نیرنگ خیال
لائبریرین
کتاب میلے کا آخری دن
یکم فروری سے پانچ فروری تک کتاب میلہ لگا تھا۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے، اس بار کتاب میلے میں نہیں جاؤں گا۔ کوئی کتاب نہیں خریدوں گا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میلے کے آخری دن مجھے ٹھوکر نیاز بیگ تک جانا تھا۔ کچھ کام تھا۔ جاتے ہوئے ایکسپو سنٹر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی، دل کیا کہ ایک بار میلے کا چکر لگا لوں، لیکن سیدھا نکلتا چلا گیا۔ واپسی دوپہر 12 کے قریب ہوئی،اور جانے کن سوچوں خیالوں میں تھا کہ دیکھا ایکسپو سنٹر کے داخلی گیٹ کے باہر کھڑا ہوں۔ ہرگز اندر جانے کا ارادہ نہیں تھا، یوں بھی ذہن میں یہ خیال رقصاں تھا کہ بارہ بجے، ابھی تو سٹال بھی نہ کھلے ہوں گے۔ اتنی صبح کون آتا ہے۔ کہ کیا دیکھتا ہوں، پارکنگ کھچا کھچ بھری ہے۔ ایسا بھی کیا خرید رہے ہیں یہ لوگ۔ جا کر دیکھنا چاہیے اور بےاختیار ہی کتاب میلے کے اندر کی راہ پکڑ لی۔ ساتھ ساتھ دل کو بھی سمجھاتا رہا، کہ لینا تو کچھ ہے نہیں میں نے۔ بس جاؤں گا، دیکھ کر آجاؤں گا۔ زیادہ سے زیادہ دس منٹ۔ ایک طرف سے شروع کروں تو، شاید پندرہ منٹ لگ جائیں۔ اس سے زیادہ وقت نہ لگے گا۔ بہرحال! ایسا بھی کیا رکھا ہے ان کتاب میلوں میں۔ وہی کتابیں گھوم گھوم کر۔ ویسے بھی نئے مصنفین سے بالکل ہی لاعلم ہوں۔بائیں ہاتھ سے شروع کیا، تو دوسرا یا تیسرا سٹال نایاب پرانی کتابوں کا تھا۔ وہاں نقوش کا پرانا غزل نمبر نظر آیا، ساتھ میں مزاح نمبر بھی۔ لیکن دونوں کی قیمت میری غریبی پر صرف ہنستی نہیں، بلکہ کھلکھلا کر ہنستی نظر آئی۔ نیچے ایک شیلف میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ارسطو سے ایلیٹ تک نظر آئی۔ 1976 کی اشاعت تھی، جیب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور جواب مثبت پا کر کتاب اٹھا لی۔ راستے میں ہیر رانجھا پرانی جلد میں نظر آئی۔ خریدتے مگر خیال آیا کہ اس بعد تن پر بھی اتنی ہی پرانی قبا رہ جائے گی۔ سو ارادہ ترک کیا۔ اِدھر اُدھر پھرتے پھراتے ایک جگہ دیوان مجید امجد پر بھی نظر پڑ گئی۔ دیوان میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ اٹھانا پڑ گیا۔ یوں بھی فکشن کی کتابوں کے اوپر پڑا پرایا پرایا سا محسوس ہو رہا تھا۔
ترقی ادب اردو والوں سےمولوی عبدالحق کے مضموں "آساں اردو" کے بارے میں پوچھا، تو وہ کہنے لگے کہ قواعد اردو ہے۔
میں نے وہ مضموں، کہنے لگے قواعد اردو ہے۔
میں نے کہا لیکن اگر وہ مضموں مل جائے، تو کہنے لگے کہ قواعد اردو ہے۔
ہم دونوں کے اس سوال جواب میں نقصان یہ ہوا کہ وضع اصطلاحات کی کتاب ایک بزرگ نے اچک لی، جو میں اچکنے کو تھا۔ اردو ترقی والوں نے کہا کہ یہ سٹال پر آخری نسخہ تھا، اور نہیں ہے۔ اپنا منہ لٹکا کر قواعد اردو بغل میں داب لی۔
مجھے تنویراللغات کی تلاش تھی، ساتھ میں شریف کنجاہی کے کلام کی طلب بھی تھی۔ ایک دو سٹال والوں سے پتا چلا کہ ایک پنجابی کتب کا سٹال تو ہے، لیکن اس پر دیگر کتب میسر نہیں۔ میں سٹال پر جا پہنچا، اور مجھے لگا کہ یہی تو وجہ تھی، کہ مجھے اس میلے میں آنا پڑا۔ سٹال پروفیسر سعید احمد صاحب کا تھا۔ اور پروفیسر صاحب خود ہی اس سٹال کو چلا رہے تھے۔ شریف کنجاہی اور پنجابی لغت سے جب ہماری بات شروع ہوئی، تو سعید صاحب نے اپنے خیالات کا بلا جھجک اظہار کیا۔ انہوں نے پنجابی زبان کی زبوں حالی پر کوئی درس نہیں دیا، بلکہ مجھے اپنی کتب سے تعارف کروا کر یہ بتایا کہ وہ اس اندھیرے میں دن رات شمع روشن کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کی باتیں محض باتیں نہ تھیں، بلکہ وہ عمل کے میدان کے شہسوار ہیں۔ وہ نہ صرف پنجابی کی اہمیت سے واقف ہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایسا مواد جمع کرنے میں مصروف عمل ہیں، جو کئی ایک لوگوں کے لیے بھلائی کا سبب بنے گا۔ ان سے بہت مختصر سی گفتگو رہی، لیکن اس باب میں مزید گفتگو کی جو تشنگی محسوس کرتا ہوں، اس کے لیے ان کے سامنے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ فقیر آپ کو مزید زحمت بھی دے گا۔ انہوں نے اس مختصر سی ملاقات پر بھی مجھے اپنی سخاوت اور شفقت سے محروم نہ رکھا، اور بزرگانہ محبت سے کچھ تحائف میرے ساتھ کیے۔ میں نے ان کے سٹال سے جو کتب خریدی ہیں، ذیل میں ان کا مختصر سا تعارف پیش ہے۔ میں مزید تفصیلی تعارف کسی الگ تحریر کی صورت شریک کروں گا۔
چونواں کلام مثنوی سیف الملوک حضرت میاں محمد بخش ( ترتیب و تالیف: پروفیسر سعید احمد)
اس کتاب کے اندر سیف الملوک سے انتخاب اشعار اور ان کا ترجمہ شامل ہے۔
ابتدائی لغت سیف الملوک (پروفیسر سعید احمد) ایک چھوٹے سے نوٹ کے ساتھ کہ تحقیقی کام جاری ہے۔
اس کتاب کے اندر سیف الملوک میں استعمال کیے گئے الفاظ اور ان کے معانی شامل ہیں۔
ایک شعر ایک کہانی (پروفیسر سعید احمد)
اس کتاب میں سیف الملوک کے اشعار کی تشریح کہانیوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ بے حد دلچسپ اور عمدہ کام ہے۔ اس کتاب سے کچھ اقتباسات الگ سے پیش کروں گا۔
حضرت میاں محمد بخش ایک تعارف (پروفیسر سعید احمد)
سرسری سا دیکھنے پر یہ کتاب میاں صاحب کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتی محسوس ہوتی ہے اور ان کے اشعار میں موجود رمزوں کو کھولتی ہوئی بھی۔
دو حرفی پنجابی انگلش لغت (پروفیسر سعید احمد)
یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے جس میں لگ بھگ آٹھ سو پنجابی کے دوحرفی الفاظ اور ان کا انگریزی زبان میں متبادل موجود ہے۔
Tiny Tales By Prof Saeed Ahmad
اس کتاب میں پروفیسر صاحب نے پنجابی کی لوک کہانیوں کو انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ اپنی مادری زبان کی کہانی کو انگریزی میں پڑھنا میرے لیے ایک دلچسپ تجربہ رہا۔
Pictionary (English, Punjabi, Urdu) by Prof Saeed Ahmad
یہ کتابچہ بالکل بچوں کی کتاب کی طرز پر ہے۔ جس میں تصویر کے ساتھ اس کا لفظ، انگریزی، اردو اور پنجابی زبان میں بھی درج ہے۔ مثلا بچھڑے کی تصویر پر کاف،بچھڑا ور کٹا یا وچھا لکھا ہوا ہے۔ انگریزی اور اردو کے ساتھ تو ایسی کئی کتب موجود ہیں، لیکن پنجابی کے ساتھ ایسی کاوش بالخصوص سراہے جانے کے قابل ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چھوٹا سا کتابچہ بہت اچھا لگا۔
ٖFolk Wisdon Of Punjab By Prof Saeed Ahmad
پنجاب دی لوک سیانف نامی یہ کتاب انگریزی زبان میں پنجابی محاورات کا انگریزی ترجمہ اور تفصیل ہے۔
یوں تو سیلفی کے معاملے میں میں قریبا ایک نااہل آدمی ہوں، لیکن پروفیسر صاحب کی شائستہ مزاجی اور ان کے کام اور حوصلے نے مجھے ان کے ساتھ ایک سیلفی لینے پر مجبور کر دیا۔
از قلم نیرنگ خیال
5 فروری 2024