کتابوں کا اتوار بازار۔3 جون 2012-کچھ باتیں 1857 کے غدر کی

Rashid Ashraf

محفلین
ذکر پرانی کتابوں کے اتوار بازار کا ہے۔اس مرتبہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد سید شاہد رضا نے کراچی میں 2008 میں دوسری عالمی کانفرنس کے تحت ’’ جد و جہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت‘‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب کی کاروائی کا کتابچہ تھما دیا۔ چونکہ یہ وقوعہ اتواربازار میں روز روشن میں پیش آیا ، لہذا اس مرتبہ کے احوال میں کتابچے کا تذکرہ نامناسب نہ رہے گا۔اپنی کتاب کی تقسیم کی بھلا اتوار بازار سے اچھی جگہ کونسی ہوگی ، اب یہ رواج بھی فروغ پا رہا ہے کہ یار لوگ اپنی تازہ شائع ہوئی کتابیں اتوار بازار لیے چلے آتے ہیں کہ دکانوں پر کون جا کر کب خریدے گا، کیوں نہ یہیں دکان سجا لی جائے، بازار میں موجود شناسائوں کو ایک ایک نسخہ دے دیا جائے ،تشہیر کی تشہیر ہو اور سامنے والا بھی مطمعن لوٹے کہ پلے سے کچھ دیے بنا کچھ تو ہاتھ لگا۔
’ جد و جہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت‘‘ کے مطابق پروفیسر متین الرحمن مرتضی نے اپنے مقالے ’ جنگ آزادی میں صحافت کا کردار اور مزاحمتی تحریریں‘ میں غدر کے زمانے کے اخباروں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے ۔ سقوط اودھ کے بعد لکھنو سے 16 جنوری 1857 کو شائع ہونے والے اخبار طلسم کی خبر تھی:
’’ لکھنؤ میں سنیچر آیا ہے، چوروں نے ہنگامہ مچایا ہے،جو سانحہ عجائب ہے۔آنکھ جھپکی،پگڑی غائب ہے۔ جس دن سے سلطنت نہ رہی، شہر بگڑا،چوروں کی بن آئی۔کسی میں حالت نہ رہی۔ اس نابینائی پہ حکومتی اندھیر ہے۔صاف اندھے کے ہاتھ میں بٹیر ہے،روز باتیں عجائب ہوتی ہیں۔‘‘

صاحبو! بیانئے کا بھی عجب انداز ہے،یوں محسوس ہوتاہے کہ 1857نہیں بلکہ 2012 کی بات کی جارہی ہے۔ لکھنؤ کے اخبار سحر سامری کے 15 دسمبر 1856 کی یہ خبر ملاحظہ ہو:
’’ ان دنوں غلہ کی گرانی ہے۔گرانی خاطر کی ارزانی ہے،اس قدر مہنگا اناج ہے، آسیائے فلک بھی دانے کو محتاج ہے۔جور فاقہ سے افاقہ نہیں۔بے معاشی نے ہر قماش کے آدمی کا اطمینان کھو دیا۔جس نادان و دانا نے حال بربادی سنا، رو دیا۔ایک تو معاش نہیں تو تلاش نہیں، دوسرے وفور غم سے گزری, رنگ پر بشر نیلا ہوا، گویا مفلسی میں آٹا گیلا ہوا۔حالم اس طرف عنان ِتوجہ پھیرتا نہیں، بس کیا کریں کہ اکیلا چنا بھاڑ پھوڑتا نہیں۔‘‘

اس عمومی معاشرتی بے چینی کے ساتھ فوج میں اختیار کی جانے والی بے تدبیریوں نے بھی اضطراب میں شدت پیدا کی۔ فوج میں نئے کارتوس متعارف کرائے گئے جن کے بارے میں مشہور ہوا کہ ان کا منہ جس چیز سے بند کیا گیا ہے اس میں سور اور گائے کی چربی استعمال کی گئی ہے۔ انہی دنوں گارساں دتاسی نے لکھا : ’’ ان منحوس کارتوسوں کی تقسیم کے موقع پر ہندوستانی اخبارات نے ،جو بے دلی پھیلانے میں پہلے ہی مستعدی دکھا رہے تھے، اپنی غیر محدود آزادی سے فائدہ اٹھایا اور اہل ہند کو ان کارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کرنے پر آمادہ کیا۔‘‘

غدر کے دنوں کی ایک اخباری خبر ملاحظہ ہو:
حقیر (رپورٹر) ہر طرف میگزین گیا تو مسجد نواب حامد علی خاں سے آ گے بڑھ کر دیکھا کہ نکسن صاحب کا لاشہ سرِ دفتر کمشنری پڑا ہے اور کسی ظریف نے ایک بسکٹ بھی ان کے منہ کے پاس رکھ دیا ہے۔ (دہلی اردو اخبار۔17 مئی، 1857)

دہلی سے آئے سینئر صحافی اور دہلی میں روزنامہ ڈان،کراچی کے خصوصی نمائندے جاوید نقوی نے اپنی تقریر میں کہا:
’’ ہر طرف کمرشلائزیشن ہے ،آپ اپنی جگہ خود پیدا کیجیے اور اسی کے اندر کام کیجیے۔کیونکہ لالہ جی تو آپ کو کام کرنے نہیں دیں گے، اس لیے کہ ان کی اپنی دکان ہے۔کہیں یہودی چلا رہا ہے، کہیں مارواڑی چلا رہا ہے اخبا رکو۔ شریف آدمی تو بہت مشکل سے ملتا ہے اس کو چلانے کے لیے۔جب ابراہم لنکن مرا تو خبر یورپ سے آنے میں بارہ دن لگے، کیونکہ بحری جہاز کے راستے خبر آئی، اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ امریکہ سے جب جہاز چلا تھا اور جو ایلچی خبر لارہے تھے، لیور پول سے کوئی چھ ناٹیکل میل پہلے جن کے پاس ایک ہومنگ پچن تھا، انہوں نے ایک پرچی لکھی اور اسے بھیج دیا۔لیور پول کے اسٹاک ایکسچینج پر اس نے وہ چھوڑ دی اور وارے نیارے ہوگئے۔آج بھی یہی سلسلہ ہے صحافت کا۔اسٹا ک ایکسچینج اور اسٹاک مارکیٹ سے وہی سلسلہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر محمود غزنوی نے اپنے مقالے میں کہا کہ غدر کے دنوں میں ایک انگریز نے ایک ہندوستانی کو گولی سے ہلاک کیا اور عدالت سے بری ہوگیا تو اخبار انجمن پنجاب (1870)نے اس پر سرخی جمائی ۔’’ ہماری جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری۔‘‘

دہلی سے آئے ڈاکٹر خلیق انجم نے 1835 سے 1857 تک شائع ہوئے 52 اخباروں کے نام و سن اجراء بیان کیے جو مذکورہ کتابچے میں محفوظ کردیے گئے ہیں۔

بی بی سی کے وسعت اللہ خان نے اپنی تقریر میں کہا :
’’ اگر آج منشی محبوب عالم زندہ ہوجائیں تو انہیں کسی قومی اخبار میں سب ایڈیٹر کی بھی نوکری نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو چند دنوں میں ہی زندہ درگور ہوجائیں گے ،اسی طرح ٹائم مشین میں بٹھا کر آج کے کسی نوجوان و نوآزمودہ صحافی کو بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ٹرانسپورٹ کردیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اسے منشی محبوب عالم کے پیسہ اخبار میں پہلی مرتبہ کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد دوسری مرتبہ گھسنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ ‘‘

کتابچے کے آخر میں بزرگ ادیب جناب جمیل الدین عالی نے خطبہ اختتامیہ میں کہا:
’’جیو ٹی وی سے پچھلے برس کہا گیا کہ یہ دو آدمی نکال دو، میں نام نہیں لوں گا۔پوچھا ان کا قصور کیا ہے۔جواب ملا کہ یہ اپنی مرضی سے لوگ بلاتے ہیں اور ان کو ایسے موضوعات دیتے ہیں جن میں حکومت کی برائی ہی برائی نکلے،اچھائی نہ نکلے۔ ٹی وی والو ںنے کہا کہ ہم انہیں نہیں نکال سکتے تو ان کو پابند نہیں کیا،قانون بنانا مشکل تھا، مار پیٹ نہیں کی، گرفتار نہیں کیا،بس ان کے اشتہار بند کردیے۔‘‘

اس مرتبہ ضیاء شاہد کی 1968 کی ترجمہ کی ہوئی کتاب ’پراسرار کہانیاں‘ بھی ہمارے حصے میں آئی۔ضیاء شاہد اب خبریں اخبار کے مالک ہیں۔ضیاء شاہد اور مقبول جہانگیر ،دونوں نے غیرملکی کہانیوں کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔

اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف یہ ہے:

پیر پگارا کی کہانی۔کچھ ان کی کچھ میری زبانی
مصنف: اظہر سہیل
ناشر: فیروز سنز لاہور
سن اشاعت: 1987
صفحات؛ 227

جدوجہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت
ترتیب و ادارت: سید شاہد رضا
شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونیورسٹی۔کراچی
سن اشاعت: 2012

پراسرار کہانیاں
مترجم: ضیاء شاہد
سن اشاعت: 1968
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ لاہور
صفحات: 296

منازل
خودنوشت و شاعری
سید باقر حسین رضا
ناشر: عمیر پبلشر لاہور
سن اشاعت: 1999
 

زبیر مرزا

محفلین
کچھ اندازہ تو تھا کہ ذکر کراچی کا ہی ہے :) کراچی میں فرئیرہال میں منعقد ہونے والے اتواربازار سے تو ہمیں بھی کافی اچھی
اور نایاب کُتب ملیں تھیں
 
اِس مرتبہ ہمیں تو انگریزی کی ایک ایسی کتا ب ہاتھ لگی ہے کہ اردو محفل پر تذکرہ کرتے ہوئے عجیب سی بات لگتی ہے لیکن جی مچل رہا ہے کیا کریں۔ مشہور ناول نگار’ محترمہ ‘ جارج ایلیٹ کے شہرہء آفاق ناول ’’ دی مِل آن دی فلاس‘‘ کی ہیلن ایڈمنڈسن کی کی ہوئی ڈرامائی تشکیل۔ڈھائی تین سو صفحوں کو سو صفحوں کے اسٹیج ڈرامے میں تبدیل کردینا، ایک کمال ہی ہے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
صدر کراچی کے علاقے ریگل چوک سے متصل ایک گلی میں یہ بازار لگتا ہے-اتوار کی صبح 7 بجے سے شام تک
 

زبیر مرزا

محفلین
اچھا ریگل چوک تو بچپن میں بہت جایا کرتے تھے ہمارے والد کے ایک دوست کی دوکان ہوا کرتی تھی وہاں شفیع اینڈ سنز کے نام سے
تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ عدر جائیں اور ریگل چوک کا چکر نا لگے - ان شاء اللہ اب کراچی گیا تو ضرور جاؤں گا
 

یوسف-2

محفلین
ذکر پرانی کتابوں کے اتوار بازار کا ہے۔اس مرتبہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد سید شاہد رضا نے کراچی میں 2008 میں دوسری عالمی کانفرنس کے تحت ’’ جد و جہد آزادی 1857 اور برصغیر میں آزادی صحافت‘‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب کی کاروائی کا کتابچہ تھما دیا۔ چونکہ یہ وقوعہ اتواربازار میں روز روشن میں پیش آیا ، لہذا اس مرتبہ کے احوال میں کتابچے کا تذکرہ نامناسب نہ رہے گا۔اپنی کتاب کی تقسیم کی بھلا اتوار بازار سے اچھی جگہ کونسی ہوگی ، اب یہ رواج بھی فروغ پا رہا ہے کہ یار لوگ اپنی تازہ شائع ہوئی کتابیں اتوار بازار لیے چلے آتے ہیں کہ دکانوں پر کون جا کر کب خریدے گا، کیوں نہ یہیں دکان سجا لی جائے، بازار میں موجود شناسائوں کو ایک ایک نسخہ دے دیا جائے ،تشہیر کی تشہیر ہو اور سامنے والا بھی مطمعن لوٹے کہ پلے سے کچھ دیے بنا کچھ تو ہاتھ لگا۔
چلیں پھر ہم بھی ان شاء اللہ اپنی نئی تازہ کتاب ”اوامر و نواہی “کے ہمراہ اتوار 24 جون کو آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آفس کی طرف سے گلی میں داخل ہوتے ہوئے بائیں طرف کے توکل اکیڈمی والے مولانا الیاس کے پہلے اونچے والےاسٹال پر ظہراور عصر کے درمیان اردو محفل کا حوالہ دے کر یہ کتاب ہم سے مفت حاصل کریں۔ ہماری غیر موجودگی میں مولانا سے ہرگز طلب نہ فرمائیں ورنہ انہوں نے ہدیہ طلب کرلینا ہے :D صلا ئے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔

کراچی: پیغام قرآن ڈاٹ کام کے مدیر اعلیٰ اور قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتاب "پیغام قرآن و حدیث" کے مؤلف یوسف ثانی کی نئی تالیف "اوامر و نواہی" شائع ہوگئی ہے جو ترتیب وار قرآن مجید کی تمام سورتوں اور صحاح ستہ کے تمام کتب سے ماخوذ ہے۔ واضح رہے کہ پیغام ٖقرآن ڈاٹ کام 2008 سےاردو، سندھی اور انگریزی میں قرآن و حدیث کے پیغام کو عام فہم انداز میں شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
 
کاش سیالکوٹ بھی کراچی میں ہوتا :)
وارث صاحب ۔ سیالکوٹ کا تو ہمیں علم نہیں لیکن قریب ہی لاہور میں اتوار کو انارکلی کے سامنے ایسا ہی مزیدار بازار لگتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کاش لاہور جیسا اردو بازار کراچی میں ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب ۔ سیالکوٹ کا تو ہمیں علم نہیں لیکن قریب ہی لاہور میں اتوار کو انارکلی کے سامنے ایسا ہی مزیدار بازار لگتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کاش لاہور جیسا اردو بازار کراچی میں ہوتا۔

اجی صاحب اس انارکلی بازار سے ہم نے بھی بہت سے کلیاں چنی ہیں، لاہور میں تین سالہ قیام کے دوران اور اسکے بعد پچھلے پندرہ سالوں میں سینکڑوں بار۔

میرا لاہور جانا ہو تو اپنے سسرال جاؤں یا نہ جاؤں وہاں ضرور جاتا ہوں۔ افسوس سیالکوٹ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
اور یہی محرومی ہم گجرات والوں کو بھی ہے اور سچی بات ہے کہ نئی کتب کی دکانوں سے کتابیں خرید کر طبیعت ویسے سیر نہیں ہوتی جیسے پرانی کتابوں کے بازاروں (یا دکانوں) سے نایاب یا آؤٹ آف پریس نوعیت کی کتابیں حاصل کر کے ہوتی ہے ۔راشداشرف صاحب اس بات کی گواہی دیں گے جن کے پرانی کتابوں سے متعلق بےپناہ علم کا میں دل سے قائل ہوں۔ اور پھر ا ن کے بارے میں ان کے اشتہا انگیز تبصرے تو ہم جیسے لوگوں کے شوق کو اور بھی بڑھاتے ہیں۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
بہت شکریہ بھائی تلمیذ، کچھ ہی دیر قبل ا توار بازار کی تازہ (10 جون، 2012) روداد شامل کی ہے، کچھ الگ ہی رہا اس مرتبہ کا معاملہ، کتابیں ایسی ملیں کہ دوران مطالعہ گویا خود ہی بول پڑی ہوں:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%A9%D8%AA%D8%A7%D8%A8%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%AA%D9%88%D8%A7%D8%B1-%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D8%A7%D8%B1-10-%D8%AC%D9%88%D9%86-2012-%E2%80%99%DA%A9%D8%AA%D8%A7%D8%A8%D9%88%DA%BA-%D9%BE%DB%81-%D8%AA%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D8%B9%D8%AC%D8%A8-%D9%88%D9%82%D8%AA-%D8%A7%D9%93%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DA%91%D8%A7-%DB%81%DB%92%DB%94%DB%94%E2%80%98.52004/#post-947458
 
Top