کتب احادیث کی (credibility) معتبریت

بڑی ہی ستم ظریفی ہے کہ آج کا مسلمان غیروں کے درمیان بیٹھ کر اپنے ہی دینی ورثے کو چیلنج کرنے میں لگا ہوا ہے۔اقبال یاد آرہے ہیں۔ اگر آج ہوتے تو آج کے مسلمان پر درد بھری نظم تو کیا ، پورا دیوان لکھ دیتے۔
ع کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اور
ع خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اور
ع حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر !
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عرب میں لکھنے لکھانے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کے حافظے اس قدر قوی تھے کہ انھیں کسی چیز کے لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی ۔ دیوان کے دیوان ازبر ہوتے تھے ، نسب نامے یاد ہوتے تھے حتیٰ کہ اپنے مویشیوں کے نسب بھی ذہن نشین ہوتے تھے۔
پھر آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بیان کرتے تھے وہ صحابہ کرام سنتے تھے اور یاد رکھتے تھے۔ بعد از وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے باقاعدہ دروس کی محفلیں ہوتی تھیں جن میں ان کے شاگرد جو تابعین کہلائے، بھی علم دین حاصل کرتے تھے اور بعض لکھ بھی لیتے تھے (تفصیل آگے آئے گی) ۔ پھر یہی تابعین اپنے شاگردوں کو وہ تعلیم دیتے تھے اور احادیث نقل کرتے تھے جو تبع تابعین کہلائے ، جو وہ اپنے شیوض سے سنتے تھے ۔ یوں یہ ایک chain وجود میں آگئی جسے آپ اردو میں سند کہہ سکتے ہیں۔
اب ذرا احادیث کی معتبریت پر شک و شبہ کرنے والے حضرات کا جواب دیا جائے۔
یہ اعتراض بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں لکھی گئیں اور کتاب خاص کر صحیح بخاری 350 سال بعد آئی۔
1 : پہلی بات کہ یہ دعویٰ ہی باطل ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حدیث لکھوانے کا حکم فرمایا تھا۔ پہلے پہل منع فرمایا اور حکمت یہ تھی کہ قرآن اور قول رسول ﷺ میں اختلاط نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہر وہ بات لکھ لیتے جو آقا علیہ السلام بیان فرماتے ۔ قریش نے انھیں منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، کبھی خوشی کی حالت میں بھی ہوتے ہیں تو کبھی اس کے برعکس تو انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے ہونٹ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔ لکھو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں سے حق کے سوا کچھ ادا نہیں ہوتا۔" (سنن ابوداود ، مسند احمد ، مستدرک حاکم)۔
اس حدیث سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث کا لکھوانا ثابت ہوا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب النبی ﷺ میں کوئی نہیں جس کو مجھ سے زائد حدیثیں یاد ہوں مگر عبد اللہ بن عمرو اس سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) حاضر ہوا اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کی :
یا رسول اللہ ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی فلان ) ابو فلاں کو لکھ دو۔(صحیح بخاری و جامع ترمذی )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم کو کتابت کے ذریعے قید کرلو (یعنی لکھ لو)۔ (یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے،
رواه الخطيب في تاريخ بغداد، وفي تقييد العلم للخطيب البغدادي، وابن عبد البر في جامع بيان العلم، والرامهرمزي في المحدث الفاصل، وابن عساكر في تاريخ دمشق، وأبو نعيم في تاريخ أصبهان، والقضاعي في مسند الشهاب وغيرهم، وصححه الشيخ الألباني في صحيح الجامع.

عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ارشاد رسول کریم ﷺ ہے :
’اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی اور پھر بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دی جس طرح سنی تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں حدیث پہنچے گی وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے (جامع ترمذی)۔
حضرت رافع ؓ بن خدیج فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں کیا ہم انہیں لکھ لیا کریں …آپ نے فرمایا : لکھ لیا کرو کوئی حرج نہیں ''۔ أخرجه الرامهرمزي في المحدث الفاصل واللفظ له حديث (331)، والخطيب في تقييد العلم (ص72- 73)، والطبراني في الكبير 4/ حديث (4410)
میں نے عبد اللہ بن عباسؓ کو دیکھا کہ لکھنے کی تختیاں ان کے پاس تھیں، ان پر وہ ابو رافع سے رسول اللہ ﷺ کے کچھ افعال لکھ کر نقل کررہے ہیں۔(الطبقات الکبریٰ ابن سعد)
یہ اور اس کے علاوہ اور بہت سی روایات ہیں جن میں خود رسول اللہ ﷺ نے کتابت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مرتب کردہ مجموعہ حدیث جسے وہ " الصحیفۃ الصادقۃ '' کہتے تھے خود نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں لکھا گیا ۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام ہمام بن منبہ کا مرتب کردہ مجموعہ حدیث تو پاکستانی محقق اور عالم ڈاکٹر حمیداللہ نے باتحقیق شائع کروایا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بقول عبد الرحمن کیلانی " ہمیں یہ دیکھ کر کمال حیرت ہوتی ہے کہ یہ صحیفہ پورے کا پورا مسند احمد بن حنبل میں مندرج ہے۔ اور بعینہ اسی طرح درج ہے جس طرح قلمی نسخوں میں ہے ماسوائے چند لفظی اختلافات کے ، جن کا ذکر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاں تک زبانی روایات کی وجہ سے معنوی تحریف کے امکان کا تعلق ہے ، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب دیکھئے امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ) کا سن 240 ھجری ہے۔ بعینہ صحیفہ مذکور اور مسند احمد بن حنبل میں تقریباً 200 سال کا عرصہ حائل ہے۔ اور دو سو سال کے عرصے میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی روایات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے ہی امام موصوف تک منتقل ہوتی رہیں۔ اب دونوں تحریروں میں کمال یکسانیت کا ہونا کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ زبانی روایات کا سلسلہ مکمل طور پر قابل اعتماد تھا''۔
اسی طرح کتابت حدیث نہ صرف زمانہ نبوی ، زمانہ صحابہ اور زمانہ تابعین بلکہ تبع تابعین کے زمانہ میں بھی ہوتی رہی۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ امام دارالھجرہ کے لقب سے مشہور ہیں اور تبع تابعین میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے حدیث کو باقاعدہ ابواب کے تحت جمع کر کے "مؤطا " ترتیب دی۔ مؤطا امام مالک وہ پہلی حدیث کی کتاب تھی جو باقاعدہ ابواب کی صورت میں مرتب ہوئی ۔ امام مالک کی پیدائش 93ھ کی ہے جبکہ وفات 179 ھ یعنی وفات رسول ﷺ کے تقریبا 169 سال بعد ۔ چنانچہ اس اعتراض کی عمارت ہی دھڑام سے نیچے آگری کہ حدیث کی کتاب نبی کریم ﷺ کی وفات کے 350 یا چلیں 250 سال کرلیں ، وجود میں آئی حالانکہ مؤطا 150 سال کے اندر مرتب شدہ موجود تھی۔ مؤطا امام مالک کوئی ناپید کتاب نہیں ہے بلکہ شائع شدہ موجود ہے۔
رسول کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے :
میری طرف سے (لوگوں کو میرا پیام) پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت ہو۔
اوپر میں نے سند کے حوالے سے کچھ عرض کیا تھا ، ذرا اسے دوبارہ پڑھ لیں۔ جب اس دور کے لوگوں کے حافظے کا یہ عالم ہو کہ نسب نامے تک ازبر ہوں ، ان کے بارے میں ہماری عقلیں حدیث کے معاملے میں شک و شبہ میں مبتلا کیوں ہوجاتی ہیں ؟ ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ جب کبھی باپ اپنے والد کی باتیں پوتے کو سنا رہا ہوتا ہے تو کس قدر اطمینان و یقین سے سناتا ہے اور بچہ یقین کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ میرے والد نے یہ سب اپنے والد کو کرتے یا کہتے سنا ہے ۔ بچے کیلئے والد "مستند راوی '' شمار ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح حدیث کے سننے والے اور زبانی بیان کرنے والے (یعنی صحابہ ، تابعین و تبع تابعین ) نبی کریم ﷺ کی بات کا اہتمام کرتے تھے۔ہر جگہ لکھنا ہی ضروری نہیں ہوتا ، روایت کی chain کی مضبوطی بھی بہت اہم ہوتی ہے اور اسے تسلیم کیا جاتا ہے خاص کر جب اس کے راوی سچے اور عادل ہوں۔
امام بخاری وہ شخص ہیں جنہوں نے نہایت واضح اور مبسوط انداز میں احادیث کو ان کے موضوع کے حوالے سے جمع کرکے ایک کتاب کی شکل دی۔ چونکہ تان خاص طور پر امام بخاری پر توڑی جاتی ہے تو اس کیلئے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ان سے بھی پہلے امام مالک موضوعاتی اعتبار سے کتاب مرتب کرچکے تھے اور ان سے پہلے غیر موضوعاتی جمع حدیث ہوتی رہی جیسے امام ہمام بن منبہ اور ان سے بھی پہلے ایک صحابی رسول ﷺ عبداللہ بن عمرو احادیث کو جمع کرکے صحیفہ کی شکل دے چکے تھے۔ایسا بالکل نہیں ہے کہ صحیح بخاری سے پہلے حدیث لکھی ہی نہیں گئی یا کتابی شکل میں مرتب نہیں ہوئی۔ یہ دعویٰ باطل محض ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
2: اعتراض کیا جاتا ہے کہ احادیث کی حیثیت تاریخی ہے۔ (برصغیر کا ایک مؤرخ نما استاد بھی اسی دعویٰ باطل کے ساتھ میدان میں آیا تھا ) اور بعض کہتے ہیں کہ تم ان کو قرآن کا درجہ دیتے ہو۔ہم کیسے کسی کی بھی روایت مان لیں جبکہ اس میں صحت و خطا کا امکان ہے۔
بھئی ہم تو قرآن کے بعد رسول اللہ کا قول بلا چون و چراں مانیں گے اور ہمیں اس پر نازہے الحمدللہ۔ معترضین کے خیال میں ہم ہر قول جو رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہوگا مان لیں گے اور اس سے احکام شریعہ کا استنباط کریں گے ۔ حالانکہ یہ ان کی بے خبری ہے۔ چونکہ حدیث کا معاملہ اتنا گہرا اور ذمہ داری کا ہے ، اسی لیے اس کے رد و قبول کیلئے باقاعدہ علم جرح و تعدیل وجود میں آیا جو مکمل طور پر راویان حدیث کے حالات زندگی ، ان کے اساتذۃ ، ان کی دوسروں سے ملاقاتیں ، ان سے روایت کردہ اشخاص نیز وہ اشخاص جن سے انہوں نے حدیث روایت کی ، ان کی صداقت ، دیانت ، شرافت اور مجموعی دینی حالت کہ فلاں راوی معاملات ، روزمرہ زندگی میں کیسا تھا، سچا تھا، جھوٹا تھا، متساہل تھا ، قوی تھا ، بھولنے والا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ محدثین نے حدیث کے رد و قبول کا اس قدر شاندار اور حیرت انگیز نظام مرتب کیا کہ دنیا حیران ہے۔ ان راویان حدیث کے حالات پر باقاعدہ کتب تصنیف کی گئیں۔ مثلا امام ابن حجر ، امام ذہبی وغیرہ نے باقاعدہ کتابیں تصنیف کیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے خود سے ہر راوی کے حالات لکھ دیے بلکہ انہوں نے بھی ہر شخص کے حالات کو مرتب و مدون کیا جس طرح امام مالک یا امام بخاری نے احادیث کو مرتب و مدون شکل دی۔ہر شخص کے متعلق (باعتبار زمانہ ) مختلف ائمہ کے اقوال پہلے سے ہی موجود تھے ۔
یاد رکھیے کہ اصل حیثیت امام بخاری کی شخصیت کی نہیں جتنی ان کی روایت کردہ اور جمع کردہ احادیث کی ہے اور جس کے راویان کو علم جرح و تعدیل کی چھنی سے گزار کر ہی صحیح کا درجہ دیا گیا ہے۔ امام بخاری کو امت میں جو مقام اور عزت حاصل ہے ، وہ اقوال رسول ﷺ کی خدمت کی وجہ سے ہی حاصل ہے۔ اور یہ محض ان پر اللہ کا فضل و کرم تھا۔
جب اس بات کا یقین ہو چکا کہ حدیث نہ صرف نبوی زمانہ میں بلکہ اس کے بعد بھی لکھی جاتی رہی اور اس کو روایت کرنے والے اشخاص کا بھی الف تا یے حالات موجود ہیں تو اس کو قبول کرنا ضروری ہے۔ فرمان رسول کریم ﷺ:
'' اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی اور پھر بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دی جس طرح سنی تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں حدیث پہنچے گی وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے''۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ حدیث کی معتبریت کا چیلنچ کرنا ایک بے بنیاد بات ہے۔ نہ حدیث تاریخی حیثیت کی حامل ہے نہ وہ کوئی 350 سال بعد لکھی گئی۔
 

فرسان

محفلین
تھوڑا تھوڑا سا هلكا هلكا سا غصه آجاتا هے جب علامه حضرات بلا مطالعه متفقه حقائق پر روشني ڈالنے كي طرف توجه كرتے هيں۔ اور فاش غلطيوں پہ غلطياں كيے جاتے ہیں مگر چونکہ اپنی "يك كتابي" تحقيق پہ كامل بھروسه اور امت كے متفقه فهم و ورثه په شك كي گنجائش هوتي هے تو رجوع كا سوال هي پيدا نهيں هوتا۔
 

فرسان

محفلین
کون صاحب قائید اعظم کے تمام کے تمام اقوال جمع کرنے کے موڈ میں ہیں؟؟؟ ان کے انتقال کو صرف اور صرف 64 سال ہوئے ہیں۔

ان كے اقوال ميں ايسي كوئي تشريعي قوت نهيں جسے مدون كرنے كي حرص كي جائےِ

نه ان كے اقوال وحي كا پرتو ہیں۔
 
جناب نایاب ۔ آپ کے (اور آپ جیسوں کے ) احادیث پر شکوک دور کرنے کیلئے محض اللہ کے فضل سے فقیر نے یہاں کچھ عرض کیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمالیں۔
باقی ہدایت دینا یقینا اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
جناب نایاب ۔ آپ کے (اور آپ جیسوں کے ) احادیث پر شکوک دور کرنے کیلئے محض اللہ کے فضل سے فقیر نے یہاں کچھ عرض کیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمالیں۔
باقی ہدایت دینا یقینا اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
میرے محترم بھائی بلا شک بہت محنت سے یہ سب تحریر کیا آپ نے ۔۔
لیکن " جمع الاحادیث " کی غرض و غایت آپ نے سننے آگے بڑھانے اور یاد رکھنے تک اور وہ بھی حدیث کی زبانی بیان فرما دی ۔
یعنی " قیل و قال " کی محفلیں سجاؤ ۔ کسی کو جنتی کسی کو جہنمی بناؤ ۔
کیا ہی اچھا ہوکہ آپ ان " مجموعہ الاحادیث " سے گزری چودہ صدیوں میں امت مسلمہ کو پہنچنے والے فائدے اور نقصانات کی بھی نشاندہی کر دیں ۔
ان احادیث سے امت مسلمہ میں کہاں کہاں اتفاق پیدا ہوا ہو ۔ ؟
اک قران کے پیروکاروں کو ان احادیث نے کتنے فرقوں میں تقسیم کر دیا ۔ ؟
اور یہ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ بعض محدثین خود اعتراف کرتے ہیں کہ حدیث کا علم ظنی ہے،
بلاشبہ حدیث صرف اور صرف " اسوہ حسنہ " سے آگہی پانے کا اک ذریعہ ہے ۔
مجھے احادیث پر شکوک نہیں ۔ بلکہ ان احادیث سے انتشار و فساد پھیلاتے " مہر کفر " بنانے پر شکوک ہیں ۔
اور میرے لیئے قران پاک ہی کافی و شافی ہے ۔
 

فرسان

محفلین
اور یہ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ بعض محدثین خود اعتراف کرتے ہیں کہ حدیث کا علم ظنی ہے،

آپ سے كچھ کچھ علم كا گماں هوتا هےِ يه بتائيں كه قرآن ظني الدلالة هے، يه كيا هوتا هے ؟ يه اعتراف بھي امت هي كا هے۔

اگر انكار فرمانا چاهيں تو دو قول كسي عالم كے لے آئيں كه قرآن پاك قطعي الدلالة هے۔
 

نایاب

لائبریرین
آپ سے كچھ کچھ علم كا گماں هوتا هےِ يه بتائيں كه قرآن ظني الدلالة هے، يه كيا هوتا هے ؟ يه اعتراف بھي امت هي كا هے۔
اگر انكار فرمانا چاهيں تو دو قول كسي عالم كے لے آئيں كه قرآن پاك قطعي الدلالة هے۔
میرے محترم بھائی جملہ علوم کی نسبت اللہ العلیم و الخبیر سے ہے ۔
قران پاک ہمیشہ زندہ رہنے والے پاک پروردگار کا زندہ کلام ہے ۔ یہ مخلوق نہیں جسے کبھی ضعف یا فنا کا سامنا کرنا پڑے ۔
قران پاک " کن " سے ابھرا " فیکون " نہیں جو کہ اسباب کا محتاج ہو ۔ یہ اللہ سچے کا اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کلام ہے ۔
قران پاک کو "ظن و تخمین " کی کسوٹی پر پرکھنا ان کا کام ہے جن کے بارے ارشاد ربانی ہے ۔
سورة البقرة ( 2 )
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ
فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَ۔ذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ {26}
ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ جو لوگ حق بات کو قبول کرنےوالے ہیں، وہ انہی مثالوں کو دیکھ کر جان لیتےہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی مثالوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اِس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ ِراست دکھا دیتا ہے۔ اور اُس سے ‍ گمراہی میں وہ اُنہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔
میرے محترم بھائی یہ بھی ملحوظ رہے کہ قران پاک میں کئی مقامات پر " ظن " یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
اور قران پاک کی صداقت اس سے بے نیاز ہے کہ اسے دلیل سے ثابت کیا جائے ۔
احادیث انسانوں کی جمع کردہ ہیں اور ان میں تعارض و اختلاف عین ممکن ہے ۔ ان کے بارے بحث کی جا سکتی ہے ۔ ان کی مخالفت اور حمایت میں اکابر علماء کے خیالات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ دلائل تلاش کیئے جا سکتے ہیں ۔ لیکن قران پاک ان سب باتوں سے بے نیاز ہے ۔
 

فرسان

محفلین
آپ نے ظني الدلالة كا تو جواب هي نهيں ديا كه يه كيا هوتا هے۔

اور دو صحيح احاديث مين تعارض بالكل نهيں هو سكتا سوائے يه كه ان مين سے ايك منسوخ هو۔
 
Top