کتابوں کا اتوار بازار-10 جون 2012-’کتابوں پہ تیری عجب وقت آکے پڑا ہے۔۔‘

Rashid Ashraf

محفلین
کتابوں کا اتوار بازار
’کتابوں پہ تیری عجب وقت آکے پڑا ہے۔۔‘
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے


اس مرتبہ علی صبح اتوار بازار کا رخ کرتے وقت ذہن میں ایک نا خوشگوار واقعے کی یاد تازہ تھی۔ گزشتہ ہفتے فیروز سنز میں ہوئی آتشزدگی کی خبر آئی تھی ۔اس سے کچھ ہی عرصہ پیش آنے والے واقعے کا تذکرہ رہ گیا سو آج کتاب سے محبت رکھنے والے احباب یہ بھی جان لیں کہ کچھ عرصہ قبل پروفیسر سحر انصاری کا کتب خانہ بھی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آیا اور اتفاق تو دیکھیے کہ یہ سانحہ عین اس روز پیش آیا جس روز عالمی یوم کتب تھا۔ آگ اور پانی وہ عناصر ہیں جو زندگی کے وجود کو قرار بخشتے ہیں۔لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پروفیسر صاحب کے معاملے میں قدرت کے یہی دو عناصر بے قابو ہوئے۔22 اپریل 2012 کا دن تھا جب ناظم آباد میں واقع ان کے کتب خانے میں آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نادر و نایاب کتابیں جاں سے گزر گئیں، مخطوطات و نادر قلمی نسخے سوختہ ہوئے اور ساتھ ہی ان کے مالک کا دل بھی۔ کتاب کی محبت میں سرتا پا غرق وہ وہ مالک جس نے راقم کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ بہت برس ہوئے جب اس کے والد نے عید پر کپڑے خریدنے کے لیے پیسے دیے تھے اور وہ ان کی کتابیں خرید لائے تھے۔۔۔پھر بروز عید، تمام دن پروفیسر صاحب پرانے ملجگے کپڑے پہن کر گھوما کیے۔
ندی کنارے دھواں اٹھت ہے
میں جانوں کچھ ہوئے
جس کے کارن میں جوگن بنی
وہی نہ جلتا ہوئے

اس سے قبل بھی پروفیسر صاحب پر یہ کڑا وقت گزر چکا ہے۔ 5 مئی 2000 کو وہ یہ دکھ جھیل چکے تھے۔ اس وقت خامہ بگوش زندہ تھے ۔چٹکی لینے سے باز نہ آئے اور گمان ہے کہ پروفیسر صاحب بے مزہ نہ ہوئے ہوں گے۔خامہ بگوش نے 2000 میں ہوئی آتش زدگی کے واقعے پر لکھا تھا:
’’ اتفاق سے ایک مشہور ادیب کے گھر میں آگ لگ گئی۔ ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں جل گئیں۔ کئی غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر خاک ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے دوست اظہار ہمدردی کے لیے ان کے ہاں پہنچے۔ ہر دوست نے اپنی بساط کے مطابق آتش زدگی کے واقعے پراظہار افسوس کیا۔ البتہ ایک دوست نے منفرد انداز سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا: ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک دردناک سانحہ ہے لیکن یاد رکھیے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے ، وہیں آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیئے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ ‘‘

اکثر کتابوں کے شائق افراد کی کتابوں کو ان کی بیویاں اپنی سوکن قرار دیتی ہیں۔پروفیسر صاحب نے اس صورتحال سے بچنے کا حل یہ نکالا کہ خود کہیں اور مقیم ہوئے اور کتابوں کے لیے ایک علاحدہ ’قیام گاہ‘ کا بندوبست کیا۔ لیکن شر پسندوں کے ہاتھ وہاں تک بھی جا پہنچے۔کسی ستم ظریف نے اس لمحے کی تصویر بھی اپنے کیمرے میں محفوظ کرلی جب پروفیسر سحر انصاری آ تشزدگی کے بعد سوختہ کتابوں کی راکھ کرید رہے تھے۔ گھر کو آگ گھر کے چراغ سے تو نہ لگی لیکن کتابوں کی راکھ کریدتے وقت دل کے پھپھولے سینے کے داغوں سے جل اٹھے۔۔۔۔

پروفیسر صاحب نے سن 2000 میں ہوئی آتشزدگی کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا : ’’اس روز ناظم آباد میں میرے کتب خانے میں ایک نوجوان آیا جسے انسائیکلو پیڈیا میں کوئی لفظ دیکھنا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ لفظ موجود ہے آپ اسے لکھ لیں۔وہ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا، اسے لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم کی تلاش تھی۔ اس لمحے وہ مجھے خاصا غیر سنجیدہ معلوم ہوا۔خیر، وہ چلا گیا اور کچھ دیر بعد میں بھی کتب خانے کو تالا لگا کر گھر چلا آیا۔ گھر پہنچے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے کتب خانے میں آگ لگنے کی اطلاع ملی ۔میں شدید پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ پچھلی گلی سے کتب خانے کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر کوئی آتش گیر مادہ اندر پھینکا گیا تھا جس کی وجہ سے تین کمروں میں موجود کتابوں میں آگ لگی گئی۔‘‘

اس مرتبہ عالمی یوم کتب 2012 کے موقع پر پروفیسر صاحب کے کتب خانے کے کسی بوسیدہ برقی تار نے خود پر پڑنے والے بوجھ کو مزید سہارنے سے انکار کیا اور نتیجتا پروفیسر سحر انصاری نے جو مال متاع ان بارہ برسوں میں قطرہ قطرہ کرکے جمع کیا تھا ، ایک مرتبہ پھر نذر آتش ہوا۔

’’آگ اور پانی نے مل کر مجھے برباد کردیا۔ میں کتابوں کا رسیا ہوں۔میری زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مجھے جلی ہوئی کتابوں کے درمیان بیٹھ کر ایسا محسوس ہوا ،گویا میں اپنے عزیزوں کی جلی ہوئی لاشوں پر بیٹھا ہوں۔‘‘۔۔۔۔۔ دل گرفتہ سحر انصاری ایک اخباری نمائندے سے کہہ رہے تھے۔
------------
اس مرتبہ کتابوں کے اتوار بازار سے مختلف النوع قسم کی کتابیں ملیں۔میرن صاحب کے نواسے آفاق حسین آفاق کی 1949 میں مرتب کی ہوئی ’نودرات غالب‘ کرم خودرہ ہی سہی لیکن ایک اہم کتاب ہے۔یہ مرزا غالب کے وہ غیر مطبوعہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے ایک مداح اور سخن فہم منشی نبی بخش حقیر کے نام لکھے تھے، انہیں مقدمہ و حواشی کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔آفاق حسین تک یہ خطوط میر مہدی مجروح اور میر افضل علی کے توسط سے پہنچے تھے۔ منشی نبی بخش حقیر 1847 میں دہلی آئے تھے اور مرزا غالب کے پاس قیام کیا تھا۔دوران قیام شعر و سخن کے مذاکرے بھی خوب رہے۔ ذوق علم و ادب کا یہی تعلق اخلاص و محبت کے رشتہ کا باعث بنا جو تا عمر قائم رہا۔
کتاب کا مقدمہ سرنامہ کے عنوان سے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے۔میرن صاحب، غالب کے عاشق تھے،انہوں نے غالب کے ہاتھ کے لکھے کئی خطوط مولوی صاحب کو تحفتا پیش کیے تھے۔آفاق حسین کو یہ ترکہ ورثے میں ملا تھا ۔انہوں نے نہ صرف خطوط مرتب کیے بلکہ ساتھ ہی ساتھ مرزا کے بہت سے نجی حالات، قلعہ سے تعلق اور روز مرہ کی زندگی کی بہت سی باتیں بھی ’نودرات غالب‘ میں محفوظ کردی ہیں۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ کتاب کے آخر میں مرتب نے غالب کے شاگردوں کی فہرست بھی درج کی ہے، بقول مولوی صاحب، بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ علم ہوگا کہ غالب کے شاگردوں کی تعداد ’ترانوے ‘ ہے۔ آفاق حسین کو جن لوگوں نے کتاب کی تیاری میں تحقیق مواد فراہم کیا ان میں ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر اظہر علی، مرزا نعیم اللہ بیگ، کوثر دہلوی، طالب دہلوی، فضل حق قریشی دہلوی،منور لکھنوی،شیو راج بہادر،شیخ محمد اکرام اور شمس زبیری شامل ہیں۔

مرزا غالب منشی نبی بخش حقیر کا ذکر کرتے ہوئے ہر گوپال تفتہ کے نام 10 فروری 1849 کو لکھے ایک مکتوب میں کہتے ہیں: ’’ خدا نے میری بے کسی اور تنہائی پر رحم کیا اور ایسے شخص کو میرے پاس بھیجا جو میرے زخموں کا مرہم اور میرے درد کا درمان اپنے ساتھ لایا اور جس نے میری اندھیری رات کو روشن کردیا۔اس نے اپنی باتوں سے ایک ایسی شمع روشن کی جس کی روشنی میں، میں نے اپنے کلام کی خوبی جو تیرہ بختی کے اندھیرے میں خود میری نگاہ سے مخفی تھی، دیکھی۔‘‘

غالب اور حقیر،دونوں کی بیماریاں بھی ایک جیسی ہی تھیں۔مرزا کی طرح،حقیر بھی احتراق اور فساد خون سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا تھے۔ حقیر کی وفات اکتوبر 1860 میں ہوئی۔منشی نبی بخش حقیر کے مختصر کلام کو ’نودرات غالب‘ میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

بڑھ گئی توقیر میری امتناع دخل سے
اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مجھکو اس کے درباں دیکھ کر
(3 ستمبر 1853 کو منشی حقیر کے نام ایک مکتوب میں غالب اس شعر کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وللہ کیا شعر ہے۔ یہ ایک روش خاص ہے،ہر کوئی اس کو نہیں جانتا)
xxxxx
شانے نے بل نکال دیے زلف یار کے
سیدھا کیا ہے موذیوں کو مار مار کے
xxxxx
وہ نگاہیں جن سے تھی مجھ کو تسلی کی امید
تشنہ خوں، آفت دل،دشمن جاں ہوگئیں
xxxxx
سایہ قصر ترا یاد آیا
پھر ہمیں ظل ہما یاد آیا
ید بیضا کا جو مذکو ر ہوا
ان کا نقش کف پا یاد آیا
پھر گریباں کے اڑیں گے پرزے
پھر وہی چاک گریباں یاد آیا
خط جو غیروں کو کیے اس نے رقم
ہم کو قسمت کا لکھا یاد آیا
بسکہ مصنوع ہے صانع کی صفت
بت کو دیکھا تو خدا یاد آیا
آج پھر اس بت کافر نے حقیر
وہ اذا کی کہ خدا یاد آیا
xxxxx

ڈاکٹر ظہور الحسن شارب کی تحریر کردہ ’’دلی کے بائیس خواجہ ‘‘ نامی کتاب تاج پبلشر نے 1977 میں دلی سے شائع کی تھی۔کتاب کے نام کی برکت سے جب اس کی قیمت طے پانے کا تکلیف دہ مرحلہ آیا تو کتب فروش کی آنکھوں پر گویا پٹی بندھ گئی، بصورت دیگر کتاب ہندوستان سے چھپی ہو تو یہ قوم ذرا لحاظ نہیں کرتی ۔ ہندوستانی کرنسی ہی میں قیمت وصول کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ دس کے بیس۔۔۔ ہمارا روپیہ اور سیاست دان، کب کے اپنی قدر کھو چکے۔ادھر ڈالر آنکھیں دکھا رہا ہے۔95 پر پہنچ کر کچھ دم لیا ہے، گمان ہے کہ ایک پھریری سی لے کر اگلی جست لگائے گا۔ ٹنڈلکر ،پٹرول اور ڈالر میں سے پہلے دو تو سو کا ہندسہ کب کے عبور کر چکے۔
باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی

کتاب میں دلی کے جن بائیس خواجگان کی تفصیل دی گئی ہے ان میں شامل ہیں:
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت قاضی حمید الدین ناگوری، حضرت خواجہ بدر الدین غزنوی،حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل، شیخ المشائخ نظام الدین اولیاء ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلی، حضرت خواجہ امیر خسرو، حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحیی، حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی، حضرت خواجہ محی الدین کاشانی، حضرت خواجہ کمال الدین، حضرت مخدوم سما ء الدین سہروردی، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہان آبادی، محب النبی حضرت مولانا محمد فخر الدین فخر جہاں،حضرت خواجہ مرزا جان ِجاناں مظہر شہید، حضرت شاہ علی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت شاہ محمد آفاق، حضرت خواجہ ابو سعید۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
کتابوں کا اتوار بازار-10 جون، 2012حصہ دوم

دیگر کتابوں میں ایک مختصر مگر جامع کتاب ’۔گفت و شنید‘ کے نام سے بھی ہاتھ آئی۔محروم ہاشمی نامی مصنف کے متفرق مضامین و یاداشتیں۔کتاب کا اندرونی صفحہ غائب ہے، لہذا سن اشاعت کی تصدیق کے لیے کراچی میٹروپولیٹن لائبریری کی مہر سے مدد لینی پڑی جس پر 1975 کندہ ہے لیکن بعد ازاں کتاب میں شامل مضمون ’دلی کے چند حکیم‘ کے مطالعے سے علم ہوا کہ محروم ہاشمی نے یہ کتاب 1941 میں لکھی تھی۔ لائبریری کی جانب سے کتاب کے آخر میں چسپاں ’’لین دین‘‘کے ریکارڈ پر مبنی صفحے کو سادہ پایا۔ اس کے پہلے قاری ہونے کی سعادت راقم کے حصے میں آئی۔۔گفت و شنید‘ کے کئی صفحات جڑے پائے۔ کتاب میں شامل مضامین میں دلی کے چند شرفاء، دلی کے چند مصنفین اور دلی کے چند حکیم کے مطالعے کے بعد مذکورہ کتاب کی اہمیت اور مصنف کے دلنشیں طرز تحریر کا پتہ ملتا ہے۔
ہاشمی صاحب کون تھے، کیا ہوئے، خدا ہی جانے لیکن کتاب کے مضامین پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے

چند نمونے ملاحظہ ہوں:

۔۔ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر ہندوستاں جنت نشاں میں سودا سلف بیچنے کے لیے وارد ہوئی تھی۔جس طرح حضرت موسی کوہ طور پر آگ لینے گئے تھے اور پیغمبری لے کر لوٹے تھے، اسی طرح کمپنی بہادر بھی اسباب تجارت لے کر آئی اور حکومت سنبھال کر بیٹھ گئی۔(فرنگی اردو )
۔۔استاد ذوق فرماتے ہیں : مجھے ایک دن بادشاہ نے اپنی غزل کا مسودہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسے ابھی بنادو۔برسات کا موسم تھا۔گھٹائیں تلی کھڑی تھیں۔ دریا بھی چڑھاؤ پر تھا۔میں دیوان خاص میں جاکر دریا کے رخ بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد کچھ پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔مڑ کر دیکھا تو ایک صاحب دانائے فرنگ کھڑے تھے۔مجھ سے کہا ’ ول! آپ کیا لکٹا ہے ؟ ‘۔۔میں نے جواب دیا ’ غزل ہے‘۔۔پوچھا ’ آپ کون ہیں؟‘۔۔میں نے کہا ’ نظم میں حضور کی دعا گوئی کرتا ہوں‘۔۔فرمایا ’ کس جبان میں ؟ ‘۔۔میں نے کہا ’ اردو میں‘۔۔پھر پوچھا ’ آ پ کون کون سی جبان جانٹاہے ؟‘۔۔میں نے کہا ’ عربی، فارسی بھی جانتا ہوں‘۔۔ دریافت کیا ’ آپ انگریزی بھی جانٹا ہے؟‘۔۔میں نے کہا ’ نہیں‘۔۔فرمایا ’ کیوں نہیں سیکھا؟‘۔۔ میں نے کہا ’ ہمارا لب و لہجہ اسے قبول نہیں کرتا‘۔۔صاحب نے کہا ’ ول! یہ کیا باٹ ہے، ہم آپ کا جبان بولٹا ہے‘۔۔میں نے جواب دیا ’ جناب! پختہ سالی میں غیر زبان سیکھنی بہت مشکل ہے‘۔۔ انہوں نے پھر کہا ’ ول! ہم آپ کا ٹین جبان ہندوستان میں آکر سیکھا ،آپ ہمارا ایک جبان نہیں سیکھ سکٹا‘۔۔
’بھلا یہ بھی کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے۔اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے،اسے تو زبان کا خراب کرنا کہتے ہیں۔ ‘ استاد ذوق نے یہ جواب شاید دل ہی دل میں دیا ہوگا۔

۔۔زبان و بیان کی نزاکتوں کے بیان میں محروم ہاشمی نے چند مزید قصے بیان کیے ہیں۔لندن میں محروم ہاشمی ڈاکٹر اسٹوری کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، ڈاکٹر صاحب علی گڑھ میں عربی کے پروفیسر رہ چکے تھے، ہاشمی صاحب سے کہنے لگے ’آپ کا مزاج شریف ہے ؟ ‘ اور ہاشمی صاحب ان کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

۔۔محروم ہاشمی کے ایک دوست آکسفورڈ سے تکمیل تعلیم کے بعد ہندوستان آئے۔ایک شام کو
چائے پی رہے تھے جو ذرا ہلکی تھی جبکہ وہ تیز چائے کے عادی تھے۔بولے بھئی میں تو مضبوط چائے پیوں گا۔یہ انہوں نے اسٹرونگ ٹی کا ترجمہ کیا تھا جو تہی مایہ اردو کے دامن کو محاورہ اور معنی کی دولت سے مالامال کرگیا۔

۔۔ محروم ہاشمی کے ایک بچپن کے دوست تھے، نام تھا محمد عبد الجمید لودھی۔دونوں دوست ایسے بچھڑے کہ اگلی ملاقات زمینداری کے ایک قضئیے میں پندرہ برس بعد اس وقت ہوئی جب انہیں ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہونے کا موقع ملا۔ ڈپٹی کمشنر کا نام ایم اے لاڈی تھا۔معلوم ہوا کہ یہ ان کے بچپن کے دوست محمد عبد الجمید لودھی ہیں۔لودھی صاحب نے اپنے دوست کو اپنے پاس ٹھہرا لیا۔صبح جب ہاشمی صاحب کی آنکھ کھلی تو ’لاڈی‘ صاحب نہایت رعب سے ملازم پر گرج رہے تھے ’’ ول! ڈیکھو چھوٹا حاضری سے پہلے صاحب کا گسل لگا ڈینا اور ہمارا ایک ڈم شیو لگاؤ۔اور ڈیکھو ہمارا کالا جوتا لگاؤ۔ہمارا نیلا سوٹ لگاؤ۔ہم چھوٹا حاضری کے بعد گسل لے گا۔‘‘

۔۔۔ایک دن میں (محروم ہاشمی)خان بہادر مولوی ظفر حسن صاحب کے پاس بیٹھا تھا ،ایک صاحب
کچھ عجب دھج سے تشریف لائے،تہہ بند باندھے،بہت نیچا کرتہ پہنے،سر پر اونچی چوگوشیہ ٹوپی، لیکن تمام لباس سر سے پاؤں تک گہرے سرخ رنگ کا، سلیم شاہی پھولدار جوتا،وہ بھی سرخ، ایک بڑا سا لال رومال ہاتھ میں، چوڑا چکلا چہرہ، سرخ رنگت،میانہ قد اور چھریرا بدن۔مجھے ان کی وضع دیکھ کر ان سے دلچسپی سی ہوگئی۔دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ایک بزرگ انگارا شاہ نام کے مرید ہیں۔ان کے انتقال کے بعد یہ بھی انگارا شاہ کہلانے لگے ہیں۔ان کا اصل نام اکرام علی خاں تھا۔باتیں ایسی لچھے دار کہ آج تک لطف دے رہی ہیں۔ عربی فارسی خوب جانتے تھے،حافظ قران بھی تھے،طب بھی پڑھی تھی ،انگریزی سے بقدر ضرورت واقف تھے ۔اپنے حالات کبھی کبھی سناتے تھے، کہتے تھے اٹھارہ سو ستاون کے قیامت خیز ہنگامے کے وقت ان کی عمر سولہ برس تھی۔ مرزا غالب کی صحبت میں اکثر حاضر رہا کرتے تھے۔(دلی کے چند شرفاء )

۔۔۔ چلیے میرے ساتھ کشمیری دروازے چلیے اور حضرت آغا شاعر قزلباش (سحاب قزلباش کے والد۔راقم) سے ملیے۔سنئے صاحب! جن لوگوں نے آغا صاحب کو جوانی کے عالم میں دیکھا ہے،وہ اب ان کو پہچان بھی نہیں سکتے۔ بھاری بھرکم جوانی سے بھرپور جسم،قابل رشک صحت،خمار آلود بڑی بڑی آنکھیں،سرخ و سفید رنگت،نہایت شاندار چڑھی ہوئی مونچھیں،صاف داڑھی، سر پر مشہدی لنگی وہ بھی ایک خاص انداز سے بندھی ہوئی،کبھی سوٹ بوٹ کبھی افغانی شلوار،راہ چلتوں کی نظر انہی پر پڑتی تھی۔جس زمانے میں ان کا شباب تھا، ان کی شاعری بھی شباب پر تھی۔ان کی زندگی کے آخری ایام بے کسی اور بے بسی کی عبرت ناک تصویر ہیں۔آئیے فصیلوں میں مڑ چلیں،وہ صبح شام اکثر یہیں ٹہلا کرتے ہیں۔لیجیے دیکھ لیجیے،یہ حضرت آغا شاعر قزلباش ہیں۔اف کیسی بری حالت ہے،ان سے بات نہ کیجیے گا،نہیں تو بچوں کی طرح رونے لگیں گے،دیکھیے ہاتھ پاؤں پر سوجن ہے،اختلاج قلب کے مریض ہیں،معدہ اور جگر بالکل بیکار ہوچکا ہے،ان کا حال دیکھا نہیں جاتا،کس قدر پریشان ہیں۔افسوس آسمان شاعری کا درخشاں ستارہ 12۱۲ مارچ 1940 کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔(دلی کے چند مصنفین ) ۔

۔۔۔ دلی بھی کیا مقام ہے۔نام لینے سے جان آتی ہے۔چلیے چاندنی چوک کی سیر کریں۔اس کی بہاروں میں ٹھٹکنے کا سماں نہیں۔اس کی رعنائیوں پر محو ہوجانے کا موقع نہیں۔ یہ لیجیے فوارہ آگیا۔یہ سنہری گنبدوں والی مسجد ،سنہری مسجد کہلاتی ہے۔نادر شاہ نے قتل عام کا حکم اسی مسجد میں پہنچ کر دیا تھا۔ حکم کیا دیا تھا۔آدھی تلوار نیام سے باہر نکال کر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا تھا۔اس تباہی سے بیچاری دلی مدتوں نیم جان رہی۔وہ دیکھیے دائیں ہاتھ کو نیل کا کٹرہ ہے اور بائیں ہاتھ کو بلی ماروں کا بازار۔ دائیں ہاتھ کو گلی قاسم جان ہے اور بائیں ہاتھ کو ایک سفید محراب دار پھاٹک،مخلوق کی آمدکا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔بڑے حکیم یعنی حکیم اجمل خاں صاحب کا مطب یہیں ہے۔بڑے بڑے مایوس العلاج مریض آتے ہیں اور خاک کی چٹکی سے شفا پاتے ہیں۔ آئیے ان کے مطب کا نقشہ بھی دیکھیں۔یہ دیکھیے دلان در دلان۔دودھ جیسی چاندنی کا فرش۔اس پر ایرانی اور افغانی قالین۔باہر کے دلان کی آخری محراب میں حکیم صاحب تشریف فرما ہیں۔پیچھے گاؤ تکیہ دھرا ہے۔ پہلو میں قیمتی ادویات کا بکس رکھا ہے۔دونوں دلان مریضوں سے بھرے ہیں۔حکیم صاحب کے دائیں بائیں کتنے ہی شاگرد بیٹھے ہیں۔ دیکھیے اس پررعب شخصیت سے ہر شخص مرعوب ہے۔رنگ بہت کھلتا ہوا گندمی، بلکہ گورا۔قد درمیانہ سا۔بڑی بڑی پر رعب آنکھیں ،سیاہ داڑھی نگاہیں نیچی،آواز بہت ملائم بلکہ زیر لب۔ مطب میں کس غضب کی خاموشی ہے، دھکا پیل نہیں، افراتفری نہیں۔حکیم صاحب بڑے خلیق اور ہر دل عزیز ہیں ۔وہ شیدا تخلص کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دلی کا بچہ بچہ ان پر شیدا ہے۔ 1919 میں دلی میں ہڑتال ہوئی ۔ان دنوں خلافت اور کانگریس کا بڑا زور تھا اور حکیم صاحب ان تحریکوں کے روح رواں تھے۔ہڑتال کے باعث شہر بالکل سونا پڑا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی بڑا ہنگامہ ہونے والا ہے۔چیف کمشنر نے لال قلعہ میں ایک میٹنگ کی اور ضروری معاملات پر غور کرنے کے لیے حکیم صاحب کو بھی بلایا۔ادھر حکیم صاحب تو قلعہ میں تشریف لے گئے ،ادھر شہر میں افواہ پھیل گئی کہ حکیم صاحب کو دھوکے سے بلا کر قلعہ میں نظر بند کردیاہے۔ اس خبر کا اڑنا تھا کہ دلی میں کھلبلی مچ گئی اور مخلوق قلعے کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئی۔ ہمارے یہاں ایک عورت مریم نامی ملازمہ تھی۔ اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کو ہم ہوچو ہوچو کہا کرتے تھے۔اس ہوچو نے جب یہ خبر سنی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا اور چولھے میں سے ایک سلگتی ہوئی لکڑی نکال کر قلعے کی طرف بے تحاشا بھاگا۔ہائے کیا مخلوق تھی اور کیسے محبت والے لوگ تھے۔اب یہ باتیں افسانہ ہوگئیں۔چودہ سال ہوئے کہ حکیم صاحب 1927 میں اس دنیا سے سدھار گئے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہے۔(دلی کے چند حکیم ۔گفت و شنید از محروم ہاشمی)

سرورِ علم ہے، کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے، کتاب سے بہتر
-----------------------------------------------
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کی تفصیل یہ ہے:

نادرات غالب÷مرزا غالب کے خطوط÷مرتب: آفاق حسین آفاق÷ناشر: ادارہ نادارات کراچی÷سن اشاعت: 1949÷صفحات: 160

گفت و شنید÷مضامین/یاداشتیں÷محروم ہاشمی÷سن اشاعت: 1975÷صفحات: 190

دلی کے بائیس خواجہ÷ڈاکٹر ظہور الحسن شارب÷ناشر: تاج پبلشر، بیری والا باغ-دہلی÷سن اشاعت: جون 1977÷صفحات: 272

جوئے شیر÷علامہ اقبال کے اردو کلام کا مکمل اشاریہ مشتمل بہ بانگ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم، ارمغان حجاز
مرتب: داؤد عسکر÷ناشر: رشید اینڈ سنز- کراچی÷سن اشاعت: فروری 1979÷صفحات: 630

شخصیت÷حمید کاشمیری نمبر÷زیر اہتمام: ٹیلنٹس گلڈ-کراچی÷سن اشاعت: 2001÷صفحات: 500
 

تلمیذ

لائبریرین
اس مرتبہ بھی بھی عمدہ کتابیں آپ کے ہاتھ لگی ہیں لیکن جناب سحر انصاری کے کتب خانے میں آتشزدگی کے بارے میں پڑھ کر دلی افسوس ہوا ہے، انکے نقصان کا حقیقی احساس تو صرف ان ہی کو ہےتاہم کتاب کے شیدائی بھی کچھ کم غمگین نہ ہوں گے۔
 
Top