La Alma
لائبریرین
اسلام جنسی تفریق سے بالاتر ہو کر معاشرے کے ہر فرد کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے آج کل بیشتر مفتیانِ اکرام الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مردوں کو ایک سے زیادہ نکاح کی نہ صرف باقاعدہ ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ان کے ثمرات گنواتے نہیں تھکتے۔ کیا ان کی نظر سے قرآن کی یہ آیت نہیں گزری، "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً ، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)" ۔
گویا ان اکابرینِ اسلام کے نزدیک مردوں کے لیے دوسری شادی کی اولین شرط "عدل " اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا اتنا ہی سہل ہے جسے ہر کوئی، کبھی بھی باآسانی کر سکتا ہے؟ میں نے مذہبی حلقوں کی جانب سے آج تک ایسا کوئی مذمتی بیان نہیں سنا جس میں دوسری شادی کرنے والے کسی بھی شخص کو سرزنش کی گئی ہو کہ اس کے اس اقدام سے اس کی پہلی بیوی کی حق تلفی ہوئی ہے یا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ہمیشہ پہلی بیوی کو ہی وعظ و نصیحت اور سرِ تسلیم خم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ اس کے شوہر نے کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ یہ اس کا قانونی اور شرعی حق تھا۔
میں کوئی Feminist نہیں اور نہ ہی حقوقِ نسواں کے نام نہاد نظریات سے مجھے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو ہر طرح کا مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کیے ہیں۔ میں جنسی امتیاز سے ہٹ کر انسانیت کی تکریم پر یقین رکھتی ہوں۔ لیکن مذہب کے نام پر عورت کا استحصال ہوتے دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے۔
جہاں اسلام ایک مرد کو چار بیویاں رکھنے کی مشروط اجازت دیتا ہے، وہیں ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے میرج کنٹریکٹ "نکاح نامہ" میں شوہر سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ وہ صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کرے گا یا پھر دونوں فریقین اپنی باہمی رضامندی سے کثرتِ ازدواج کے معاملے پر کسی بھی ایگریمنٹ پر متفق ہو سکتے ہیں۔
سوره نساء میں ہے۔
وَاِنِ امۡرَاَةٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِهَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًاؕ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌؕ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا ﴿۱۲۸﴾
وَلَنۡ تَسۡتَطِيۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَيۡنَ النِّسَآءِ وَلَوۡ حَرَصۡتُمۡۚ فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ فَتَذَرُوۡهَا كَالۡمُعَلَّقَةِؕ وَاِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ﴿۱۲۹﴾
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو تو ان پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی معاہدے پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور نفوس تو حرص کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ﴿۱۲۸﴾
اور تم خوا کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر بیچ میں معلق ہے اور اگر آپس میں موافقت (معاہدہ) کرلو اور تقویٰ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱۲۹﴾
کیا ہمارے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے رسولِ پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کے تمام پہلوؤں سے امت کو روشناس کرایا جائے۔ حضورؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجؓہ جو آپؐ سے عمر میں بھی کافی بڑی تھیں، اس سے پہلے دو مردوں کی زوجیت میں رہ چکی تھیں اور پانچ بچوں کی ماں بھی تھیں ۔لیکن جب تک وہ بقیدِ حیات رہیں، رسولِ کریمؐ نے عقدِ ثانی نہیں کیا۔ یہ رفاقت تقریبًا پچیس سال کے عرصہ تک محیط رہی۔ حضورؐ کا کوئی عمل حضرت خدیجہؓ کی دل آزاری کا سبب نہیں بنا۔ آپؐ نے جتنے بھی نکاح کیے وہ حضرت خدیجؓہ کی وفات کے بعد اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں کیے اور ان شادیوں کے مقاصد بھی نہایت عظیم اور ارفع تھے۔ کیا آج کے دور میں بیوی سے محبت، ہمدردی، وفا شعاری، دلجوئی اور عدل کی کوئی ایسی عمدہ نظیر مل سکتی ہے جو آپؐ نے حضرت خدیجؓہ سے شادی کرکے قائم کی۔
یاد رکھیے کوئی کسی کی زندگی کا جبراً مالک نہیں بن سکتا ۔ روزِ حشر ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ دی گئی قسموں اور عہد کے متعلق لازمًا باز پرس ہو گی۔ پھر کوئی یکطرفہ اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کر سکتا ہے جس کا اثر دوسرے فریق کی زندگی پر براہِ راست پڑتا ہو۔ کیا اسلام میں وفا شعار شوہر کا کوئی تصور موجود نہیں؟ کیا مسلمان مرد قابلِ اعتبار نہیں ہوتا؟ یقینًا نبیؐ کے اسوہ حسنہ میں لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی کے جذبات و احساسات کو اتنی آسانی سے کیسے کچل سکتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی اپنی بیوی کی برسوں کی رفاقت اور اس کی ہر خدمت اور ایثار و قربانی کو پل بھر میں فراموش کر دے کیونکہ اس کا دل اچانک اپنی بیوی کی کسی سہیلی پر آ گیا ہے یا وہ آفس میں اپنی کسی کولیگ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے یا پھر اس کے سر پر کسی کے عشق کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کرنے پر مصر ہے تو بھلے شوق سے کرے لیکن خدارا اس کے اس فعل کو نبؐی کی سنت سے ثابت کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ دوسری شادی کے حق کو لہو و لعب اور کھیل تماشا مت بنائیے۔ کچھ تو خوفِ خدا کیجئے۔
گویا ان اکابرینِ اسلام کے نزدیک مردوں کے لیے دوسری شادی کی اولین شرط "عدل " اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا اتنا ہی سہل ہے جسے ہر کوئی، کبھی بھی باآسانی کر سکتا ہے؟ میں نے مذہبی حلقوں کی جانب سے آج تک ایسا کوئی مذمتی بیان نہیں سنا جس میں دوسری شادی کرنے والے کسی بھی شخص کو سرزنش کی گئی ہو کہ اس کے اس اقدام سے اس کی پہلی بیوی کی حق تلفی ہوئی ہے یا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ہمیشہ پہلی بیوی کو ہی وعظ و نصیحت اور سرِ تسلیم خم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ اس کے شوہر نے کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ یہ اس کا قانونی اور شرعی حق تھا۔
میں کوئی Feminist نہیں اور نہ ہی حقوقِ نسواں کے نام نہاد نظریات سے مجھے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو ہر طرح کا مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کیے ہیں۔ میں جنسی امتیاز سے ہٹ کر انسانیت کی تکریم پر یقین رکھتی ہوں۔ لیکن مذہب کے نام پر عورت کا استحصال ہوتے دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے۔
جہاں اسلام ایک مرد کو چار بیویاں رکھنے کی مشروط اجازت دیتا ہے، وہیں ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے میرج کنٹریکٹ "نکاح نامہ" میں شوہر سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ وہ صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کرے گا یا پھر دونوں فریقین اپنی باہمی رضامندی سے کثرتِ ازدواج کے معاملے پر کسی بھی ایگریمنٹ پر متفق ہو سکتے ہیں۔
سوره نساء میں ہے۔
وَاِنِ امۡرَاَةٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِهَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًاؕ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌؕ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا ﴿۱۲۸﴾
وَلَنۡ تَسۡتَطِيۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَيۡنَ النِّسَآءِ وَلَوۡ حَرَصۡتُمۡۚ فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ فَتَذَرُوۡهَا كَالۡمُعَلَّقَةِؕ وَاِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ﴿۱۲۹﴾
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو تو ان پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی معاہدے پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور نفوس تو حرص کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ﴿۱۲۸﴾
اور تم خوا کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر بیچ میں معلق ہے اور اگر آپس میں موافقت (معاہدہ) کرلو اور تقویٰ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱۲۹﴾
کیا ہمارے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے رسولِ پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کے تمام پہلوؤں سے امت کو روشناس کرایا جائے۔ حضورؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجؓہ جو آپؐ سے عمر میں بھی کافی بڑی تھیں، اس سے پہلے دو مردوں کی زوجیت میں رہ چکی تھیں اور پانچ بچوں کی ماں بھی تھیں ۔لیکن جب تک وہ بقیدِ حیات رہیں، رسولِ کریمؐ نے عقدِ ثانی نہیں کیا۔ یہ رفاقت تقریبًا پچیس سال کے عرصہ تک محیط رہی۔ حضورؐ کا کوئی عمل حضرت خدیجہؓ کی دل آزاری کا سبب نہیں بنا۔ آپؐ نے جتنے بھی نکاح کیے وہ حضرت خدیجؓہ کی وفات کے بعد اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں کیے اور ان شادیوں کے مقاصد بھی نہایت عظیم اور ارفع تھے۔ کیا آج کے دور میں بیوی سے محبت، ہمدردی، وفا شعاری، دلجوئی اور عدل کی کوئی ایسی عمدہ نظیر مل سکتی ہے جو آپؐ نے حضرت خدیجؓہ سے شادی کرکے قائم کی۔
یاد رکھیے کوئی کسی کی زندگی کا جبراً مالک نہیں بن سکتا ۔ روزِ حشر ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ دی گئی قسموں اور عہد کے متعلق لازمًا باز پرس ہو گی۔ پھر کوئی یکطرفہ اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کر سکتا ہے جس کا اثر دوسرے فریق کی زندگی پر براہِ راست پڑتا ہو۔ کیا اسلام میں وفا شعار شوہر کا کوئی تصور موجود نہیں؟ کیا مسلمان مرد قابلِ اعتبار نہیں ہوتا؟ یقینًا نبیؐ کے اسوہ حسنہ میں لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی کے جذبات و احساسات کو اتنی آسانی سے کیسے کچل سکتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی اپنی بیوی کی برسوں کی رفاقت اور اس کی ہر خدمت اور ایثار و قربانی کو پل بھر میں فراموش کر دے کیونکہ اس کا دل اچانک اپنی بیوی کی کسی سہیلی پر آ گیا ہے یا وہ آفس میں اپنی کسی کولیگ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے یا پھر اس کے سر پر کسی کے عشق کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کرنے پر مصر ہے تو بھلے شوق سے کرے لیکن خدارا اس کے اس فعل کو نبؐی کی سنت سے ثابت کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ دوسری شادی کے حق کو لہو و لعب اور کھیل تماشا مت بنائیے۔ کچھ تو خوفِ خدا کیجئے۔