کثرتِ ازدواج (Polygamy )

سید عمران

محفلین
محترم یہ میں نے کب کہا؟ فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔
یہیں علماء بتائیں گے کہ کون صحیح ہے کون غلط۔۔۔
کسی بھی فن میں چند کتابیں پڑھ کر تحقیق نہیں کی جاسکتی۔۔۔
جب تک خاطر خواہ قابلیت پیدا نہ ہوجائے۔۔۔
آپ صحیح بات کریں گے تو کوئی عالم آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔۔۔
لیکن جہاں راہ سے گمراہ ہوں گے یا لوگوں کی راہ مارنے کی کوشش کریں گے وہ آپ کو ضرور ٹوکیں گے۔۔۔
ایسا نہ ہوتا تو اب تک بھانت بھانت کے لوگ دین کا نہ جانےکیا حشر کرچکے ہوتے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اگر کوئی اپنے لیے polygamy پسند کرتا ہے تو ایسی خواتین کا انتخاب کرے جنہیں اپنے شوہر کی ایک سے زیادہ شادیوں پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ لیکن عورتوں پر یہ سب زبردستی مسلط کرنا ظلم اور ناانصافی کی ذیل میں ہی آئے گا۔
یہ تو ایسی شرط ہے جو عملی زندگی میں ناقابل عمل ہے۔۔۔
یعنی شادی سے قبل لڑکی سے یہ بھی پوچھا جائے کہ اگر میں مستقبل میں دوسری شادی کروں تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں۔۔۔
اب لڑکی نے منع کردیا اور لڑکے نے کہیں اور شادی کرلی لیکن دوسری شادی کبھی نہیں کی، ادھر اس لڑکی کی یا تو شادی ہی نہیں ہوئی، یا نہایت دیر سے بڑی پریشانیوں کے بعد ہوئی یا پہلے والے لڑکے سے نہایت کم تر رشتہ ملا ، پھر اس لڑکے نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے بعد میں دوسری شادی کرلی تو اس لڑکی کے لیے ایسا سوال تو خسارے کا سودا ثابت ہوا۔۔۔
خدائی احکام کے آگے جہاں انسان نے اپنی محدود عقل لڑائی ہزار برائیوں کا دروازہ کھل گیا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
مرد کو چاہیے بس اتنی زحمت کر لے کہ پہلی شادی کے وقت اپنا ما فی الضمیر کھل کر بیان کر دے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نکاح کرنے کا خواہاں ہے تو واضح کر دے۔ اگر کوئی لڑکی اپنی رضامندی سے اس کے عقد میں آتی ہے تو درست، ورنہ کہیں اور قسمت آزمائی کر لے۔
اگر پہلا نکاح کرتے وقت مرد کا دوسرے نکاح کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، بعد میں کسی سے ارادہ بن گیا تو اب کیا ہوگا؟؟؟
یا تو پہلی بیوی کو طلاق دے۔ اس نکتہ پر یہودی پروپیگنڈے کا سارا زور ہے، اسی کے لیے تعدد ازدواج کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے جس سے مسلمان متاثر بھی ہونا شروع ہوگئے، چاہے کوئی دوسری شادی نہ کرے جیسا ہمارے معاشرے کا رواج ہے پھر بھی دوسرے نکاح کے خلاف اس کی ذہن سازی شروع ہوگئی، پھر نسل بعد نسل اس میں تشددآتا جائے گا۔۔۔
اس مہم سے یہودیوں کا یہی مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح فتنہ فساد کرکے مسلمانوں کا خاندانی نظام تباہ ہوجائے۔۔۔
اب اگر پہلی بیوی کو طلاق دے دی تو اس کی ساری زندگی بالکل بربادہوگئی، جس شوہر کے لیے اس نے ساری دنیا چھوڑی وہی اسے چھوڑ گیا، اس کے لیے کائنات میں اس سے بڑا صدمہ کوئی اور نہ ہوگا۔۔۔
دوسری صورت یہ ہوگی کہ شوہر دوسری عورت سے منہ کالا کرتا پھرے۔ اس نکتہ کو معاشرہ میں قابل قبول بنادیا گیا ہے، اور کس نے بنایا ؟ اسلام نے تو اس کی ترغیب نہیں دی۔۔۔
حالاں کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے نکاح کا کوئی خاص چلن نہیں ، اس کے باوجود اس طرح کی لایعنی بحث کو چھیڑنے کا مقصد یہودی پروپیگنڈے کی ذہن سازی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔
چاہے دانستہ چاہے نادانستہ!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
عدل کو جو یہاں اتنا ہوّا بنایا جارہا ہے تو اس کی حقیقت بھی سن لیجیے۔۔۔
عدل ظلم کا الٹ ہے یعنی کسی بیوی پر ظلم نہیں ہوا تو عدل ہی ہوا۔۔۔
اور ظلم کی تعریف ہے ۔۔۔
وضع الشیئ فی غیر محلھا۔۔۔
یعنی جس چیز کی جو جگہ ہے اسے اس کے بر خلاف رکھا جائے۔۔۔
مثلاً رقم تجوری میں رکھنے کی چیز ہے اسے دروازے کے باہر چوکھٹ پر رکھ دیا جائے، نتیجہ نقصان کی صورت میں ہوگا کیوں کہ رقم کو جہاں رکھنا چاہیے تھا وہاں نہ رکھی۔۔۔
اسی طرح رقم کمانے کا جو طریقہ اسلام نے بتایا ہے اس کے خلاف کمانا عدل کے خلاف یعنی ظلم ہے، اسی لیے وہ آمدنی ناجائز ہوگئی۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے جو حقوق بتائے ہیں اگر وہ ادا نہ کیے تو یہ عدل کے خلاف ہوا، ظلم ہوا۔۔۔
یہ کلیہ صرف ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں ہی لاگو نہیں ہوتا، اکلوتی بیوی کے حقوق کی رعایت نہ کی تو یہ بھی عدل کے خلاف ہوگا۔۔۔
کیا عدل نہ ہوسکنے کے خوف سے پہلی شادی بھی نہ کی جائے؟؟؟
 

فاخر رضا

محفلین
عدل کا مطلب یہ ہے کہ تمام بیویوں کو ایک جیسا کھلائے پلائے اور ایک جیسا پہناوا دے. محبت ایک جتنی کرنا مقصود نہیں ہے. اور اس معاملے میں خدا کو بھی پتہ ہے کہ مرد عدل نہیں کرسکتا.
 

La Alma

لائبریرین
اگر پہلا نکاح کرتے وقت مرد کا دوسرے نکاح کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، بعد میں کسی سے ارادہ بن گیا تو اب کیا ہوگا؟؟؟
یا تو پہلی بیوی کو طلاق دے۔ اس نکتہ پر یہودی پروپیگنڈے کا سارا زور ہے، اسی کے لیے تعدد ازدواج کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے جس سے مسلمان متاثر بھی ہونا شروع ہوگئے، چاہے کوئی دوسری شادی نہ کرے جیسا ہمارے معاشرے کا رواج ہے پھر بھی دوسرے نکاح کے خلاف اس کی ذہن سازی شروع ہوگئی، پھر نسل بعد نسل اس میں تشددآتا جائے گا۔۔۔
اس مہم سے یہودیوں کا یہی مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح فتنہ فساد کرکے مسلمانوں کا خاندانی نظام تباہ ہوجائے۔۔۔
اب اگر پہلی بیوی کو طلاق دے دی تو اس کی ساری زندگی بالکل بربادہوگئی، جس شوہر کے لیے اس نے ساری دنیا چھوڑی وہی اسے چھوڑ گیا، اس کے لیے کائنات میں اس سے بڑا صدمہ کوئی اور نہ ہوگا۔۔۔
دوسری صورت یہ ہوگی کہ شوہر دوسری عورت سے منہ کالا کرتا پھرے۔ اس نکتہ کو معاشرہ میں قابل قبول بنادیا گیا ہے، اور کس نے بنایا ؟ اسلام نے تو اس کی ترغیب نہیں دی۔۔۔
حالاں کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے نکاح کا کوئی خاص چلن نہیں ، اس کے باوجود اس طرح کی لایعنی بحث کو چھیڑنے کا مقصد یہودی پروپیگنڈے کی ذہن سازی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔
چاہے دانستہ چاہے نادانستہ!!!
عدل کو جو یہاں اتنا ہوّا بنایا جارہا ہے تو اس کی حقیقت بھی سن لیجیے۔۔۔
عدل ظلم کا الٹ ہے یعنی کسی بیوی پر ظلم نہیں ہوا تو عدل ہی ہوا۔۔۔
اور ظلم کی تعریف ہے ۔۔۔
وضع الشیئ فی غیر محلھا۔۔۔
یعنی جس چیز کی جو جگہ ہے اسے اس کے بر خلاف رکھا جائے۔۔۔
مثلاً رقم تجوری میں رکھنے کی چیز ہے اسے دروازے کے باہر چوکھٹ پر رکھ دیا جائے، نتیجہ نقصان کی صورت میں ہوگا کیوں کہ رقم کو جہاں رکھنا چاہیے تھا وہاں نہ رکھی۔۔۔
اسی طرح رقم کمانے کا جو طریقہ اسلام نے بتایا ہے اس کے خلاف کمانا عدل کے خلاف یعنی ظلم ہے، اسی لیے وہ آمدنی ناجائز ہوگئی۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے جو حقوق بتائے ہیں اگر وہ ادا نہ کیے تو یہ عدل کے خلاف ہوا، ظلم ہوا۔۔۔
یہ کلیہ صرف ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں ہی لاگو نہیں ہوتا، اکلوتی بیوی کے حقوق کی رعایت نہ کی تو یہ بھی عدل کے خلاف ہوگا۔۔۔
کیا عدل نہ ہوسکنے کے خوف سے پہلی شادی بھی نہ کی جائے؟؟؟
آپ کے بیانات سے واضح ہے کہ آپ تعدد ازواج کو بطور exceptional case کے نہیں لیتے بلکہ معاشرے میں ایک سے زیادہ نکاح کو رواج دینے کے حامی ہیں۔
چلیں یہ بات تو طے ہوئی کہ مرد جب چاہے دوسری شادی کر سکتا ہے۔ اس پر کوئی روک ٹوک اور پابندی نہیں۔ رہی بات اللہ کے اس حکم کی " فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا_ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو یا وہ تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہے، یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے زیادہ قریب ہے" تو آپ نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ ظلم کی ضد عدل ہے۔ ظاہر ہے دوسری شادی کرتے وقت پہلی بیوی پر کوئی تشدد یا مار پیٹ تو ہو نہیں رہی ہوتی اور شوہر نان نفقہ بھی دے رہا ہوتا ہے۔ اس عمل سے پہلی بیوی کو اگر ذہنی اذیت اور تکلیف پہنچے اور خاندانی نظام اور بچے بھلے ڈسٹرب بھی ہو رہے ہوں، وہ تو ظلم اور زیادتی کی ذیل میں ویسے ہی نہیں آئے گا کیونکہ وہ حلال کام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا عدل کرنا تو پیس آف کیک ثابت ہوا سو یہ قصّہ تو یہاں ہوا ختم!!!

اب میرا آپ سے ایک سوال ہے " کیا اسلام میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر اسے اپنے ساتھ کسی نا انصافی کا خدشہ ہو تو وہ نکاح کے وقت باہمی رضامندی سے یہ طے کر لے کہ اس کا شوہر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کرے گا۔ اور معاہدے کی رو سے شوہر پابند ہو گا ؟"

یہ ایک خالص علمی اور نیک نیتی پر مبنی سوال ہے۔ ازراہِ کرم اسے یہودی لابی اور ان کے مذموم مقاصد سے جوڑنے کی کوشش مت کیجئے گا۔ اور زیادہ تفصیل میں بھی مت جائیےگا۔ مجھے صرف دو ٹوک اور مختصر جواب دیجئے کہ آیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے، یا نہیں ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
اسلام جنسی تفریق سے بالاتر ہو کر معاشرے کے ہر فرد کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے آج کل بیشتر مفتیانِ اکرام الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مردوں کو ایک سے زیادہ نکاح کی نہ صرف باقاعدہ ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ان کے ثمرات گنواتے نہیں تھکتے۔ کیا ان کی نظر سے قرآن کی یہ آیت نہیں گزری، "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً ، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)" ۔
گویا ان اکابرینِ اسلام کے نزدیک مردوں کے لیے دوسری شادی کی اولین شرط "عدل " اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا اتنا ہی سہل ہے جسے ہر کوئی، کبھی بھی باآسانی کر سکتا ہے؟ میں نے مذہبی حلقوں کی جانب سے آج تک ایسا کوئی مذمتی بیان نہیں سنا جس میں دوسری شادی کرنے والے کسی بھی شخص کو سرزنش کی گئی ہو کہ اس کے اس اقدام سے اس کی پہلی بیوی کی حق تلفی ہوئی ہے یا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ہمیشہ پہلی بیوی کو ہی وعظ و نصیحت اور سرِ تسلیم خم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ اس کے شوہر نے کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ یہ اس کا قانونی اور شرعی حق تھا۔
میں کوئی Feminist نہیں اور نہ ہی حقوقِ نسواں کے نام نہاد نظریات سے مجھے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو ہر طرح کا مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کیے ہیں۔ میں جنسی امتیاز سے ہٹ کر انسانیت کی تکریم پر یقین رکھتی ہوں۔ لیکن مذہب کے نام پر عورت کا استحصال ہوتے دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے۔
جہاں اسلام ایک مرد کو چار بیویاں رکھنے کی مشروط اجازت دیتا ہے، وہیں ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے میرج کنٹریکٹ "نکاح نامہ" میں شوہر سے یہ عہد لے سکتی ہے کہ وہ صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کرے گا یا پھر دونوں فریقین اپنی باہمی رضامندی سے کثرتِ ازدواج کے معاملے پر کسی بھی ایگریمنٹ پر متفق ہو سکتے ہیں۔
سوره نساء میں ہے۔
وَاِنِ امۡرَاَةٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِهَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًا‌ؕ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ‌ؕ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ‌ ؕ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ﴿۱۲۸﴾
وَلَنۡ تَسۡتَطِيۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَيۡنَ النِّسَآءِ وَلَوۡ حَرَصۡتُمۡ‌ۚ فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ فَتَذَرُوۡهَا كَالۡمُعَلَّقَةِ‌ؕ وَاِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿۱۲۹﴾
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو تو ان پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی معاہدے پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور نفوس تو حرص کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ﴿۱۲۸﴾
اور تم خوا کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر بیچ میں معلق ہے اور اگر آپس میں موافقت (معاہدہ) کرلو اور تقویٰ اختیار کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿۱۲۹﴾
کیا ہمارے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کثرتِ ازدواج کے حوالے سے رسولِ پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کے تمام پہلوؤں سے امت کو روشناس کرایا جائے۔ حضورؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجؓہ جو آپؐ سے عمر میں بھی کافی بڑی تھیں، اس سے پہلے دو مردوں کی زوجیت میں رہ چکی تھیں اور پانچ بچوں کی ماں بھی تھیں ۔لیکن جب تک وہ بقیدِ حیات رہیں، رسولِ کریمؐ نے عقدِ ثانی نہیں کیا۔ یہ رفاقت تقریبًا پچیس سال کے عرصہ تک محیط رہی۔ حضورؐ کا کوئی عمل حضرت خدیجہؓ کی دل آزاری کا سبب نہیں بنا۔ آپؐ نے جتنے بھی نکاح کیے وہ حضرت خدیجؓہ کی وفات کے بعد اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں کیے اور ان شادیوں کے مقاصد بھی نہایت عظیم اور ارفع تھے۔ کیا آج کے دور میں بیوی سے محبت، ہمدردی، وفا شعاری، دلجوئی اور عدل کی کوئی ایسی عمدہ نظیر مل سکتی ہے جو آپؐ نے حضرت خدیجؓہ سے شادی کرکے قائم کی۔
یاد رکھیے کوئی کسی کی زندگی کا جبراً مالک نہیں بن سکتا ۔ روزِ حشر ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ دی گئی قسموں اور عہد کے متعلق لازمًا باز پرس ہو گی۔ پھر کوئی یکطرفہ اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کر سکتا ہے جس کا اثر دوسرے فریق کی زندگی پر براہِ راست پڑتا ہو۔ کیا اسلام میں وفا شعار شوہر کا کوئی تصور موجود نہیں؟ کیا مسلمان مرد قابلِ اعتبار نہیں ہوتا؟ یقینًا نبیؐ کے اسوہ حسنہ میں لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی کے جذبات و احساسات کو اتنی آسانی سے کیسے کچل سکتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوئی اپنی بیوی کی برسوں کی رفاقت اور اس کی ہر خدمت اور ایثار و قربانی کو پل بھر میں فراموش کر دے کیونکہ اس کا دل اچانک اپنی بیوی کی کسی سہیلی پر آ گیا ہے یا وہ آفس میں اپنی کسی کولیگ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے یا پھر اس کے سر پر کسی کے عشق کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ اگر وہ دوسری شادی کرنے پر مصر ہے تو بھلے شوق سے کرے لیکن خدارا اس کے اس فعل کو نبؐی کی سنت سے ثابت کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ دوسری شادی کے حق کو لہو و لعب اور کھیل تماشا مت بنائیے۔ کچھ تو خوفِ خدا کیجئے۔

میری اپنی رائے یہ ہے کہ جس آدمی کو ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی اندیشہ ہو کہ غلطی کر بیٹھے وہ گناہ عدل کے مقابلے میں بہت ہی سنگین گناہ ہے کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہئے
 
آپ کے بیانات سے واضح ہے کہ آپ تعدد ازواج کو بطور exceptional case کے نہیں لیتے بلکہ معاشرے میں ایک سے زیادہ نکاح کو رواج دینے کے حامی ہیں۔
چلیں یہ بات تو طے ہوئی کہ مرد جب چاہے دوسری شادی کر سکتا ہے۔ اس پر کوئی روک ٹوک اور پابندی نہیں۔ رہی بات اللہ کے اس حکم کی " فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا_ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو یا وہ تمہارے داہنے ہاتھ کی ملکیت ہے، یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے زیادہ قریب ہے" تو آپ نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ ظلم کی ضد عدل ہے۔ ظاہر ہے دوسری شادی کرتے وقت پہلی بیوی پر کوئی تشدد یا مار پیٹ تو ہو نہیں رہی ہوتی اور شوہر نان نفقہ بھی دے رہا ہوتا ہے۔ اس عمل سے پہلی بیوی کو اگر ذہنی اذیت اور تکلیف پہنچے اور خاندانی نظام اور بچے بھلے ڈسٹرب بھی ہو رہے ہوں، وہ تو ظلم اور زیادتی کی ذیل میں ویسے ہی نہیں آئے گا کیونکہ وہ حلال کام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا عدل کرنا تو پیس آف کیک ثابت ہوا سو یہ قصّہ تو یہاں ہوا ختم!!!

اب میرا آپ سے ایک سوال ہے " کیا اسلام میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر اسے اپنے ساتھ کسی نا انصافی کا خدشہ ہو تو وہ نکاح کے وقت باہمی رضامندی سے یہ طے کر لے کہ اس کا شوہر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کرے گا۔ اور معاہدے کی رو سے شوہر پابند ہو گا ؟"

یہ ایک خالص علمی اور نیک نیتی پر مبنی سوال ہے۔ ازراہِ کرم اسے یہودی لابی اور ان کے مذموم مقاصد سے جوڑنے کی کوشش مت کیجئے گا۔ اور زیادہ تفصیل میں بھی مت جائیےگا۔ مجھے صرف دو ٹوک اور مختصر جواب دیجئے کہ آیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے، یا نہیں ہے۔
میری ذاتی رائے میں ہر قسم کا معاہدہ باہمی رضا مندی سے بالکل جائز ہے، اور اس کی پابندی ضروری۔
 
میری اپنی رائے یہ ہے کہ جس آدمی کو ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی اندیشہ ہو کہ غلطی کر بیٹھے وہ گناہ عدل کے مقابلے میں بہت ہی سنگین گناہ ہے کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہئے
یہ اندیشہ تو کبھی بھی پیدا ہو سکتا ہے اور کسی کو بھی (؛
 

سید عمران

محفلین
آپ کے بیانات سے واضح ہے کہ آپ تعدد ازواج کو بطور exceptional case کے نہیں لیتے بلکہ معاشرے میں ایک سے زیادہ نکاح کو رواج دینے کے حامی ہیں۔
ہماری مرضی کے خلاف ہمارے منہ میں اپنی زبان نہ ڈالیں۔۔۔
جس طرح ایک سے زیادہ نکاح فرض واجب نہیں، اسی طرح حرام بھی نہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
آپ نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ ظلم کی ضد عدل ہے۔ ظاہر ہے دوسری شادی کرتے وقت پہلی بیوی پر کوئی تشدد یا مار پیٹ تو ہو نہیں رہی ہوتی اور شوہر نان نفقہ بھی دے رہا ہوتا ہے۔ اس عمل سے پہلی بیوی کو اگر ذہنی اذیت اور تکلیف پہنچے اور خاندانی نظام اور بچے بھلے ڈسٹرب بھی ہو رہے ہوں، وہ تو ظلم اور زیادتی کی ذیل میں ویسے ہی نہیں آئے گا کیونکہ وہ حلال کام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا عدل کرنا تو پیس آف کیک ثابت ہوا سو یہ قصّہ تو یہاں ہوا ختم!!!
خود ہی سوال، خود ہی جواب اور نسبت ہماری طرف!!!
 

سید عمران

محفلین
اب میرا آپ سے ایک سوال ہے " کیا اسلام میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر اسے اپنے ساتھ کسی نا انصافی کا خدشہ ہو تو وہ نکاح کے وقت باہمی رضامندی سے یہ طے کر لے کہ اس کا شوہر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کرے گا۔ اور معاہدے کی رو سے شوہر پابند ہو گا ؟"
اگر شریعت کی بات کریں تو ایسی شرط، شرطِ فاسد ہے۔۔۔
جیسے کوئی مضاربہ کرے اور نقصان کی صورت میں اصل راس المال دینے کی ضمانت بھی دے تو یہ واپسی شرط فاسد ہے اور نقصان کی صورت میں مالک کو اصل سرمائے میں سے نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔
نکاح کے وقت اگر ایسی شرط لگا دی تو یہ شرط فاسد ہے اس کا پورا کرنا لازمی نہیں۔۔۔
اور اگر پورا کرنا ہی چاہے تو اس شرط سے چھٹکارا ایسے حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اگر بعد میں دوسری شادی کا ارادہ ہوجائے تو پہلی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرلے۔۔۔
اس صورت میں جو بچے ڈسٹرب ہوں اور بیوی ذہنی اذیت میں مبتلا ہو وہ دوسری شادی کے مخالفین کو گوارا بھی ہوگی۔۔۔
اور ایک خاندان کا نظام برباد کرنے کا مقصد پورا ہونے پر پر کچھ لوگ تالیاں بھی بجا لیں گے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
یہ ایک خالص علمی اور نیک نیتی پر مبنی سوال ہے۔ ازراہِ کرم اسے یہودی لابی اور ان کے مذموم مقاصد سے جوڑنے کی کوشش مت کیجئے گا۔ اور زیادہ تفصیل میں بھی مت جائیےگا۔ مجھے صرف دو ٹوک اور مختصر جواب دیجئے کہ آیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے، یا نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا تو نیک نیتی تسلیم کرلیتے ہیں۔۔۔
لیکن اعتراض کرنے اور سمجھنے کے لیے استفسار کرنے کا فرق تو ظاہر ہے۔۔۔
اصل میں یہودیوں نے اسلام کے ہر ہر حکم کے خلاف اتنا پروپیگنڈا مچایا ہے کہ دانستہ نہیں تو نادانستہ طور پر ہم اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔۔۔
ورنہ کون کرتا ہے یہاں دوسری شادی، پہلی کے اخراجات ہی کمر توڑے ڈالتے ہیں۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ شادی کے بارے میں فرماتے ہیں۔۔۔
لذۃ شھر ، لذوم مھر، ھموم دھر و کسرۃ ظھر۔۔۔
ایک ماہ کے مزے، پھر مہر کی ادائیگی کی فکر، اس کے بعد گھرداری نبھانے کے لیے زمانے بھر کی فکریں، سمجھو کمر ہی ٹوٹ گئی!!!
 

La Alma

لائبریرین
اگر شریعت کی بات کریں تو ایسی شرط، شرطِ فاسد ہے۔۔۔
جیسے کوئی مضاربہ کرے اور نقصان کی صورت میں اصل راس المال دینے کی ضمانت بھی دے تو یہ واپسی شرط فاسد ہے اور نقصان کی صورت میں مالک کو اصل سرمائے میں سے نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔
نکاح کے وقت اگر ایسی شرط لگا دی تو یہ شرط فاسد ہے اس کا پورا کرنا لازمی نہیں۔۔۔
اور اگر پورا کرنا ہی چاہے تو اس شرط سے چھٹکارا ایسے حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اگر بعد میں دوسری شادی کا ارادہ ہوجائے تو پہلی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرلے۔۔۔
اس صورت میں جو بچے ڈسٹرب ہوں اور بیوی ذہنی اذیت میں مبتلا ہو وہ دوسری شادی کے مخالفین کو گوارا بھی ہوگی۔۔۔
اور ایک خاندان کا نظام برباد کرنے کا مقصد پورا ہونے پر پر کچھ لوگ تالیاں بھی بجا لیں گے!!!
بہت شکریہ محترم ، آپ کی رائے جاننا ہی مقصود تھا۔
 
آپ نے فرمایا تو نیک نیتی تسلیم کرلیتے ہیں۔۔۔
لیکن اعتراض کرنے اور سمجھنے کے لیے استفسار کرنے کا فرق تو ظاہر ہے۔۔۔
اصل میں یہودیوں نے اسلام کے ہر ہر حکم کے خلاف اتنا پروپیگنڈا مچایا ہے کہ دانستہ نہیں تو نادانستہ طور پر ہم اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔۔۔
ورنہ کون کرتا ہے یہاں دوسری شادی، پہلی کے اخراجات ہی کمر توڑے ڈالتے ہیں۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ شادی کے بارے میں فرماتے ہیں۔۔۔
لذۃ شھر ، لذوم مھر، ھموم دھر و کسرۃ ظھر۔۔۔
ایک ماہ کے مزے، پھر مہر کی ادائیگی کی فکر، اس کے بعد گھرداری نبھانے کے لیے زمانے بھر کی فکریں، سمجھو کمر ہی ٹوٹ گئی!!!
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔
پانی ڈھلان کی طرف ہی سفر کرتا ہے۔ اس لئے زنا کو تو آسان بنایا جا سکتا ہے، نکاح کو نہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
اِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۔
بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

ایک عادل اور منصف خدا سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ مردوں کو تو تعدد ازواج کی اجازت دے دے اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا اللہ خود ادنٰی درجے کا انتظام بھی نہ کرے اور اسے صرف اور صرف مردوں کی صوابدید پر چھوڑ دے۔
کیا اس بات کا معمولی سا بھی امکان موجود نہیں کہ نبیؐ کے دور سے لے کر قیامت تک آنے والے کسی بھی زمانے میں تعدد ازواج کی اجازت کو لے کر عورت کی کسی صورت حق تلفی نہیں کی جا سکتی ؟
زیادہ دُور کیوں جایا جائے، موجودہ معاشرے میں بھی ایک مخصوص طبقہ عورت کو صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے اور اسے اپنی ملکیت کی کوئی چیز گردانتا ہے۔ پاکستان کے ہی جاگیردارانہ نظام میں عورت کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ کسی مخصوص ماحول اور معاشرت کا پروردہ شخص ایک سے زیادہ شادیاں کر کے ہمیشہ انصاف ہی کرے گا؟
شریعت نے نکاح کے امور میں ہر مرد و زن کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں اور کچھ رعایات بھی دی ہیں۔ جہاں تعدد ازواج کی مشروط اجازت دے کر مردوں کے ساتھ آسانی اور نرمی والا معاملہ اختیار کیا گیا ہے، وہیں عورتوں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنے ساتھ کسی زیادتی کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے لیے بہتر معاملہ کر سکتی ہیں۔
اسلام میں ایک بیوی رکھنا نہ تو حرام ہے اور نہ ہی شریعت میں صرف ایک نکاح کرنے کو غلط اور معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ خدا نے ناانصافی سے بچنے کے لیے ایک ہی نکاح پر زیادہ زور دیا ہے۔ اگر دو عاقل اور بالغ افراد باہمی رضامندی سے کسی جائز امر پر متفق ہو جائیں جس کی شریعت میں گنجائش موجود ہو تو ایسی شرط نہ تو فاسد ہوتی ہے اور نہ ہی حرام ٹھہرتی ہے۔ اس کی پابندی لازمی ہے اور عہد کو توڑنے والا گنہگار کہلائے گا اور خدا کی عدالت میں جواب دہ ہو گا۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے۔
"کہ تمام شرطوں میں وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے لائق ہیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔" یعنی نکاح کی شرطیں ضرور پوری کرنی ہوں گی۔
پوری دنیا میں Intellectual dishonesty کی جتنی عظیم مثالیں تاریخ کی کتابوں اور مذہبی لٹریچر میں ملتی ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں۔ دین میں ایسے بیشتر اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر امت کا اجماع نہیں ہو سکا۔ ہر مکتبہء فکر کا الگ الگ عقیدہ ہے۔ اگر عدل کو بنیاد بنا کر معاملات کو غیر جانبداری سے پرکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ حق کی طرف رسائی نہ ہو۔ اور خاص طور پر جہاں بات معاشرے کےنسبتًا کمزور طبقے کے مفادات کی ہو وہاں پر تو یہ معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے.
 
Top