کتابچۂ لطائف و مزاحیہ تحاریر (بلا تبصرہ - احباب صرف اپنا تاثر دیں۔ شکریہ)

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک ڈرائیور کو ایکسیڈنٹ کرنے پر جیل ہو گئی۔ عدالت میں پیشی ہوئی۔

جج نے پوچھا: "تم نے ایکسیڈنٹ کیسے کیا؟"

ڈرائیور: "مینوں کی پتا جی۔۔ میں تے سُتّا ہویا سی۔"
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک خاتون نے بڑا سا کیک خریدا۔
بیکری والے نے چھری اٹھاتے ہوئے پوچھا،
"چھے ٹکڑے کروں یا آٹھ؟"
"چار کر دیں، میں آج کل ڈائٹنگ کر رہی ہوں"،
خاتون نے جواب دیا۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
باپ بیٹے سے: اگر اس بار تم فیل ہوے تو مجھے اپنا باپ مت کہنا۔
اگلے دن باپ: کیا بنا رزلٹ کا؟
بیٹا: بس ”بشیر صاحب“ کچھ مت پوچھیں۔۔۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک لڑکا (اپنے دوست سے): ”یونیورسٹی میں میرا رزلٹ چیک کر کے بتانا۔ میرے ساتھ ابّو ہوں گے۔ اگر میں ایک پیپر میں فیل ہوں تو کہنا کہ مسلمان کی طرف سے سلام۔ اگر دو میں فیل ہوں تو کہنا کہ مسلمانوں کی طرف سے سلام۔“

دوست رزلٹ دیکھ کر آیا اور بولا: ”پوری امتِ مسلمہ کی طرف سے سلام۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک آدمی نجومی کے پاس گیا اور بولا؛
”میری ہتھیلی میں کھجلی ہو رہی ہے۔“

نجومی بولا؛
”تم کو جلد ہی دولت ملنے والی ہے۔“

آدمی بولا؛
”میرے پاؤں میں بھی کھجلی ہو رہی ہے۔“

نجومی بولا؛
”تم سفر بھی کرو گے۔“

آدمی بولا؛
”میرے سر میں بھی کھجلی ہو رہی ہے۔"

نجومی جھلا کر بولا؛
”چلو بھاگو یہاں سے، تمہیں تو خارش کی بیماری معلوم ہوتی ہے۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک فلسفی اور گنجا حجام اکھٹے سفر کر رہے تھے۔ جب رات ہوگئی تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیا جائے۔ پہلے حجام کی باری تھی۔ حجام کا دل بہت گھبرایا۔ اس نے تھیلی میں سے اوسترا نکال کر فلسفی کو سوتے میں گنجا کر دیا۔ جب فلسفی کی باری آئی تو اس نے بے خیالی سے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا، ”باری میری تھی اٹھا حجام کو دیا۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
بیٹا: ابو جب آپ امتحان میں فیل ہوئے تھے تو آپ کے ابو نے کیا کیا تھا؟
باپ: انھوں نے مجھے خوب مارا تھا۔
بیٹا: اور جب وہ فیل ہوئے تھے؟
باپ: تو ان کے ابو نے انھیں خوب مارا تھا۔
بیٹا: اور جب وہ امتحان میں فیل ہوئے تھے تو؟
باپ (چونک کر): آخر بات کیا ہے۔ تم چاہتے کیا ہو؟
بیٹا: ابو میں چاہتا ہوں کہ آپ اس ”خاندانی دشمنی“ کے سلسلے کو اب ختم کر دیں۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک سیاست دان عام جلسے میں تقریر کر رہا تھا۔ اچانک پنڈال سے باہر ایک گدھے نے رینکنا شروع کردیا۔ انہوں نے تقریر جاری رکھی۔ اس پر پیچھے سے آواز آئی، ”ایک وقت میں ایک جناب۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
خاتون: بھائی جی، صحیح قیمت لگائیں، ہم ہمیشہ یہیں سے کپڑے لیتے ہیں-
دکاندار: باجی! خدا کا خوف کریں، کل ہی تو دکان کھولی ہے۔
 
آخری تدوین:

شعیب گناترا

لائبریرین
شوہر: تم نے مجھ میں ایسا کیا دیکھا کہ تم فوراً شادی کے لئے تیار ہو گئی؟

بیوی: جی میں نے ایک دو بار آپ کو بالکنی سے برتن دھوتے ہوئے دیکھا تھا۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک آدمی آدھی رات کو قبر کے اوپر بیٹھا تھا۔
کسی نے پوچھا: تمہیں ڈر نہیں لگتا؟
اس نے جواب دیا: ڈر کیسا؟ قبر کے اندر گرمی لگ رہی تھی میں باہر آکر بیٹھ گیا۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
بیوی: میں آج گھر نہیں آ سکوں گی، کار کا اسٹئرنگ، بریک، گیئر سب چوری ہو گیا ہے۔

پندرہ منٹ بعد،

بیوی نے شوہر کو کال کی:
میں آ رہی ہوں غلطی سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک آدمی نے حلوائی کی دوکان پر بیٹھے لڑکے سے پوچھا؛ تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم یہ مٹھائی کھاؤ؟

لڑکا: ابا رس گلے گن کر جاتا ہے اس لئے چوس کے رکھ دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک انتہائی سوکھی جھاڑ کا کانٹا لڑکی کا تقرر بہ طور سائنس کی استانی کے ایک اسکول میں ہو گیا۔
.
ایک دن اس نے بچوں سے پوچھا؛ بچوں بتاؤ، زمین گھومتی کیوں ہے؟

شاگرد: ناشتہ واشتہ کرکے آیا کرو، نہیں تو زمین ایسے ہی گھومتی ہوئی محسوس ہوگی۔۔۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
آج صبح ہی بیوی کا فون آیا،
رو رہی تھی،
مجھ کو سوری بھی کہا،
اسی روتے ہوئے انداز میں وہ بولی،
تم سے کبھی جھگڑا نہیں کروں گی،
ہر بات سنوں گی،
جو کہو گے کروں گی،
یہ بات سن کر مرا دل بھی بھر آیا۔

پتہ نہیں کس کی بیوی تھی،
رانگ نمبر تھا۔۔۔ لیکن اچھا بہت لگا۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
سردار جی گھر سے باہر نکلے، دروازے کے آگے کیلے کا چھلکا پڑا تھا۔
اب وہ چھلکے کو کبھی دائیں سے دیکھتے ہیں اور کبھی بائیں سے۔
پاس سے گزرنے والے شخص نے پوچھا، "سردار جی کیا دیکھ رہے ہو؟"
کہنے لگے، "آج پھر مجھے اس پر سے پھسلنا پڑے گا۔"
 
Top