کفایت ہاشمی
محفلین
بڑی ہی ستم ظریفی ہے کہ آج کا مسلمان غیروں کے درمیان بیٹھ کر اپنے ہی دینی ورثے کو چیلنج کرنے میں لگا ہوا ہے۔اقبال یاد آرہے ہیں۔ اگر آج ہوتے تو آج کے مسلمان پر درد بھری نظم تو کیا ، پورا دیوان لکھ دیتے۔
ع کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اور
ع خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اور
ع حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر !
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عرب میں لکھنے لکھانے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کے حافظے اس قدر قوی تھے کہ انھیں کسی چیز کے لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی ۔ دیوان کے دیوان ازبر ہوتے تھے ، نسب نامے یاد ہوتے تھے حتیٰ کہ اپنے مویشیوں کے نسب بھی ذہن نشین ہوتے تھے۔
پھر آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بیان کرتے تھے وہ صحابہ کرام سنتے تھے اور یاد رکھتے تھے۔ بعد از وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے باقاعدہ دروس کی محفلیں ہوتی تھیں جن میں ان کے شاگرد جو تابعین کہلائے، بھی علم دین حاصل کرتے تھے اور بعض لکھ بھی لیتے تھے (تفصیل آگے آئے گی) ۔ پھر یہی تابعین اپنے شاگردوں کو وہ تعلیم دیتے تھے اور احادیث نقل کرتے تھے جو تبع تابعین کہلائے ، جو وہ اپنے شیوض سے سنتے تھے ۔ یوں یہ ایک chain وجود میں آگئی جسے آپ اردو میں سند کہہ سکتے ہیں۔
اب ذرا احادیث کی معتبریت پر شک و شبہ کرنے والے حضرات کا جواب دیا جائے۔
یہ اعتراض بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں لکھی گئیں اور کتاب خاص کر صحیح بخاری 350 سال بعد آئی۔
1 : پہلی بات کہ یہ دعویٰ ہی باطل ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حدیث لکھوانے کا حکم فرمایا تھا۔ پہلے پہل منع فرمایا اور حکمت یہ تھی کہ قرآن اور قول رسول ﷺ میں اختلاط نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہر وہ بات لکھ لیتے جو آقا علیہ السلام بیان فرماتے ۔ قریش نے انھیں منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، کبھی خوشی کی حالت میں بھی ہوتے ہیں تو کبھی اس کے برعکس تو انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے ہونٹ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔ لکھو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں سے حق کے سوا کچھ ادا نہیں ہوتا۔" (سنن ابوداود ، مسند احمد ، مستدرک حاکم)۔
اس حدیث سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث کا لکھوانا ثابت ہوا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب النبی ﷺ میں کوئی نہیں جس کو مجھ سے زائد حدیثیں یاد ہوں مگر عبد اللہ بن عمرو اس سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) حاضر ہوا اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کی :
یا رسول اللہ ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی فلان ) ابو فلاں کو لکھ دو۔(صحیح بخاری و جامع ترمذی )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم کو کتابت کے ذریعے قید کرلو (یعنی لکھ لو)۔ (یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے،
رواه الخطيب في تاريخ بغداد، وفي تقييد العلم للخطيب البغدادي، وابن عبد البر في جامع بيان العلم، والرامهرمزي في المحدث الفاصل، وابن عساكر في تاريخ دمشق، وأبو نعيم في تاريخ أصبهان، والقضاعي في مسند الشهاب وغيرهم، وصححه الشيخ الألباني في صحيح الجامع.
)۔
عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ارشاد رسول کریم ﷺ ہے :
’اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی اور پھر بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دی جس طرح سنی تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں حدیث پہنچے گی وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے (جامع ترمذی)۔
حضرت رافع ؓ بن خدیج فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں کیا ہم انہیں لکھ لیا کریں …آپ نے فرمایا : لکھ لیا کرو کوئی حرج نہیں ''۔ أخرجه الرامهرمزي في المحدث الفاصل واللفظ له حديث (331)، والخطيب في تقييد العلم (ص72- 73)، والطبراني في الكبير 4/ حديث (4410)
میں نے عبد اللہ بن عباسؓ کو دیکھا کہ لکھنے کی تختیاں ان کے پاس تھیں، ان پر وہ ابو رافع سے رسول اللہ ﷺ کے کچھ افعال لکھ کر نقل کررہے ہیں۔(الطبقات الکبریٰ ابن سعد)
یہ اور اس کے علاوہ اور بہت سی روایات ہیں جن میں خود رسول اللہ ﷺ نے کتابت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مرتب کردہ مجموعہ حدیث جسے وہ " الصحیفۃ الصادقۃ '' کہتے تھے خود نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں لکھا گیا ۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام ہمام بن منبہ کا مرتب کردہ مجموعہ حدیث تو پاکستانی محقق اور عالم ڈاکٹر حمیداللہ نے باتحقیق شائع کروایا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اور
ع خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اور
ع حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر !
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عرب میں لکھنے لکھانے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کے حافظے اس قدر قوی تھے کہ انھیں کسی چیز کے لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی ۔ دیوان کے دیوان ازبر ہوتے تھے ، نسب نامے یاد ہوتے تھے حتیٰ کہ اپنے مویشیوں کے نسب بھی ذہن نشین ہوتے تھے۔
پھر آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بیان کرتے تھے وہ صحابہ کرام سنتے تھے اور یاد رکھتے تھے۔ بعد از وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے باقاعدہ دروس کی محفلیں ہوتی تھیں جن میں ان کے شاگرد جو تابعین کہلائے، بھی علم دین حاصل کرتے تھے اور بعض لکھ بھی لیتے تھے (تفصیل آگے آئے گی) ۔ پھر یہی تابعین اپنے شاگردوں کو وہ تعلیم دیتے تھے اور احادیث نقل کرتے تھے جو تبع تابعین کہلائے ، جو وہ اپنے شیوض سے سنتے تھے ۔ یوں یہ ایک chain وجود میں آگئی جسے آپ اردو میں سند کہہ سکتے ہیں۔
اب ذرا احادیث کی معتبریت پر شک و شبہ کرنے والے حضرات کا جواب دیا جائے۔
یہ اعتراض بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں لکھی گئیں اور کتاب خاص کر صحیح بخاری 350 سال بعد آئی۔
1 : پہلی بات کہ یہ دعویٰ ہی باطل ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حدیث لکھوانے کا حکم فرمایا تھا۔ پہلے پہل منع فرمایا اور حکمت یہ تھی کہ قرآن اور قول رسول ﷺ میں اختلاط نہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہر وہ بات لکھ لیتے جو آقا علیہ السلام بیان فرماتے ۔ قریش نے انھیں منع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، کبھی خوشی کی حالت میں بھی ہوتے ہیں تو کبھی اس کے برعکس تو انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے ہونٹ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔ لکھو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں سے حق کے سوا کچھ ادا نہیں ہوتا۔" (سنن ابوداود ، مسند احمد ، مستدرک حاکم)۔
اس حدیث سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث کا لکھوانا ثابت ہوا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب النبی ﷺ میں کوئی نہیں جس کو مجھ سے زائد حدیثیں یاد ہوں مگر عبد اللہ بن عمرو اس سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) حاضر ہوا اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کی :
یا رسول اللہ ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی فلان ) ابو فلاں کو لکھ دو۔(صحیح بخاری و جامع ترمذی )
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم کو کتابت کے ذریعے قید کرلو (یعنی لکھ لو)۔ (یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے،
رواه الخطيب في تاريخ بغداد، وفي تقييد العلم للخطيب البغدادي، وابن عبد البر في جامع بيان العلم، والرامهرمزي في المحدث الفاصل، وابن عساكر في تاريخ دمشق، وأبو نعيم في تاريخ أصبهان، والقضاعي في مسند الشهاب وغيرهم، وصححه الشيخ الألباني في صحيح الجامع.
)۔
عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ارشاد رسول کریم ﷺ ہے :
’اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی اور پھر بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دی جس طرح سنی تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں حدیث پہنچے گی وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے (جامع ترمذی)۔
حضرت رافع ؓ بن خدیج فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی باتیں سنتے ہیں کیا ہم انہیں لکھ لیا کریں …آپ نے فرمایا : لکھ لیا کرو کوئی حرج نہیں ''۔ أخرجه الرامهرمزي في المحدث الفاصل واللفظ له حديث (331)، والخطيب في تقييد العلم (ص72- 73)، والطبراني في الكبير 4/ حديث (4410)
میں نے عبد اللہ بن عباسؓ کو دیکھا کہ لکھنے کی تختیاں ان کے پاس تھیں، ان پر وہ ابو رافع سے رسول اللہ ﷺ کے کچھ افعال لکھ کر نقل کررہے ہیں۔(الطبقات الکبریٰ ابن سعد)
یہ اور اس کے علاوہ اور بہت سی روایات ہیں جن میں خود رسول اللہ ﷺ نے کتابت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مرتب کردہ مجموعہ حدیث جسے وہ " الصحیفۃ الصادقۃ '' کہتے تھے خود نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں لکھا گیا ۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام ہمام بن منبہ کا مرتب کردہ مجموعہ حدیث تو پاکستانی محقق اور عالم ڈاکٹر حمیداللہ نے باتحقیق شائع کروایا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔