب کوئی درباری مسخرہ نہیں کہ ’’ انٹر ٹین ‘‘ کرتا پھرے ، ادیب معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے اور اس کی اصلا ح کے لیے کام کرتا ہے، شعری مجموعہ لانا ، اسے تقسیم کرنا یا بیجنا ، اس سے ادب کو کوئی سرو کار نہیں، یہ ذاتی منفعت ہے یا وہ مفادات ہیں جو آج کے نام نہاد شعرا ء و ادباء اپنے آپ کو تسلیم کرانے اور طے کرانے میں جوڑ لیتے ہیں۔کیا اقبال کو شہرت چاہیے تھی ، یا کتاب بیچنی تھی، غالب کو شہر ت چاہیے تھی، میر کو دیوان چھپوا کر بیچنے تھے،فیض صاحب کو کتابیں بیچنی تھیں، ۔۔۔ بتائیے۔۔؟؟ معافی چاہتا ہوں یہ کہتے ہوئے کہ مجھے آپ سے بات کر کے دکھ ہوا کہ ادب آپ کے نزدیک محض ’’ چکاچوند ‘‘ کا نام ہے ۔ یہی رویہ گرد میں دبا دیتا ہے اور اوپر سے وقت کا پہیہ گزر جاتا ہے۔۔۔ مگر اس میں قصور وار آپ تو نہیں ، ہر آنے والا خیال اور لفظ قدرت سے توفیق کے مطابق ملتا ہے، جسے ملتا ہے سو ملتا ہے جسے نہیں‌ملتا سو نہیں ملتا ، کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں‌کہ لفظ وخیال پر انہیں قدر ت ہے اور وہ سب ’’ خود ‘‘ کرتے ہیں۔

یہ مسئلہ قاری کا ہونا چاہیے کہ وہ ادیب تک رسائی کرے ، ہمارے معاشرے میں اگر گنگا الٹی بہائی جارہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ :battingeyelashes:
 
جی ہاں۔ سچ کہا ، آپ نے ، شاید یہ شعر آپ کے لیے تفہیم کے در وا کرے :
اصل پر فر ق کچھ نہیں پڑتا -------ہیں عجب تو عجب گزرتے ہیں




ویسے سرقہ اور چربہ کہ تعریف پڑھ لیجے گا کہیں سے ۔، ایک حوالہ آپ میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں ربط یہ ہے



:battingeyelashes:

بھائی جان میں نے اسے دیکھا ہے تفصیلی مطالعہ کے لئے پرنٹ آوٹ لے لیا ہے آج رات میں ممکن ہے تفصیل سے پڑھوں گا
 
معاف کیجے کا جناب ، شاعر یا ادیب کوئی درباری مسخرہ نہیں کہ ’’ انٹر ٹین ‘‘ کرتا پھرے ، ادیب معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے اور اس کی اصلا ح کے لیے کام کرتا ہے، شعری مجموعہ لانا ، اسے تقسیم کرنا یا بیجنا ، اس سے ادب کو کوئی سرو کار نہیں، یہ ذاتی منفعت ہے یا وہ مفادات ہیں جو آج کے نام نہاد شعرا ء و ادباء اپنے آپ کو تسلیم کرانے اور طے کرانے میں جوڑ لیتے ہیں۔کیا اقبال کو شہرت چاہیے تھی ، یا کتاب بیچنی تھی، غالب کو شہر ت چاہیے تھی، میر کو دیوان چھپوا کر بیچنے تھے،فیض صاحب کو کتابیں بیچنی تھیں، ۔۔۔ بتائیے۔۔؟؟ معافی چاہتا ہوں یہ کہتے ہوئے کہ مجھے آپ سے بات کر کے دکھ ہوا کہ ادب آپ کے نزدیک محض ’’ چکاچوند ‘‘ کا نام ہے ۔ یہی رویہ گرد میں دبا دیتا ہے اور اوپر سے وقت کا پہیہ گزر جاتا ہے۔۔۔ مگر اس میں قصور وار آپ تو نہیں ، ہر آنے والا خیال اور لفظ قدرت سے توفیق کے مطابق ملتا ہے، جسے ملتا ہے سو ملتا ہے جسے نہیں‌ملتا سو نہیں ملتا ، کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں‌کہ لفظ وخیال پر انہیں قدر ت ہے اور وہ سب ’’ خود ‘‘ کرتے ہیں۔

یہ مسئلہ قاری کا ہونا چاہیے کہ وہ ادیب تک رسائی کرے ، ہمارے معاشرے میں اگر گنگا الٹی بہائی جارہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ :battingeyelashes:

ہمارے معاشرے کا جو بھی حال ہے اس سب میں ادیبوں کا بھی ایک کردار ہے میں نے بارہا دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اب تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال ، غالب ، فیض کی شاعری میں دم خم تھا تبھی وہ آج تک زندہ ہے اور رہا سوال کہ یہ تینوں صرف اور صرف ادیب ہی تھے اور کچھ نہیں۔۔۔شائد جواب کچھ اور ہی ملے ۔۔۔۔۔۔
لفظ اللہ کی دین ہیں تو مقبولیت بھی اسی کی دین ہے کیونہ بہت سےقابل لوگ اور بہت سے لکھے گئے لفظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
اقبال ، غالب ، فیض کی شاعری میں دم خم تھا تبھی وہ آج تک زندہ ہے اور رہا سوال کہ یہ تینوں صرف اور صرف ادیب ہی تھے اور کچھ نہیں۔۔۔شائد جواب کچھ اور ہی ملے

ہاہاہا ۔۔ یار آپ تو ہنسا ہنسا کر میرے پیٹ میں درد کررہے ہو :biggrin: :rollingonthefloor:
 
جاذب صاحب ہی نہیں آئے ، پھر انہوں نے اب اس موضوع پر بات نہیں‌کرنی۔

جناب ہم موجود ہیں آپ ہی کے جواب کے منتظر

ویسے ایک خوبی میں وصی بھائی کی بتاتا چلوں کہ ان میں اخلاص ہے بہت ہی نرم مزاج اور سب کی عزت و اکرام کرنے والے ہیں اکلاق کی دولت سے مالا مالا
جو کہ بڑے بڑے لوگوں میں ( میں ان کا نام نہیں لوں گا ) جو کہ ادبی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں لیکن اخلاق اف شیطان بھی پناہ مانگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top