Rashid Ashraf
محفلین
ذکر پرانی کتابوں کے اتوار بازار کا ہے۔اس مرتبہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد سید شاہد رضا نے کراچی میں 2008 میں دوسری عالمی کانفرنس کے تحت ’’ جد و جہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت‘‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب کی کاروائی کا کتابچہ تھما دیا۔ چونکہ یہ وقوعہ اتواربازار میں روز روشن میں پیش آیا ، لہذا اس مرتبہ کے احوال میں کتابچے کا تذکرہ نامناسب نہ رہے گا۔اپنی کتاب کی تقسیم کی بھلا اتوار بازار سے اچھی جگہ کونسی ہوگی ، اب یہ رواج بھی فروغ پا رہا ہے کہ یار لوگ اپنی تازہ شائع ہوئی کتابیں اتوار بازار لیے چلے آتے ہیں کہ دکانوں پر کون جا کر کب خریدے گا، کیوں نہ یہیں دکان سجا لی جائے، بازار میں موجود شناسائوں کو ایک ایک نسخہ دے دیا جائے ،تشہیر کی تشہیر ہو اور سامنے والا بھی مطمعن لوٹے کہ پلے سے کچھ دیے بنا کچھ تو ہاتھ لگا۔
’ جد و جہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت‘‘ کے مطابق پروفیسر متین الرحمن مرتضی نے اپنے مقالے ’ جنگ آزادی میں صحافت کا کردار اور مزاحمتی تحریریں‘ میں غدر کے زمانے کے اخباروں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے ۔ سقوط اودھ کے بعد لکھنو سے 16 جنوری 1857 کو شائع ہونے والے اخبار طلسم کی خبر تھی:
’’ لکھنؤ میں سنیچر آیا ہے، چوروں نے ہنگامہ مچایا ہے،جو سانحہ عجائب ہے۔آنکھ جھپکی،پگڑی غائب ہے۔ جس دن سے سلطنت نہ رہی، شہر بگڑا،چوروں کی بن آئی۔کسی میں حالت نہ رہی۔ اس نابینائی پہ حکومتی اندھیر ہے۔صاف اندھے کے ہاتھ میں بٹیر ہے،روز باتیں عجائب ہوتی ہیں۔‘‘
صاحبو! بیانئے کا بھی عجب انداز ہے،یوں محسوس ہوتاہے کہ 1857نہیں بلکہ 2012 کی بات کی جارہی ہے۔ لکھنؤ کے اخبار سحر سامری کے 15 دسمبر 1856 کی یہ خبر ملاحظہ ہو:
’’ ان دنوں غلہ کی گرانی ہے۔گرانی خاطر کی ارزانی ہے،اس قدر مہنگا اناج ہے، آسیائے فلک بھی دانے کو محتاج ہے۔جور فاقہ سے افاقہ نہیں۔بے معاشی نے ہر قماش کے آدمی کا اطمینان کھو دیا۔جس نادان و دانا نے حال بربادی سنا، رو دیا۔ایک تو معاش نہیں تو تلاش نہیں، دوسرے وفور غم سے گزری, رنگ پر بشر نیلا ہوا، گویا مفلسی میں آٹا گیلا ہوا۔حالم اس طرف عنان ِتوجہ پھیرتا نہیں، بس کیا کریں کہ اکیلا چنا بھاڑ پھوڑتا نہیں۔‘‘
اس عمومی معاشرتی بے چینی کے ساتھ فوج میں اختیار کی جانے والی بے تدبیریوں نے بھی اضطراب میں شدت پیدا کی۔ فوج میں نئے کارتوس متعارف کرائے گئے جن کے بارے میں مشہور ہوا کہ ان کا منہ جس چیز سے بند کیا گیا ہے اس میں سور اور گائے کی چربی استعمال کی گئی ہے۔ انہی دنوں گارساں دتاسی نے لکھا : ’’ ان منحوس کارتوسوں کی تقسیم کے موقع پر ہندوستانی اخبارات نے ،جو بے دلی پھیلانے میں پہلے ہی مستعدی دکھا رہے تھے، اپنی غیر محدود آزادی سے فائدہ اٹھایا اور اہل ہند کو ان کارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کرنے پر آمادہ کیا۔‘‘
غدر کے دنوں کی ایک اخباری خبر ملاحظہ ہو:
حقیر (رپورٹر) ہر طرف میگزین گیا تو مسجد نواب حامد علی خاں سے آ گے بڑھ کر دیکھا کہ نکسن صاحب کا لاشہ سرِ دفتر کمشنری پڑا ہے اور کسی ظریف نے ایک بسکٹ بھی ان کے منہ کے پاس رکھ دیا ہے۔ (دہلی اردو اخبار۔17 مئی، 1857)
دہلی سے آئے سینئر صحافی اور دہلی میں روزنامہ ڈان،کراچی کے خصوصی نمائندے جاوید نقوی نے اپنی تقریر میں کہا:
’’ ہر طرف کمرشلائزیشن ہے ،آپ اپنی جگہ خود پیدا کیجیے اور اسی کے اندر کام کیجیے۔کیونکہ لالہ جی تو آپ کو کام کرنے نہیں دیں گے، اس لیے کہ ان کی اپنی دکان ہے۔کہیں یہودی چلا رہا ہے، کہیں مارواڑی چلا رہا ہے اخبا رکو۔ شریف آدمی تو بہت مشکل سے ملتا ہے اس کو چلانے کے لیے۔جب ابراہم لنکن مرا تو خبر یورپ سے آنے میں بارہ دن لگے، کیونکہ بحری جہاز کے راستے خبر آئی، اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ امریکہ سے جب جہاز چلا تھا اور جو ایلچی خبر لارہے تھے، لیور پول سے کوئی چھ ناٹیکل میل پہلے جن کے پاس ایک ہومنگ پچن تھا، انہوں نے ایک پرچی لکھی اور اسے بھیج دیا۔لیور پول کے اسٹاک ایکسچینج پر اس نے وہ چھوڑ دی اور وارے نیارے ہوگئے۔آج بھی یہی سلسلہ ہے صحافت کا۔اسٹا ک ایکسچینج اور اسٹاک مارکیٹ سے وہی سلسلہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمود غزنوی نے اپنے مقالے میں کہا کہ غدر کے دنوں میں ایک انگریز نے ایک ہندوستانی کو گولی سے ہلاک کیا اور عدالت سے بری ہوگیا تو اخبار انجمن پنجاب (1870)نے اس پر سرخی جمائی ۔’’ ہماری جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری۔‘‘
دہلی سے آئے ڈاکٹر خلیق انجم نے 1835 سے 1857 تک شائع ہوئے 52 اخباروں کے نام و سن اجراء بیان کیے جو مذکورہ کتابچے میں محفوظ کردیے گئے ہیں۔
بی بی سی کے وسعت اللہ خان نے اپنی تقریر میں کہا :
’’ اگر آج منشی محبوب عالم زندہ ہوجائیں تو انہیں کسی قومی اخبار میں سب ایڈیٹر کی بھی نوکری نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو چند دنوں میں ہی زندہ درگور ہوجائیں گے ،اسی طرح ٹائم مشین میں بٹھا کر آج کے کسی نوجوان و نوآزمودہ صحافی کو بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ٹرانسپورٹ کردیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اسے منشی محبوب عالم کے پیسہ اخبار میں پہلی مرتبہ کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد دوسری مرتبہ گھسنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ ‘‘
کتابچے کے آخر میں بزرگ ادیب جناب جمیل الدین عالی نے خطبہ اختتامیہ میں کہا:
’’جیو ٹی وی سے پچھلے برس کہا گیا کہ یہ دو آدمی نکال دو، میں نام نہیں لوں گا۔پوچھا ان کا قصور کیا ہے۔جواب ملا کہ یہ اپنی مرضی سے لوگ بلاتے ہیں اور ان کو ایسے موضوعات دیتے ہیں جن میں حکومت کی برائی ہی برائی نکلے،اچھائی نہ نکلے۔ ٹی وی والو ںنے کہا کہ ہم انہیں نہیں نکال سکتے تو ان کو پابند نہیں کیا،قانون بنانا مشکل تھا، مار پیٹ نہیں کی، گرفتار نہیں کیا،بس ان کے اشتہار بند کردیے۔‘‘
اس مرتبہ ضیاء شاہد کی 1968 کی ترجمہ کی ہوئی کتاب ’پراسرار کہانیاں‘ بھی ہمارے حصے میں آئی۔ضیاء شاہد اب خبریں اخبار کے مالک ہیں۔ضیاء شاہد اور مقبول جہانگیر ،دونوں نے غیرملکی کہانیوں کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف یہ ہے:
پیر پگارا کی کہانی۔کچھ ان کی کچھ میری زبانی
مصنف: اظہر سہیل
ناشر: فیروز سنز لاہور
سن اشاعت: 1987
صفحات؛ 227
جدوجہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت
ترتیب و ادارت: سید شاہد رضا
شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونیورسٹی۔کراچی
سن اشاعت: 2012
پراسرار کہانیاں
مترجم: ضیاء شاہد
سن اشاعت: 1968
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ لاہور
صفحات: 296
منازل
خودنوشت و شاعری
سید باقر حسین رضا
ناشر: عمیر پبلشر لاہور
سن اشاعت: 1999
’ جد و جہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت‘‘ کے مطابق پروفیسر متین الرحمن مرتضی نے اپنے مقالے ’ جنگ آزادی میں صحافت کا کردار اور مزاحمتی تحریریں‘ میں غدر کے زمانے کے اخباروں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے ۔ سقوط اودھ کے بعد لکھنو سے 16 جنوری 1857 کو شائع ہونے والے اخبار طلسم کی خبر تھی:
’’ لکھنؤ میں سنیچر آیا ہے، چوروں نے ہنگامہ مچایا ہے،جو سانحہ عجائب ہے۔آنکھ جھپکی،پگڑی غائب ہے۔ جس دن سے سلطنت نہ رہی، شہر بگڑا،چوروں کی بن آئی۔کسی میں حالت نہ رہی۔ اس نابینائی پہ حکومتی اندھیر ہے۔صاف اندھے کے ہاتھ میں بٹیر ہے،روز باتیں عجائب ہوتی ہیں۔‘‘
صاحبو! بیانئے کا بھی عجب انداز ہے،یوں محسوس ہوتاہے کہ 1857نہیں بلکہ 2012 کی بات کی جارہی ہے۔ لکھنؤ کے اخبار سحر سامری کے 15 دسمبر 1856 کی یہ خبر ملاحظہ ہو:
’’ ان دنوں غلہ کی گرانی ہے۔گرانی خاطر کی ارزانی ہے،اس قدر مہنگا اناج ہے، آسیائے فلک بھی دانے کو محتاج ہے۔جور فاقہ سے افاقہ نہیں۔بے معاشی نے ہر قماش کے آدمی کا اطمینان کھو دیا۔جس نادان و دانا نے حال بربادی سنا، رو دیا۔ایک تو معاش نہیں تو تلاش نہیں، دوسرے وفور غم سے گزری, رنگ پر بشر نیلا ہوا، گویا مفلسی میں آٹا گیلا ہوا۔حالم اس طرف عنان ِتوجہ پھیرتا نہیں، بس کیا کریں کہ اکیلا چنا بھاڑ پھوڑتا نہیں۔‘‘
اس عمومی معاشرتی بے چینی کے ساتھ فوج میں اختیار کی جانے والی بے تدبیریوں نے بھی اضطراب میں شدت پیدا کی۔ فوج میں نئے کارتوس متعارف کرائے گئے جن کے بارے میں مشہور ہوا کہ ان کا منہ جس چیز سے بند کیا گیا ہے اس میں سور اور گائے کی چربی استعمال کی گئی ہے۔ انہی دنوں گارساں دتاسی نے لکھا : ’’ ان منحوس کارتوسوں کی تقسیم کے موقع پر ہندوستانی اخبارات نے ،جو بے دلی پھیلانے میں پہلے ہی مستعدی دکھا رہے تھے، اپنی غیر محدود آزادی سے فائدہ اٹھایا اور اہل ہند کو ان کارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کرنے پر آمادہ کیا۔‘‘
غدر کے دنوں کی ایک اخباری خبر ملاحظہ ہو:
حقیر (رپورٹر) ہر طرف میگزین گیا تو مسجد نواب حامد علی خاں سے آ گے بڑھ کر دیکھا کہ نکسن صاحب کا لاشہ سرِ دفتر کمشنری پڑا ہے اور کسی ظریف نے ایک بسکٹ بھی ان کے منہ کے پاس رکھ دیا ہے۔ (دہلی اردو اخبار۔17 مئی، 1857)
دہلی سے آئے سینئر صحافی اور دہلی میں روزنامہ ڈان،کراچی کے خصوصی نمائندے جاوید نقوی نے اپنی تقریر میں کہا:
’’ ہر طرف کمرشلائزیشن ہے ،آپ اپنی جگہ خود پیدا کیجیے اور اسی کے اندر کام کیجیے۔کیونکہ لالہ جی تو آپ کو کام کرنے نہیں دیں گے، اس لیے کہ ان کی اپنی دکان ہے۔کہیں یہودی چلا رہا ہے، کہیں مارواڑی چلا رہا ہے اخبا رکو۔ شریف آدمی تو بہت مشکل سے ملتا ہے اس کو چلانے کے لیے۔جب ابراہم لنکن مرا تو خبر یورپ سے آنے میں بارہ دن لگے، کیونکہ بحری جہاز کے راستے خبر آئی، اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ امریکہ سے جب جہاز چلا تھا اور جو ایلچی خبر لارہے تھے، لیور پول سے کوئی چھ ناٹیکل میل پہلے جن کے پاس ایک ہومنگ پچن تھا، انہوں نے ایک پرچی لکھی اور اسے بھیج دیا۔لیور پول کے اسٹاک ایکسچینج پر اس نے وہ چھوڑ دی اور وارے نیارے ہوگئے۔آج بھی یہی سلسلہ ہے صحافت کا۔اسٹا ک ایکسچینج اور اسٹاک مارکیٹ سے وہی سلسلہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمود غزنوی نے اپنے مقالے میں کہا کہ غدر کے دنوں میں ایک انگریز نے ایک ہندوستانی کو گولی سے ہلاک کیا اور عدالت سے بری ہوگیا تو اخبار انجمن پنجاب (1870)نے اس پر سرخی جمائی ۔’’ ہماری جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری۔‘‘
دہلی سے آئے ڈاکٹر خلیق انجم نے 1835 سے 1857 تک شائع ہوئے 52 اخباروں کے نام و سن اجراء بیان کیے جو مذکورہ کتابچے میں محفوظ کردیے گئے ہیں۔
بی بی سی کے وسعت اللہ خان نے اپنی تقریر میں کہا :
’’ اگر آج منشی محبوب عالم زندہ ہوجائیں تو انہیں کسی قومی اخبار میں سب ایڈیٹر کی بھی نوکری نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو چند دنوں میں ہی زندہ درگور ہوجائیں گے ،اسی طرح ٹائم مشین میں بٹھا کر آج کے کسی نوجوان و نوآزمودہ صحافی کو بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ٹرانسپورٹ کردیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اسے منشی محبوب عالم کے پیسہ اخبار میں پہلی مرتبہ کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد دوسری مرتبہ گھسنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ ‘‘
کتابچے کے آخر میں بزرگ ادیب جناب جمیل الدین عالی نے خطبہ اختتامیہ میں کہا:
’’جیو ٹی وی سے پچھلے برس کہا گیا کہ یہ دو آدمی نکال دو، میں نام نہیں لوں گا۔پوچھا ان کا قصور کیا ہے۔جواب ملا کہ یہ اپنی مرضی سے لوگ بلاتے ہیں اور ان کو ایسے موضوعات دیتے ہیں جن میں حکومت کی برائی ہی برائی نکلے،اچھائی نہ نکلے۔ ٹی وی والو ںنے کہا کہ ہم انہیں نہیں نکال سکتے تو ان کو پابند نہیں کیا،قانون بنانا مشکل تھا، مار پیٹ نہیں کی، گرفتار نہیں کیا،بس ان کے اشتہار بند کردیے۔‘‘
اس مرتبہ ضیاء شاہد کی 1968 کی ترجمہ کی ہوئی کتاب ’پراسرار کہانیاں‘ بھی ہمارے حصے میں آئی۔ضیاء شاہد اب خبریں اخبار کے مالک ہیں۔ضیاء شاہد اور مقبول جہانگیر ،دونوں نے غیرملکی کہانیوں کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف یہ ہے:
پیر پگارا کی کہانی۔کچھ ان کی کچھ میری زبانی
مصنف: اظہر سہیل
ناشر: فیروز سنز لاہور
سن اشاعت: 1987
صفحات؛ 227
جدوجہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت
ترتیب و ادارت: سید شاہد رضا
شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونیورسٹی۔کراچی
سن اشاعت: 2012
پراسرار کہانیاں
مترجم: ضیاء شاہد
سن اشاعت: 1968
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ لاہور
صفحات: 296
منازل
خودنوشت و شاعری
سید باقر حسین رضا
ناشر: عمیر پبلشر لاہور
سن اشاعت: 1999