نیرنگ خیال
لائبریرین
اس دھاگے میں کاہلی پر اشعار پیش کیے جائیں گے۔ تمام آلکسیوں سے حسب توفیق حصہ ملانے کی درخواست ہے۔۔۔۔
پہلے پہل کاہلی کا تذکرہ اساتذہ کی زباں سے۔۔۔
میر تقی میر۔۔۔ موضوع کے لحاظ سے تھکی تھکی میر نہ پڑھا جائے۔۔۔ اپنی مثنوی شکار نامہ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔
اس کے بعد غالب کا ذکر ہی بنتا ہے۔۔۔۔ او ریہ ممکن نہیں کہ غالب نے کاہلی کا ذکر نہ کیا ہو۔۔۔
اب جو اسماعیل میرٹھی نے کاہلی کی یوں تعریفیں دیکھیں۔ تو پتا نہیں پرانے بزرگوں کی طرح کیا سوجھی۔ فورا پکارے۔۔۔۔
انور شعور بلاشبہ ان چند زیرک شعرا میں سے تھے جو جانتے تھے کہ کاہلی اور آلکسی ایک بار امانت ہے۔ اور کس و ناکس اس کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کسی اور ترنگ میں کہا کہ
عہد حاضر کے محققین کیسے اس موضوع سے آنکھیں پھیر سکتے تھے۔ سو احمد جاوید صاحب نے بھی فی زمانہ رائج کاہلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ
مزاحیہ شاعر اس قیمتی موضوع کو کیسے خالی جانے دے سکتے تھے۔ سو احمق پھپھوندی نے بھی اندرونی کاہلی اور خون کی گردش کے حسین تضاد پر روشنی ڈالی۔۔۔۔ (شاید شاعر کہنا چاہتا ہے کہ آلکسی کا خون بھی منجمد ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم)
پہلے پہل کاہلی کا تذکرہ اساتذہ کی زباں سے۔۔۔
میر تقی میر۔۔۔ موضوع کے لحاظ سے تھکی تھکی میر نہ پڑھا جائے۔۔۔ اپنی مثنوی شکار نامہ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔
میری بھی خاطر نشاں کچھ تو کیا چاہیے
میؔر نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے
(مثنوی)
میؔر نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے
(مثنوی)
اس کے بعد غالب کا ذکر ہی بنتا ہے۔۔۔۔ او ریہ ممکن نہیں کہ غالب نے کاہلی کا ذکر نہ کیا ہو۔۔۔
کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے
پر افشاں ہوگئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ اپنی کاہلی سے
(غیر مطبوعہ)
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے
پر افشاں ہوگئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ اپنی کاہلی سے
(غیر مطبوعہ)
اب جو اسماعیل میرٹھی نے کاہلی کی یوں تعریفیں دیکھیں۔ تو پتا نہیں پرانے بزرگوں کی طرح کیا سوجھی۔ فورا پکارے۔۔۔۔
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
صبح کی آمد (نظم)
اسماعیل میرٹھی کی پکار انور شعور پر کافی گراں گزری۔ پہلے پہل تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوں گی۔ مگر آخر بےبس ہو کر اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہنے لگے۔اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
صبح کی آمد (نظم)
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
غزل
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
غزل
انور شعور بلاشبہ ان چند زیرک شعرا میں سے تھے جو جانتے تھے کہ کاہلی اور آلکسی ایک بار امانت ہے۔ اور کس و ناکس اس کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کسی اور ترنگ میں کہا کہ
تساہل ایک مشکل لفظ ہے اس لفظ کےمعنی
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں
عہد حاضر کے محققین کیسے اس موضوع سے آنکھیں پھیر سکتے تھے۔ سو احمد جاوید صاحب نے بھی فی زمانہ رائج کاہلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ
وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا
مزاحیہ شاعر اس قیمتی موضوع کو کیسے خالی جانے دے سکتے تھے۔ سو احمق پھپھوندی نے بھی اندرونی کاہلی اور خون کی گردش کے حسین تضاد پر روشنی ڈالی۔۔۔۔ (شاید شاعر کہنا چاہتا ہے کہ آلکسی کا خون بھی منجمد ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم)
نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا
یوں تو یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ ہر شاعر کو اس پر لازماً شعر کیا پورا پورا دیوان کہنا چاہیے۔ تاہم اکثریت ایسی آلکس تھی / ہے کہ انہوں نے اس پر بھی شعر نہ کہا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ بوجہ سستی۔
آخری تدوین: