مغزل
محفلین
عزیز حامد مدنی کا کلام ’’تمام‘‘ سوفٹ کاپی ہاتھ لگی ، مگر ’’سخی‘‘ کا حکم ہے ایک ساتھ نہ پیش کرنا ، وگرنہ ای بک بنائ جاسکتی تھی۔ بہر کیف ایک نظم پیش کرتا ہوں۔
کتاب کا کیڑا
دِق تجھ سے کتابیں ہیں بہت ،کرم ِکتابی
تو دشمن ِذردیدہ ہے خاکی ہو کہ آبی
الفاظ کی کھیتی ہے فقط تیری چراگاہ
معنی کی زمیں تیرے سبک سایوں نے دابی
ہونے کوتیری اصل ہے صیّاد، کمیں گاہ
کہنے کو فقط تیری حقیقت ہے سرابی
تو نے تو ہر اک سمت لگائی ہیں سرنگیں
پارینہ ہو فرمان، کتابیں ہوں نصابی
بادامی ہو کاغذتو مزا اور ہی کچھ ہے
لقمہ ہوا تحریر کا ہر مغز شتابی
کیا خوب ہے یہ مجلسِ اوراق کہن بھی
خاموش کتب خانوں کی دیمک تری لابی
گھن ساتھ ہی گیہوں کے ہے پستا ہوا دیکھا
برگشتہ ورق لا نہ سکا تجھ پہ خرابی
فردوسی و رومی کی کتابیں ہیں ہراساں
وہ قلعہ معنی ، ترا حملہ ہے جوابی
پردہ ہے خموشی تری آہنگِ فنا کی
بھونرا ہے فقط کنج ِگلستاں کا ربابی
تو چاٹ گیا دانشِ کہنہ کی فصیلیں
بنیاد ِعمارت کو ہے ڈھانا تری ہابی
اعداد کے قالب میں ہے تو صفر کی طاقت
صفحات کے سوراخ کابے نام حسابی
تاریخ کے اس سیل میں انسان نے پائی
ایک آدھ کوئی موج نفس وہ بھی حبابی
بکتے سرِ بازار ہیں مانندِ زغال آج
جو تازہ نفس ،خواب ِتغیر تھے شہابی
کھا جاتی ہے اک دن اسے سب گردِ زمانہ
مٹی کی وہ صحنک ہو کہ چینی کی رکابی
بدلی ہوئی دنیا میں، تغیر کا عمل ہے
تو کرم ِکتابی نہیں اک کرم خلل ہے
”نخلِ گماں“صفحہ 24
عزیز حامد مدنی
کتاب کا کیڑا
دِق تجھ سے کتابیں ہیں بہت ،کرم ِکتابی
تو دشمن ِذردیدہ ہے خاکی ہو کہ آبی
الفاظ کی کھیتی ہے فقط تیری چراگاہ
معنی کی زمیں تیرے سبک سایوں نے دابی
ہونے کوتیری اصل ہے صیّاد، کمیں گاہ
کہنے کو فقط تیری حقیقت ہے سرابی
تو نے تو ہر اک سمت لگائی ہیں سرنگیں
پارینہ ہو فرمان، کتابیں ہوں نصابی
بادامی ہو کاغذتو مزا اور ہی کچھ ہے
لقمہ ہوا تحریر کا ہر مغز شتابی
کیا خوب ہے یہ مجلسِ اوراق کہن بھی
خاموش کتب خانوں کی دیمک تری لابی
گھن ساتھ ہی گیہوں کے ہے پستا ہوا دیکھا
برگشتہ ورق لا نہ سکا تجھ پہ خرابی
فردوسی و رومی کی کتابیں ہیں ہراساں
وہ قلعہ معنی ، ترا حملہ ہے جوابی
پردہ ہے خموشی تری آہنگِ فنا کی
بھونرا ہے فقط کنج ِگلستاں کا ربابی
تو چاٹ گیا دانشِ کہنہ کی فصیلیں
بنیاد ِعمارت کو ہے ڈھانا تری ہابی
اعداد کے قالب میں ہے تو صفر کی طاقت
صفحات کے سوراخ کابے نام حسابی
تاریخ کے اس سیل میں انسان نے پائی
ایک آدھ کوئی موج نفس وہ بھی حبابی
بکتے سرِ بازار ہیں مانندِ زغال آج
جو تازہ نفس ،خواب ِتغیر تھے شہابی
کھا جاتی ہے اک دن اسے سب گردِ زمانہ
مٹی کی وہ صحنک ہو کہ چینی کی رکابی
بدلی ہوئی دنیا میں، تغیر کا عمل ہے
تو کرم ِکتابی نہیں اک کرم خلل ہے
”نخلِ گماں“صفحہ 24
عزیز حامد مدنی