عبد الرحمن
لائبریرین
کے جی میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کرکے بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ جب ہم کلاس وَن میں منتقل ہوئے تو اس کے کوئی ہفتہ بھر بعد ہی ہم ننھی منی مچھلیوں کے تالاب میں "جمال بیگ" نامی ایک مگر مچھ نے اپنی پوری وحشت اور دہشت کے ساتھ چھلانگ لگائی۔ جمال نہ صرف جسامت، بلکہ قد کاٹھ اور چہرے مہرے کے دبدبے کے اعتبار سے بھی ہم سے کئی گنا آگے تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ پہلے ہی دن جمال کو کلاس ٹیچر نے ہمارے ساتھ بٹھا دیا کہ تاخیر سے ایڈمیشن لینے والے طلبہ کو مانیٹر کی رہنمائی کی قدم بہ قدم ضرورت پڑتی ہے۔ جمال کو اگر اپنے نام کی عملی تفسیر کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔
اس بات پر مجھے آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ جمال نے اپنے پر پرزے پہلے ہی دن سے نکالنا شروع کردیئے تھے۔ حالاں کہ کلاس کے پہلے دن بڑے سے بڑا لفنگا طالب علم بھی کچھ رکھ رکھاؤ اور مروت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن جمال۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے میں اور میرے آس پاس بیٹھے سارے یار دوست ایک ہی دن میں بری طرح زچ ہوگئے تھے اور ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں اس نے کلاس کے پچاس طلبہ کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا۔ لیکن چوں کہ ہم سب سنگل پسلی تھے اور سارے مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے جھلانے اور چلانے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکے۔
جمال کبھی کسی کا گریبان پکڑلیتا، کبھی کسی کا لنچ باکس گول کردیتا، کبھی بے مقصد ہاتھا پائی پر اتر آتا، کبھی کسی کا ربڑ پنسل غائب کردیتا۔۔۔۔ غرض جو دل چاہتا کرکے دکھاتا۔ ہم سب سے اور تو کچھ نہ ہو پاتا تھا بس دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے یہ کیا کہ اس کا نام "جمال بیگ" سے "لال بیگ" کردیا اور پھر اس کی غیر حاضری میں اسے اسی نام سے یاد کرنے لگے۔
ایک مرتبہ جمال نے بریک کے دوران "کائنات" کو چھیڑدیا۔ کائنات کو آپ میری کل کائنات بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ کلاس کی جونیئر مانیٹر تھی جو میرے ماتحت کام کرتی تھی اور گرلز سیکشن کو لیڈ کرتی تھی۔ جھگڑا غالبا انگلش کی کاپی پر ہوا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جمال پچھلے ایک ہفتے سے بخار کے باعث اسکول سے غیر حاضر رہا۔ یہ ایک ہفتہ ہمارے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ ہم روزانہ ہی کچھ اس انداز سے جشن مناتے جیسے جمال نے ہمیشہ کے لیے اسکول کو خیرباد کہہ دیا ہو۔ اس بات سے یکسر چشم پوشی کیے ہوئے کہ کچھ ہی دنوں میں وہ بلا پھر سے ہم پر نازل ہونے والی ہے۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔۔۔۔۔۔
جب ایک ہفتے بعد جمال پھر کلاس میں آ دھمکا تو ہماری ساری خوشی پل بھر میں کافور ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اسے پہلی بار کچھ خاموش خاموش سا پایا۔ شاید بیماری کی وجہ سے۔ مگر نجانے کیوں ہماری چھٹی حس ہمیں بار بار خبردار کر رہی تھی کہ یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اور ہماری یہ پیش گوئی اُس وقت بالکل درست قرار پائی گئی جب بریک میں جمال نے اپنا ایک ہفتے کا ہوم ورک کور اپ کرنے کے لیے کائنات سے انگلش کی کاپی مانگی اور کائنات نے اسے دو ٹوک انکار کردیا تو جمال بجائے اس کے کہ منت سماجت، لجاحت اور ڈپلومیسی سے کام لیتا اس نے یک دم یہ کہتے ہوئے اس کی کاپی پر جھپٹا مارا کہ اگر یہ کاپی میری نہیں تو کسی کی نہیں۔
آنا فانا کائنات کی آنکھیں بھر آئیں اور ہونٹ بری طرح کپکپانے لگے۔ اس کے منہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی تالا سا لگ گیا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی، کچھ بتانا چاہ رہی تھی، کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی لیکن لبوں کی تھرکن اسے بے بس کیے دے رہی تھی۔ سب جانتے تھے کہ کائنات اپنی کتابوں کی اپنے سے زیادہ حفاظت کرتی تھی۔ ذرا بھی پینسل کا کوئی ایکسٹرا نشان دیکھ لیتی تو مچل مچل جاتی۔ اور یہاں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بدلتے ہوئے منظر نے مجھے اپنے آپے سے باہر کردیا اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جمال کو گریبان سے پکڑ کر اس زور سے دھکا دیا کہ وہ تیزی سے پیچھے لڑھکتا ہوا ڈسٹ بن سے جا ٹکڑایا اور لمبا لیٹ ہوگیا۔ کچھ کوڑا کرکٹ بھی اس کے سر پر آگرا۔ اگر عین موقع پر ڈسٹ بن کا سہارا نہ ملتا تو یقینا اس کا سر دیوار سے ٹکرا جاتا۔
حالات کے اس اچانک تغیر پر وہاں کھڑے سب بچوں کو سانپ سونگھ گیا۔ میں نے وہ کر دکھایا تھا جس کو محض سوچنا بھی سب پر لرزاں طاری کردیتا تھا۔ کائنات کو رونا بھول گیا تھا اور سب مجھے ہونقوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔ حتی کہ جمال، جس سے میں کسی جوابی کاروائی کی فوری توقع کررہا تھا وہ بھی اسی پوزیشن میں دیوار سے چپکا مجھے حیران کن نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ جمال کی حکومت کا سورج تو اسی وقت غروب ہوگیا۔ لیکن اس دن دنیا نے میرا ایک نیا روپ دیکھا اور میں رحمٰن سے ریمبو بن کر سامنے آیا۔ اب مجھے "اقوال زرین" کی کتاب میں پڑھی اس بات میں رتی برابر بھی شبہ نہیں رہا تھا کہ ہر کامیاب "مرد" کے پیچھے ایک "عورت" کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس دن اگر اپنی کائنات کی آنکھوں میں موتی جھلملاتے نہ دیکھتا تو میرے اندر کا وہ طوفانی و جولانی پہلو کبھی بھی اجاگر نہ ہوتا۔ میرے اس یوٹرن میں میری کائنات کا بہت بڑا کردار تھا۔ جمال اس دن سے گوشہء گمنامی میں چلا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہزاروں پر مشتمل کالی بکڑیوں کے ریوڑ میں ایک سفید بکری اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔
جمال کا باب تو یہاں بند ہوا لیکن یہیں سے ہماری کہانی کا آغاز ہوا۔ یہ بات بغیر کہے سنے سب جانتے تھے کہ میرے ناتواں کندھوں میں اچانک بجلی کی لہریں کوند جانے کی وجہ وہ گستاخی تھی جو جمال کے ہاتھوں کائنات کی شان میں سرزد ہوئی تھی۔ اس روز کے کامیاب وار کے بعد مجھ میں خود اعتمادی کی نئی کرنیں پھوٹی تھیں۔ پہلے کائنات کو مجھ سے انتظامی معاملات میں یا دیگر امور پر مشاورت کرنے میں ازخود پیش قدمی کرنی پڑتی تھی۔ کیوں کہ میں کبھی اس سے بات کرنے میں پہل کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔ اور میری اس عادت سے میں نے اس کے لہجے میں واضح طور پر شکایت محسوس کی تھی۔ مگر اب مجھ میں اتنی جرات بدرجہ اتم پیدا ہوگئی تھی کہ بے خوف و خطر اس کی جانب پہلا قدم خود اٹھا سکوں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں آگ دونوں طرف برابر تو لگتی تھی مگر اس طرح کہ دونوں پلڑے کبھی بھی برابر نہ ہوسکے۔ جب میں بات کرنے سے کتراتا تھا تو وہ میری کم گوئی پر شدید بے زار ہوتی تھی۔ جب میں بڑھ چڑھ کر بات کرنے لگا تو وہ ہوں ہاں سے آگے بڑھنے پر تیار ہی نہ ہوتی تھی۔
یہ سائنس میری ننھی سی سمجھ دانی سے بالا تھی اور کئی دنوں کی کشاکش کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کھل کر اس سے اس بارے بات کروں۔ ایک روز اپنے اسی ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے میں اس کی سیٹ پر اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ کلاس ٹیچر کے کمرے میں اٹینڈنس رپورٹ کرنے گئی ہوئی تھی۔ قبل اس کے کہ وہ لوٹتی، اس کی ڈیسک پر پڑی کاپی کا گتہ ایک تیز ہوا کے جھونکے سے کھلا اور جو صفحہ میرے سامنے آیا اسے پڑھ کر میرے پس منظر میں بیک وقت کئی سارے دھماکے ہوئے جس نے میری ابھرتی ہوئی لڑاکا صلاحیتوں کو ہمیشہ کے لیے سلب کرلیا۔
"کیا ہوجاتا اگر وہ ڈیڑھ فٹیا کباب میں ہڈی نہ بنتا۔ ایک کاپی کے ذرا سے نقصان سے اگر وہ میری طرف ملتفت ہوسکتا تھا تو میں ایسی ہزاروں کاپیاں اس پر قربان کرنے کو تیار تھی۔ لیکن ناس ہو اس کمین شخص کا جس نے دو غنچوں کے کھلنے سے پہلے ہی انہیں مرجھادیا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات پر مجھے آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ جمال نے اپنے پر پرزے پہلے ہی دن سے نکالنا شروع کردیئے تھے۔ حالاں کہ کلاس کے پہلے دن بڑے سے بڑا لفنگا طالب علم بھی کچھ رکھ رکھاؤ اور مروت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن جمال۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے میں اور میرے آس پاس بیٹھے سارے یار دوست ایک ہی دن میں بری طرح زچ ہوگئے تھے اور ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں اس نے کلاس کے پچاس طلبہ کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا۔ لیکن چوں کہ ہم سب سنگل پسلی تھے اور سارے مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے جھلانے اور چلانے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکے۔
جمال کبھی کسی کا گریبان پکڑلیتا، کبھی کسی کا لنچ باکس گول کردیتا، کبھی بے مقصد ہاتھا پائی پر اتر آتا، کبھی کسی کا ربڑ پنسل غائب کردیتا۔۔۔۔ غرض جو دل چاہتا کرکے دکھاتا۔ ہم سب سے اور تو کچھ نہ ہو پاتا تھا بس دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے یہ کیا کہ اس کا نام "جمال بیگ" سے "لال بیگ" کردیا اور پھر اس کی غیر حاضری میں اسے اسی نام سے یاد کرنے لگے۔
ایک مرتبہ جمال نے بریک کے دوران "کائنات" کو چھیڑدیا۔ کائنات کو آپ میری کل کائنات بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ کلاس کی جونیئر مانیٹر تھی جو میرے ماتحت کام کرتی تھی اور گرلز سیکشن کو لیڈ کرتی تھی۔ جھگڑا غالبا انگلش کی کاپی پر ہوا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جمال پچھلے ایک ہفتے سے بخار کے باعث اسکول سے غیر حاضر رہا۔ یہ ایک ہفتہ ہمارے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ ہم روزانہ ہی کچھ اس انداز سے جشن مناتے جیسے جمال نے ہمیشہ کے لیے اسکول کو خیرباد کہہ دیا ہو۔ اس بات سے یکسر چشم پوشی کیے ہوئے کہ کچھ ہی دنوں میں وہ بلا پھر سے ہم پر نازل ہونے والی ہے۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔۔۔۔۔۔
جب ایک ہفتے بعد جمال پھر کلاس میں آ دھمکا تو ہماری ساری خوشی پل بھر میں کافور ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اسے پہلی بار کچھ خاموش خاموش سا پایا۔ شاید بیماری کی وجہ سے۔ مگر نجانے کیوں ہماری چھٹی حس ہمیں بار بار خبردار کر رہی تھی کہ یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اور ہماری یہ پیش گوئی اُس وقت بالکل درست قرار پائی گئی جب بریک میں جمال نے اپنا ایک ہفتے کا ہوم ورک کور اپ کرنے کے لیے کائنات سے انگلش کی کاپی مانگی اور کائنات نے اسے دو ٹوک انکار کردیا تو جمال بجائے اس کے کہ منت سماجت، لجاحت اور ڈپلومیسی سے کام لیتا اس نے یک دم یہ کہتے ہوئے اس کی کاپی پر جھپٹا مارا کہ اگر یہ کاپی میری نہیں تو کسی کی نہیں۔
آنا فانا کائنات کی آنکھیں بھر آئیں اور ہونٹ بری طرح کپکپانے لگے۔ اس کے منہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی تالا سا لگ گیا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی، کچھ بتانا چاہ رہی تھی، کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی لیکن لبوں کی تھرکن اسے بے بس کیے دے رہی تھی۔ سب جانتے تھے کہ کائنات اپنی کتابوں کی اپنے سے زیادہ حفاظت کرتی تھی۔ ذرا بھی پینسل کا کوئی ایکسٹرا نشان دیکھ لیتی تو مچل مچل جاتی۔ اور یہاں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بدلتے ہوئے منظر نے مجھے اپنے آپے سے باہر کردیا اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جمال کو گریبان سے پکڑ کر اس زور سے دھکا دیا کہ وہ تیزی سے پیچھے لڑھکتا ہوا ڈسٹ بن سے جا ٹکڑایا اور لمبا لیٹ ہوگیا۔ کچھ کوڑا کرکٹ بھی اس کے سر پر آگرا۔ اگر عین موقع پر ڈسٹ بن کا سہارا نہ ملتا تو یقینا اس کا سر دیوار سے ٹکرا جاتا۔
حالات کے اس اچانک تغیر پر وہاں کھڑے سب بچوں کو سانپ سونگھ گیا۔ میں نے وہ کر دکھایا تھا جس کو محض سوچنا بھی سب پر لرزاں طاری کردیتا تھا۔ کائنات کو رونا بھول گیا تھا اور سب مجھے ہونقوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔ حتی کہ جمال، جس سے میں کسی جوابی کاروائی کی فوری توقع کررہا تھا وہ بھی اسی پوزیشن میں دیوار سے چپکا مجھے حیران کن نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ جمال کی حکومت کا سورج تو اسی وقت غروب ہوگیا۔ لیکن اس دن دنیا نے میرا ایک نیا روپ دیکھا اور میں رحمٰن سے ریمبو بن کر سامنے آیا۔ اب مجھے "اقوال زرین" کی کتاب میں پڑھی اس بات میں رتی برابر بھی شبہ نہیں رہا تھا کہ ہر کامیاب "مرد" کے پیچھے ایک "عورت" کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس دن اگر اپنی کائنات کی آنکھوں میں موتی جھلملاتے نہ دیکھتا تو میرے اندر کا وہ طوفانی و جولانی پہلو کبھی بھی اجاگر نہ ہوتا۔ میرے اس یوٹرن میں میری کائنات کا بہت بڑا کردار تھا۔ جمال اس دن سے گوشہء گمنامی میں چلا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہزاروں پر مشتمل کالی بکڑیوں کے ریوڑ میں ایک سفید بکری اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔
جمال کا باب تو یہاں بند ہوا لیکن یہیں سے ہماری کہانی کا آغاز ہوا۔ یہ بات بغیر کہے سنے سب جانتے تھے کہ میرے ناتواں کندھوں میں اچانک بجلی کی لہریں کوند جانے کی وجہ وہ گستاخی تھی جو جمال کے ہاتھوں کائنات کی شان میں سرزد ہوئی تھی۔ اس روز کے کامیاب وار کے بعد مجھ میں خود اعتمادی کی نئی کرنیں پھوٹی تھیں۔ پہلے کائنات کو مجھ سے انتظامی معاملات میں یا دیگر امور پر مشاورت کرنے میں ازخود پیش قدمی کرنی پڑتی تھی۔ کیوں کہ میں کبھی اس سے بات کرنے میں پہل کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔ اور میری اس عادت سے میں نے اس کے لہجے میں واضح طور پر شکایت محسوس کی تھی۔ مگر اب مجھ میں اتنی جرات بدرجہ اتم پیدا ہوگئی تھی کہ بے خوف و خطر اس کی جانب پہلا قدم خود اٹھا سکوں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں آگ دونوں طرف برابر تو لگتی تھی مگر اس طرح کہ دونوں پلڑے کبھی بھی برابر نہ ہوسکے۔ جب میں بات کرنے سے کتراتا تھا تو وہ میری کم گوئی پر شدید بے زار ہوتی تھی۔ جب میں بڑھ چڑھ کر بات کرنے لگا تو وہ ہوں ہاں سے آگے بڑھنے پر تیار ہی نہ ہوتی تھی۔
یہ سائنس میری ننھی سی سمجھ دانی سے بالا تھی اور کئی دنوں کی کشاکش کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کھل کر اس سے اس بارے بات کروں۔ ایک روز اپنے اسی ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے میں اس کی سیٹ پر اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ کلاس ٹیچر کے کمرے میں اٹینڈنس رپورٹ کرنے گئی ہوئی تھی۔ قبل اس کے کہ وہ لوٹتی، اس کی ڈیسک پر پڑی کاپی کا گتہ ایک تیز ہوا کے جھونکے سے کھلا اور جو صفحہ میرے سامنے آیا اسے پڑھ کر میرے پس منظر میں بیک وقت کئی سارے دھماکے ہوئے جس نے میری ابھرتی ہوئی لڑاکا صلاحیتوں کو ہمیشہ کے لیے سلب کرلیا۔
"کیا ہوجاتا اگر وہ ڈیڑھ فٹیا کباب میں ہڈی نہ بنتا۔ ایک کاپی کے ذرا سے نقصان سے اگر وہ میری طرف ملتفت ہوسکتا تھا تو میں ایسی ہزاروں کاپیاں اس پر قربان کرنے کو تیار تھی۔ لیکن ناس ہو اس کمین شخص کا جس نے دو غنچوں کے کھلنے سے پہلے ہی انہیں مرجھادیا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔