کتابوں کا اتوار بازار-6 مئی، 2012

Rashid Ashraf

محفلین
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
گزشتہ ایک پوسٹ میں خاکسار نے ”استفادہ حاصل کیا“ کی ترکیب استعمال کی ہے ۔، اہل دانش اعتراض کریں گے کہ اس میں لفظ ’حاصل‘ کا بیجا استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں میں اس غلطی پر اعتراف جرم کرتا ہوں، کاتب کے سر بھی یہ وبال نہیں ڈالا جاسکتا کہ مذکورہ روداد کا کاتب بھی خود ہی ہوں۔ اپنی اس غلطی پر حضرت مولانا غلام قادر کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے، واقعے کے راوی ہیں مولانا عبدالمجید سالک جنہوں نے ایک مرتبہ مولانا غلام قادر سے نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی کی شاعری کے بارے میں مولانا کا خیال دریافت کیا ، جواب ملا: ” خامی میں پختہ ہوگیا ہے۔“ اور سالک صاحب اس جامع مانع رائے کو سن کر پھڑک اٹھے۔

خدا نہ کرے کہ اس وضاحت کو پڑھنے والے پھڑک اٹھنے کے بجائے بھڑک اٹھیں!

اتوار بازار کا احوال لکھتے ایک برس بیت چلا ہے، ادھر ایک کرم فرما نے اتوار بازار کی ان رپورٹوں کو کتابی شکل میں شائع کروانے کا مشورہ دیا ہے۔ خاکسار کے زیادہ تر مضامین غیر مطبوعہ ہیں اور بہتیروں کو لکھ کر اور پال لگا کر ایک طرف ڈال دیا ہے۔ شائع ہوگئے تو ٹھیک بصورت دیگر بقول خامہ بگوش ” ٓآپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ “ (ایک ادیب کے گھر لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں ان کی مطبوعات کے خاکستر ہوجانے پر رد عمل )

اس مرتبہ کے اتوار بازار میں "حاصل بازار" کتابوں میں سرفہرست ہندوستان کے شاعر جناب کلیم عاجز کی خودنوشت ‘جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی" رہی، ایسے کتنے لوگ ہوں گے جن کی زندگیوں میں بیان کرنے لائق رنگا رنگ واقعات ہوں گے اور جو تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے کرتے شاید ایک دن یہ سوچیں کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔

برسبیل تذکرہ، کلیم عاجز کی دوسری خودنوشت "ابھی سن لو مجھ سے" ہے، سٹی پرنٹ، نئی دلی نے اس کتاب کو 1992 میں شائع کیا تھا۔

اس کے علاوہ نقوش کے 1964 میں شائع ہوئے آپ بیتی نمبر (حصہ دوم) کا ملنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔ "محمد نقوش" نے مذکورہ نمبر دو حصوں میں شائع کیا تھا۔ دونوں حصوں کے صفحات کی کل تعداد 1856 کے قریب ہے۔ راقم کو اسی بازار سے ایک برس قبل مذکورہ پرچے کا پہلا حصہ ملا تھا۔

علی الصبح بازار سے کتابوں کی خریداری مکمل کرنے بعد ہم لذت کام و دہن کی آزمائش کی خاطر کراچی صدر کی مشہور صابری نہاری کا قصد کیے چند احباب کی معیت میں نکلا ہی چاہتے تھے کہ ایک کرم فرما نے رستہ روکا اور سرگوشی کے انداز میں کہا " چپکے سے چلے آئیے"

فوری طور پر خیال آیا کہ شاید کسی کتاب کی قیمت ادا ہونے سے رہ گئی ہے اور کتب فروش نے سربازار آواز لگا کر مرکز رسوائی بننے سے بچانے کی خاطر ان کرم فرما کو بھیج دیا ہے کہ مشکیں کس کر لے آئیے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک ایسی جگہ لے جاکر کھڑا کردیا جہاں کلیم عاجز کی خودنوشت اور نقوش میز پر دھرے تھے۔

انتہائی مطلوبہ کتابوں کا ملنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ اچانک زد میں آجائے۔
کتابوں کو ہاتھ میں تھام کر اک نگاہ التجانہ بازار کے سب سے گھاگ کتب فروش پر ڈالی:

مسکرا دے، قصہ امید کردے مختصر
یا بڑھالے چل ذرا سی بات کو افسانہ کر

اس کا دل پسیجا، قصہ امید مختصر ہوا، دام مناسب کیے . . . بصورت دیگر نوبت عموما" بہ ایں رسید :

میں وہ شعلہ تھا جسے "دام" سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہ "دام" تھے ،مجھے کھا گئے

کتابیں بغل میں داب، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔
..................
کراچی کی سب سے قدیم نہاری کی دکان کے سامنے بیٹھے ہیروئن کے نشے میں چور چند ہیرونچی اپنے سامنے کھڑے پانچ افراد کو ملتجیانہ نظروں سے اس سے بات سے بے خبر انہیں دیکھ رہے تھے کہ وہ پانچوں ”ادب” کے نشے میں چور ہیں۔

نہاری کھانے کے بعد جب احباب کو دکان کے باہر کھڑے گفتگو کرتے آدھ گھنٹہ گزر چلا، تو سید معراج جامی صاحب نے یک دم سے کہا: "" بھئی اب چلو! اونٹ کروٹ بدل رہا ہے۔""

نہاری اونٹ کے گوشت ہی کی تو تھی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابوں کی تفصیل اس طرح سے ہے:

جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی
کلیم عاجز
عرشی پبلیکیشنز دہلی
سن اشاعت: 1981

صاحب
شخصی خاکوں کا مجموعہ
محمد طفیل
ناشر: ادارہ فروض اردو لاہور
سن اشاعت: 1964

نقوش-آپ بیتی نمبر
جون 1964
مدیر: محمد طفیل
حصہ دوم ۔صفحہ-837 تا 1856

اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء
الطاف فاطمہ
اردو اکیڈمی سندھ کراچی
سن اشاعت: 1961

عکس ناتمام
شخصی خاکوں کا مجموعہ
رحمت روحیلہ (ہر مال بیس روپیہ کی 'لاٹ' سے)
ناشر: امانت اکادمی کراچی
سن اشاعت: 2006

قائد اعظم محمد علی جناب-میری نظر میں
حسن اصفہانی
یاداشتیں (ہر مال بیس روپیہ کی 'لاٹ' سے)
ناشر: روٹا پرنٹ ایجنسی- کراچی
سن اشاعت: 1968
 

Rashid Ashraf

محفلین
جی ہاں اعجاز صاحب، لیکن ہمارے یہاں ٹیلی وژن پر کچھ اور طرح کی خبریں غالب رہتی ہیں۔ وائس آف امریکہ والے کہہ رہے ہیں کہ ادبی خبروں کا ایک احوال میں انہیں مہینے میں دوبار ریکارڈ کروادیا کروں، نئی کتابیں، رسالے، وغیرہ کے بارے میں خبریں۔ بات چل رہی ہے، اب آپ کی بات کے بعد سوچ رہا ہوں کہ یہ احوال بھی اسی میں کھپا دیا کروں۔

"استفادہ حاصل کرنا" کی ترکیب کے سلسلے میں اجمل کمال صاحب کا یہ پیغام آیا ہے:
شمسالرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘زبان کےاعتبارسےبالکل درست ہے۔ (’’لغات ِروزمرہ‘‘،تیسراایڈیشن،۲۰۱۲، آج کی کتابیں، ،کراچی) ص۶۵۔۶۸۔انھوںنےاسسلسلےمیںمختلف لغات کےعلاوہ حالی اور اقبال کی سند پیش کی ہے۔"

اب میں مطمعئن ہوں!
 

یوسف-2

محفلین
جی ہاں!
” تحقیق“ سے یہی معلوم ہوا ہے کہ ”استفادہ حاصل کرنا“ لکھنا بھی درست ہے۔ اور یہ خیال ”غلط العام“ ہے کہ ایسا لکھنا غلط ہے، خواہ ایسا سمجھنے والے عطا ء الحق قاسمی جیسے مستند ادیب و شاعر ہی کیوں نہ ہوں۔ عطا صاحب نے اپنے ایک کالم میں اپنی ہی ”تصحیح“ کا اعلان بھی کیا تھا۔ ممتاز بھارتی نقاد و ادیب پروفیسر شمیم صاحب بھی ”استفادہ حاصل کرنا“ کو درست قرار دیتے ہیں۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
بھائی یوسف
آپ کا شکریہ
کیا پروفیسر شمیم سے آپ کی مراد شمیم حنفی صاحب ہیں ؟
 

یوسف-2

محفلین
جی راشد بھائی!
یہ شمیم حنیفی ہی ہیں۔ عطا ء الحق قاسمی صاحب نے انہی کا حوالہ دیا تھا۔ آپ حال ہی میں کراچی میں منعقدہ اردو کانفرنس میں بھی آئے تھے۔
 
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
گزشتہ ایک پوسٹ میں خاکسار نے ”استفادہ حاصل کیا“ کی ترکیب استعمال کی ہے ۔، اہل دانش اعتراض کریں گے کہ اس میں لفظ ’حاصل‘ کا بیجا استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں میں اس غلطی پر اعتراف جرم کرتا ہوں، کاتب کے سر بھی یہ وبال نہیں ڈالا جاسکتا کہ مذکورہ روداد کا کاتب بھی خود ہی ہوں۔ اپنی اس غلطی پر حضرت مولانا غلام قادر کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے، واقعے کے راوی ہیں مولانا عبدالمجید سالک جنہوں نے ایک مرتبہ مولانا غلام قادر سے نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی کی شاعری کے بارے میں مولانا کا خیال دریافت کیا ، جواب ملا: ” خامی میں پختہ ہوگیا ہے۔“ اور سالک صاحب اس جامع مانع رائے کو سن کر پھڑک اٹھے۔

خدا نہ کرے کہ اس وضاحت کو پڑھنے والے پھڑک اٹھنے کے بجائے بھڑک اٹھیں!

اتوار بازار کا احوال لکھتے ایک برس بیت چلا ہے، ادھر ایک کرم فرما نے اتوار بازار کی ان رپورٹوں کو کتابی شکل میں شائع کروانے کا مشورہ دیا ہے۔ خاکسار کے زیادہ تر مضامین غیر مطبوعہ ہیں اور بہتیروں کو لکھ کر اور پال لگا کر ایک طرف ڈال دیا ہے۔ شائع ہوگئے تو ٹھیک بصورت دیگر بقول خامہ بگوش ” ٓآپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ “ (ایک ادیب کے گھر لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں ان کی مطبوعات کے خاکستر ہوجانے پر رد عمل )

اس مرتبہ کے اتوار بازار میں "حاصل بازار" کتابوں میں سرفہرست ہندوستان کے شاعر جناب کلیم عاجز کی خودنوشت ‘جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی" رہی، ایسے کتنے لوگ ہوں گے جن کی زندگیوں میں بیان کرنے لائق رنگا رنگ واقعات ہوں گے اور جو تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے کرتے شاید ایک دن یہ سوچیں کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔

برسبیل تذکرہ، کلیم عاجز کی دوسری خودنوشت "ابھی سن لو مجھ سے" ہے، سٹی پرنٹ، نئی دلی نے اس کتاب کو 1992 میں شائع کیا تھا۔

اس کے علاوہ نقوش کے 1964 میں شائع ہوئے آپ بیتی نمبر (حصہ دوم) کا ملنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔ "محمد نقوش" نے مذکورہ نمبر دو حصوں میں شائع کیا تھا۔ دونوں حصوں کے صفحات کی کل تعداد 1856 کے قریب ہے۔ راقم کو اسی بازار سے ایک برس قبل مذکورہ پرچے کا پہلا حصہ ملا تھا۔

علی الصبح بازار سے کتابوں کی خریداری مکمل کرنے بعد ہم لذت کام و دہن کی آزمائش کی خاطر کراچی صدر کی مشہور صابری نہاری کا قصد کیے چند احباب کی معیت میں نکلا ہی چاہتے تھے کہ ایک کرم فرما نے رستہ روکا اور سرگوشی کے انداز میں کہا " چپکے سے چلے آئیے"

فوری طور پر خیال آیا کہ شاید کسی کتاب کی قیمت ادا ہونے سے رہ گئی ہے اور کتب فروش نے سربازار آواز لگا کر مرکز رسوائی بننے سے بچانے کی خاطر ان کرم فرما کو بھیج دیا ہے کہ مشکیں کس کر لے آئیے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک ایسی جگہ لے جاکر کھڑا کردیا جہاں کلیم عاجز کی خودنوشت اور نقوش میز پر دھرے تھے۔

انتہائی مطلوبہ کتابوں کا ملنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ اچانک زد میں آجائے۔
کتابوں کو ہاتھ میں تھام کر اک نگاہ التجانہ بازار کے سب سے گھاگ کتب فروش پر ڈالی:

مسکرا دے، قصہ امید کردے مختصر
یا بڑھالے چل ذرا سی بات کو افسانہ کر

اس کا دل پسیجا، قصہ امید مختصر ہوا، دام مناسب کیے . . . بصورت دیگر نوبت عموما" بہ ایں رسید :

میں وہ شعلہ تھا جسے "دام" سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہ "دام" تھے ،مجھے کھا گئے

کتابیں بغل میں داب، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔
..................
کراچی کی سب سے قدیم نہاری کی دکان کے سامنے بیٹھے ہیروئن کے نشے میں چور چند ہیرونچی اپنے سامنے کھڑے پانچ افراد کو ملتجیانہ نظروں سے اس سے بات سے بے خبر انہیں دیکھ رہے تھے کہ وہ پانچوں ”ادب” کے نشے میں چور ہیں۔

نہاری کھانے کے بعد جب احباب کو دکان کے باہر کھڑے گفتگو کرتے آدھ گھنٹہ گزر چلا، تو سید معراج جامی صاحب نے یک دم سے کہا: "" بھئی اب چلو! اونٹ کروٹ بدل رہا ہے۔""

نہاری اونٹ کے گوشت ہی کی تو تھی!

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

کتابوں کی تفصیل اس طرح سے ہے:

جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی
کلیم عاجز
عرشی پبلیکیشنز دہلی
سن اشاعت: 1981

صاحب
شخصی خاکوں کا مجموعہ
محمد طفیل
ناشر: ادارہ فروض اردو لاہور
سن اشاعت: 1964

نقوش-آپ بیتی نمبر
جون 1964
مدیر: محمد طفیل
حصہ دوم ۔صفحہ-837 تا 1856

اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء
الطاف فاطمہ
اردو اکیڈمی سندھ کراچی
سن اشاعت: 1961

عکس ناتمام
شخصی خاکوں کا مجموعہ
رحمت روحیلہ (ہر مال بیس روپیہ کی 'لاٹ' سے)
ناشر: امانت اکادمی کراچی
سن اشاعت: 2006

قائد اعظم محمد علی جناب-میری نظر میں
حسن اصفہانی
یاداشتیں (ہر مال بیس روپیہ کی 'لاٹ' سے)
ناشر: روٹا پرنٹ ایجنسی- کراچی
سن اشاعت: 1968
واہ وا۔ واہ وا۔ صاحب کیا غضب کرتے ہیں آپ۔ میرا مطلب ہے کہ کیا غضب کا لکھتے ہیں آپ۔ عرصے بعد کسی تحریر کو پڑھ کر پھڑک اٹھا ہوں۔ لکھنے کے بعد اسے سائیڈ میں رکھ دینا اور شائع نہ کرانا ناقابل معافی جرم ہے۔آپ جیسا لکھنے والا بہت کم ہی کسی ایڈیٹر کا نصیب بنتا ہے۔ آپ کو یہ جملہ پڑھ کر حیرت ہو گی کیونکہ آپ نے کبھی کسی اخبار میں کام نہیں کیا ہے۔ ارے بھائی! رپورٹرز جو کچھ لکھ کر لاتے ہیں اگر اسے ایسا کا ایسا ہی شائع کردیا جائے تو شہر میں جلائو گھیرائو شروع ہوجائے۔خبروں اور رپورٹس کی یہ عمدہ تحریر تو اکثر کسی سب ایڈیٹر کا خون جگر ہوتی ہے جس پر کسی رپورٹر کا نام سجا ہوتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
جلائو گھیرائو
نہیں بلکہ
جلاؤ گھیراؤ
ء + و = ئو (غلط ہے)
شفٹ + و = ؤ (درست ہے)
(پروف ریڈنگ کی ”عادتِ بد“ سے مجبور ہوتے ہوئے :D )
 

الف عین

لائبریرین
جلائو گھیرائو
نہیں بلکہ
جلاؤ گھیراؤ
ء + و = ئو (غلط ہے)
شفٹ + و = ؤ (درست ہے)
(پروف ریڈنگ کی ”عادتِ بد“ سے مجبور ہوتے ہوئے :D )
میرا سایہ پڑ گیا ہے شاید۔

سعید احمد عباسی راشد اشرف کے مضامین کے برقی مجموعے احقر نے شائع کئے ہیں۔ شاید تم نے میری دستخط نہیں دیکھی!!
 

Rashid Ashraf

محفلین
عباسی صاحب! آپ کے الفاظ میرے لیے قیمتی ہیں، بہت شکریہ
بھائی یوسف!
روزنامہ ایکسپریس کی جانب سے منعقدہ اس اردو کانفرنس میں شمیم حنفی صاحب اور جیلانی بانو صاحبہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ شمیم صاحب گزشتہ دنوں لاہور منٹو صدی کے موقع پر آئے اور ان سے ہم شہری نے ایک انٹرویو لیا جس میں انہوں نے ابن صفی کا خصوصی ذکر کیا، آپ کی دلچسپی کے لیے لنکس پیش خدمت ہیں:
http://www.wadi-e-urdu.com/wp-conte...nfi-interview-hum-shehri-4-10-may-2012-01.jpg
اور
http://www.wadi-e-urdu.com/wp-conte...nfi-interview-hum-shehri-4-10-may-2012-02.jpg
 
جلائو گھیرائو
نہیں بلکہ
جلاؤ گھیراؤ
ء + و = ئو (غلط ہے)
شفٹ + و = ؤ (درست ہے)
(پروف ریڈنگ کی ”عادتِ بد“ سے مجبور ہوتے ہوئے :D )
شکریہ۔ آپ کی" آپ کی عادت بد" سے یاد آیا۔ کچھ وقت میں نے پروف ریڈنگ بھی کی ایک اخبار میں۔ جب پہلے دن ڈیوٹی جوائن کرنے پہنچا تو چیف پروف ریڈر مفتی مرحوم نے طلب کیا۔ مفتی صاحب کا پورا نام یاد نہیں آرہا مگر سب انہیں مفتی صاحب کے نام سے ہی بلاتے تھے۔ آپ کافی سینئر کارکن تھے اور سب رنگ ڈائجسٹ کی اس ٹیم کے رکن رہ چکے تھے جوکہانیاں سلیکٹ کرتی تھی۔ انہوں نے پہلے تو انٹرویو لیا پھر نصیحتا بولے" بات سن! صرف پروف ریڈنگ کرنا۔ ہمارے بارے میں مشہور ہے کہ متن کو کچھ سے کچھ کردیتے ہیں حتی کہ قرآن کو بھی نہیں بخشتے۔" اتنا کہہ کر انہوں نے ایک واقعہ سنایا جو پروف ریڈروں کی برادری میں زمانہ قدیم سے سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔ روای بیان کرتا ہے کہ ایک پروف ریڈر کے پاس قرآن پاک کتابت ہو کر پروف کے لئے آیا۔ صاحب کی طبیعت کچھ جلالی تھی۔ اب جو دیکھتے ہیں کہ ایک جگہ ابلیس کا نام لکھا ہوا ہے، اس پر غضبناک ہو گئے کہ اللہ کی پاک کتاب میں اس لعین کا نام کہاں سے آ گیا۔ فورا اسے مٹا کر اس کی جگہ اپنا نام لکھ دیا۔ کچھ آگے گئے تو فرعون کا نام لکھا نظر آیا۔ اسے بھی مٹا ڈالا کہ اس پاک کتاب میں فرعون کا کیا کام۔ اور اس کی جگہ اپنے بھائی کا نام لکھ دیا۔ اسی طرح جہاں جہاں انہیں کفار، شیاطین اور ناپاک چیزوں کے نام ملتے گئے وہ اسے مٹاتے گئے اور خاندان، دوستوں یاروں، جاننے والوں کے نام لکھتے گئے۔ اتنا کہہ کر مفتی صاحب نے مجھے دوبارہ سے ڈپٹا اور فرمایا" خبردار! صرف پروف ریڈنگ کرنا۔ اضافہ کیا کمی کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت"۔اگر میں ان کی بات مان لیتا تو شاید آج بھی پروف ریڈر ہی ہوتا۔ اسی عادت بد نے مجھے آج ایڈیٹر بنا دیا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
شکریہ۔ آپ کی" آپ کی عادت بد" سے یاد آیا۔ کچھ وقت میں نے پروف ریڈنگ بھی کی ایک اخبار میں۔ جب پہلے دن ڈیوٹی جوائن کرنے پہنچا تو چیف پروف ریڈر مفتی مرحوم نے طلب کیا۔ مفتی صاحب کا پورا نام یاد نہیں آرہا مگر سب انہیں مفتی صاحب کے نام سے ہی بلاتے تھے۔ آپ کافی سینئر کارکن تھے اور سب رنگ ڈائجسٹ کی اس ٹیم کے رکن رہ چکے تھے جوکہانیاں سلیکٹ کرتی تھی۔ انہوں نے پہلے تو انٹرویو لیا پھر نصیحتا بولے" بات سن! صرف پروف ریڈنگ کرنا۔ ہمارے بارے میں مشہور ہے کہ متن کو کچھ سے کچھ کردیتے ہیں حتی کہ قرآن کو بھی نہیں بخشتے۔" اتنا کہہ کر انہوں نے ایک واقعہ سنایا جو پروف ریڈروں کی برادری میں زمانہ قدیم سے سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔ روای بیان کرتا ہے کہ ایک پروف ریڈر کے پاس قرآن پاک کتابت ہو کر پروف کے لئے آیا۔ صاحب کی طبیعت کچھ جلالی تھی۔ اب جو دیکھتے ہیں کہ ایک جگہ ابلیس کا نام لکھا ہوا ہے، اس پر غضبناک ہو گئے کہ اللہ کی پاک کتاب میں اس لعین کا نام کہاں سے آ گیا۔ فورا اسے مٹا کر اس کی جگہ اپنا نام لکھ دیا۔ کچھ آگے گئے تو فرعون کا نام لکھا نظر آیا۔ اسے بھی مٹا ڈالا کہ اس پاک کتاب میں فرعون کا کیا کام۔ اور اس کی جگہ اپنے بھائی کا نام لکھ دیا۔ اسی طرح جہاں جہاں انہیں کفار، شیاطین اور ناپاک چیزوں کے نام ملتے گئے وہ اسے مٹاتے گئے اور خاندان، دوستوں یاروں، جاننے والوں کے نام لکھتے گئے۔ اتنا کہہ کر مفتی صاحب نے مجھے دوبارہ سے ڈپٹا اور فرمایا" خبردار! صرف پروف ریڈنگ کرنا۔ اضافہ کیا کمی کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت"۔اگر میں ان کی بات مان لیتا تو شاید آج بھی پروف ریڈر ہی ہوتا۔ اسی عادت بد نے مجھے آج ایڈیٹر بنا دیا ہے۔
اسی سےملتا جلتا واقعہ ہے کہ جب میں پی پی آئی اردو سروس کا نگراں تھا تو انگلش سروس والوں کی مرتب کردہ ایک صحافتی کتاب ترجمہ کے لئے میرے پاس آئی تاکہ اس سے اردو صحافی برادری بھی استفادہ کرے۔ میں نے کتاب کا ترجمہ کرتے وقت اچھا خاصہ ”اضافہ“ کردیا کہ بہت سے قوائد و ضوابط جو اردو صحافت میں مستعمل ہیں، وہ انگریزی میں نہیں ہیں۔ اور اپنی ”شرافت“ سے مجبور ہوکر انگلش کے ایڈیٹر کو بتلا بھی دیا کہ فلاں فلاں جگہ میں نے اضافہ بھی کیا ہے۔ اس پر وہ بولے، نہیں نہیں، آپ اضافہ نہ کریں، صرف ترجمہ کریں۔ لیکن پتہ نہیں وہ میرا اضافہ شدہ مواد حذف کرنا بھول گئے یا بعد میں اس سے ”متفق“ ہوگئے۔ کیونکہ جب وہ کتاب چھپ کر آئی تو میرا اضافہ شدہ متن بھی موجود تھا جو اردو صحافت کے لئے ضروری بھی تھا۔ اس وقت ”تفصیلات“ یاد نہیں کہ کن باتوں کا اضافہ کیا تھا کہ یہ بیس برس پرانی بات ہے۔ میں کبھی باقاعدہ ”پروف ریڈر“ بھی نہیں رہا، لیکن یہ ”عادتِ بد“ کالج میگزین کی ادارت کے دوران لگی تو آج تک برقرار ہے:D
 

Rashid Ashraf

محفلین
اعجاز صاحب
13 مئی کا "وار" خالی گیا لیکن 20 مئی کو کسر پوری ہوگئی، مصروفیت اس قدر کہ احوال نہ لکھ سکا، اب لکھ رہا ہوں۔۔۔کتاب نے تھکا مارا، جناب ابن صفی پرلیکن ایک مستند کام ہوگیا، مسودہ کل ہی ھوالے کیا ہے، دو روز میں اشاعت کے لیے چلا جائے گا۔ پیش لفظ میں آپ کا اور رحمت اللہ یوسف زئی صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔ ادھر الہ آباد سے جناب چودھری ابن النصیر نے مدد فرمائی۔ لاہور و کراچی کے لوگوں کا ذکر الگ ہے، حسن نثار، زاہدہ حنا، شکیل عادل زادہ، مرزا حامد بیگ، عارف وقار وغیرہ۔

انشاء جلد تفصیلات سے آگاہ کروں گا۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
لاہور کے الحمراء میں ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر کے مضامین شائع ہوئے ہیں، راجہ مہدی علی خاں پر ان کے مقالے ہی سے اخذ کیے گئے ہیں
دوحہ قطر سے شائع ہونے والے جریدے دستاویز سے واقف ہیں ؟
 

الف عین

لائبریرین
راشد میاں، دستاویز کی مجلس مشاورت میں ہمارا نامِ نامی اسمِ گرامی نہیں دیکھا؟ خیر کام تو ہمارا کچھ نہیں تھا، عزیزی عزیز نبیل کی مہربانی ہے۔
 
Top