گلزار کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

نیرنگ خیال

لائبریرین
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
غزنوی بھائی میں نے جب یہ پہلی بار پڑھی تو میں بھی یہی پکارا تھا۔ آج اک دھاگے میں کتابوں پر بات ہو رہی تھی۔ تو یہ یاد آگئی۔ اور میں فیس بک کے نوٹس سے اٹھا لایا۔ :)

کیا ہی بات ہے
بہت خوب
شکریہ باباجی انتخاب کو پسند کرنے کے لیئے :)

شکریہ اس پذیرائی کا :)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
’نیم-سجدے‘ والی لفظی ترکیب نہ صرف یہ کہ کتاب کےقاری کی صحیح حالت کی عمدہ تصویر کشی کرتی ہے بلکہ قاری جوکھو گیا کمپیوٹر کی دُنیا میں اُس کے احساسِ پارینہ کو تازہ بھی کرتی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
’نیم-سجدے‘ والی لفظی ترکیب نہ صرف یہ کہ کتاب کےقاری کی صحیح حالت کی عمدہ تصویر کشی کرتی ہے بلکہ قاری جوکھو گیا کمپیوٹر کی دُنیا میں اُس کے احساسِ پارینہ کو تازہ بھی کرتی ہے۔
سر اسی لیئے تو گلزار کو احساسات کا شاعر مانتا ہوں۔ احساس بیان کرنے پر کمال دسترس ہے گلزار صاحب کی :)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے
 
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے

:great: نین بھائی

شئیر کرنے کا شکریہ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکریہ شیزان :)

نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے
:) :)

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
:) :)

کیا بات ہے گلزار کی۔ نئے نئے زاویوں سے سوچنا انہی کا خاصہ ہے۔ شریکِ محفل کرنے کا بہت شکریہ ذوالقرنین صاحب!
شکریہ :)

کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے

:great: نین بھائی

شئیر کرنے کا شکریہ
شکریہ آپکا بھی۔ پذیرائی پر ممنون ہوں محسن :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں​
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں​
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر​
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر​
بڑی بے چین رہتی ہیں​
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے​
بڑی حسرت سے تکتی ہیں​
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔ ۔​
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے​
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں​
جو رشتے وہ سناتی تھیں​
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں​
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے​
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں​
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ​
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے​
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔ ۔​
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں​
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا​
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا​
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک​
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔ ۔۔​
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر​
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے​
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے​
کبھی گودی میں لیتے تھے​
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر​
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے​
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی​
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول​
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے​
ان کا کیا ہو گا​
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​

مٹی کے سکوروں یعنی ؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول​
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے​
ان کا کیا ہو گا​
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​

کیسے نہیں ہوں گے، ٹیکنالوجی نے اتنے مواقع مہیا کر تو دئیے ہیں ناں :happy:
 
Top