عاطف بٹ
محفلین
کاغذی ہے پیرہن کس پیکر تصویر کا؟
شاہد ملک (روزنامہ پاکستان، لاہور 13 جنوری 2013ء)
اگر آپ ڈھنگ کی زندگی گزارنے کے عادی ہیں تو کبھی نہ کبھی یہ ضرور ہوا ہو گا کہ صبح دفتر کے لئے نکلتے ہوئے ناشتے میں جو چائے ملی، اس میں پتی کی مقدار ذرا کم تھی یا عین وقت پر کار یا موٹر سائیکل نے سٹارٹ نہ ہو کر بے مزہ کر دیا ۔ روانگی سے پہلے ادھیڑ عمر شخصیات کی عینک ڈھونڈنے کی بے قراری اور ٹائی باندھنے والے کے لئے کالر کے ٹوٹے ہوئے بٹن کا انکشاف بھی کسی جانگداز حادثے سے کم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح گھر سے نکلتے ہوئے اگر دل پسند روزنامے کی سرخی پر نظر نہ پڑے تو مجھ جیسے لوگوں کو لگتا ہے کہ ”کوئی ہینڈ“ ہو گیا ۔ پھر بھی غور طلب نکتہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کی چیختی چلاتی خبروں کے موجودہ دور میں ہر صبح ” فرنٹ پیج“ کی نظر نوازی کیا میری مطالعاتی ضرورت ہے یا چائے پینے اور ٹائی باندھنے کی طرح محض ایک پرانی عادت ؟سچ پوچھیں تو یہ سوال معروف امریکی جریدے ”نیوز ویک“ کے روائتی پرنٹ کے خاتمے اور ای ایڈیشن کے اجراءکے باعث ، جس پر دیرینہ قارئین رسائل و کتب کے مستقبل کی بابت بے یقینی سے دوچار ہیں ، میرے لئے اضافی دلچسپی کا موضوع بن گیا ہے ۔ خود مَیں نے صحافتی ضروریات سے ہٹ کر ٹائم میگزین ، نیوز ویک اور اکانومسٹ کی ورق گردانی چند ہی موقعوں پر کی ہو گی۔ ہاں ، بہت بچپن میں مقبول ماہنامے ”ریڈرز ڈائجسٹ“ کے شماروں سے صفحے پھاڑے بغیر کھیلنے کی اجازت ملنے پہ جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے ۔ تب اتنی سمجھ تو نہیں تھی کہ ”ہیومر ان یونیفارم“ اور”لائف از لائیک دیٹ“ کے مزاح کو پرکھا جا سکتا ۔ البتہ ، رنگین اور کھردرے اوراق کی خوشبو کا فرق واضح ہونے لگا تھا اور تصویری خاکوں کے بھی کچھ خفیہ سے بے معنی نام رکھ لئے تھے ، جیسے لم ڈھینگ ، لالچی اور ٹنگ ٹار ،جس جار وغیرہ۔
اچانک قسمت نے پلٹا جو کھایا تو کسی سرکاری چکر میں اردو کے تین اور انگریزی کے چار روزنامے خود بخود گھر پہنچنے لگے ۔ صبح کو ہاکر کی مخصوص گھنٹی کے ساتھ ، جو سائیکل کے اگلے پہئے میں نصب ہوتی ، نوائے وقت، کوہستان اور روزنامہ تعمیر ملا کرتا ، جس کے نیوز ایجنٹ کی دکان پر لکھا تھا ”عبوری دارالحکومت کا سب سے قدیم اور مقبول عام اخبار “ ۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان ٹائمز آتا جس کی انہی دنوں راولپنڈی سے اشاعت جنرل ایوب خان کے کامیاب شبخون کا تحفہ تھی ۔ ہوائی جہاز سے شام کو ملنے والے اخبار ات تھے مارننگ نیوز اور ڈان جس کے اداریہ کے اوپر درج ہوتا ”باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم“۔ یاد نہیں کہ یہ شعر ایڈیٹر الطاف حسین کے وزیر اطلاعات بننے پر ترک کیا گیا یا اس سے پہلے .... لیکن میری زبان سے ضرور نکلا کہ لگتا ہے ، اب انہوں نے باطل سے دبنا شروع کر دیا ہے ۔
سہ پہر سے پہلے ، کوئی دو بجے کے قریب ٹیبلائڈ سائز والا لاہور کا سول اینڈ ملٹری گزٹ بھی کھٹ سے ہماری دہلیز کے اس طرف آ گرتا ۔ بیچ میں یہ اخبار پہلے تو چند مہینوں کے لئے معطل ہوا ، پھر مستقل بند ہو گیا ۔ اس مرحلے پر معروف برطانوی صحافی اور شاعر ریڈیارڈ کپلنگ کا نام سننے کو ملا اور یہ بھی کہ مذکورہ اخبار ننانوے سال تک شائع ہوتا رہا ہے ، لیکن یہ شعور نہیں تھا کہ اس تاریخی روزنامے کا ”گل گھوٹو“ کن مصلحتوں کے تابع ہے۔ متن ، اسلوب اور تدوین کے لحاظ سے یہ تمام روزانہ اخبارات سنجیدہ ، باوقار اور معتبر سمجھے گئے ۔ سوائے کریانہ کی دکان ، ہیئر کٹنگ سیلون اور عوامی چائے خانوں میں پڑھے جانے والے اس روزنامہ کے نئے نویلے راولپنڈی ایڈیشن کے، جسے برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن کی حکومت کو توڑنے والی فاحشہ کرسٹین کیلر کی تصویروں نے چار چاند لگا دیئے تھے ۔ اب تک کی کہانی کا مقصد”بچپن سے مطالعہ کا شوق تھا“ ثابت کرنا تو ہے ہی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ذہنی تفریح کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے سبب ہم بچہ لوگ یا تو فارغ اوقات میں ریڈیو سنتے رہتے یا اخبارات ساتھ ساتھ بچھا کر ان کا موازنہ کرنے لگتے ۔ اگر اتفاق سے ماموں نسیم ، جو اپنے فیلٹ ہیٹ کی وجہ سے ”ماماں ٹوپ“ کہلاتے تھے ، لاہور سے کسی کاروباری ضرورت کے تحت ریمنگٹن کا ٹائپ رائٹر ساتھ لے آتے تو چھپ چھپا کر اس پورٹیبل مشین کو ”اتھلیں دینا“ بھی ایک محبوب مشغلہ تھا ، پھر بھی ثانوی جماعت میں اساتذہ کے زیر اثراحراری لیڈروں کے انداز میں تقریر کی مشق اور سکول میگزین کے لئے پیلے کاغذوں کی کتابت کو پڑھنے اور غلطیاں لگانے کی منزل تک پہنچنے سے پہلے پُراسرار کتب بینی کا ایک مرحلہ اور بھی آیا، جس کی یک جست نے طے کر دیا قصہ تمام۔
شائد آپ نے یہ سمجھا کہ کم عمری میں کوئی ممنوعہ قسم کی کتابیں میرے ہاتھ لگ گئیں یا مجھے ایسے لٹریچر کی لت پڑ گئی، جس میں سونا بنانے کے لئے کیمیا گری کے نسخے درج تھے ۔ نہیں ، مجھے تو بس چوتھی پانچویں جماعت میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران سیالکوٹ والے گھر کے اس کمرے میں کچھ وقت گزارنے کا موقع مل گیا، جس میں ”مقامی دیو مالا“ کے مطابق ایک ”بابا جی“ قیام پذیر تھے ، جن کی خوشنودی کی خاطر ہم لوگ خوف اور شغل میلے کے ملے جلے جذبے کے ساتھ ہر جمعرات کی شام ایک موم بتی جلا دیا کرتے ۔ رات کو اس کمرے میں جانے کی جرات مجھے کبھی نہ ہوئی ، لیکن ایک دوپہر اکیلے پن کی بوریت سے تنگ آکر مَیں نے چھوٹے بھائی کی مدد سے چار مضبوط ٹانگوں پر کھڑی اس کالی الماری کے پٹ کھول دیئے جس کا میرے دس سالہ ذہن میں بابا جی کے ساتھ کوئی تعلق بنتا تھا ۔
اب جو الماری کے تاریک خانوں میں جھانکنا شروع کیا ہے تو سب سے پہلے ایک بڑا سا پرانے فیشن کا تین تین رسیوں والا ترازو برآمد ہوا ۔ اس کے ساتھ سیر ، دو سیر ، بیس سیر اور ایک ایک من کے سرکاری مہر والے باٹ ، حجم کے کچھ پیمانے اور بعض زرعی اوزار ،جنہیں شہر میں کبھی استعمال ہوتے نہیں دیکھا تھا.... یہ ہے نچلی دراز ۔ اس کے بعد اوپر کے خانے ٹٹولے تو کچھ نہ پوچھئے کہ کیسے کیسے نوادرات نکلے ہیں۔ موٹی موٹی مجلد کتابیں ....اول نمبر پر قیام پاکستان کے زمانے کی نصابی کتاب ”سرمایہءاُردو“ پھر ”روح ادب“ ، ”سخندان فارس“ ، ”دربار اکبری“ ، قرآن پاک کا مرماڈیوک پکتھال والا ترجمہ ، انگریزی میں شارٹ سٹوری کے مجموعے ، ایک کتاب ”پریس ، پیپل اینڈ پارلیمنٹ “ کئی ڈکشنریاں اور بہت سا دیگر ادبی مواد ۔
ظاہر ہے ان میں سے اکثر کتابیں تو اپنے فکری ریڈار سے یکسر باہر تھیں ، لیکن اس عمل میں زبان و تخیل کے کئی دریچے کھلنے لگے ۔ ’ ’سرمایہ ءاردو“ میں فرحت اللہ بیگ کی جاڑا ، گرمی اور برسات والی کہانی ، خواجہ سگ پرست کا بیان اور داروغہ جی کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ۔ پھر پطرس کے مضامین جن پہ مصنف کے نام کے ساتھ کنٹرولر آل انڈیا ریڈیو لکھا ہوا تھا ۔ اس میں اپنی عمر کے لحاظ سے مجھے ”مرید پور کا پیر“ سب سے اچھا لگا ، لیکن ”انجام بخیر“ جیسا گہرے سماجی شعور کا طنزیہ کھیل کیوں دل کو بھا گیا ،مَیں آج تک نہیں سمجھ سکا ۔ مولانا محمد حسین آزاد کی ”آب حیات“ میں ”جگنو میاں کی دم“ کا حوالہ ہمیشہ یاد رہنے والی چیز تھی ، مگر غلام علی اینڈ سنز والی ”بانگ درا“ کے علاوہ ایک اور پسندیدہ مجموعہ نواب کلب علی خاں فائق رامپوری کے مرتب کردہ ”مکاتیب غالب“ تھے ، جن کی اشاعت آگرہ سے ہوئی ۔
دادا کے گھر میں چھٹیوں کے دوران کسی نے غور نہ کیا کہ دونوں لڑکے سیاہی مائل نیلگوں ”بانگ درا“ اور گہری سبز جلد والے ”مکاتیب غالب“میں ساری ساری دوپہر کیا تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ یوں تو اقبال کے اکثر شعر سمجھ میں نہ آتے ، نہ ہی ابتدا میں یہ پتا چلتا کہ ”ماخوذ از ایمرسن یا ماخوذ از لانگ فیلو“ سے کیا مراد ہے ۔ پر وہ جو صوتی آہنگ کے مزے ہوا کرتے ہیں اور لفظوں سے تصویریں بنتی ہیں ، یہ کھیل تو قاری اپنے ہی ذہن میں کھیلتا ہے ۔ دیکھئے نا ”ایک آرزو“ میں اگر ”نغمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو“ اور مغلیہ عہد کا واہ گارڈن اس باجے کی لہروں پر ہولے ہولے تھرکنے لگے تو اس ”لائیو شو“ کے بعد انسان کو اور کیا چاہئے ۔ پھر ، جس تیرتھ کو دیکھ کر ”نیا شوالہ“ شعر کے افق پر طلوع ہوا ، اگر ”کالی الماری“ سے اس کی مسافت صرف چار سو قدم ہے تو الفاظ و معانی میں کتنا فاصلہ رہا ۔ ہم نے ”بانگ در“ کے ساتھ ایک چالاکی اور بھی کی ۔ کچھ کلام ایسا لگا، جسے گنگنا نا مشکل نہ تھا ۔ ”پرندے کی فریاد‘ ‘ اور”ماں کا خواب‘ ‘ ایسی ہی نظمیں ہیں ۔ ”بچے کی دعا“ کے لئے جسے سب ”لب پہ آتی‘‘ کہتے ریڈیو پاکستان کی موہنی حمید کافی تھیں ۔ ”تصویر درد“ اور ”طلوع اسلام “ کے لئے ”نہیں منت کش تاب شنیدن“ اور ”دلیل صبح روشن ہے“ کا ترنم سیٹ کرنے میں حفیظ جالندھری کام آئے ۔ یعنی ”سلام اے آمنہ کے لال “ والی معروف دھن ۔ اب آپ اسے سرقہ ، توارد یا پلیجر ازم کہہ لیں ، لیکن چند نظموں کے لئے ہم نے محمد رفیع اور لتا منگیشکر سے براہ راست رجوع کر لیا ۔ سحری کے لئے جگانے والے جیسے فلمی دھنوں کو”مشرف بہ اسلام“ کرتے ہیں ، وہی کاپی پیسٹ تکنیک ہم نے اپنائی ۔ سو ’ہمالہ‘ کے لئے ’آپ کی نظروں نے سمجھا ....“ اور”شمع اور شاعر“ کے لئے ”مَیں نے تو چاند ستاروں کی تمنا کی تھی“۔
”نیوز ویک“ جیسے شہرہ آفاق جریدے کا کاغذی پیرہن ادھڑ جانے کے بعد ، میڈیکل سائنس کی اصطلاح میں مجھے اخبارات ، رسائل اور کتابوں کا ”پروگ نوزز“ حوصلہ شکن دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا پہلا اشارہ اس وقت ملا تھا جب ایک معروف پیشہ ور جرنل نے اپنا ہفتہ وار نیوز لیٹر پرنٹ کی بجائے ای میل پر بھیجنا شروع کیا اور اپنے نام کے آخر میں ”ایکٹو“ کا لفظ چسپاں کر دیا ۔ اس کے بعد ، مسلسل گرتی ہوئی اشاعت کے سبب پچھلے سال لندن میں روزنامہ ”گارڈین“ کی اخباری چیتھڑے جیسی نئی وضع قطع دیکھی تو وہ اولین گرم پتلون یاد آنے لگی جو ابا کے ڈارک براﺅن دھاری دار سوٹ کو ”ری سائیکل“ کر وا کر مجھے پہنا دی گئی تھی ۔ اس دوران ”فالتو تعلیم“ کے معرکے سے دو چار میرے دونوں بچے مجھے یہ کہہ کر ”سکائپ “ پر تسلیاں دے رہے ہیں کہ ابو ، آئی پیڈ کی عادت ڈالیں اور”کنڈل“ کی شکل صورت تو ہے ہی کتاب کے ”مافک“ اس لئے کوئی دقت نہیں ہوگی۔
کتاب کے معاملے میں ”خوگر پیکر محسوس“ ہونے کے باوجود مجھے بچوں کی تجویز حقیقت پسندانہ ، مفید اور بہت حد تک قابل عمل لگتی ہے ۔ یوں بھی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں نے کلک کو چھوڑ کر موٹی اور پتلی نب والے ہولڈر تھامے ، پھر فاﺅنٹین پین ترک کئے اور بال پوائنٹ سے لکھنا شروع کر دیا ۔ ہر نئے ٹی وی چینل نے اعلان کیا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ۔ اب ”ان پیج“ کا کلچر اپنا لینے کے بعد میں خود ٹائپنگ کی رفتار کی خاطر اضافتوں سے چھٹکارا حاصل کر رہا ہوں اور عربی رسم الخط کی روایتی دو زبر کی جگہ ’ ’مثال کے طور پر‘ ‘ ،”اصولی نقطہءنظر سے“ اور ”پورا یقین ہے کہ .... “ جیسے جملے لکھے جا رہے ہیں ۔ کیا نئی ٹیکنالوجی نے میرے اسلوب نگارش اور فکری تنوع کو محدود کرکے میری آزادی کو پہلے ہی مشروط نہیں کر دیا ؟ چلو ، اب قلم کے بعد کتاب سہی ۔ مجھے تو بس یہی کرنا ہو گا کہ تخیل نے ’بابا جی‘ کے کمرے میں جو کالی الماری کھول رکھی تھی ، اسے پھر سے تالہ لگا دوں ۔