کتنے قضیوں کے یوں ہی حل نکلے------- غزل

میم الف

محفلین
گل باجی کو ڈنک مار باجی کہیں گے تو کہاں کی قلفی کیسی ٹھنڈ
اب وسعتِ صحرائے یو اے ای میں حسرتِ قلفی و رس ملائی کی جگہ
امید پرسش آبلہ پائی بھی نہ رکھی جائے تو یہی بہتر ہے
(غالبا یہ امید تو ہنوز رکھی جا سکتی ہے لیکن جہاں پانی پت کی لڑائی میں اتنے تیر و تبر چلے وہاں ایک ڈائیلاگ ہمارا بھی سہی)
اصل میں ناصر کاظمی صاحب کا شعر ذہن میں آ رہا تھا،
آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں
پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے​
 
غزل


کتنے قضیوں کے یوں ہی حل نکلے
راہ لی اپنی اور چل نکلے

آدمی ہو کہ تم گدھے ہو میاں !
کاہے کو اس قدر اٹل نکلے؟

جب دلِ جانِ بزم ٹوٹ گیا
مابدولت بمع غزل نکلے

طالبِ علم خانقاہ گئے
نکلے تو طالبِ عمل نکلے

شاؔہ رنڈی کو بھی حقیر نہ جان
جانے پاس اس کے کیا عمل نکلے

ہم نے کاندھا دیا تمھیں کہ چلو
تم میاں ہم کو ہی کچل نکلے!

صد غنیمت ہیں اس ہمہ ہمی میں
کچھ جو اپنے لئے بھی پل نکلے

یہ کمال آفتاب میں بھی نہیں
دیپ سے کتنے دیپ جل نکلے

شاؔہ موضوع عشق چھیڑ شتاب
اس سے پہلے کہ بےمحل نکلے










عمدہ غزل ہے ، یاسر صاحب ! داد حاضر ہے .
 
Top