Rashid Ashraf
محفلین
کتابوں کا اتوار بازار
’کتابوں پہ تیری عجب وقت آکے پڑا ہے۔۔‘
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
اس مرتبہ علی صبح اتوار بازار کا رخ کرتے وقت ذہن میں ایک نا خوشگوار واقعے کی یاد تازہ تھی۔ گزشتہ ہفتے فیروز سنز میں ہوئی آتشزدگی کی خبر آئی تھی ۔اس سے کچھ ہی عرصہ پیش آنے والے واقعے کا تذکرہ رہ گیا سو آج کتاب سے محبت رکھنے والے احباب یہ بھی جان لیں کہ کچھ عرصہ قبل پروفیسر سحر انصاری کا کتب خانہ بھی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آیا اور اتفاق تو دیکھیے کہ یہ سانحہ عین اس روز پیش آیا جس روز عالمی یوم کتب تھا۔ آگ اور پانی وہ عناصر ہیں جو زندگی کے وجود کو قرار بخشتے ہیں۔لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پروفیسر صاحب کے معاملے میں قدرت کے یہی دو عناصر بے قابو ہوئے۔22 اپریل 2012 کا دن تھا جب ناظم آباد میں واقع ان کے کتب خانے میں آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نادر و نایاب کتابیں جاں سے گزر گئیں، مخطوطات و نادر قلمی نسخے سوختہ ہوئے اور ساتھ ہی ان کے مالک کا دل بھی۔ کتاب کی محبت میں سرتا پا غرق وہ وہ مالک جس نے راقم کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ بہت برس ہوئے جب اس کے والد نے عید پر کپڑے خریدنے کے لیے پیسے دیے تھے اور وہ ان کی کتابیں خرید لائے تھے۔۔۔پھر بروز عید، تمام دن پروفیسر صاحب پرانے ملجگے کپڑے پہن کر گھوما کیے۔
ندی کنارے دھواں اٹھت ہے
میں جانوں کچھ ہوئے
جس کے کارن میں جوگن بنی
وہی نہ جلتا ہوئے
اس سے قبل بھی پروفیسر صاحب پر یہ کڑا وقت گزر چکا ہے۔ 5 مئی 2000 کو وہ یہ دکھ جھیل چکے تھے۔ اس وقت خامہ بگوش زندہ تھے ۔چٹکی لینے سے باز نہ آئے اور گمان ہے کہ پروفیسر صاحب بے مزہ نہ ہوئے ہوں گے۔خامہ بگوش نے 2000 میں ہوئی آتش زدگی کے واقعے پر لکھا تھا:
’’ اتفاق سے ایک مشہور ادیب کے گھر میں آگ لگ گئی۔ ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں جل گئیں۔ کئی غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر خاک ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے دوست اظہار ہمدردی کے لیے ان کے ہاں پہنچے۔ ہر دوست نے اپنی بساط کے مطابق آتش زدگی کے واقعے پراظہار افسوس کیا۔ البتہ ایک دوست نے منفرد انداز سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا: ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک دردناک سانحہ ہے لیکن یاد رکھیے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے ، وہیں آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیئے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ ‘‘
اکثر کتابوں کے شائق افراد کی کتابوں کو ان کی بیویاں اپنی سوکن قرار دیتی ہیں۔پروفیسر صاحب نے اس صورتحال سے بچنے کا حل یہ نکالا کہ خود کہیں اور مقیم ہوئے اور کتابوں کے لیے ایک علاحدہ ’قیام گاہ‘ کا بندوبست کیا۔ لیکن شر پسندوں کے ہاتھ وہاں تک بھی جا پہنچے۔کسی ستم ظریف نے اس لمحے کی تصویر بھی اپنے کیمرے میں محفوظ کرلی جب پروفیسر سحر انصاری آ تشزدگی کے بعد سوختہ کتابوں کی راکھ کرید رہے تھے۔ گھر کو آگ گھر کے چراغ سے تو نہ لگی لیکن کتابوں کی راکھ کریدتے وقت دل کے پھپھولے سینے کے داغوں سے جل اٹھے۔۔۔۔
پروفیسر صاحب نے سن 2000 میں ہوئی آتشزدگی کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا : ’’اس روز ناظم آباد میں میرے کتب خانے میں ایک نوجوان آیا جسے انسائیکلو پیڈیا میں کوئی لفظ دیکھنا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ لفظ موجود ہے آپ اسے لکھ لیں۔وہ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا، اسے لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم کی تلاش تھی۔ اس لمحے وہ مجھے خاصا غیر سنجیدہ معلوم ہوا۔خیر، وہ چلا گیا اور کچھ دیر بعد میں بھی کتب خانے کو تالا لگا کر گھر چلا آیا۔ گھر پہنچے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے کتب خانے میں آگ لگنے کی اطلاع ملی ۔میں شدید پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ پچھلی گلی سے کتب خانے کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر کوئی آتش گیر مادہ اندر پھینکا گیا تھا جس کی وجہ سے تین کمروں میں موجود کتابوں میں آگ لگی گئی۔‘‘
اس مرتبہ عالمی یوم کتب 2012 کے موقع پر پروفیسر صاحب کے کتب خانے کے کسی بوسیدہ برقی تار نے خود پر پڑنے والے بوجھ کو مزید سہارنے سے انکار کیا اور نتیجتا پروفیسر سحر انصاری نے جو مال متاع ان بارہ برسوں میں قطرہ قطرہ کرکے جمع کیا تھا ، ایک مرتبہ پھر نذر آتش ہوا۔
’’آگ اور پانی نے مل کر مجھے برباد کردیا۔ میں کتابوں کا رسیا ہوں۔میری زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مجھے جلی ہوئی کتابوں کے درمیان بیٹھ کر ایسا محسوس ہوا ،گویا میں اپنے عزیزوں کی جلی ہوئی لاشوں پر بیٹھا ہوں۔‘‘۔۔۔۔۔ دل گرفتہ سحر انصاری ایک اخباری نمائندے سے کہہ رہے تھے۔
------------
اس مرتبہ کتابوں کے اتوار بازار سے مختلف النوع قسم کی کتابیں ملیں۔میرن صاحب کے نواسے آفاق حسین آفاق کی 1949 میں مرتب کی ہوئی ’نودرات غالب‘ کرم خودرہ ہی سہی لیکن ایک اہم کتاب ہے۔یہ مرزا غالب کے وہ غیر مطبوعہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے ایک مداح اور سخن فہم منشی نبی بخش حقیر کے نام لکھے تھے، انہیں مقدمہ و حواشی کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔آفاق حسین تک یہ خطوط میر مہدی مجروح اور میر افضل علی کے توسط سے پہنچے تھے۔ منشی نبی بخش حقیر 1847 میں دہلی آئے تھے اور مرزا غالب کے پاس قیام کیا تھا۔دوران قیام شعر و سخن کے مذاکرے بھی خوب رہے۔ ذوق علم و ادب کا یہی تعلق اخلاص و محبت کے رشتہ کا باعث بنا جو تا عمر قائم رہا۔
کتاب کا مقدمہ سرنامہ کے عنوان سے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے۔میرن صاحب، غالب کے عاشق تھے،انہوں نے غالب کے ہاتھ کے لکھے کئی خطوط مولوی صاحب کو تحفتا پیش کیے تھے۔آفاق حسین کو یہ ترکہ ورثے میں ملا تھا ۔انہوں نے نہ صرف خطوط مرتب کیے بلکہ ساتھ ہی ساتھ مرزا کے بہت سے نجی حالات، قلعہ سے تعلق اور روز مرہ کی زندگی کی بہت سی باتیں بھی ’نودرات غالب‘ میں محفوظ کردی ہیں۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ کتاب کے آخر میں مرتب نے غالب کے شاگردوں کی فہرست بھی درج کی ہے، بقول مولوی صاحب، بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ علم ہوگا کہ غالب کے شاگردوں کی تعداد ’ترانوے ‘ ہے۔ آفاق حسین کو جن لوگوں نے کتاب کی تیاری میں تحقیق مواد فراہم کیا ان میں ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر اظہر علی، مرزا نعیم اللہ بیگ، کوثر دہلوی، طالب دہلوی، فضل حق قریشی دہلوی،منور لکھنوی،شیو راج بہادر،شیخ محمد اکرام اور شمس زبیری شامل ہیں۔
مرزا غالب منشی نبی بخش حقیر کا ذکر کرتے ہوئے ہر گوپال تفتہ کے نام 10 فروری 1849 کو لکھے ایک مکتوب میں کہتے ہیں: ’’ خدا نے میری بے کسی اور تنہائی پر رحم کیا اور ایسے شخص کو میرے پاس بھیجا جو میرے زخموں کا مرہم اور میرے درد کا درمان اپنے ساتھ لایا اور جس نے میری اندھیری رات کو روشن کردیا۔اس نے اپنی باتوں سے ایک ایسی شمع روشن کی جس کی روشنی میں، میں نے اپنے کلام کی خوبی جو تیرہ بختی کے اندھیرے میں خود میری نگاہ سے مخفی تھی، دیکھی۔‘‘
غالب اور حقیر،دونوں کی بیماریاں بھی ایک جیسی ہی تھیں۔مرزا کی طرح،حقیر بھی احتراق اور فساد خون سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا تھے۔ حقیر کی وفات اکتوبر 1860 میں ہوئی۔منشی نبی بخش حقیر کے مختصر کلام کو ’نودرات غالب‘ میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
بڑھ گئی توقیر میری امتناع دخل سے
اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مجھکو اس کے درباں دیکھ کر
(3 ستمبر 1853 کو منشی حقیر کے نام ایک مکتوب میں غالب اس شعر کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وللہ کیا شعر ہے۔ یہ ایک روش خاص ہے،ہر کوئی اس کو نہیں جانتا)
xxxxx
شانے نے بل نکال دیے زلف یار کے
سیدھا کیا ہے موذیوں کو مار مار کے
xxxxx
وہ نگاہیں جن سے تھی مجھ کو تسلی کی امید
تشنہ خوں، آفت دل،دشمن جاں ہوگئیں
xxxxx
سایہ قصر ترا یاد آیا
پھر ہمیں ظل ہما یاد آیا
ید بیضا کا جو مذکو ر ہوا
ان کا نقش کف پا یاد آیا
پھر گریباں کے اڑیں گے پرزے
پھر وہی چاک گریباں یاد آیا
خط جو غیروں کو کیے اس نے رقم
ہم کو قسمت کا لکھا یاد آیا
بسکہ مصنوع ہے صانع کی صفت
بت کو دیکھا تو خدا یاد آیا
آج پھر اس بت کافر نے حقیر
وہ اذا کی کہ خدا یاد آیا
xxxxx
ڈاکٹر ظہور الحسن شارب کی تحریر کردہ ’’دلی کے بائیس خواجہ ‘‘ نامی کتاب تاج پبلشر نے 1977 میں دلی سے شائع کی تھی۔کتاب کے نام کی برکت سے جب اس کی قیمت طے پانے کا تکلیف دہ مرحلہ آیا تو کتب فروش کی آنکھوں پر گویا پٹی بندھ گئی، بصورت دیگر کتاب ہندوستان سے چھپی ہو تو یہ قوم ذرا لحاظ نہیں کرتی ۔ ہندوستانی کرنسی ہی میں قیمت وصول کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ دس کے بیس۔۔۔ ہمارا روپیہ اور سیاست دان، کب کے اپنی قدر کھو چکے۔ادھر ڈالر آنکھیں دکھا رہا ہے۔95 پر پہنچ کر کچھ دم لیا ہے، گمان ہے کہ ایک پھریری سی لے کر اگلی جست لگائے گا۔ ٹنڈلکر ،پٹرول اور ڈالر میں سے پہلے دو تو سو کا ہندسہ کب کے عبور کر چکے۔
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی
کتاب میں دلی کے جن بائیس خواجگان کی تفصیل دی گئی ہے ان میں شامل ہیں:
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت قاضی حمید الدین ناگوری، حضرت خواجہ بدر الدین غزنوی،حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل، شیخ المشائخ نظام الدین اولیاء ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلی، حضرت خواجہ امیر خسرو، حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحیی، حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی، حضرت خواجہ محی الدین کاشانی، حضرت خواجہ کمال الدین، حضرت مخدوم سما ء الدین سہروردی، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہان آبادی، محب النبی حضرت مولانا محمد فخر الدین فخر جہاں،حضرت خواجہ مرزا جان ِجاناں مظہر شہید، حضرت شاہ علی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت شاہ محمد آفاق، حضرت خواجہ ابو سعید۔
’کتابوں پہ تیری عجب وقت آکے پڑا ہے۔۔‘
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
اس مرتبہ علی صبح اتوار بازار کا رخ کرتے وقت ذہن میں ایک نا خوشگوار واقعے کی یاد تازہ تھی۔ گزشتہ ہفتے فیروز سنز میں ہوئی آتشزدگی کی خبر آئی تھی ۔اس سے کچھ ہی عرصہ پیش آنے والے واقعے کا تذکرہ رہ گیا سو آج کتاب سے محبت رکھنے والے احباب یہ بھی جان لیں کہ کچھ عرصہ قبل پروفیسر سحر انصاری کا کتب خانہ بھی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آیا اور اتفاق تو دیکھیے کہ یہ سانحہ عین اس روز پیش آیا جس روز عالمی یوم کتب تھا۔ آگ اور پانی وہ عناصر ہیں جو زندگی کے وجود کو قرار بخشتے ہیں۔لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پروفیسر صاحب کے معاملے میں قدرت کے یہی دو عناصر بے قابو ہوئے۔22 اپریل 2012 کا دن تھا جب ناظم آباد میں واقع ان کے کتب خانے میں آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نادر و نایاب کتابیں جاں سے گزر گئیں، مخطوطات و نادر قلمی نسخے سوختہ ہوئے اور ساتھ ہی ان کے مالک کا دل بھی۔ کتاب کی محبت میں سرتا پا غرق وہ وہ مالک جس نے راقم کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ بہت برس ہوئے جب اس کے والد نے عید پر کپڑے خریدنے کے لیے پیسے دیے تھے اور وہ ان کی کتابیں خرید لائے تھے۔۔۔پھر بروز عید، تمام دن پروفیسر صاحب پرانے ملجگے کپڑے پہن کر گھوما کیے۔
ندی کنارے دھواں اٹھت ہے
میں جانوں کچھ ہوئے
جس کے کارن میں جوگن بنی
وہی نہ جلتا ہوئے
اس سے قبل بھی پروفیسر صاحب پر یہ کڑا وقت گزر چکا ہے۔ 5 مئی 2000 کو وہ یہ دکھ جھیل چکے تھے۔ اس وقت خامہ بگوش زندہ تھے ۔چٹکی لینے سے باز نہ آئے اور گمان ہے کہ پروفیسر صاحب بے مزہ نہ ہوئے ہوں گے۔خامہ بگوش نے 2000 میں ہوئی آتش زدگی کے واقعے پر لکھا تھا:
’’ اتفاق سے ایک مشہور ادیب کے گھر میں آگ لگ گئی۔ ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں جل گئیں۔ کئی غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر خاک ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے دوست اظہار ہمدردی کے لیے ان کے ہاں پہنچے۔ ہر دوست نے اپنی بساط کے مطابق آتش زدگی کے واقعے پراظہار افسوس کیا۔ البتہ ایک دوست نے منفرد انداز سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا: ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک دردناک سانحہ ہے لیکن یاد رکھیے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے ، وہیں آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیئے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ ‘‘
اکثر کتابوں کے شائق افراد کی کتابوں کو ان کی بیویاں اپنی سوکن قرار دیتی ہیں۔پروفیسر صاحب نے اس صورتحال سے بچنے کا حل یہ نکالا کہ خود کہیں اور مقیم ہوئے اور کتابوں کے لیے ایک علاحدہ ’قیام گاہ‘ کا بندوبست کیا۔ لیکن شر پسندوں کے ہاتھ وہاں تک بھی جا پہنچے۔کسی ستم ظریف نے اس لمحے کی تصویر بھی اپنے کیمرے میں محفوظ کرلی جب پروفیسر سحر انصاری آ تشزدگی کے بعد سوختہ کتابوں کی راکھ کرید رہے تھے۔ گھر کو آگ گھر کے چراغ سے تو نہ لگی لیکن کتابوں کی راکھ کریدتے وقت دل کے پھپھولے سینے کے داغوں سے جل اٹھے۔۔۔۔
پروفیسر صاحب نے سن 2000 میں ہوئی آتشزدگی کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا : ’’اس روز ناظم آباد میں میرے کتب خانے میں ایک نوجوان آیا جسے انسائیکلو پیڈیا میں کوئی لفظ دیکھنا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ لفظ موجود ہے آپ اسے لکھ لیں۔وہ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا، اسے لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم کی تلاش تھی۔ اس لمحے وہ مجھے خاصا غیر سنجیدہ معلوم ہوا۔خیر، وہ چلا گیا اور کچھ دیر بعد میں بھی کتب خانے کو تالا لگا کر گھر چلا آیا۔ گھر پہنچے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے کتب خانے میں آگ لگنے کی اطلاع ملی ۔میں شدید پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ پچھلی گلی سے کتب خانے کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر کوئی آتش گیر مادہ اندر پھینکا گیا تھا جس کی وجہ سے تین کمروں میں موجود کتابوں میں آگ لگی گئی۔‘‘
اس مرتبہ عالمی یوم کتب 2012 کے موقع پر پروفیسر صاحب کے کتب خانے کے کسی بوسیدہ برقی تار نے خود پر پڑنے والے بوجھ کو مزید سہارنے سے انکار کیا اور نتیجتا پروفیسر سحر انصاری نے جو مال متاع ان بارہ برسوں میں قطرہ قطرہ کرکے جمع کیا تھا ، ایک مرتبہ پھر نذر آتش ہوا۔
’’آگ اور پانی نے مل کر مجھے برباد کردیا۔ میں کتابوں کا رسیا ہوں۔میری زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مجھے جلی ہوئی کتابوں کے درمیان بیٹھ کر ایسا محسوس ہوا ،گویا میں اپنے عزیزوں کی جلی ہوئی لاشوں پر بیٹھا ہوں۔‘‘۔۔۔۔۔ دل گرفتہ سحر انصاری ایک اخباری نمائندے سے کہہ رہے تھے۔
------------
اس مرتبہ کتابوں کے اتوار بازار سے مختلف النوع قسم کی کتابیں ملیں۔میرن صاحب کے نواسے آفاق حسین آفاق کی 1949 میں مرتب کی ہوئی ’نودرات غالب‘ کرم خودرہ ہی سہی لیکن ایک اہم کتاب ہے۔یہ مرزا غالب کے وہ غیر مطبوعہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے ایک مداح اور سخن فہم منشی نبی بخش حقیر کے نام لکھے تھے، انہیں مقدمہ و حواشی کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔آفاق حسین تک یہ خطوط میر مہدی مجروح اور میر افضل علی کے توسط سے پہنچے تھے۔ منشی نبی بخش حقیر 1847 میں دہلی آئے تھے اور مرزا غالب کے پاس قیام کیا تھا۔دوران قیام شعر و سخن کے مذاکرے بھی خوب رہے۔ ذوق علم و ادب کا یہی تعلق اخلاص و محبت کے رشتہ کا باعث بنا جو تا عمر قائم رہا۔
کتاب کا مقدمہ سرنامہ کے عنوان سے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے۔میرن صاحب، غالب کے عاشق تھے،انہوں نے غالب کے ہاتھ کے لکھے کئی خطوط مولوی صاحب کو تحفتا پیش کیے تھے۔آفاق حسین کو یہ ترکہ ورثے میں ملا تھا ۔انہوں نے نہ صرف خطوط مرتب کیے بلکہ ساتھ ہی ساتھ مرزا کے بہت سے نجی حالات، قلعہ سے تعلق اور روز مرہ کی زندگی کی بہت سی باتیں بھی ’نودرات غالب‘ میں محفوظ کردی ہیں۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ کتاب کے آخر میں مرتب نے غالب کے شاگردوں کی فہرست بھی درج کی ہے، بقول مولوی صاحب، بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ علم ہوگا کہ غالب کے شاگردوں کی تعداد ’ترانوے ‘ ہے۔ آفاق حسین کو جن لوگوں نے کتاب کی تیاری میں تحقیق مواد فراہم کیا ان میں ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر اظہر علی، مرزا نعیم اللہ بیگ، کوثر دہلوی، طالب دہلوی، فضل حق قریشی دہلوی،منور لکھنوی،شیو راج بہادر،شیخ محمد اکرام اور شمس زبیری شامل ہیں۔
مرزا غالب منشی نبی بخش حقیر کا ذکر کرتے ہوئے ہر گوپال تفتہ کے نام 10 فروری 1849 کو لکھے ایک مکتوب میں کہتے ہیں: ’’ خدا نے میری بے کسی اور تنہائی پر رحم کیا اور ایسے شخص کو میرے پاس بھیجا جو میرے زخموں کا مرہم اور میرے درد کا درمان اپنے ساتھ لایا اور جس نے میری اندھیری رات کو روشن کردیا۔اس نے اپنی باتوں سے ایک ایسی شمع روشن کی جس کی روشنی میں، میں نے اپنے کلام کی خوبی جو تیرہ بختی کے اندھیرے میں خود میری نگاہ سے مخفی تھی، دیکھی۔‘‘
غالب اور حقیر،دونوں کی بیماریاں بھی ایک جیسی ہی تھیں۔مرزا کی طرح،حقیر بھی احتراق اور فساد خون سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا تھے۔ حقیر کی وفات اکتوبر 1860 میں ہوئی۔منشی نبی بخش حقیر کے مختصر کلام کو ’نودرات غالب‘ میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
بڑھ گئی توقیر میری امتناع دخل سے
اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مجھکو اس کے درباں دیکھ کر
(3 ستمبر 1853 کو منشی حقیر کے نام ایک مکتوب میں غالب اس شعر کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وللہ کیا شعر ہے۔ یہ ایک روش خاص ہے،ہر کوئی اس کو نہیں جانتا)
xxxxx
شانے نے بل نکال دیے زلف یار کے
سیدھا کیا ہے موذیوں کو مار مار کے
xxxxx
وہ نگاہیں جن سے تھی مجھ کو تسلی کی امید
تشنہ خوں، آفت دل،دشمن جاں ہوگئیں
xxxxx
سایہ قصر ترا یاد آیا
پھر ہمیں ظل ہما یاد آیا
ید بیضا کا جو مذکو ر ہوا
ان کا نقش کف پا یاد آیا
پھر گریباں کے اڑیں گے پرزے
پھر وہی چاک گریباں یاد آیا
خط جو غیروں کو کیے اس نے رقم
ہم کو قسمت کا لکھا یاد آیا
بسکہ مصنوع ہے صانع کی صفت
بت کو دیکھا تو خدا یاد آیا
آج پھر اس بت کافر نے حقیر
وہ اذا کی کہ خدا یاد آیا
xxxxx
ڈاکٹر ظہور الحسن شارب کی تحریر کردہ ’’دلی کے بائیس خواجہ ‘‘ نامی کتاب تاج پبلشر نے 1977 میں دلی سے شائع کی تھی۔کتاب کے نام کی برکت سے جب اس کی قیمت طے پانے کا تکلیف دہ مرحلہ آیا تو کتب فروش کی آنکھوں پر گویا پٹی بندھ گئی، بصورت دیگر کتاب ہندوستان سے چھپی ہو تو یہ قوم ذرا لحاظ نہیں کرتی ۔ ہندوستانی کرنسی ہی میں قیمت وصول کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ دس کے بیس۔۔۔ ہمارا روپیہ اور سیاست دان، کب کے اپنی قدر کھو چکے۔ادھر ڈالر آنکھیں دکھا رہا ہے۔95 پر پہنچ کر کچھ دم لیا ہے، گمان ہے کہ ایک پھریری سی لے کر اگلی جست لگائے گا۔ ٹنڈلکر ،پٹرول اور ڈالر میں سے پہلے دو تو سو کا ہندسہ کب کے عبور کر چکے۔
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی
کتاب میں دلی کے جن بائیس خواجگان کی تفصیل دی گئی ہے ان میں شامل ہیں:
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت قاضی حمید الدین ناگوری، حضرت خواجہ بدر الدین غزنوی،حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل، شیخ المشائخ نظام الدین اولیاء ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلی، حضرت خواجہ امیر خسرو، حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحیی، حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی، حضرت خواجہ محی الدین کاشانی، حضرت خواجہ کمال الدین، حضرت مخدوم سما ء الدین سہروردی، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہان آبادی، محب النبی حضرت مولانا محمد فخر الدین فخر جہاں،حضرت خواجہ مرزا جان ِجاناں مظہر شہید، حضرت شاہ علی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت شاہ محمد آفاق، حضرت خواجہ ابو سعید۔