اے ارض پاک تجھے کبھی اندیشہ زوال نہ ہو ...
قدر کریں اس ملک خداداد کی .. .!
مت بربادکریں اس کے امن و امان کو....!
اگر ملک نہیں رہا, خاکم بدھن
یا اگر آزادی نہ رہی, خاکم بدھن
تو کیا ہوتا ہے...!
اس تحریر کی گہرائی میں اتر کر سوچیں...!
گلالئی آئ تھی کل۔
بیٹی کی دوست ہے۔ابھی ساتھ امتحان دیا ہے،ساتھ پڑھائ کی اس لئے دوستانہ مراسم بڑھ گئے۔افغانستان کی خوبرو خاتون۔دو بیٹے ہیں چھ اور آٹھ برس کے۔
بہت بچپن میں افغانستان سے ھجرت پر مجبور ہوئے۔پندرہ برس پشاور میں گزرے اب چھ برس سے یہاں سڈنی میں مقیم ہیں۔
انسان سب ایک جیسے،روز وشب کے سورج چاند ایک جیسے مگر کتھا سب کی کتنی مختلف۔
کوئ گلالئی سے پوچھے دیس کیا ہوتا ہے۔بدیسی کیا ہوتی ہے۔یہ لوگ ساری دنیا کے ملکوں میں پناہ گزینوں کے ویزے پر ہیں۔پناہ گزینوں کو آزاد ملک کے شہریوں جیسی سہولیات حاصل نہیں ہوتیں۔
گلالئی کے دو بہنوئ بھی یہاں مقیم ہیں اپنے خاندانوں کے ساتھ۔ایک چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں ایک آرتھوپیڈیک سرجن۔دونوں یہاں ٹیکسی چلا رہے ہیں۔
ٹیکسی تو اور بھی ڈاکٹر انجیئر چلا رہے ہیں کیونکہ یہاں کام کی عظمت ہے۔جس کا معاشی مفاد جہاں پورا ہوتا ہے وہ وہاں چلا جاتا ہے۔
گلالئی کے معصوم خوب صورت گورے چٹے بچے۔۔ان بچوں کا کیا قصور ہے وہ اور ان کے والدین کب تک قوم بنی اسرائیل کی طرح دردر خاک چھانیں گے یہ بھی نہیں پتہ۔
اتنا پوچھنا تھا کہ افغانستان کے حالات کیسے ہیں کہ گلالئی اپنی آنکھوں،اپنے لہجہ،اپنے چہرے کے تاثرات کے ساتھ سراپا زخم زخم ہوگئ۔بولی بہت خراب ہیں،کچھ نہیں بچا،معیشت تباہ ہے،سب کچھ الٹ پلٹ ہوچکا۔اگر کچھ ہوتا تو ہم کیوں پناہ گزینوں کے ویزے پر دردر کی خاک چھانتے۔
اس کے بچے حفظ کررہے ہیں۔وہ علوم شریعہ کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔بولی خاندان کے افراد اب دین کی تعلیم سنجیدگی سے حاصل کررہے ہیں۔دین کی کچھ خدمت کرکے ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں۔۔
قدرت ناراض ہوجائے سزا دینے پر آئے تو وطن بھی چھن جاتا ہے۔پناہ گزین بننے سے رب اپنی پناہ میں رکھے۔ان سے کوئ دیس کی قدر پوچھے؟؟؟
بن پانی،بجلی،امن امان کی خراب صورت حال والے دیس پاکستان کے شہری کہیں بھی پناہ گزینوں کے ویزے پر تو نہیں الحمدللہ۔۔ایک آزادریاست کی شناخت انکے پاس ہے۔۔۔
بن پانی ،بجلی کے بھی مولا دیس کو سلامت رکھے۔جیسا بھی ہے اپنا دیس سب سے پیارا ہے۔ہمارا فخر ہے۔
پناہ گزین ہونا شائد دنیا کا سب سے بڑا دکھ ہے۔جب شناخت ہی چھن گئ تو بریڈ بٹر کس کام کے۔
ہم گلالئی سے ملکر دکھی تھے مگر وہ ہمیں کتنا خوش نصیب گردان رہی ہوگی کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں یہاں پناہ گزینوں کے ویزے پر نہیں ہیں۔
گلالئی کی ویران آنکھوں نے آزادی کا جو مفہوم سمجھایا وہ چودہ اگست کو گیلری میں لہراتا سبز پرچم نہ سمجھا پایا۔
پاکستان ہے تو ہم ہیں۔مولا ہمارا دیس سلامت رکھے۔گلالئی کو رخصت کرکے دروازہ بند کیا تو مجھے لگا کہ فرنٹ یارڈ میں لگے درخت کے ہر پتہ پر تحریر ہے کہ
"قوموں کو ملنے والی سزائیں بڑی سخت ہوتی ہیں۔"
اللہ رب العزت ہمیں سننے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .
آمین ثم آمین.
منقول