آغاز: اب یہاں سے ابتدا کرتے ہیں ایک طویل کہانی کی، جس میں پلاٹ تو نہیں، مگر قصے بہت ہیں۔ ہیرو اور ولن کوئی نہیں۔ مگر کردار بہت ہیں۔ اور کچھ تو سچ مچ مزیدار بھی۔ یہ کہانی سو فیصد آپ بیتی نہیں کیونکہ چند عملی مجبوریوں کے تحت مجھے کافی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ بس یوں سمجھیے کہ حقیقی زندگی کے کچھ واقعات اور کرداروں کو میں نے اپنے تخیل کے رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔ دوسری طرف یہ خالص فکشن بھی نہیں۔ اندریں حالات، بہتر یہی ہو گا کہ آپ اسے آپ بیتی کی بجائے کہانی سمجھ کر پڑھیں۔ مگر ایسی کہانی جس کے کردار حقیقی زندگی کے عام لوگ ہیں، کسی ناول یا داستان کے نہیں۔
مزید یہ کہ چونکہ یہ قصے ہیں مجھ جیسے عام لوگوں کی عام باتوں کے، تو اسے ایک مزاحیہ تحریر سمجھ کر پڑھنے والوں کو شاید مایوسی ہو گی۔ میں اپنی زندگی میں کبھی مزاح نگار نہیں رہا۔ نہ آئندہ ہی بننے کا کوئی ارادہ یا امکان ہے۔ اس قصے سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، جو اپنے آس پاس پھرتے عام لوگوں کی عام باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہنسی اور قہقہے ہوں گے تو ضرور مگر اتنے ہی جتنے عام زندگی میں ہوتے ہیں۔ یہ مزاحیہ ڈرامہ ہرگز نہیں۔
تمہید لمبی ہو گئی۔ اب شروع کرتے ہیں قصہءِ ہزار درویش۔
کچھ باتیں بزرگوں کی(پہلا حصہ)
میرا بچپن طرح طرح کے بزرگوں کے بیچ روتے کھیلتے گزرا۔ محاورے کے مطابق ہنستے کھیلتے اس لیے نہیں لکھ سکتا، کہ اتنے بزرگوں کے بیچ دل کھول کر ہنسنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کھیلنے سے البتہ کوئی بزرگ کبھی کسی بچے کو نہیں روک سکتا۔ تو بات ہو رہی تھی بزرگوں کی۔ ان میں سے کچھ بزرگ تو ایسے تھے جو خود کو سچ مچ والا بزرگ سمجھتے، کہتے اور کہلواتے تھے۔ اب ظاہر ہے بڑوں اور باقی بزرگوں پر تو ان بزرگوں کا بھی زور نہیں چلتا تھا، سو کہلوانے والی تمنا وہ ہم غریب بچوں سے پوری کرواتے تھے۔ سب سے پہلے بزرگ تو میرے نانا مرحوم تھے۔ مگر ان کا ذکر میں سب سے آخر میں کروں گا کہ طولانی بھی ہے اور ہزار جہتی بھی۔ پہلے ذکر ہو جائے ان کے دوستوں، ہمسائے میں رہنے والے بزرگوں اور دیگر صاحبان کا۔میرے نانا کے چند قریب ترین دوستوں میں سے ایک ایسے بزرگ تھے جو سچ مچ کے بزرگ بھی مشہور تھے۔ وہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد محکمہ زراعت میں بھی برسوں تک نوکری کر کے ریٹائر ہو چکے تھے۔ عمر ستر سے متجاوز ہو گی۔ کئی لوگ کہتے تھے کہ سو سے اوپر کے ہو چکے ہیں۔ مگر خود کو ستراسی سال کا بتاتے تھے۔ یہی درست بھی معلوم ہوتا تھا۔وہ خودکو چَندن شاہ (چ پر زبر) کہتے اور لوگ انھیں چاچا چِندن شاہ (چ پرزیر ) کے نام سے پکارتے۔ اس تفاوت کا سبب مجھے نہیں معلوم۔ یہاں سے آگے ان کا نام جہاں کہیں بھی آئے تو اسے ، حسبِ روایاتِ اہلِ بابو محلہ و عزیز آباد ، تحصیل ثم ضلع، مستونگ، چِندن شاہ(بالکسرہ) ہی پڑھا جائے۔چاچا چِندن شاہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک جنگل نما احاطے کے بیچ میں واقع محکمہ زراعت کی دی ہوئی ایک کوٹھڑی میں رہائش پذیر تھے۔ محکمے کے کسی ملازم نے کبھی اعتراض کیا نہ شکایت۔ ویسے بھی کسی کو تنگ کر کے روحانی خوشی حاصل کرنے کا زمانہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ کوئی انھیں دعا کی لیے کہتا تو ہرے رنگ کے موٹی سوتی دھاگے پر کچھ پڑھ کر پھونکتے جاتے اور اس پر گرہ لگاتے جاتے۔ سات گرہیں پوری کر کے دھاگے کو گلے میں یا کلائی پر باندھنے کو کہتے۔ ہم بھائیوں بہنوں کا بچپن یہی ہری ہری چوڑیاں اور ہار پہنے ہوئے گزرا۔بچپن میں نانا سے ان کی رفاقت کے سبب ہمارا کبھی کبھار ان کی کوٹھڑی میں جانا بن جاتا تھا۔ عجیب طلسماتی جگہ تھی۔ ہر وقت اگر بتیوں اور لوبان وغیرہ کا دھواں اور خوشبو پھیلی ہوتی ۔ ایک کونے میں چندخالی بوتلیں پڑی ہوتی تھیں، جن میں سے کچھ کے منہ کارک لگا کر بند کیے ہوتے۔ کہا جاتا تھا کہ ان بوتلوں میں چاچا نے جن بند کیے ہوئے ہیں۔ کسی ہمزاد کا ذکر بھی سنا تھا۔ ان کے قابو میں بتائے گئے جنات اور بھوتوں وغیر ہ کے نام بھی بتائے جاتے تھے۔ کبیر جن ، بلقیس جننی اور شکنتلا بھوتنی کے نام اپنی خاص اہمیت اور بار بار کے تذکرے کے سبب اب بھی میرے حافظے میں موجود ہیں۔ تفصیل ان مخلوقات کی آ گے آ ئے گی۔سچ یہی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ نہ دیکھا۔ مگر لوگ، جن میں میرے نانا اور والدہ بھی شامل تھے، ان کی کرامات سے متعلق طرح طرح کے واقعات بیان کرتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ ہم بچوں کی لکھائی میں استعمال ہونے والی قلموں سے متعلق ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چاچا کی کوٹھڑی کے آس پاس احاطے میں جا بجا سر کنڈے لگے ہوئے تھے۔ میری والدہ کے بقول ایک مرتبہ انھوں نے چاچا سے کہا کہ بچوں کے لیے کچھ خشک سرکنڈے بھجوا دیں تا کہ تختیوں پر لکھنے کے لیے قلمیں بنائی جا سکیں۔ اگلی صبح دیکھا تو تیار قلموں کا ایک پورا پیکٹ کمرے میں آتش دان کے اوپر بنے شیلف پر پڑا ہوا پایا! بس یہ اور اس قسم کے دوسرے واقعات تھے جنھیں سن کر میرے ذہن میں یہی تصور تھا کہ چاچا انسان کی شکل میں دراصل کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں۔ان کی کوٹھڑی میں بے تحاشا کتابیں بھی کچھ ترتیب سے اور کچھ بے ترتیب ، کم و بیش ہر کونے میں نظر آ تیں۔ ابنِ صفی کے ناولوں کے نہایت شوقین تھے۔ اس کے علاوہ قدیم زمانے کے رسالوں کے بھی ڈھیر لگے ہوتے۔ ایک مرتبہ جانے کس موڈ میں تھے کہ ۱۹۳۷ ء کا عالمگیر رسالہ(نہایت خستہ حالت میں) میری والدہ کو تحفے میں دیا۔ وہ والدہ سے ہوتا ہوا میرے پاس پہنچا اور آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اوپر سالگرہ نمبر درج ہے۔ بزرگوں سے پتا چلا کہ کسی زمانے میں نہایت مقبول ہوا کرتا تھا ۔ خیر بات ہو رہی تھی چاچا کی کتابوں اور کہانیوں سے رغبت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں پڑھ پڑھ کر چاچا خود بھی ایک بہت بڑے داستان گو بن گئے تھے۔ اپنی زندگی کے واقعات بھی اس طرح بیان کرتے جس پر داستان کا گمان گزرتا تھا۔ ان کی بیان کی گئی اکثر باتیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ چاچا کی زندگی کے واقعات جو انھوں نے سالہا سال کی نشستوں میں سنائے ہوں گے، انھیں کی زبانی آپ تک پہنچاؤں۔(جاری ہے)