کامل کہانی

متلاشی

محفلین
جناب کاشف عمران صاحب ۔۔۔! آپ نے شاعری کے بارے میں پوچھا ہے ؟ سچ کہوں تو میرا ذاتی نظریہ یہ ہے (اس سے دوسروں کا متفق ہونا ضروری نہیں) کہ آپ کی سیریس شاعری میں بہت ہی مشکل الفاظ و تراکیب کی بھر مار ہوتی ہے جس سے مجھ جیسا جاہل قاری آپ کے کہے گئے مفہوم کو درست طریقہ پر اخذ نہیں کر پاتا۔۔۔ تو پھر وہ آپ کو داد کیسے دے ۔۔۔؟ بس اساتذہ اور زبان دان حضرات ہی اس کو سمجھتے ہیں۔۔!
جبکہ آپ کی مزاحیہ شاعری کیونکہ عام فہم اور آسانی سے سمجھنے کے قابل ہوتی ہے اس لئے وہاں پر آپ پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں ۔۔۔!
آخر میں ایک مفت مشورہ دینا چاہوں گا کہ آپ ایک سیریس غزل آسان الفاظ میں کہہ کر دیکھیں میرا خیال ہے کہ اس پر بھی آپ کو ضرور اچھا رسپانس ملے گا۔۔۔!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جناب کاشف عمران صاحب ۔۔۔ ! آپ نے شاعری کے بارے میں پوچھا ہے ؟ سچ کہوں تو میرا ذاتی نظریہ یہ ہے (اس سے دوسروں کا متفق ہونا ضروری نہیں) کہ آپ کی سیریس شاعری میں بہت ہی مشکل الفاظ و تراکیب کی بھر مار ہوتی ہے جس سے مجھ جیسا جاہل قاری آپ کے کہے گئے مفہوم کو درست طریقہ پر اخذ نہیں کر پاتا۔۔۔ تو پھر وہ آپ کو داد کیسے دے ۔۔۔ ؟ بس اساتذہ اور زبان دان حضرات ہی اس کو سمجھتے ہیں۔۔!
جبکہ آپ کی مزاحیہ شاعری کیونکہ عام فہم اور آسانی سے سمجھنے کے قابل ہوتی ہے اس لئے وہاں پر آپ پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں ۔۔۔ !
آخر میں ایک مفت مشورہ دینا چاہوں گا کہ آپ ایک سیریس غزل آسان الفاظ میں کہہ کر دیکھیں میرا خیال ہے کہ اس پر بھی آپ کو ضرور اچھا رسپانس ملے گا۔۔۔ !

مفید رائے دینے کا نہایت شکریہ۔ خرابی یہ ہے کہ اکثر خیا لات جو ذہن میں ہیں، انھیں ادا کرنے کی لیے زبان کا دامن نہایت تنگ نظر آتا ہے۔ پھر بھی کسی نہ کسی طرح کچھ باتیں کہنے میں کامیابی مل جاتی ہے۔ اصل مسئلہ آسان، مشکل کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی نئی یا گہری بات کہنی ہو، تو اسے کہنے کے لیے انداز بھی نیا اور ویسا ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ پھر دوسرے طرف شعری تقاضے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ موسیقیت پر بھی نظر ہوتی ہے۔ نثر میں تو انسان بات لمبی کر کے نئی چیز بھی کسی قدر آسان الفاظ میں سمجھا سکتا ہے۔ مگر غزل کے تو وہی دو مصرعے ہیں۔ انھیں لمبا کرنا تو ممکن نہیں! سہل ممتنع کی الگ کہانی ہے، اور اس کا خانہ بالکل جدا ہے، اور وہ اس بحث کا حصہ نہیں۔

میری بات سمجھنے کے لیے آسان ترین مثال یہ ہے کہ جو فی البدیہہ نظمیں، غزلیں یہاں پوسٹ کرتا ہوں۔ انھیں لکھنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ بعض اوقات طبیعت حاضر ہو، تو تقریبا عام نثر کی ٹائپنگ ہی کی رفتار سے۔ جبکہ اپنے اصل دیوان میں مشق کے آٹھ دس برس میں صرف 20 - 30 غزلیں شامل کیں، حالانکہ گھسے پٹے موضوعات کے ساتھ دس بیس غزلیں بآسانی ایک رات میں لکھ سکتا ہوں! اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ مقصد کیا ہے۔ خیام نے ساری عمر میں سو سے کم رباعیات کہیں! مگر اس کی ایک ایک رباعی، یاروں کے ہزار دیوانوں پر بھاری ہے!

ویسے آپ اور اپنے دوسرے شاعری کا ذوق رکھنے والے قارئین سے بھی درخواست کروں گا، کہ میری کسی "مشکل" نظر آنے والی غزل کو چند بار پڑھیے۔ ہو سکے تو ایک دو دن کا وقفہ دے کر دو چار مرتبہ پڑھیے۔ پھر جب سمجھ میں آنے لگی، اور آپ اس سے مانوس ہونے لگے، تو یقین جانیے بے انتہا لطف آئے گا۔ فرق وہی ہے جو آٹھویں جماعت کے نسبت تناسب کے سوالات اور ماسٹر لیول کے "کیلکیولس" میں ہوتا ہو۔ لیکن اکثر لوگ جانتے ہونگے، کہ "کیلکیولس" سمجھ آنے کے بعد جو لطف دیتا ہے، وہ ساری دنیا کے نسبت تناسب کے سوالات نہیں دے سکتے! یہ دیکھیے ایک آسان غزل، جو یہیں کسی دھاگے میں دل لگی کے واسطے فی البدیہہ کہی۔ مگر سچ یہ ہے کہ اسے دیوان میں ڈالنے کی بجائے ایک بار پھر شاعری چھوڑنا پسند کروں گا (تخلص تک استعمال نہ کیا۔ نام لکھا):

آج بھی در سے ہی وہ لوٹ گیا، کل کی طرح​
آج میں پھر نہ اسے روک سکا، کل کی طرح​
آج کی رات پھر اک بار اندھیرے ہوں گے​
بجھ گیا پھر مرا مٹی کا دیا، کل کی طرح​
چاند نکلا بھی، چڑھا بھی، نہ مگر وہ آیا​
چاند پھر لوٹ گیا، ڈوب گیا، کل کی طرح​
آج پھر وعدہ کیا ملنے کا، اور توڑ دیا​
یہ دیا میری وفاؤں کا صلہ، کل کی طرح​
کاشفِ خستہ جگر، کس لیے یوں رو رو کر​
پھر کیا تو نے نیا حشر بپا، کل کی طرح​

امید ہے کہ اپنی بات سمجھا پایا ہوں گا۔ ایک ایسے ہی موقعے پر غالب نے کہا تھا:​
تاز دیوانم کہ سرمستِ سخن خواہد شدن​
ایں مے از قحطِ خریداری کہن خواہد شدن​
کوکبم را در عدم اوجِ قبولی بودہ است​
شہرتِ شعرم بگیتی بعدِمن خواہد شدن​
ترجمہ: میری شاعری کو پڑھ کر اگر لوگ سر مست نہ ہوئے تو خریداروں کی کمی کے باعث یہ شراب پُرانی ہو جائے گی ( یاد رہے، شراب پرانی ہو کر اور قیمتی ہو جاتی ہے)​
میری قسمت کے ستارے کو عدم میں بڑا بلند مقام حاصل ہے چنانچہ میری شاعری کی شہرت بھی میری موت کے بعد اُس وقت ہو گی جب میں عدم میں ہوں گا۔
 

متلاشی

محفلین
محترمی کاشف عمران صاحب ۔۔۔! آپ کی بات اپنی جگہ درست۔۔۔ مگر میرے ذاتی خیال میں شاعری میں اصل فن ہی گہرے مفہوم کو آسان الفاظ میں بیان کرنا ہے ورنہ مشکل الفاظ میں گہرا مفہوم بیان کرنا تو آسان ہے۔۔۔بنسبت آسان الفاظ میں گہرا مفہوم بیان کرنے کے ۔۔!
اس لئے اگر آپ غالب کو بھی دیکھیں تو اسکی شاعری میں بھی ایک خاص چیز ہے کہ اس نے بھی مشکل سے مشکل مفہوم کو آسان سے آسان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔۔۔مثال کے طور پر اسی شعر کو لے لئے ۔۔۔!
جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی​
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔!​
دیکھیں کتنا دقیق اور گہرا مضمون کتنے سادہ اور عام فہم الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔۔۔! گو کہ غالب کی شاعری میں بھی کافی مشکل الفاظ و تراکیب کا استعمال ہے مگر آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ غالب کے زیادہ تر وہی اشعار بر زبان زد خاص و عام ہیں ۔۔۔ جن میں آسان الفاظ استعمال کئے گئے ہوں ۔۔۔!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
محترمی کاشف عمران صاحب ۔۔۔ ! آپ کی بات اپنی جگہ درست۔۔۔ مگر میرے ذاتی خیال میں شاعری میں اصل فن ہی گہرے مفہوم کو آسان الفاظ میں بیان کرنا ہے ورنہ مشکل الفاظ میں گہرا مفہوم بیان کرنا تو آسان ہے۔۔۔ بنسبت آسان الفاظ میں گہرا مفہوم بیان کرنے کے ۔۔!
اس لئے اگر آپ غالب کو بھی دیکھیں تو اسکی شاعری میں بھی ایک خاص چیز ہے کہ اس نے بھی مشکل سے مشکل مفہوم کو آسان سے آسان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔۔۔ مثال کے طور پر اسی شعر کو لے لئے ۔۔۔ !
جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی​
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔!​
دیکھیں کتنا دقیق اور گہرا مضمون کتنے سادہ اور عام فہم الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔۔۔ ! گو کہ غالب کی شاعری میں بھی کافی مشکل الفاظ و تراکیب کا استعمال ہے مگر آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ غالب کے زیادہ تر وہی اشعار بر زبان زد خاص و عام ہیں ۔۔۔ جن میں آسان الفاظ استعمال کئے گئے ہوں ۔۔۔ !

آپ نے شاید غور نہ کیا میری گزارشات پر۔ کاپی کرتا ہوں: سہل ممتنع کی الگ کہانی ہے، اور اس کا خانہ بالکل جدا ہے، اور وہ اس بحث کا حصہ نہیں۔
جو شعر آپ نے بیان کیا، وہ سہل ممتنع ہے۔ جیسا کہ کہہ چکا اس کا قصہ بالکل الگ۔

باقی آپ کی رائے کا احترام کرتے ہوئے، میں اپنے محدود علم کے مطابق، اس سے اختلاف ہی کروں گا۔ تفصیلات مگر یہاں نہیں۔ پھر کبھی۔ کہیں اور۔ فی الحال ایک مختصر رائے۔

پہلی بات تو یہ کہ میں اپنی تمام شاعری کو "مشکل" نہیں سمجھتا۔ میں کبھی خود سے "مشکل" لکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ہاں موقع کی مناسبت سے ایسا ہو جائے تو حرج بھی نہیں سمجھتا۔ لگتا ہے کہ آپ نے ابتدا ہی میں دو چار زیادہ پیچیدہ غزلیات پڑھ لی ہیں۔ یہ لیجیے ایک دو غزلیں آسان زبان اور چھوٹی بحروں میں۔ربط۔ ربط۔ ربط۔

ویسے غالب کے جن "آسان" شعروں کی طرف آپ کا اشارہ ہے، ان کے بارے میں وہ خود فرما گئے:

"ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد​
کھلا کہ فائدہ، عرضِ ہنر میں خاک نہیں"​
یاد رکھنے کی بات ہے، شاعری غالب کا "پیشہ" اور "مجبوری" تھی۔ سو اس نے ہر ہر طرح سے کوشش کی کہ کسی طرح شہرت اور مقام حاصل کر سکے ۔ حتیٰ کہ نہ چاہتے ہوئے ذوق تک کے رنگ میں لکھنے کی سعی کرنی پڑی۔ چونکہ شاعری میری مجبوری نہیں، اس لیے میں غالب والی مشکلات سے آزاد ہوں۔ سو محض قبول عام حاصل کرنے کے لیے اپنے رنگ سے ہٹ کر سنجیدہ شاعری کرنا میں مناسب نہ سمجھوں گا۔ مضمون آسان لفظوں میں ادا ہوا تو ٹھیک۔ ورنہ جو الفاظ مناسب ہوئے، وہی درست۔ اپنا اور دوسروں کا وقتی طور پر جی بہلانے کے لیے کچھ لکھ لینا ایک الگ چیز ہے۔ سنجیدہ شاعری، جس کا مقصد اپنے فلسفہءِ حیات کا بیان ہو، ایک بالکل مختلف بات ہوئی۔​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
یہاں سے آگے بڑھاتے ہیں چاچا چندن شاہ کی کہانی، ان کی اپنی زبانی:

چاچا چندن شاہ کی کہانی، ان کی اپنی زبانی
میں جوانی میں بڑا وجیہہ اور طاقتور ہوا کرتا تھا۔ نکلتا ہوا قد اوردمکتا ہوا چہرہ۔ پہلوانی کا بھی شوق تھا۔ اکھاڑے میں اترتا تو مجھے دیکھ کرتماشائی دیوانے ہو جاتے تھے۔ پورا گاؤں اللہ اکبرکے نعروں سے گونجنے لگتا۔ پھر قسمت کی خرابی، یہی خوبیاں عذاب بن گئیں۔ ہوا یوں کہ سترہ اٹھارہ برس کا سِن ہو گا۔ میری منگنی اپنی ایک خالہ کی بیٹی سے طے ہوئی تھی۔ اسی سال شادی کا ارادہ تھا۔ ایک دن کسی کام سے پاس کے گاؤں اسی خالہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ خالو کے ساتھ کھیتوں میں کچھ دیر ہو گئی۔ خالہ نے بڑا روکا کہ کل چلے جانا۔ مگر میں جوانی کے نشے میں مست تھا۔ دل میں کسی حیوان انسان کا ڈر نہ تھا۔ بس ایک موٹا سے ڈنڈا ہاتھ میں لیا اور واپس گھر کو روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک قدیم قبرستان پڑتا تھا۔ میں وقت بچانے کے لیے قبرستان کے اند ر سے ہو کر گزرنے لگا۔ چند بڑی پرانی قبروں کے بیچ میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک چکر سا آیا اور میں وہیں بے ہوش ہو کر گر گیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت حسین و جمیل عورت مجھ سے مخاطب ہے۔ کہتی ہے۔ چندن شاہ ۔ میں بلقیس ہوں۔ آج سے میں تیری اور تو میرا۔ میرا ساتھ چھوڑنے کی کوشش نہ کرنا۔ اور اس واقعے کا ذکر بھی کسی سے نہ کرنا۔ ورنہ نقصان اٹھائے گا۔ پھر وہ چلی گئی۔ میری آنکھ کھلی تو خود کو قبرستان سے باہر پڑا پایا۔ عجیب شش و پنج میں پڑ گیا۔ ہٹا کٹا آدمی۔ اچانک اس طرح بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ کیسے ممکن ہے۔ کیا یہ سب سچ تھا یا میرا وہم۔ پھر سوچتا ہوں کہ خواب تو وہم ہو سکتا ہے۔ مگر قبرستان کے باہر کیسے پہنچا؟ آس پاس کوئی بندہ، نہ بندے کی ذات۔ خیر کچھ بات سمجھ میں نہ آئی۔ اٹھ کر کپڑے جھاڑے اور گھر کو روانہ ہو گیا۔​
اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔ وہ روپ بدل بدل کر خواب میں آتی ۔ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ حسین۔ کہتی تھی کہ خالہ کی بیٹی سے منگنی توڑ ڈالوں۔ اور یہ کہ اگر شادی کی تو سوکن کی جان لے لوں گی۔ میں جاگتا تو اسے اپنے ذہن کی کارستانی سمجھ کر دل بہلا لیتا۔ پھر ایک رات عجیب بات ہوئی۔ وہ آئی اور کہنے لگی ۔ چندن شاہ۔ اگر اسی ہفتے تو نے اپنی منگنی ختم نہ کی۔ تو سوکن کی موت کا ذمہ دار تو خود ہو گا۔ یقین نہیں تو سویرے جا کر خالو کے کتے کا حال پوچھ لینا۔​
اگلے صبح میں دوستوں سے ملنے کا بہانہ بنا کر سویرے سویرے بھاری دل کے ساتھ خالہ کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ دو چار میل ہی کا تو کل فاصلہ تھا۔ تیز تیز چلتا گھنٹے آدھ گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا۔ سارا راستہ سوچتا رہا کہ کچھ نہیں ہو گا۔ سب میرا وہم ہے۔ مگریا قسمت یا نصیب۔ کیا دیکھتا ہوں کہ خا لودو چار لوگوں کے ساتھ گھر سے کچھ دور کھیت کے پاس کھڑے ہیں۔ سامنے ان کا پلا پلایا کتا زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے۔ منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک عجیب آواز منہ سے نکالتا ہے۔ میں ابھی وہیں کھڑا تھا کہ کتے نے چند بڑی بڑی سانسیں لیں اور پھر دم توڑ دیا۔ خالو سے پوچھا تو پتا چلا کہ صبح تک بالکل ٹھیک تھا۔ کچھ دیر پہلے اچانک ہی یہ حالت ہو گئی۔ خالو کو اپنے کتے سے بڑا پیار تھا۔ سب بڑے اداس ہوئے۔ مگر میری جو حالت تھی، صرف میں ہی جانتا تھا۔ اسی وقت دوستوں سے ملنے کا بہانہ کر کے آگے روانہ ہوگیا۔ اور ایک بڑا سا چکر کاٹ کر اسی قبرستان کی طرف آیا جہاں سے یہ مصیبت شروع ہوئی تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ کافی دیر انہی قبروں کے پاس ایک درخت کے سائے میں بیٹھا رہا۔ انتظار کرتا رہا کہ شاید کو ئی چیز سامنے آئے۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ آخر تھک ہار کر گھر کو روانہ ہو گیا۔ واپسی پر زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا محسوس ہوا کہ اندر سے بالکل کمزور ہو گیا ہوں۔ سارا دن بستر میں پڑا رہا۔ کھانا بھی نہ کھایا۔ شام تک جسم بخار میں تپ رہا تھا۔ نقاہت کے مارے اٹھا تک نہ جارہا تھا۔ انجانے خوف کے مارے سونے سے بچنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر نیند تو نیند ہے۔ آخر آنکھ لگ ہی گئی۔ دیکھتا ہوں کہ بلقیس اور میں کتے کی لاش کے پاس کھڑے ہیں۔ کہنے لگی، تم نے یقین نہ کیا۔ مجھے مجبوراً ایک بے زبان کی جان لینا پڑی۔ اب بھی اگر تم نے میری بات نہ مانی تو سوکن کی جان لے لوں گی۔ میری آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔ بخار اتر گیا تھا۔ مگر کمزوری اب بھی باقی تھی۔ آخر میں نے فیصلہ کر ہی لیا۔ گھر والوں سے کہہ دیا کہ خالہ کی بیٹی سے منگنی ختم کر دیں۔ گھر میں ایک ماتم سا مچ گیا۔ سب حیران کہ مجھے بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے۔ اگلے کئی دن تک مجھے سمجھانے کی کوشش ہوتی رہی۔ مگر جو واقعات میرے ساتھ ہو چکے تھے، ان کے بعد میرے لیے اپنا فیصلہ بدلنا ناممکن تھا۔ آخر گھر والوں کو سب کچھ خالہ خالو کو بتانا پڑا۔​
منگنی تو میں نے توڑ ڈالی، مگر میری اپنی زندگی بھی اجیرن ہو گئی۔ ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ سب مجھے بے غیرت کہنے لگے۔گلی سے گزرتے ہوئے بھی طعنے سننے کو ملتے ۔ یہ سب سن کر میرا خون کھولتا تھا۔ مگر جب ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہوں، تو انسان کس کس سے لڑے۔ یہ افواہیں بھی گردش میں تھیں، کہ میں کسی امیر زادی کے چکر میں پڑ گیا ہوں۔ ان طعنوں اور افواہوں سے تنگ آکر میں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ سوچ میں تھا کہ گھر چھوڑ کر کہیں اور نکل جاؤں۔ کہیں سے معلوم ہوا کہ انگریز فوج میں بھرتی جاری ہے۔ میں تو اپنی زندگی سے یونہی تنگ بیٹھا تھا۔ ایک دن کسی سے کہے سنے بغیر سویرے سویرے نکلا اور بھرتی کے لیے نام لکھوا آیا۔ کچھ دن بعد بلاوا آگیا۔ میں نے گھر والوں سے رخصت مانگی تو گھر میں ایک بار پھر صفِ ماتم بچھ گئی۔ ماں نے بڑے واسطے دیے۔ مگر میرا ارادہ اٹل تھا۔ اگلے دن سب کو روتا چھوڑ کر میں نئی نوکری کرنے نکل کھڑا ہوا۔ اگلے کئی سال تک بس ایک دو بار ہی گھر واپس گیا ہوں گا۔ ٹریننگ کے بعد دو چار سال ہی گزرے ہوں گے کہ دوسری جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ میں مختلف محاذوں پر لڑتا رہا۔ میری بہاردی کے قصے فوج میں مشہور تھے۔ آخر ایک دن ہماری کمپنی کو برما کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔​

(جاری ہے)
باباجی
 
پیش لفظ: محفل فورم پر آنے کے بعد سے اب تک میں نے دسیوں غزلیں اور رباعیات وغیرہ اپ لوڈ کی ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر کو ایک دو شرکاء سے زیادہ نے دیکھا تک نہیں ۔ دوسری طرف میری مزاحیہ تحریروں، فی البدیہہ شاعری اور ایک مختصر آب بیتی نے خوب توجہ حاصل کی۔ اس سے میں دو ہی نتائج اخذ کر سکتا ہوں۔ یا میرا اصل کام (یعنی شاعری) ہی ضرورت سے زیادہ اولڈ فیشنڈ اور نا قابلِ فہم ہے ۔ یا پھر پڑھنے والے - --- ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو۔ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ مزید اشعار پیش کرنا اگر کارِگناہ نہیں تو کارِ ثواب بھی نہیں۔ مگر ایک مصیبت یہ بھی کہ اب منہ کو خون لگ چکا ہے۔ اگر دن میں ایک آدھ بار محفل میں کوئی نئی چیز پیش نہ کروں تو لگتا ہے کوئی اہم کام ہونے سے رہ گیا ہے۔ سو اس پریشانی کا ایک ہی حل ہے کہ اپنی تمثیلِ زندگانی (داستانِ حیات کے لیے یہ ترکیب چند دن پہلے ہی گڑھی تھی) کو ہی بالاقساط بیان کرنا شروع کر دوں۔ اسی بہانے شوق کی تسکین بھی ہو جائے گی اور محفلین سے بات کرنے کا بہانہ بھی ہوجائے گا۔ ع:

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے​
داستان چونکہ عمر بھر کے قصوں پر مشتمل ہے، تو طویل بھی ہو گی۔ اسی لیے چند دن یا ہفتے میں تو بیان ہونے سے رہی۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ محفلین کہاں تک لطف اٹھاتے ہیں۔ اگر دلچسپی برقرار رہی، تو بشرطِ زندگی، یہ سلسہ سالہاسال تک بھی چل سکتا ہے۔ دوسری صورت میں جہاں دلچسپی ختم ہوئی ،وہیں اس سلسلے کو موقوف کر دیں گے! مزید یہ کہ یہ کوئی ناول تو ہے نہیں کہ کسی خاص ترتیب میں بیان کیا جائے۔ جیسے جیسے واقعات اورکردار یاد آتے چلے جائیں گے، ویسے ویسے لکھتا چلا جاؤں گا۔​
قارئین کی آسانی کے لیے، اس تمثیلِ زندگانی کو اپنے نئے نویلے اردو بلاگ پر بھی بالاقساط شائع کرتا رہوں گا۔ تا کہ ہر کوئی اپنی اپنی سہولت کے مطابق پڑھتا رہے۔ وہاں شائع کرنےسے کہانی مربوط انداز میں پڑھنا کچھ آسان رہے گا۔ یہاں کا فائدہ یہ کہ آسانی سے باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ سو جسے جہاں آسان لگے۔​
آغاز: اب یہاں سے ابتدا کرتے ہیں ایک طویل کہانی کی، جس میں پلاٹ تو نہیں، مگر قصے بہت ہیں۔ ہیرو اور ولن کوئی نہیں۔ مگر کردار بہت ہیں۔ اور کچھ تو سچ مچ مزیدار بھی۔ یہ کہانی سو فیصد آپ بیتی نہیں کیونکہ چند عملی مجبوریوں کے تحت مجھے کافی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ بس یوں سمجھیے کہ حقیقی زندگی کے کچھ واقعات اور کرداروں کو میں نے اپنے تخیل کے رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔ دوسری طرف یہ خالص فکشن بھی نہیں۔ اندریں حالات، بہتر یہی ہو گا کہ آپ اسے آپ بیتی کی بجائے کہانی سمجھ کر پڑھیں۔ مگر ایسی کہانی جس کے کردار حقیقی زندگی کے عام لوگ ہیں، کسی ناول یا داستان کے نہیں۔​
مزید یہ کہ چونکہ یہ قصے ہیں مجھ جیسے عام لوگوں کی عام باتوں کے، تو اسے ایک مزاحیہ تحریر سمجھ کر پڑھنے والوں کو شاید مایوسی ہو گی۔ میں اپنی زندگی میں کبھی مزاح نگار نہیں رہا۔ نہ آئندہ ہی بننے کا کوئی ارادہ یا امکان ہے۔ اس قصے سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، جو اپنے آس پاس پھرتے عام لوگوں کی عام باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہنسی اور قہقہے ہوں گے تو ضرور مگر اتنے ہی جتنے عام زندگی میں ہوتے ہیں۔ یہ مزاحیہ ڈرامہ ہرگز نہیں۔​
تمہید لمبی ہو گئی۔ اب شروع کرتے ہیں قصہءِ ہزار درویش۔​
کچھ باتیں بزرگوں کی(پہلا حصہ)
میرا بچپن طرح طرح کے بزرگوں کے بیچ روتے کھیلتے گزرا۔ محاورے کے مطابق ہنستے کھیلتے اس لیے نہیں لکھ سکتا، کہ اتنے بزرگوں کے بیچ دل کھول کر ہنسنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کھیلنے سے البتہ کوئی بزرگ کبھی کسی بچے کو نہیں روک سکتا۔ تو بات ہو رہی تھی بزرگوں کی۔ ان میں سے کچھ بزرگ تو ایسے تھے جو خود کو سچ مچ والا بزرگ سمجھتے، کہتے اور کہلواتے تھے۔ اب ظاہر ہے بڑوں اور باقی بزرگوں پر تو ان بزرگوں کا بھی زور نہیں چلتا تھا، سو کہلوانے والی تمنا وہ ہم غریب بچوں سے پوری کرواتے تھے۔ سب سے پہلے بزرگ تو میرے نانا مرحوم تھے۔ مگر ان کا ذکر میں سب سے آخر میں کروں گا کہ طولانی بھی ہے اور ہزار جہتی بھی۔ پہلے ذکر ہو جائے ان کے دوستوں، ہمسائے میں رہنے والے بزرگوں اور دیگر صاحبان کا۔​
میرے نانا کے چند قریب ترین دوستوں میں سے ایک ایسے بزرگ تھے جو سچ مچ کے بزرگ بھی مشہور تھے۔ وہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد محکمہ زراعت میں بھی برسوں تک نوکری کر کے ریٹائر ہو چکے تھے۔ عمر ستر سے متجاوز ہو گی۔ کئی لوگ کہتے تھے کہ سو سے اوپر کے ہو چکے ہیں۔ مگر خود کو ستراسی سال کا بتاتے تھے۔ یہی درست بھی معلوم ہوتا تھا۔وہ خودکو چَندن شاہ (چ پر زبر) کہتے اور لوگ انھیں چاچا چِندن شاہ (چ پرزیر ) کے نام سے پکارتے۔ اس تفاوت کا سبب مجھے نہیں معلوم۔ یہاں سے آگے ان کا نام جہاں کہیں بھی آئے تو اسے ، حسبِ روایاتِ اہلِ بابو محلہ و عزیز آباد ، تحصیل ثم ضلع، مستونگ، چِندن شاہ(بالکسرہ) ہی پڑھا جائے۔​
چاچا چِندن شاہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک جنگل نما احاطے کے بیچ میں واقع محکمہ زراعت کی دی ہوئی ایک کوٹھڑی میں رہائش پذیر تھے۔ محکمے کے کسی ملازم نے کبھی اعتراض کیا نہ شکایت۔ ویسے بھی کسی کو تنگ کر کے روحانی خوشی حاصل کرنے کا زمانہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ کوئی انھیں دعا کی لیے کہتا تو ہرے رنگ کے موٹی سوتی دھاگے پر کچھ پڑھ کر پھونکتے جاتے اور اس پر گرہ لگاتے جاتے۔ سات گرہیں پوری کر کے دھاگے کو گلے میں یا کلائی پر باندھنے کو کہتے۔ ہم بھائیوں بہنوں کا بچپن یہی ہری ہری چوڑیاں اور ہار پہنے ہوئے گزرا۔​
بچپن میں نانا سے ان کی رفاقت کے سبب ہمارا کبھی کبھار ان کی کوٹھڑی میں جانا بن جاتا تھا۔ عجیب طلسماتی جگہ تھی۔ ہر وقت اگر بتیوں اور لوبان وغیرہ کا دھواں اور خوشبو پھیلی ہوتی ۔ ایک کونے میں چندخالی بوتلیں پڑی ہوتی تھیں، جن میں سے کچھ کے منہ کارک لگا کر بند کیے ہوتے۔ کہا جاتا تھا کہ ان بوتلوں میں چاچا نے جن بند کیے ہوئے ہیں۔ کسی ہمزاد کا ذکر بھی سنا تھا۔ ان کے قابو میں بتائے گئے جنات اور بھوتوں وغیر ہ کے نام بھی بتائے جاتے تھے۔ کبیر جن ، بلقیس جننی اور شکنتلا بھوتنی کے نام اپنی خاص اہمیت اور بار بار کے تذکرے کے سبب اب بھی میرے حافظے میں موجود ہیں۔ تفصیل ان مخلوقات کی آ گے آ ئے گی۔​
سچ یہی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ نہ دیکھا۔ مگر لوگ، جن میں میرے نانا اور والدہ بھی شامل تھے، ان کی کرامات سے متعلق طرح طرح کے واقعات بیان کرتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ ہم بچوں کی لکھائی میں استعمال ہونے والی قلموں سے متعلق ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چاچا کی کوٹھڑی کے آس پاس احاطے میں جا بجا سر کنڈے لگے ہوئے تھے۔ میری والدہ کے بقول ایک مرتبہ انھوں نے چاچا سے کہا کہ بچوں کے لیے کچھ خشک سرکنڈے بھجوا دیں تا کہ تختیوں پر لکھنے کے لیے قلمیں بنائی جا سکیں۔ اگلی صبح دیکھا تو تیار قلموں کا ایک پورا پیکٹ کمرے میں آتش دان کے اوپر بنے شیلف پر پڑا ہوا پایا! بس یہ اور اس قسم کے دوسرے واقعات تھے جنھیں سن کر میرے ذہن میں یہی تصور تھا کہ چاچا انسان کی شکل میں دراصل کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں۔​
ان کی کوٹھڑی میں بے تحاشا کتابیں بھی کچھ ترتیب سے اور کچھ بے ترتیب ، کم و بیش ہر کونے میں نظر آ تیں۔ ابنِ صفی کے ناولوں کے نہایت شوقین تھے۔ اس کے علاوہ قدیم زمانے کے رسالوں کے بھی ڈھیر لگے ہوتے۔ ایک مرتبہ جانے کس موڈ میں تھے کہ ۱۹۳۷ ء کا عالمگیر رسالہ(نہایت خستہ حالت میں) میری والدہ کو تحفے میں دیا۔ وہ والدہ سے ہوتا ہوا میرے پاس پہنچا اور آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اوپر سالگرہ نمبر درج ہے۔ بزرگوں سے پتا چلا کہ کسی زمانے میں نہایت مقبول ہوا کرتا تھا ۔ خیر بات ہو رہی تھی چاچا کی کتابوں اور کہانیوں سے رغبت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں پڑھ پڑھ کر چاچا خود بھی ایک بہت بڑے داستان گو بن گئے تھے۔ اپنی زندگی کے واقعات بھی اس طرح بیان کرتے جس پر داستان کا گمان گزرتا تھا۔ ان کی بیان کی گئی اکثر باتیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ چاچا کی زندگی کے واقعات جو انھوں نے سالہا سال کی نشستوں میں سنائے ہوں گے، انھیں کی زبانی آپ تک پہنچاؤں۔​
(جاری ہے)​
غمِ روزگار سے فراغت کے چند لمحے نصیب ہوئے تو داستان کا پہلا حصہ پڑھا :)
آپ کا انداز بیان بہت سادہ اس دلکش ہے
۱۹۳۷ ء کا طبع کیا ہوا رسالہ آپ کے پاس موجود ہے میرے خیال میں یہ ایک بہت قیمتی چیز ہے منا سب ہو گا اس کو سکین کر کے ادھر پوسٹ کر یں تا کہ دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
غمِ روزگار سے فراغت کے چند لمحے نصیب ہوئے تو داستان کا پہلا حصہ پڑھا :)
آپ کا انداز بیان بہت سادہ اس دلکش ہے
۱۹۳۷ ء کا طبع کیا ہوا رسالہ آپ کے پاس موجود ہے میرے خیال میں یہ ایک بہت قیمتی چیز ہے منا سب ہو گا اس کو سکین کر کے ادھر پوسٹ کر یں تا کہ دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں

پسندیدگی کا شکریہ۔
سکینر نہیں رکھا ہوا۔ جس دن بازار گیا لا کر آپ کا حکم پورا کروں گا۔ اسی دوران دوسری قسط بھی چھپ چکی ہے۔ وہ بھی پڑھیے۔
 
یہاں سے آگے بڑھاتے ہیں چاچا چندن شاہ کی کہانی، ان کی اپنی زبانی:

چاچا چندن شاہ کی کہانی، ان کی اپنی زبانی
میں جوانی میں بڑا وجیہہ اور طاقتور ہوا کرتا تھا۔ نکلتا ہوا قد اوردمکتا ہوا چہرہ۔ پہلوانی کا بھی شوق تھا۔ اکھاڑے میں اترتا تو مجھے دیکھ کرتماشائی دیوانے ہو جاتے تھے۔ پورا گاؤں اللہ اکبرکے نعروں سے گونجنے لگتا۔ پھر قسمت کی خرابی، یہی خوبیاں عذاب بن گئیں۔ ہوا یوں کہ سترہ اٹھارہ برس کا سِن ہو گا۔ میری منگنی اپنی ایک خالہ کی بیٹی سے طے ہوئی تھی۔ اسی سال شادی کا ارادہ تھا۔ ایک دن کسی کام سے پاس کے گاؤں اسی خالہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ خالو کے ساتھ کھیتوں میں کچھ دیر ہو گئی۔ خالہ نے بڑا روکا کہ کل چلے جانا۔ مگر میں جوانی کے نشے میں مست تھا۔ دل میں کسی حیوان انسان کا ڈر نہ تھا۔ بس ایک موٹا سے ڈنڈا ہاتھ میں لیا اور واپس گھر کو روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک قدیم قبرستان پڑتا تھا۔ میں وقت بچانے کے لیے قبرستان کے اند ر سے ہو کر گزرنے لگا۔ چند بڑی پرانی قبروں کے بیچ میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک چکر سا آیا اور میں وہیں بے ہوش ہو کر گر گیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت حسین و جمیل عورت مجھ سے مخاطب ہے۔ کہتی ہے۔ چندن شاہ ۔ میں بلقیس ہوں۔ آج سے میں تیری اور تو میرا۔ میرا ساتھ چھوڑنے کی کوشش نہ کرنا۔ اور اس واقعے کا ذکر بھی کسی سے نہ کرنا۔ ورنہ نقصان اٹھائے گا۔ پھر وہ چلی گئی۔ میری آنکھ کھلی تو خود کو قبرستان سے باہر پڑا پایا۔ عجیب شش و پنج میں پڑ گیا۔ ہٹا کٹا آدمی۔ اچانک اس طرح بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ کیسے ممکن ہے۔ کیا یہ سب سچ تھا یا میرا وہم۔ پھر سوچتا ہوں کہ خواب تو وہم ہو سکتا ہے۔ مگر قبرستان کے باہر کیسے پہنچا؟ آس پاس کوئی بندہ، نہ بندے کی ذات۔ خیر کچھ بات سمجھ میں نہ آئی۔ اٹھ کر کپڑے جھاڑے اور گھر کو روانہ ہو گیا۔​
اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔ وہ روپ بدل بدل کر خواب میں آتی ۔ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ حسین۔ کہتی تھی کہ خالہ کی بیٹی سے منگنی توڑ ڈالوں۔ اور یہ کہ اگر شادی کی تو سوکن کی جان لے لوں گی۔ میں جاگتا تو اسے اپنے ذہن کی کارستانی سمجھ کر دل بہلا لیتا۔ پھر ایک رات عجیب بات ہوئی۔ وہ آئی اور کہنے لگی ۔ چندن شاہ۔ اگر اسی ہفتے تو نے اپنی منگنی ختم نہ کی۔ تو سوکن کی موت کا ذمہ دار تو خود ہو گا۔ یقین نہیں تو سویرے جا کر خالو کے کتے کا حال پوچھ لینا۔​
اگلے صبح میں دوستوں سے ملنے کا بہانہ بنا کر سویرے سویرے بھاری دل کے ساتھ خالہ کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ دو چار میل ہی کا تو کل فاصلہ تھا۔ تیز تیز چلتا گھنٹے آدھ گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا۔ سارا راستہ سوچتا رہا کہ کچھ نہیں ہو گا۔ سب میرا وہم ہے۔ مگریا قسمت یا نصیب۔ کیا دیکھتا ہوں کہ خا لودو چار لوگوں کے ساتھ گھر سے کچھ دور کھیت کے پاس کھڑے ہیں۔ سامنے ان کا پلا پلایا کتا زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے۔ منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک عجیب آواز منہ سے نکالتا ہے۔ میں ابھی وہیں کھڑا تھا کہ کتے نے چند بڑی بڑی سانسیں لیں اور پھر دم توڑ دیا۔ خالو سے پوچھا تو پتا چلا کہ صبح تک بالکل ٹھیک تھا۔ کچھ دیر پہلے اچانک ہی یہ حالت ہو گئی۔ خالو کو اپنے کتے سے بڑا پیار تھا۔ سب بڑے اداس ہوئے۔ مگر میری جو حالت تھی، صرف میں ہی جانتا تھا۔ اسی وقت دوستوں سے ملنے کا بہانہ کر کے آگے روانہ ہوگیا۔ اور ایک بڑا سا چکر کاٹ کر اسی قبرستان کی طرف آیا جہاں سے یہ مصیبت شروع ہوئی تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ کافی دیر انہی قبروں کے پاس ایک درخت کے سائے میں بیٹھا رہا۔ انتظار کرتا رہا کہ شاید کو ئی چیز سامنے آئے۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ آخر تھک ہار کر گھر کو روانہ ہو گیا۔ واپسی پر زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا محسوس ہوا کہ اندر سے بالکل کمزور ہو گیا ہوں۔ سارا دن بستر میں پڑا رہا۔ کھانا بھی نہ کھایا۔ شام تک جسم بخار میں تپ رہا تھا۔ نقاہت کے مارے اٹھا تک نہ جارہا تھا۔ انجانے خوف کے مارے سونے سے بچنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر نیند تو نیند ہے۔ آخر آنکھ لگ ہی گئی۔ دیکھتا ہوں کہ بلقیس اور میں کتے کی لاش کے پاس کھڑے ہیں۔ کہنے لگی، تم نے یقین نہ کیا۔ مجھے مجبوراً ایک بے زبان کی جان لینا پڑی۔ اب بھی اگر تم نے میری بات نہ مانی تو سوکن کی جان لے لوں گی۔ میری آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔ بخار اتر گیا تھا۔ مگر کمزوری اب بھی باقی تھی۔ آخر میں نے فیصلہ کر ہی لیا۔ گھر والوں سے کہہ دیا کہ خالہ کی بیٹی سے منگنی ختم کر دیں۔ گھر میں ایک ماتم سا مچ گیا۔ سب حیران کہ مجھے بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے۔ اگلے کئی دن تک مجھے سمجھانے کی کوشش ہوتی رہی۔ مگر جو واقعات میرے ساتھ ہو چکے تھے، ان کے بعد میرے لیے اپنا فیصلہ بدلنا ناممکن تھا۔ آخر گھر والوں کو سب کچھ خالہ خالو کو بتانا پڑا۔​
منگنی تو میں نے توڑ ڈالی، مگر میری اپنی زندگی بھی اجیرن ہو گئی۔ ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ سب مجھے بے غیرت کہنے لگے۔گلی سے گزرتے ہوئے بھی طعنے سننے کو ملتے ۔ یہ سب سن کر میرا خون کھولتا تھا۔ مگر جب ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہوں، تو انسان کس کس سے لڑے۔ یہ افواہیں بھی گردش میں تھیں، کہ میں کسی امیر زادی کے چکر میں پڑ گیا ہوں۔ ان طعنوں اور افواہوں سے تنگ آکر میں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ سوچ میں تھا کہ گھر چھوڑ کر کہیں اور نکل جاؤں۔ کہیں سے معلوم ہوا کہ انگریز فوج میں بھرتی جاری ہے۔ میں تو اپنی زندگی سے یونہی تنگ بیٹھا تھا۔ ایک دن کسی سے کہے سنے بغیر سویرے سویرے نکلا اور بھرتی کے لیے نام لکھوا آیا۔ کچھ دن بعد بلاوا آگیا۔ میں نے گھر والوں سے رخصت مانگی تو گھر میں ایک بار پھر صفِ ماتم بچھ گئی۔ ماں نے بڑے واسطے دیے۔ مگر میرا ارادہ اٹل تھا۔ اگلے دن سب کو روتا چھوڑ کر میں نئی نوکری کرنے نکل کھڑا ہوا۔ اگلے کئی سال تک بس ایک دو بار ہی گھر واپس گیا ہوں گا۔ ٹریننگ کے بعد دو چار سال ہی گزرے ہوں گے کہ دوسری جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ میں مختلف محاذوں پر لڑتا رہا۔ میری بہاردی کے قصے فوج میں مشہور تھے۔ آخر ایک دن ہماری کمپنی کو برما کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔​

(جاری ہے)
باباجی
بہت دلچسپ داستان اگلی قسط کا شدت سے انتطار رہے گا
عجیب اتفاق ہے میرے دادا بھی دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر ڈیوٹی دے چکے ہیں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت دلچسپ داستان اگلی قسط کا شدت سے انتطار رہے گا
عجیب اتفاق ہے میرے دادا بھی دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر ڈیوٹی دے چکے ہیں
انھوں نے کوئی قصے نہ سنائے؟ ویسے چاچا چندن شاہ جیسے دلچسپ لوگ کم کم ہی ہوتے ہیں۔ آگے آپ دیکھیں گے ان کی مزید باتیں۔ میرے ایک رشتے کے نانا بھی دوسری جنگِ عظیم میں لڑے تھے۔ ان کی کہانیاں بھی بڑی مزیدار ہیں۔ وہ بھی سناؤں گا۔
 
انھوں نے کوئی قصے نہ سنائے؟ ویسے چاچا چندن شاہ جیسے دلچسپ لوگ کم کم ہی لوتے ہیں۔ آگے آپ دیکھیں گے ان کی مزید باتیں۔ میرے ایک رشتے کے نانا بھی دوسری جنگِ عظیم میں لڑے تھے۔ ان کی کہانیاں بھی بڑی مزیدار ہیں۔ وہ بھی سناؤں گا۔
افسوس میرے دادا میری پیدائش کے صرف 2 سال بعد وفات پا گئے میں نے دادا کی شفقت نہیں دیکھی
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت خوب کاشف عمران بھائی
بہت لطف آرہا ہے پڑھ کر
ہر قسط لکھنے کے بعد مجھے ٹیگ ضرور کیا کریں میں کوئی قسط miss نہیں کرنا چاہتا
جی ضرور۔ صرف آپ ہی فی الحال "ٹیگ لسٹ" پر ہیں!

ویسے آج سے اس کہانی کو اپنے بلاگ پر بھی ڈال دوں گا، نئی کیٹگری بنا کر۔ تا کہ کوئی اگر ربط میں یا مکرر پڑھنا چاہے تو آسانی رہے۔ دلچسپی نہ رکھنے والوں کو اس دھاگے کی نگرانی سے بھی خلاصہ مل جائے گا۔ وہیں نوک پلک بھی سنوارتا رہوں گا۔ خارج از امکان نہیں، کہ ادبی اہمیت کی کوئی کہانی ہی بن جائے!!
 
Top