جب بیوی اپنے ہاتھوں میں آپ کے ہاتھ پکڑ کر نظروں سے نظر ملا کر پیار سے پوچھے؛ ”آپ کی زندگی میں کوئی اور عورت بھی ہے میرے سوا؟“
یاد رکھیں! اس وقت آپ کا جواب اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا آپ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور دل کی دھڑکن، بلکل اپنے جسم کو نارمل رکھیں اور نارمل انداز میں سانس لیتے رہیں، خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ یہ آپ کا بایومیٹرک ٹیسٹ ہے۔
ایک نوعمر سید زادہ، سینہ کشادہ، نیک چلن اور سیدھا سادہ، لمبا کم اور پست زیادہ، حسن کا دلدادہ، شادی پر آمادہ، خوبصورت جوان، اعلی خاندان، عرصہ سے پریشان، کے لئے ایک حسینہ مثل حور، نشہ شباب میں چور ،چشم مخمور، چہرہ پُرنور ، باتمیز باشعور ، باہنر سلیقہ مند، صوم و صلوة کی پابند ، با ادب با حیاء، نہ شائق سرخی و کریم، معمولی تعلیم، مہ جبین، بے حد حسین، پردہ نشین، بقید حد، پستہ قد، آہستہ خرام، شائستہ کلام، پیارا سا نام، عجوبہ کائنات، رفیقہ حیات درکار ہے۔ ورنہ زندگی بیکار ہے۔ مسہری یا چارپائی، روئی بھری رضائی، چند تولے زیور طلائی، صرف ایک کوٹھی، ایک کار، لڑکا ہے بیکار، کچھ کرسیاں اور میز، بس اس قدر جہیز، لڑکا گو اناڑی ہے لیکن کاروباری ہے، ایک چھوٹی سی دوکان اور منہ میں زبان رکھتا ہے۔
مزید بات چیت بالمشافہ یا بزریعہ لفافہ، خط و کتابت پابندی صیغہ راز ہے۔
ایک صاحب کا قد ۹ فٹ تھا۔ وہ اپنے قد کی وجہ سے بہت پریشان رہتے۔ کئی ایک ڈاکٹروں اور حکیموں کو بھی دکھایا لیکن کوئی حل نظر نہ آیا۔
پھر کسی نے کہا کہ فلاں جنگل میں ایک بابا ہے، اس کے پاس آپ کے مسئلے کا حل ہو گا، آپ ان سے ضرور ملیں۔
تلاش کرتے کراتے آخر کار ایک دن وہ اس بابا کے پاس پہنچ ہی گئے۔
بابا نے کہا؛ ”فلاں فلاں جگہ سمندر کے کنارے ایک لڑکی تمہیں ملے گی۔ اس سے راہ و رسم بڑھانا۔ پھر اس سے شادی کی درخواست کرنا۔ اگر اس نے انکار کر دیا تو تمہارا قد ایک فٹ کم ہو جائے گا۔“
کافی تلاش کے بعد ان کو وہ لڑکی سمندر کے پاس نظر آ گئی۔ ان صاحب نے بغیر راہ و رسم بڑھائے سیدھا اس سے شادی کی درخواست کر دی۔
لڑکی نے انہیں گھور کر دیکھا اور بولی؛ ”نہیں۔“
صاحب کا قد ایک فٹ چھوٹا ہو گیا۔ انہوں نے سوچا کہ ایک بار اور کہوں اور اس کے انکار پر ایک فٹ اور چھوٹا ہو جائے گا۔
انہوں نے پھر درخواست کی؛ ”مجھے آپ سے شادی کرنی ہے۔“
لڑکی بولی؛ ”نہیں۔“
ان صاحب کا قد مزید ایک فٹ چھوٹا ہو کر ۷ فٹ ہو گیا۔ تو ان کو لالچ ہوا کہ اگر ایک بار اور کہوں تو قد ۶ فٹ ہو جائے گا جو ایک آئیڈیل قد ہو گا۔ تو انہوں نے ایک بار پھر کہا؛ ”مجھے سے شادی کرو گی؟“
جواب میں لڑکی نے کہا؛ ”کتنی دفعہ کہا ہے، نہیں! نہیں! نہیں!“
حیدرآبادی کسٹمر: میرے کو چیک ڈیپوزٹ کرنا ہے کب تک کلئیر کرتے؟
بینکر: ہاؤ، دو یا تین دن میں کلئیر ہو جاتا۔
کسٹمر: دونوں بینک تو آمنے سامنیچ ہے پھر اتی دیر کائی کو؟
بینکر: سر، پروسیجر فالو کرنا پڑتا، مثال کے طور پر اگر آپ قبرستان کے باہر ایکسیڈنٹ میں مر گئے تو آپ کو گھر کائی کو لے کے جاتے، غسل دیتے، کفن پہناتے، جنازے کی نماز پڑھتے، یا پھر مرتیچ سامنے کے قبرستان میں دفن کرتے؟
کسٹمر: ایسے خطرناک اکزیمپل نکو دے رے باوا، سمجھ گیا میں!
ایک انجنیئرننگ یونیورسٹی کے تمام انجنیئرز کو بلا کر ایک جہاز میں بٹھایا گیا۔
جہاز کے سٹارٹ ہونے سے پہلے اعلان کیا گیا، ”خواتین و حضرات میں اس جہاز کا کیپٹن بول رہا ہوں۔ آپ کو سُن کر خوشی ہو گی کہ یہ جہاز آپ کے شاگردوں نے تیار کیا ہے۔ امید ہے آپ اس سفر سے لطف اندوز ہوں گے۔“
یہ سُننا تھا کہ تمام کے تمام انجنیئرز ڈر کے مارے جہاز چھوڑ کر چلے گئے۔ صرف پرنسپل صاحب جہاز میں بیٹھے رہ گئے۔
کیپٹن نے پرنسپل صاحب سے پوچھا، ”جناب سب انجنیئرز ڈر کے مارے جہاز چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کو ڈر نہیں لگا کیا؟“
”یہ جہاز ہمارے شاگردوں نے بنایا ہے اور میں اپنے شاگردوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ جہاز سٹارٹ ہی نہیں ہو گا، تو ڈرنا کیسا،“ پرنسپل صاحب نے جواب دیا۔
کولمبس نے شادی نہیں کی اس لئے امریکہ ڈھونڈ لیا کیونکہ جاتے وقت اس سے کسی نے نہیں پوچھا؛
۱- کہاں جا رہے ہو؟
۲- کس لیے؟
۳- کس کے ساتھ؟
۴- کب واپس آؤ گے؟
۵- میں بھی ساتھ چلتی ہوں؟
۶- مجھے امی کی طرف چھوڑ دیں۔
۷- گھر رہ کے ہی امریکہ ڈھونڈ لو۔
۸- آپ چھوڑ دو، کوئی اور امریکہ ڈھونڈ لے گا۔
۹- میں اکیلی گھر میں کیا کروں گی؟
۱۰- اچھا، بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔
۱۱- میرے لیے کیا لاؤ گے؟
۱۲- کوئی اور چکر تو نہیں؟
۱۳- اچھا واپسی پر دہی لیتے آنا۔
ایک بار مرزا مسکین کی محبوبہ نے مرزا سے پوچھا: دوسرے عشاق کے برعکس جو محض اپنی محبوباؤں سے یہ کہتے ہیں کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائیں گے یا فرطِ جذبات میں آ کر آسمان سے چاند اتارنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ آپ میرے لئے کچھ ایسا کر سکتے ہیں جو حقیقی بھی ہو اور ان سے بڑھ کر بھی؟
اس پر مرزا بڑے اطمینان سے بولے:
میں آپ کے قدموں تلے جنّت لا سکتا ہوں۔
ایک اجنبی ایک عورت کے پیچھے پیچھے کپڑے کی دکان میں داخل ہوا۔ چند لمحوں کے بعد یکایک عورت نے زوردار چیخ ماری۔ اجنبی بوکھلا کر بھاگا اور سیدھا گشت کرتے ہوئے دو پولیس والوں سے جا ٹکرایا۔ انہوں نے اجنبی کو پکڑ لیا۔ معلوم ہوا وہ آدمی مجرم اور لٹیرا ہے۔
دکان دار نے عورت کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے وہ لٹنے سے بچ گیا۔ پھر اس نے عورت سے پوچھا، ”لیکن آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ لٹیرا ہے؟“
عورت بولی، ”مجھے کیا معلوم؟ میں تو ساڑھی کی قیمت سُن کر چلائی تھی۔“
ایک لیڈر (جس سے اکثر عوام نفرت کرتے ہیں) کی موٹر کار کے نیچے آ کر ایک کتے کا بچہ مر گیا۔ لیڈر نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ جا کر معلوم کرو کہ یہ کس کا کتے کا بچہ تھا۔ جب ڈرائیور واپس آیا تو اس کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔لیڈر نے پوچھا کہ یہ کیا؟ ڈرائیور بولا، سر میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں آپ کا ڈرائیور ہوں۔۔۔ کتے کا بچہ مر گیا ہے۔۔۔ تو لوگوں نے اگلی بات سنی ہی نہیں۔
آدمی: ڈاکٹر صاحب میرے بیٹے نے چابی نگل لی ہے۔
ڈاکٹر: کب....؟
آدمی: جی تین مہینے پہلے۔
ڈاکٹر (غصے اور حیرانی سے): پاگل انسان تو اب تک کیا کرتے رہے ہو؟
آدمی: وہ جی ہم ڈپلیکیٹ چابی کا استعمال کرتے رہے ہیں۔