عائشہ عزیز
لائبریرین
مورخہ 28 فروری بروز جمعہ رات 11:22 پر ہماری بس کالج سے باہر روڈ پر نکل آئی اور ہم خوش خوش مری کی طرف چل پڑے۔ اتنی رات میں کالج آنا اور پھر اپنی کالج فرینڈز کے ساتھ اتنی دور کا سفر ۔۔ سب لوگ بہت ایکسائیٹڈ تھے۔ دوران سفر خوب انجوائے کیا اور دوستوں کے گھروں سے آئی ہوئی چیزوں پر ہاتھ صاف کیے۔۔
ہم لوگ موٹر وے سے جا رہے تھے تو جب کوئی چیک پوسٹ آ رہی ہوتی ناں تو سارے لوگ فولڈنگ بند کرکے اپنی اپنی سیٹس پر بھاگ جاتے اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس اپنی فرینڈز کے پاس فولڈنگ سیٹس پر ۔۔
رات کےتقریبا ایک ڈیڑھ بجے ہم لوگ کلر کہار ایک پوائنٹ پر فریش ہونے کے لیے رکے۔۔ یہاں فیصل آباد میں اتنی سردی نہیں لگ رہی تھی وہاں جاتے ہی منہ سے دھواں نکلنے لگ گیا اور ہم لوگ خوش ہوئے کہ چلو پھر سے تھوڑی سردی تو ملی ۔۔ وہاں پر ہم نے رات میں بھی ڈھیر ساری تصویریں بنائیں۔۔ہی ہی ہی اور کوئی کام نہیں تھا ناں بس ایسے ہی گھومتے رہے ہیں تصویریں بناتے رہے۔
کوئی گھنٹہ بھر رکنے کے بعد واپس اپنی اپنی بس میں بیٹھے او رآگے کا سفر شروع ہوا۔۔ پھر مجھے تو تھوڑی تھوڑی نیند آنے لگی تھی اس لیے میں کبھی سوتی اور کبھی جاگ جاتی ۔۔آگے جا کر سڑکیں تھوڑی اونچی نیچی ہونے لگی تھیں اور مجھے فولڈنگ سیٹ پر بیٹھ کر بڑے مزے کی نیند آ رہی تھی۔۔ بس کے ٹی وی پر پتا نہیں کس زمانے کی انڈین مووی چل رہی تھی۔۔جو میں نے نہیں دیکھی۔
پہلے تو ہمیں لگ رہا تھا کہ اسلام آباد رکیں گے لیکن جب بل کھاتی سڑکیں آنے لگیں تو پتا چلا ہم سیدھے مری جا رہے ہیں۔۔اتنے خطرناک سے موڑ اور بغیر روکے وہ یوں گھما کر گزرتے تھے تو کبھی کبھی بہت ڈر لگتا تھا۔۔ کچھ لوگ کہتے کہ ابھی تو اندھیرا ہے جب روشنی میں گزریں تو پہاڑوں سے نیچے دیکھنے پر بہت ڈر لگتا ہے
خیر صبح کے پانچ بج رہے تھے جب ہم مری پہنچے، بس میں بیٹھ بیٹھ کر برا حال ہوگیا تھا۔۔پیٹرول کی سمیل سے سر بھاری ۔۔ جیسے ہی بس رکی اور ہمیں اترنے کے لیے کہا گیا تو سب سے پہلے میں بس سے اتری ۔۔باہر بہت سردی تھی لیکن تازہ ہوا میں سانس لے کر سکون آگیا۔
نیچے اترتے ہی معلوم ہوا کہ سڑک پر برف جمی ہوئی ہے ویسی ہی جیسے سعود بھیا نے بتایا تھا۔۔وہاں پر کچھ گائیڈ بھی تھے ہوٹل کے۔۔ جو سب لوگوں کو بتا رہے تھے کہ احتیاط سے چلیے۔ ہمارا ہوٹل تھوڑی اونچائی پر تھا اور وہاں جانے کے لیے سیڑھیاں نہیں بلکہ ڈھلوان سڑک تھی جس پر جگہ جگہ برف جمی تھی ۔۔ وہاں سے گزرتے ہوئے میری ایک فرینڈ پھسل بھی گئیں پھر وہاں کے انکل لوگ سڑک پر گرم پانی ڈالنے لگے تاکہ برف پگھل جائے۔
اب اندھیرے میں جیسے بھی برف ملی اس کی تصویریں بنا لی گئیں
ہمارے ہوٹل کا نام ثمر ہوٹل تھا۔ وہاں پہنچے تو لاؤنج میں ہیٹر چل رہا تھا ۔۔ایک بے چارہ ہیٹر اور ہم سارے لوگ اس کے گرد بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں کمرے الاٹ ہونے لگے۔ ہم لوگ اپنے کمرے میں پہنچے فریش ہوئے اور تھوڑا سا آرام کیا، صبح ناشتے کے لیے مال روڈ پر ایک ریسٹورنٹ میں جانا تھا۔۔۔ اور جب ہم تیار ہو کر نکلے تو پتا چلا ہمیں جو کارڈ دیا گیا تھا وہ میں کہیں بھول آئی ہوں۔۔ اب واپس تو نہیں جا سکتے تھے سو مال روڈ ڈھونڈنے لگے۔۔۔ میں تو فرسٹ ٹائم گئی تھی لیکن میری فرینڈ پہلے بھی آ چکی تھی یہاں ۔۔۔ ساری سڑکیں اوپر اوپر ہی جا رہی تھیں اور المائدہ ریسٹورنٹ کا کہیں نام و نشان نہیں
میں اپنی دوست کا سر کھائے جاؤں کہ کب آئے گا ۔۔ کبھی سیڑھیاں چڑھنے لگیں اور کبھی پھر کوئی سڑک آ جائے۔۔ راستے میں ایک جگہ سے میں نے احتیاط چاکلیٹس خریدیں کہ صبح کے سات بجے ناشتہ کرنے والی میں بے چاری ابھی تک ناشتے کی شکل بھی نہیں دیکھی پائی تھی ۔۔۔ا للہ اللہ کرکے مال روڈ آیا اور وہاں پر بھی تھوڑی پریشانی اٹھانی پڑی کہ جس ریسٹورنٹ میں ہمیں جانا تھا وہاں کا کارڈ گم ہوگیا تھا۔ دوسرے ہوٹل میں گئے تو شکر ہے وہاں ہمارے سر تھے ان سے کارڈ لے کر ناشتے کے انتظار میں جو بیٹھے تو مجھے اپنے بیگ سے چاکلیٹ نکال کر کھانی ہی پڑی
ناشتے میں ہم لوگوں نے پوریاں کھائیں اور بعد میں چائے پی پھر ہمیں اسی ہوٹل کے ٹیرس پر بھیج دیا گیا۔۔
یہاں تک مجھے مری بڑا ہی بورنگ لگا۔۔سچی میں
ٹیرس سے باہر لوگوں کے مکانات پر برف پڑی ہوئی تھی وہاں پر کوئی پہاڑ نہیں تھا جو برف سے ڈھکا ہو۔۔ میری فرینڈ کہتی کہ تم ایک پہاڑ پر ہی کھڑی ہوئی۔ میں کہا بھئی مجھے کوئی برف سے ڈھکا ہوا پہاڑ چاہیے جو ویزیبل بھی ہو۔۔ایویں بس
ہاں لیکن برف دیکھ کر بڑا اچھا لگ رہا تھا میں نے تو فرسٹ ٹائم برف دیکھی وہاں پر۔۔
ریسٹورنٹ سے نکل کر ہم لوگوں کو کہا گیا کہ پنڈی پوائنٹ پہنچیں جو مال روڈ پر ہی چلتے چلتے آگے آئے گا وہاں سے چیئر لفٹ لے سکیں گے ۔۔اور ہاں مال روڈ کوئی بہت زیادہ اونچا نیچا نہیں تھا اس لیے وہاں پر زیادہ تھکن نہیں ہوئی۔۔ راستے میں ہم نے آئس کریم بھی لی بچو۔۔اور میں سوچوں اگر جو امی جان مجھے دیکھ لیں تو خوب ڈانٹیں
اب ہم لوگ چلتے ہوئے جگہ جگہ رک جائیں۔۔کوئی کہے ارے دیکھو ناں کتنا پیارا سین ہے۔۔یہاں ایک تصویر ہو جائے ناں۔۔۔ اور ہم لوگ تصویریں بنانے لگیں۔ جب زیادہ دیر ہو جائے تو ہمارے انکل لوگ جو پیچھے ہی آ رہے تھے سب لوگوں کو کہہ کہہ کر آگے بڑھائیں۔
مری میں فرائی چکس۔۔
یہاں پر سارے لوگ ایک دوسرے کو برف کے گولے مار رہے تھے
یہ سنو مین ایک بھائی نے بنایا ہوا تھا ہم نے اس کی تصویر بنا لی
کتنی پیاری لگ رہی ہے ناں یہ وائٹ وائٹ برف
لوگوں کے مکانوں پر برف پڑی ہوئی پیاری لگ رہی ہے ناں
فوجی انکل کہہ رہے تھے کہ یہاں تصویریں مت بنائیں لیکن ہم نے بنا لیں۔۔کچھ غلط کیا کیا؟
یہ توپ اتنی پیاری لگ رہی تھی
نوٹ : یہ ساری تصاویر میرے کیمرے سے نہیں لی گئیں۔ کچھ میری فرینڈز کے کیمرے کی بھی ہیں۔
ہم لوگ موٹر وے سے جا رہے تھے تو جب کوئی چیک پوسٹ آ رہی ہوتی ناں تو سارے لوگ فولڈنگ بند کرکے اپنی اپنی سیٹس پر بھاگ جاتے اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس اپنی فرینڈز کے پاس فولڈنگ سیٹس پر ۔۔
رات کےتقریبا ایک ڈیڑھ بجے ہم لوگ کلر کہار ایک پوائنٹ پر فریش ہونے کے لیے رکے۔۔ یہاں فیصل آباد میں اتنی سردی نہیں لگ رہی تھی وہاں جاتے ہی منہ سے دھواں نکلنے لگ گیا اور ہم لوگ خوش ہوئے کہ چلو پھر سے تھوڑی سردی تو ملی ۔۔ وہاں پر ہم نے رات میں بھی ڈھیر ساری تصویریں بنائیں۔۔ہی ہی ہی اور کوئی کام نہیں تھا ناں بس ایسے ہی گھومتے رہے ہیں تصویریں بناتے رہے۔
کوئی گھنٹہ بھر رکنے کے بعد واپس اپنی اپنی بس میں بیٹھے او رآگے کا سفر شروع ہوا۔۔ پھر مجھے تو تھوڑی تھوڑی نیند آنے لگی تھی اس لیے میں کبھی سوتی اور کبھی جاگ جاتی ۔۔آگے جا کر سڑکیں تھوڑی اونچی نیچی ہونے لگی تھیں اور مجھے فولڈنگ سیٹ پر بیٹھ کر بڑے مزے کی نیند آ رہی تھی۔۔ بس کے ٹی وی پر پتا نہیں کس زمانے کی انڈین مووی چل رہی تھی۔۔جو میں نے نہیں دیکھی۔
پہلے تو ہمیں لگ رہا تھا کہ اسلام آباد رکیں گے لیکن جب بل کھاتی سڑکیں آنے لگیں تو پتا چلا ہم سیدھے مری جا رہے ہیں۔۔اتنے خطرناک سے موڑ اور بغیر روکے وہ یوں گھما کر گزرتے تھے تو کبھی کبھی بہت ڈر لگتا تھا۔۔ کچھ لوگ کہتے کہ ابھی تو اندھیرا ہے جب روشنی میں گزریں تو پہاڑوں سے نیچے دیکھنے پر بہت ڈر لگتا ہے
خیر صبح کے پانچ بج رہے تھے جب ہم مری پہنچے، بس میں بیٹھ بیٹھ کر برا حال ہوگیا تھا۔۔پیٹرول کی سمیل سے سر بھاری ۔۔ جیسے ہی بس رکی اور ہمیں اترنے کے لیے کہا گیا تو سب سے پہلے میں بس سے اتری ۔۔باہر بہت سردی تھی لیکن تازہ ہوا میں سانس لے کر سکون آگیا۔
نیچے اترتے ہی معلوم ہوا کہ سڑک پر برف جمی ہوئی ہے ویسی ہی جیسے سعود بھیا نے بتایا تھا۔۔وہاں پر کچھ گائیڈ بھی تھے ہوٹل کے۔۔ جو سب لوگوں کو بتا رہے تھے کہ احتیاط سے چلیے۔ ہمارا ہوٹل تھوڑی اونچائی پر تھا اور وہاں جانے کے لیے سیڑھیاں نہیں بلکہ ڈھلوان سڑک تھی جس پر جگہ جگہ برف جمی تھی ۔۔ وہاں سے گزرتے ہوئے میری ایک فرینڈ پھسل بھی گئیں پھر وہاں کے انکل لوگ سڑک پر گرم پانی ڈالنے لگے تاکہ برف پگھل جائے۔
اب اندھیرے میں جیسے بھی برف ملی اس کی تصویریں بنا لی گئیں
ہمارے ہوٹل کا نام ثمر ہوٹل تھا۔ وہاں پہنچے تو لاؤنج میں ہیٹر چل رہا تھا ۔۔ایک بے چارہ ہیٹر اور ہم سارے لوگ اس کے گرد بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں کمرے الاٹ ہونے لگے۔ ہم لوگ اپنے کمرے میں پہنچے فریش ہوئے اور تھوڑا سا آرام کیا، صبح ناشتے کے لیے مال روڈ پر ایک ریسٹورنٹ میں جانا تھا۔۔۔ اور جب ہم تیار ہو کر نکلے تو پتا چلا ہمیں جو کارڈ دیا گیا تھا وہ میں کہیں بھول آئی ہوں۔۔ اب واپس تو نہیں جا سکتے تھے سو مال روڈ ڈھونڈنے لگے۔۔۔ میں تو فرسٹ ٹائم گئی تھی لیکن میری فرینڈ پہلے بھی آ چکی تھی یہاں ۔۔۔ ساری سڑکیں اوپر اوپر ہی جا رہی تھیں اور المائدہ ریسٹورنٹ کا کہیں نام و نشان نہیں
میں اپنی دوست کا سر کھائے جاؤں کہ کب آئے گا ۔۔ کبھی سیڑھیاں چڑھنے لگیں اور کبھی پھر کوئی سڑک آ جائے۔۔ راستے میں ایک جگہ سے میں نے احتیاط چاکلیٹس خریدیں کہ صبح کے سات بجے ناشتہ کرنے والی میں بے چاری ابھی تک ناشتے کی شکل بھی نہیں دیکھی پائی تھی ۔۔۔ا للہ اللہ کرکے مال روڈ آیا اور وہاں پر بھی تھوڑی پریشانی اٹھانی پڑی کہ جس ریسٹورنٹ میں ہمیں جانا تھا وہاں کا کارڈ گم ہوگیا تھا۔ دوسرے ہوٹل میں گئے تو شکر ہے وہاں ہمارے سر تھے ان سے کارڈ لے کر ناشتے کے انتظار میں جو بیٹھے تو مجھے اپنے بیگ سے چاکلیٹ نکال کر کھانی ہی پڑی
ناشتے میں ہم لوگوں نے پوریاں کھائیں اور بعد میں چائے پی پھر ہمیں اسی ہوٹل کے ٹیرس پر بھیج دیا گیا۔۔
یہاں تک مجھے مری بڑا ہی بورنگ لگا۔۔سچی میں
ٹیرس سے باہر لوگوں کے مکانات پر برف پڑی ہوئی تھی وہاں پر کوئی پہاڑ نہیں تھا جو برف سے ڈھکا ہو۔۔ میری فرینڈ کہتی کہ تم ایک پہاڑ پر ہی کھڑی ہوئی۔ میں کہا بھئی مجھے کوئی برف سے ڈھکا ہوا پہاڑ چاہیے جو ویزیبل بھی ہو۔۔ایویں بس
ہاں لیکن برف دیکھ کر بڑا اچھا لگ رہا تھا میں نے تو فرسٹ ٹائم برف دیکھی وہاں پر۔۔
ریسٹورنٹ سے نکل کر ہم لوگوں کو کہا گیا کہ پنڈی پوائنٹ پہنچیں جو مال روڈ پر ہی چلتے چلتے آگے آئے گا وہاں سے چیئر لفٹ لے سکیں گے ۔۔اور ہاں مال روڈ کوئی بہت زیادہ اونچا نیچا نہیں تھا اس لیے وہاں پر زیادہ تھکن نہیں ہوئی۔۔ راستے میں ہم نے آئس کریم بھی لی بچو۔۔اور میں سوچوں اگر جو امی جان مجھے دیکھ لیں تو خوب ڈانٹیں
اب ہم لوگ چلتے ہوئے جگہ جگہ رک جائیں۔۔کوئی کہے ارے دیکھو ناں کتنا پیارا سین ہے۔۔یہاں ایک تصویر ہو جائے ناں۔۔۔ اور ہم لوگ تصویریں بنانے لگیں۔ جب زیادہ دیر ہو جائے تو ہمارے انکل لوگ جو پیچھے ہی آ رہے تھے سب لوگوں کو کہہ کہہ کر آگے بڑھائیں۔
مری میں فرائی چکس۔۔
یہاں پر سارے لوگ ایک دوسرے کو برف کے گولے مار رہے تھے
یہ سنو مین ایک بھائی نے بنایا ہوا تھا ہم نے اس کی تصویر بنا لی
کتنی پیاری لگ رہی ہے ناں یہ وائٹ وائٹ برف
لوگوں کے مکانوں پر برف پڑی ہوئی پیاری لگ رہی ہے ناں
فوجی انکل کہہ رہے تھے کہ یہاں تصویریں مت بنائیں لیکن ہم نے بنا لیں۔۔کچھ غلط کیا کیا؟
یہ توپ اتنی پیاری لگ رہی تھی
نوٹ : یہ ساری تصاویر میرے کیمرے سے نہیں لی گئیں۔ کچھ میری فرینڈز کے کیمرے کی بھی ہیں۔
آخری تدوین: