کثرتِ ازدواج (Polygamy )

La Alma

لائبریرین
اسلام جنسی تفریق سے بالاتر ہو کر معاشرے کے ہر فرد کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے آج کل بیشتر مفتیانِ اکرام الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مردوں کو ایک سے زیادہ نکاح کی نہ صرف باقاعدہ ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ان کے ثمرات گنواتے نہیں تھکتے۔ کیا ان کی نظر سے قرآن کی یہ آیت نہیں گزری، "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً ، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)" ۔
گویا ان اکابرینِ اسلام کے نزدیک مردوں کے لیے دوسری شادی کی اولین شرط "عدل " اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا اتنا ہی سہل ہے جسے ہر کوئی، کبھی بھی باآسانی کر سکتا ہے؟ میں نے مذہبی حلقوں کی جانب سے آج تک ایسا کوئی مذمتی بیان نہیں سنا جس میں دوسری شادی کرنے والے کسی بھی شخص کو سرزنش کی گئی ہو کہ اس کے اس اقدام سے اس کی پہلی بیوی کی حق تلفی ہوئی ہے یا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ہمیشہ پہلی بیوی کو ہی وعظ و نصیحت اور سرِ تسلیم خم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ اس کے شوہر نے کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ یہ اس کا قانونی اور شرعی حق تھا۔
میں کوئی Feminist نہیں اور نہ ہی حقوقِ نسواں کے نام نہاد نظریات سے مجھے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو ہر طرح کا مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کیے ہیں۔ میں جنسی امتیاز سے ہٹ کر انسانیت کی تکریم پر یقین رکھتی ہوں۔ لیکن مذہب کے نام پر عورت کا استحصال ہوتے دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے۔
جہاں اسلام ایک مرد کو چار بیویاں رکھنے کی مشروط اجازت دیتا ہے، وہیں ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے میرج کنٹریکٹ "نکاح نامہ" میں شوہر سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ وہ صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کرے گا یا پھر دونوں فریقین اپنی باہمی رضامندی سے کثرتِ ازدواج کے معاملے پر کسی بھی ایگریمنٹ پر متفق ہو سکتے ہیں۔
سوره نساء میں ہے۔
وَاِنِ امۡرَاَةٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِهَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًا‌ؕ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ‌ؕ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ‌ ؕ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ﴿۱۲۸﴾
وَلَنۡ تَسۡتَطِيۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَيۡنَ النِّسَآءِ وَلَوۡ حَرَصۡتُمۡ‌ۚ فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ فَتَذَرُوۡهَا كَالۡمُعَلَّقَةِ‌ؕ وَاِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿۱۲۹﴾
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو تو ان پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی معاہدے پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور نفوس تو حرص کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ﴿۱۲۸﴾
اور تم خوا کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر بیچ میں معلق ہے اور اگر آپس میں موافقت (معاہدہ) کرلو اور تقویٰ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱۲۹﴾
کیا ہمارے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے رسولِ پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کے تمام پہلوؤں سے امت کو روشناس کرایا جائے۔ حضورؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجؓہ جو آپؐ سے عمر میں بھی کافی بڑی تھیں، اس سے پہلے دو مردوں کی زوجیت میں رہ چکی تھیں اور پانچ بچوں کی ماں بھی تھیں ۔لیکن جب تک وہ بقیدِ حیات رہیں، رسولِ کریمؐ نے عقدِ ثانی نہیں کیا۔ یہ رفاقت تقریبًا پچیس سال کے عرصہ تک محیط رہی۔ حضورؐ کا کوئی عمل حضرت خدیجہؓ کی دل آزاری کا سبب نہیں بنا۔ آپؐ نے جتنے بھی نکاح کیے وہ حضرت خدیجؓہ کی وفات کے بعد اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں کیے اور ان شادیوں کے مقاصد بھی نہایت عظیم اور ارفع تھے۔ کیا آج کے دور میں بیوی سے محبت، ہمدردی، وفا شعاری، دلجوئی اور عدل کی کوئی ایسی عمدہ نظیر مل سکتی ہے جو آپؐ نے حضرت خدیجؓہ سے شادی کرکے قائم کی۔
یاد رکھیے کوئی کسی کی زندگی کا جبراً مالک نہیں بن سکتا ۔ روزِ حشر ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ دی گئی قسموں اور عہد کے متعلق لازمًا باز پرس ہو گی۔ پھر کوئی یکطرفہ اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کر سکتا ہے جس کا اثر دوسرے فریق کی زندگی پر براہِ راست پڑتا ہو۔ کیا اسلام میں وفا شعار شوہر کا کوئی تصور موجود نہیں؟ کیا مسلمان مرد قابلِ اعتبار نہیں ہوتا؟ یقینًا نبیؐ کے اسوہ حسنہ میں لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی کے جذبات و احساسات کو اتنی آسانی سے کیسے کچل سکتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی اپنی بیوی کی برسوں کی رفاقت اور اس کی ہر خدمت اور ایثار و قربانی کو پل بھر میں فراموش کر دے کیونکہ اس کا دل اچانک اپنی بیوی کی کسی سہیلی پر آ گیا ہے یا وہ آفس میں اپنی کسی کولیگ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے یا پھر اس کے سر پر کسی کے عشق کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کرنے پر مصر ہے تو بھلے شوق سے کرے لیکن خدارا اس کے اس فعل کو نبؐی کی سنت سے ثابت کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ دوسری شادی کے حق کو لہو و لعب اور کھیل تماشا مت بنائیے۔ کچھ تو خوفِ خدا کیجئے۔
 
بہت شکریہ، اس پوری آیت کو دیکھئے اور سنت رسول اللہ کو بھی دیکھئے تو ہم کو ایک ہی پیغام ملتا ہے،
سورۃ النساء آیت نمبر2 اور 3، جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، اس کو بار بار بغور پڑھئے۔

4:2 اوریتیموں کوان کے مال دے دو اور ناپاک کو پاک سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ یہ بڑا گناہ ہے
4:3 اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں، ان (یتیم عورتوں) میں سے، دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے

یتیم وہ فرد کہلاتا ہے جس کو دیکھنے بھالنے والا کوئی نا ہو۔
مندرجہ بالاء دو آیات میں فرمان الہی ، یتیم عورتوں کے بارے میں ہے، جن کا کوئی سرپرست نہیں اور جو یقینی طور پر ایسی صورت حال میں ہیں کہ ایک مرد ان سے مالی ناانصافی کر سکتا ہے۔ یہ آیت جس کو بنیاد بناء کر اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی کی جاتی رہی ہے، یقینی طور پر ان آزاد عورتوں کے بارے میں بالکل نہیں جن کے سرپرست موجود ہیں اور جو کہیں بھی شادی کرسکتی ہیں۔ تو دو دو ، تین تین، چار چار شادیاں صرف ان یتیم عورتوں سے کی جاسکتی ہے، جن سے ناانصافی کا اندیشہ ہو۔

ایک مکمل طور پر آزاد عورت، جس کی کفالت اور سرپرستی کرنے والے موجود ہوں تو وہ کس طرح یتیم عورتوں کے زمرے میں آتی ہے ؟؟؟ اور اس سے کسی طور نا انصافی کس طرح کی جاسکتے ہے کہ اس نانصافی کا مداوا ، چار چار شادیاں ہو ؟ ایسی عورت کو کیوں مجبور کیا جائے کہ وہ کسی کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بنے ؟؟؟

کوئی سمجھائے، ہماری سوچ کو بھی نور عطا کرے ۔۔۔

والسلام
 
اجازت کو حکم یا فرض عین کے درجے میں لانا غلط ہے اور معاشرے کا ایک طبقہ اسی غلطی کا شکار معلوم ہوتا ہے۔
پتا نہیں معاشرے کا کونسا طبقہ ہے؟
پاکستانی معاشرے خصوصا شہروں میں نادر ہی تعدد ازواج کی مثالیں ملتی ہیں۔
اتنی دوسری شادیاں ہوتی نہیں، جتنے صفحے اس موضوع پہ کالے کیے جا چکے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
افراط و تفریط سے بالاتر راہ اعتدال میں ہی حسن ہے...
یہ تو خیر لاعلمی کا پوٹ اور گمراہ کرنے کی بات ہے کہ ایک سے زیادہ نکاح صرف یتیم لڑکیوں کے سوا کسی اور سے نہیں ہوتے...
ہم صدیوں قبل اسلام لانے کے بعد بھی ہندوانہ تہذیب کے اثرات سے نہ نکل سکے...
ورنہ مسلم معاشروں میں تعدد ازواج ایسا مسئلہ نہیں کہ اس پر بحث کی جائے...
آج بھی عربوں میں تعدد ازواج کو برا نہیں سمجھا جاتا...
ہمارے یہاں بھی سرائیکیوں میں تعدد ازواج لعنت نہیں سمجھی جاتی...
ہم جدید مغربی تہذیب کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے اپنے مذہب سے کمزور تعلق کی وجہ سے خواہ مخواہ مرعوب ہورہے ہیں. صہیونی میڈیا نکاح کو ناقابل قبول اور زنا کو قبول کرنے کی ذہن سازی کررہا ہے...
مرد دوسرا نکاح کرے تو پہلی بیوی کی برسوں کی وفاداری پر آنچ آئے...
البتہ جس سے نکاح کرنے کی طرف دل مائل ہو اس سے ہزار بار زنا کرلے تو کوئی حرج نہیں...
پھر کسی ایک پر بس نہیں ہر روز نئی عورت کے پاس جائے سب روا ہے...
یہ صہیونی پروپیگنڈے کی ذہن سازی ہے جو قدم قدم پر جائز نکاح کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے...
مغربی فتوؤں کی رو سے کم عمری میں نکاح کرنا حرام، دونوں کی عمروں میں بہت زیادہ فرق ہو تو نکاح کرنا حرام، مرد کا ایک سے زیادہ نکاح کرنا حرام اور خود مغرب میں تو ہر حال میں نکاح کرنا حرام...
وہاں ایسے قوانین بنادئیے گئے جس نے نکاح کو ناممکن اور زنا کو آسان بنادیا...
عورت کو وہ سہانے خواب دکھائے کہ وہ اپنے مردوں سے باغی ہوگئی پھر اسے گھر سے بے گھر کرکے دنیا بھر کے مردوں کے آگے ڈال دیا گیا تاکہ اسے ہرممکن طریقے سے بھنبھوڑیں اور کوئی بچانے والا نہ ہو!!!
 

La Alma

لائبریرین
بہت شکریہ، اس پوری آیت کو دیکھئے اور سنت رسول اللہ کو بھی دیکھئے تو ہم کو ایک ہی پیغام ملتا ہے،
سورۃ النساء آیت نمبر2 اور 3، جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، اس کو بار بار بغور پڑھئے۔

4:2 اوریتیموں کوان کے مال دے دو اور ناپاک کو پاک سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ یہ بڑا گناہ ہے
4:3 اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں، ان (یتیم عورتوں) میں سے، دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے

یتیم وہ فرد کہلاتا ہے جس کو دیکھنے بھالنے والا کوئی نا ہو۔
مندرجہ بالاء دو آیات میں فرمان الہی ، یتیم عورتوں کے بارے میں ہے، جن کا کوئی سرپرست نہیں اور جو یقینی طور پر ایسی صورت حال میں ہیں کہ ایک مرد ان سے مالی ناانصافی کر سکتا ہے۔ یہ آیت جس کو بنیاد بناء کر اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی کی جاتی رہی ہے، یقینی طور پر ان آزاد عورتوں کے بارے میں بالکل نہیں جن کے سرپرست موجود ہیں اور جو کہیں بھی شادی کرسکتی ہیں۔ تو دو دو ، تین تین، چار چار شادیاں صرف ان یتیم عورتوں سے کی جاسکتی ہے، جن سے ناانصافی کا اندیشہ ہو۔

ایک مکمل طور پر آزاد عورت، جس کی کفالت اور سرپرستی کرنے والے موجود ہوں تو وہ کس طرح یتیم عورتوں کے زمرے میں آتی ہے ؟؟؟ اور اس سے کسی طور نا انصافی کس طرح کی جاسکتے ہے کہ اس نانصافی کا مداوا ، چار چار شادیاں ہو ؟ ایسی عورت کو کیوں مجبور کیا جائے کہ وہ کسی کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بنے ؟؟؟

کوئی سمجھائے، ہماری سوچ کو بھی نور عطا کرے ۔۔۔

والسلام
یہ آیت یقینًا یتیم لڑکیوں ہی سے متعلق ہے لیکن اگر آزاد عورتیں بھی اپنی رضامندی سے کسی کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بننا پسند کریں تو اعتراض کی گنجائش نہیں بنتی۔ اسلام کے قوانین میں نہایت لچک موجود ہے۔ اگر کوئی اپنے لیے polygamy پسند کرتا ہے تو ایسی خواتین کا انتخاب کرے جنہیں اپنے شوہر کی ایک سے زیادہ شادیوں پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ لیکن عورتوں پر یہ سب زبردستی مسلط کرنا ظلم اور ناانصافی کی ذیل میں ہی آئے گا۔
 

La Alma

لائبریرین
اجازت کو حکم یا فرض عین کے درجے میں لانا غلط ہے اور معاشرے کا ایک طبقہ اسی غلطی کا شکار معلوم ہوتا ہے۔
کچھ دن پہلے یو ٹیوب پر کسی مولانا کا بیان سننے کو ملا۔ ان کا فرمانا تھا کہ ایک اچھے مرد پر کسی عورت کے اکیلے کا حق ہونا ہی نہیں چاہیے۔ ایک سے زیادہ خواتین کو ایسے مرد کی اچھائی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
 

سید عمران

محفلین
اس بات کا تاہنوز جواب نہیں ملا کہ مرد کے لیے حلال راستے کو حرام اور حرام راستے کو آسان کیوں بنایا جارہا ہے؟؟؟
عورت سے ہمدردی کا درد رکھنے والے پہلے مغرب کی عورت کو عریانیت کی ذلت آمیز زندگی اور تمام مردوں کی مشترکہ جائیداد بننے سے بچالیں!!!
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
کچھ دن پہلے یو ٹیوب پر کسی مولانا کا بیان سننے کو ملا۔ ان کا فرمانا تھا کہ ایک اچھے مرد پر کسی عورت کے اکیلے کا حق ہونا ہی نہیں چاہیے۔ ایک سے زیادہ خواتین کو ایسے مرد کی اچھائی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اسلام میں مخصوص شرائط کے ساتھ مرد کو تعدد ازدواج کی اجازت ہے اور اس میں کئی حکمتیں پنہاں ہیں تاہم اگر کوئی خاتون یہ تصور کرتی ہو کہ اس کے شوہر کو کسی اور کے ساتھ عقد نہیں کرنا چاہیے تو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنی راہیں جدا کر لے۔ ویسے ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ تب پوری شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے جب طویل عرصہ رفاقت کے بعد مرد اپنی سوچ کو یکلخت بدل لے اور معاشرے کے عمومی چلن کے برعکس محض نفسانی خواہشات کے پیش نظر یا مذکورہ خاتون کو دانستہ طور پر اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے یہ راہ اپنا لے۔ اب یہاں اس معاملے میں نیت کا بھی عمل دخل آ جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس معاملے کو ثقافتی و تہذیبی تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔ بعض خطوں اور ممالک میں تعدد ازدواج بڑا مسئلہ شمار نہیں کیا جاتا ہے تاہم بعض ملکوں اور علاقوں میں مرد کی ایک سے زائد شادیوں کو عجوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل، اس معاملے کی حیثیتیں مذہبی و ثقافتی تناظر میں بدلتی چلی جاتی ہیں تاہم انفرادی سطح پر تو عورت کو بہرصورت یہ حق حاصل رہتا ہے کہ آیا وہ ایسے مرد کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا اس سے راہیں جدا کرنا چاہتی ہے جو کہ مزید عقد کرنے میں دلچسپی ظاہر کرے۔
 

سید عمران

محفلین
اسلام اللہ کا دین ہے۔۔۔
اس کے احکامات کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔
جب اللہ نے مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے تو اس بارے میں کسی ’’مسلمان‘‘ کو چہ مگوئیاں کرنے کا حق نہیں۔۔۔
شادی نفسانی خواہشات کو جائز طریقوں سے پورا کرنے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔۔۔
بحث کا موضوع تعدد ازواج ہے عورت پر ظلم نہیں ۔۔۔
اس کام میں تو اہل مغرب خود بہت ماہر اور تجربہ کار ہیں!!!
 
اس معاملے میں مغرب کی دو رخی یہ ہے کہ متعدد جنسی تعلقات رکھنا جرم نہیں، مگر ایک سے زیادہ شادی قابلِ سزا جرم ہے۔

اس معاملے میں ایک مزاحیہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے آفس میں ایک امریکی خاتون شد و مد سے ہمارے سے بحث کر رہی تھیں، جو پو لیگیمی کا دفاع کر رہے تھی۔ کچھ دیر کے بعد خاتون غصہ میں آنے لگیں۔ میں نے اس سے کہا، ہمارے دوست پہ اتنا سیخ پا نہ ہوں۔ یہ ۲۹ سال کی عمر تک کنوارے رہے، پہلی دفعہ شادی کے بعد جنس سے آچنا ہوئے ہیں اور اس کے بعد سے اپنی بیوی سے وفا شعار رہے ہیں۔ نہ انہوں نے دوسری شادی کی اور نہ ان کا ارادہ ہے۔ یہ آپ سے زیادہ حقیقی معنوں میں
مو نو گیمس ہیں ۔ مگر مذہبی اعتقاد کی بدولت پولی گیمی کا دفاع کرنے پہ مجبور ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
کیا کوئی مسلمان اسلام کے احکامات کا دفاع نہیں کرے گا۔۔۔
اور دفاع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔
سینہ تان کر کہے کہ ہمارے یہاں حلال نکاح سے حلال نسب و نسل چلتی ہے۔۔۔
نہ ہم خود غیر حلالی ہیں نہ حرام کی پیداوار کو پسند کرتے ہیں!!!
 

La Alma

لائبریرین
افراط و تفریط سے بالاتر راہ اعتدال میں ہی حسن ہے...
یہ تو خیر لاعلمی کا پوٹ اور گمراہ کرنے کی بات ہے کہ ایک سے زیادہ نکاح صرف یتیم لڑکیوں کے سوا کسی اور سے نہیں ہوتے...
ہم صدیوں قبل اسلام لانے کے بعد بھی ہندوانہ تہذیب کے اثرات سے نہ نکل سکے...
ورنہ مسلم معاشروں میں تعدد ازواج ایسا مسئلہ نہیں کہ اس پر بحث کی جائے...
آج بھی عربوں میں تعدد ازواج کو برا نہیں سمجھا جاتا...
ہمارے یہاں بھی سرائیکیوں میں تعدد ازواج لعنت نہیں سمجھی جاتی...
ہم جدید مغربی تہذیب کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے اپنے مذہب سے کمزور تعلق کی وجہ سے خواہ مخواہ مرعوب ہورہے ہیں. صہیونی میڈیا نکاح کو ناقابل قبول اور زنا کو قبول کرنے کی ذہن سازی کررہا ہے...
مرد دوسرا نکاح کرے تو پہلی بیوی کی برسوں کی وفاداری پر آنچ آئے...
البتہ جس سے نکاح کرنے کی طرف دل مائل ہو اس سے ہزار بار زنا کرلے تو کوئی حرج نہیں...
پھر کسی ایک پر بس نہیں ہر روز نئی عورت کے پاس جائے سب روا ہے...
یہ صہیونی پروپیگنڈے کی ذہن سازی ہے جو قدم قدم پر جائز نکاح کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے...
مغربی فتوؤں کی رو سے کم عمری میں نکاح کرنا حرام، دونوں کی عمروں میں بہت زیادہ فرق ہو تو نکاح کرنا حرام، مرد کا ایک سے زیادہ نکاح کرنا حرام اور خود مغرب میں تو ہر حال میں نکاح کرنا حرام...
وہاں ایسے قوانین بنادئیے گئے جس نے نکاح کو ناممکن اور زنا کو آسان بنادیا...
عورت کو وہ سہانے خواب دکھائے کہ وہ اپنے مردوں سے باغی ہوگئی پھر اسے گھر سے بے گھر کرکے دنیا بھر کے مردوں کے آگے ڈال دیا گیا تاکہ اسے ہرممکن طریقے سے بھنبھوڑیں اور کوئی بچانے والا نہ ہو!!!
اس معاملے میں مغرب کی دو رخی یہ ہے کہ متعدد جنسی تعلقات رکھنا جرم نہیں، مگر ایک سے زیادہ شادی قابلِ سزا جرم ہے۔

اس معاملے میں ایک مزاحیہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے آفس میں ایک امریکی خاتون شد و مد سے ہمارے سے بحث کر رہی تھیں، جو پو لیگیمی کا دفاع کر رہے تھی۔ کچھ دیر کے بعد خاتون غصہ میں آنے لگیں۔ میں نے اس سے کہا، ہمارے دوست پہ اتنا سیخ پا نہ ہوں۔ یہ ۲۹ سال کی عمر تک کنوارے رہے، پہلی دفعہ شادی کے بعد جنس سے آچنا ہوئے ہیں اور اس کے بعد سے اپنی بیوی سے وفا شعار رہے ہیں۔ نہ انہوں نے دوسری شادی کی اور نہ ان کا ارادہ ہے۔ یہ آپ سے زیادہ حقیقی معنوں میں
مو نو گیمس ہیں ۔ مگر مذہبی اعتقاد کی بدولت پولی گیمی کا دفاع کرنے پہ مجبور ہیں۔
موضوعِ بحث تعدد ازواج میں "عدل" ہے اور عدل کے تمام تقاضے پورے کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ شرط اللہ نے رکھی ہے۔ اس کا صیہونی میڈیا، مغربی تہذیب کے پروپیگنڈے اور حرام کام کے لیے ذہن سازی سے کیا تعلق ہے۔
عدل کا دائره کار نہایت وسیع ہے۔ اسلام نے نکاح کے معاملے میں شخصی آزادی، فطرتی رحجانات و میلانات کا احترام کیا ہے۔ بہت سے جغرافیائی، معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی عوامل ان رحجانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔ جس طرح اسلام کے نام پر کسی نوجوان لڑکے کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی بیوہ، مطلقہ ، عمر رسیدہ یا بچوں والی سے نکاح کرے ۔ حالانکہ اسلام میں اس کی اجازت بھی ہے اور یہ ہمارے نبیؐ کی سنت بھی ہے۔ اسی طرح کسی عورت پر بھی اپنے کسی حق کو لے کر جبر یا زیادتی روا نہیں۔ ہر انسان کا مائنڈ سیٹ مختلف ہوتا ہے۔ یہ بات زیادہ انصاف کے قریب ہے کہ نکاح کے وقت ہی ایسے معاملات طے کر لیے جائیں تاکہ آئندہ آنے والی زندگی میں ممکنہ پچیدگیوں سے بچا جا سکے اور کسی فریق کے مفادات پر آنچ نہ آئے۔
 

La Alma

لائبریرین
اس بات کا تاہنوز جواب نہیں ملا کہ مرد کے لیے حلال راستے کو حرام اور حرام راستے کو آسان کیوں بنایا جارہا ہے؟؟؟
عورت سے ہمدردی کا درد رکھنے والے پہلے مغرب کی عورت کو عریانیت کی ذلت آمیز زندگی اور تمام مردوں کی مشترکہ جائیداد بننے سے بچالیں!!!
کیا یہ مطلوبہ نتائج پہلے نکاح کو آسان بنانے سے حاصل نہیں کیے جا سکتے؟ قدرت کا انتظام بہت منصفانہ ہے۔ اگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں کا تناسب قریب قریب یکساں ہے۔ پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے مطابق 100 عورتوں کے مقابلے میں 105 مرد ہیں ۔یعنی مردوں کی تعداد نسبتًا زیادہ ہے۔ اگر حلال طریقے کا انتخاب کرتے ہوئے پہلے نکاح کو ہی آسان بنایا جائے تو کوئی عورت پبلک پراپرٹی نہیں بن سکتی۔ ہاں البتہ اگر تعدد ازواج پر اتنا ہی زور دیا گیا تو بہت سے مرد کنوارے رہ جائیں گے۔ پھر اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
کیا یہ مطلوبہ نتائج پہلے نکاح کو آسان بنانے سے حاصل نہیں کیے جا سکتے؟ قدرت کا انتظام بہت منصفانہ ہے۔ اگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں کا تناسب قریب قریب یکساں ہے۔ پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے مطابق 100 عورتوں کے مقابلے میں 105 مرد ہیں ۔یعنی مردوں کی تعداد نسبتًا زیادہ ہے۔ اگر حلال طریقے کا انتخاب کرتے ہوئے پہلے نکاح کو ہی آسان بنایا جائے تو کوئی عورت پبلک پراپرٹی نہیں بن سکتی۔ ہاں البتہ اگر تعدد ازواج پر اتنا ہی زور دیا گیا تو بہت سے مرد کنوارے رہ جائیں گے۔ پھر اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں گے۔
شاید آپ بھی ادھر ادھر نکل گئیں۔۔۔
ایک ہے تعدد ازواج کا حکم۔۔۔
یعنی اجازت۔۔۔
ایک ہے اس پر ہر ایک کا عمل کرنا فرض ہو۔۔۔
امید ہے آپ مدعا سمجھ گئی ہوں گی!!!
 

سید عمران

محفلین
موضوعِ بحث تعدد ازواج میں "عدل" ہے اور عدل کے تمام تقاضے پورے کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ شرط اللہ نے رکھی ہے۔ اس کا صیہونی میڈیا، مغربی تہذیب کے پروپیگنڈے اور حرام کام کے لیے ذہن سازی سے کیا تعلق ہے۔
عدل کا دائره کار نہایت وسیع ہے۔ اسلام نے نکاح کے معاملے میں شخصی آزادی، فطرتی رحجانات و میلانات کا احترام کیا ہے۔ بہت سے جغرافیائی، معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی عوامل ان رحجانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔ جس طرح اسلام کے نام پر کسی نوجوان لڑکے کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی بیوہ، مطلقہ ، عمر رسیدہ یا بچوں والی سے نکاح کرے ۔ حالانکہ اسلام میں اس کی اجازت بھی ہے اور یہ ہمارے نبیؐ کی سنت بھی ہے۔ اسی طرح کسی عورت پر بھی اپنے کسی حق کو لے کر جبر یا زیادتی روا نہیں۔ ہر انسان کا مائنڈ سیٹ مختلف ہوتا ہے۔ یہ بات زیادہ انصاف کے قریب ہے کہ نکاح کے وقت ہی ایسے معاملات طے کر لیے جائیں تاکہ آئندہ آنے والی زندگی میں ممکنہ پچیدگیوں سے بچا جا سکے اور کسی فریق کے مفادات پر آنچ نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ کا تعدد ازواج کے بارے میں حکم ایک الگ موضوع ہے۔۔۔
اس کو صحیح یا غلط استعمال کرنا ۔۔۔
یا اس کے ذریعے کسی کو فائدہ پہنچانا اور کسی پر ظلم کرنا بالکل الگ موضوع ہے!!!
 

فاخر رضا

محفلین
آپؐ نے جتنے بھی نکاح کیے وہ حضرت خدیجؓہ کی وفات کے بعد
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت بی بی فاطمہ کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا

کیا ایسا ہے کہ پہلی بیوی پہلی ہوتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد آزادی ہے تعدد ازدواج کی
 
کیا یہ مطلوبہ نتائج پہلے نکاح کو آسان بنانے سے حاصل نہیں کیے جا سکتے؟ قدرت کا انتظام بہت منصفانہ ہے۔ اگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں کا تناسب قریب قریب یکساں ہے۔ پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے مطابق 100 عورتوں کے مقابلے میں 105 مرد ہیں ۔یعنی مردوں کی تعداد نسبتًا زیادہ ہے۔ اگر حلال طریقے کا انتخاب کرتے ہوئے پہلے نکاح کو ہی آسان بنایا جائے تو کوئی عورت پبلک پراپرٹی نہیں بن سکتی۔ ہاں البتہ اگر تعدد ازواج پر اتنا ہی زور دیا گیا تو بہت سے مرد کنوارے رہ جائیں گے۔ پھر اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں گے۔
گو کہ یہ موضوعِ بحث نہیں مگر اس متعلق ضرور ہے اس لئے اس بات کا ذکر کرتا چلوں۔
آبادی تقریباً یکساں ہے، بظاہر مردوں کی زیادہ آبادی کی وجہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کا مردم شماری سے اخراج ہے۔ خصوصا دیہاتی علاقوں میں اور شمالی علاقوں میں۔

آپ کا یہ نکتہ کہ بہت سے مرد کنوارے رہ جائیں گے، اصلاً ایک حقیقت ہے۔ بظاہر اس کو نظر انداز کیا جاتا ہےمگر جوں جوں اس طبقے کا جائزہ لیا جائے جو معاشی ابتری کا شکار ہے، تو اس میں غیر شادی شدہ مردوں کا تناسب، غیر شادی شدہ عورتوں سے خاصا زیادہ ہے۔

تیسری بات یہ کہ ایک عورت کیلئے نفسیاتی طور پہ ایک ایسے مرد کی زندگی میں بطور دوسری یا تیسری عورت (مغرب میں) یا بطور دوسری یا تیسری بیوی ( مشرق) میں جسے وہ پسند کرتی ہو، زیادہ قابلِ قبول ہے با نسبت ایک ایسے مرد کی پہلی بیوی بننا جسے وہ پسندی نہ کرتی ہو۔ مردوں کی نفسیات زیادہ تر اس کے عکس ہے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

میرا مقصد تعدد ازواج کی حمایت یا مخالفت نہیں۔ بس یہ تھا کہ متعلقہ نکات پیش کر دوں۔
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت بی بی فاطمہ کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا
قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی عہد ہو سکتا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کی زندگی میں نکاحِ ثانی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ حضرت فاطمہؓ فریاد لے کر حضورؑ کے پاس تشریف لے گئیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس سے قبل اپنے ایک داماد ابو العاص بن ربیع کو اپنے وعدے میں ثابت قدم پایا تھا۔ بعد میں حضرت علیؓ اپنی اس خواہش سے دستبردار ہو گئے تھے۔
کیا ایسا ہے کہ پہلی بیوی پہلی ہوتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد آزادی ہے تعدد ازدواج کی
ایسا بالکل بھی نہیں کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کے مرنے کا انتظار کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ بیوی کی عمر اس سے لمبی ہوئی تو پھر!! کہیں شوہر بیچارہ دل میں حسرت لیے ہی دنیا سے رخصت نہ ہو جائے۔:)
مرد کو چاہیے بس اتنی زحمت کر لے کہ پہلی شادی کے وقت اپنا ما فی الضمیر کھل کر بیان کر دے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے کا خواہاں ہے تو واضح کر دے۔ اگر کوئی لڑکی اپنی رضامندی سے اس کے عقد میں آتی ہے تو درست، ورنہ کہیں اور قسمت آزمائی کر لے۔
 

فاخر رضا

محفلین
قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی عہد ہو سکتا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، حضرت علیؓ نے حضرت فاطمؓہ کی زندگی میں نکاحِ ثانی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ حضرت فاطمہؓ فریاد لے کر حضورؑ کے پاس تشریف لے گئیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس سے قبل اپنے ایک داماد ابو العاص بن ربیع کو اپنے وعدے میں ثابت قدم پایا تھا۔ بعد میں حضرت علیؓ اپنی اس خواہش سے دستبردار ہو گئے تھے۔

ایسا بالکل بھی نہیں کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کے مرنے کا انتظار کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ بیوی کی عمر اس سے لمبی ہوئی تو پھر!! کہیں شوہر بیچارہ دل میں حسرت لیے ہی دنیا سے رخصت نہ ہو جائے۔:)
مرد کو چاہیے بس اتنی زحمت کر لے کہ پہلی شادی کے وقت اپنا ما فی الضمیر کھل کر بیان کر دے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے کا خواہاں ہے تو واضح کر دے۔ اگر کوئی لڑکی اپنی رضامندی سے اس کے عقد میں آتی ہے تو درست، ورنہ کہیں اور قسمت آزمائی کر لے۔
ہمارے خاندان میں شادی کم عمر میں ہوتی ہے اس وقت تو بس شادی کا شوق ہوتا ہے. دوسری اور تیسری کی باری پچاس ساٹھ میں آتی ہے
 
Top