کراچی بلاگرز کا اجتماع۔ پہلی قسط
ڈاکٹر علوی کے بلاگ سے پتا چلا کہ 6 دسمبر 2008ء کو کراچی میں اردو بلاگرز کی ملاقات کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اسی تحریر کے ساتھ لاہور کے بلاگرز کی ملاقات کا احوال بھی پڑھا جس میں شرکت کرنے والے تمام بلاگرز انگریزی میں بلاگنگ کررہے تھے۔ اس سے
شعیب صفدر نے صورتحال واضح کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا اردو بلاگرز بھی شرکت کرسکتے ہیں؟ ڈاکٹر علوی کا جواب بے حد حوصلہ افزا تھا۔ انہوں نے از خود شعیب کو ای۔میل کرکے کہا کہ آپ نے کس بات سے ایسا تاثر لیا کہ یہ اجتماع صرف انگریزی بلاگرز کے لیے ہے۔
چنانچہ ہم اردو بلاگرز نے اس ایونٹ میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ ایک دن پہلے تک جو اردو بلاگرز جانے کو تیار تھے ان میں مجھ سمیت شعیب صفدر،
نعمان یعقوب،
ابوشامل اور
فہیم شامل تھے لیکن سنیچر کی صبح جب میں اٹھا تو یکے بعد دیگرے پتا چلا کہ پہلے نعمان اور پھر ابوشامل کا جانا ملتوی ہوگیا ہے لہٰذا اردو بلاگرز کی تعداد گھٹ کر صرف تین رہ گئی۔
ہم پونے دو بجے کے قریب شاہ عبد اللہ غازی کے مزار پر جمع ہوئے اور پھر وہاں سے اکٹھا سوئے منزل یعنی
Royal Rodale چلے۔ ڈھائی بجے کے قریب وہاں پہنچ کر ریسپشن سے اپنا کارڈ حاصل کیا اور آڈیٹوریم میں جا بیٹھے۔ اگرچہ اجتماع کا وقت دوپہر دو سے شام چھ بجے تک کا رکھا گیا تھا لیکن اس وقت بھی بلاگرز کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ کراچی میں گذشتہ رات اچانک کچھ بارش ہوجانے کی وجہ سے شاید کچھ مہمانوں کو پہنچنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ہمارے لیے تو تقریبا سبھی چہرے انجان تھے۔ سچ کہوں تو وہاں جاکر ایک لمحے کو میں نے یہ سوچا کہ ہم نے یہاں آکر صحیح بھی کیا ہے یا نہیں؟ ایک تو سارے انگریزی بلاگرز، پھر اکثریت ہائی کلاس کی، الف سے ے تک ہر ایک انگریزی میں بات چیت کرتا ہوا۔ ابھی ہم آپس ہی میں تبادلہ خیال کررہے تھے کہ ذی وقار ہمارے ساتھ آبیٹھے جو
Earn Pakistan کے نام سے بلاگ کرتے ہیں۔ ان سے تعارف ہوا۔ ہم نے جب اردو بلاگنگ کا ذکر کیا تو انہوں نے اس میں دل چسپی ظاہر کی اور تیکنیکی سہولیات کے بارے میں دریافت کیا۔
تین بجنے میں کوئی دس منٹ باقی ہوں گے کہ محترمہ رابعہ ﴿ایڈیٹر انچیف،
سی آئی او﴾ نے مائیک سنبھالا اور بتایا کہ اس ایونٹ میں شرکت کے لیے دو سو سے زائد بلاگرز رجسٹرڈ ہوئے تھے اور اس وقت سو کے قریب بلاگرز پہنچ چکے ہیں۔ اس کے بعد تمام افراد سے درخواست کی گئی کہ کھڑے ہوں اور اپنی جگہیں تبدیل کرکے کسی اور انجان بندے کے ساتھ جا بیٹھیں تاکہ دوسرے بلاگرز سے آگاہی ہوسکے۔ سیٹ کی منتقلی میں میرے پڑوسی
سرفراز احمد سومرو بنے جو کہ بلاگر ہونے کے ساتھ ساتھ سافٹ وئیر انجینیر ہیں۔ ان کا تعارف ہوا اور بلاگنگ کے حوالہ سے تبادلہ خیال بھی۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر علوی اور سبین محمود نے مائیک سنبھالا اور بات چیت کے سلسلہ کا آغآز ہوا۔ تمام کاروائی پر تبصرہ براہ راست
cover it live پر لکھا جارہا تھا جب کہ
Justin.tv پر ویڈیو براہِ راست دیکھی جاسکتی تھی۔ اول کچھ باتیں ہوئیں، پھر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک سوال اٹھایا گیا کہ اگر کوئی بلاگنگ کرنا چاہتا ہے اور انگریزی میں لکھ نہیں سکتا تو کیا کرے؟ سبین نے اس کا جواب یوں دیا کہ وہ آڈیو یا ویڈیو بلاگ بھی بناسکتا ہے۔
کیا بلاگرز کے لیے کوئی قواعد اور قوانین ہیں؟ کیا ان کے لیے بھی کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز ہیں؟ یا بلاگرز جو چاہیں، جس کے خلاف چاہیں اپنے بلاگ پر لکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ سوال تھا جو کئی بار زیرِ بحث آیا۔ خاص کر جب ایک صاحب نے شکایت کی کہ ان کے خلاف ایک بلاگ پر لکھا گیا تھا کہ وہ دو ملین ڈالر لے کر کینیڈا فرار ہوگئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا اور اس الزام کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا جواب اگرچہ اعتراف تھا کہ بلاگرز کے لیے کوئی قواعد و ضوابط نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی سنسر شپ لیکن ہر بار اس بات پر زور دیا گیا کہ بلاگرز کی سیلف سینسر شپ لازمی ہونی چاہیے اور اس طرح کی الزام تراشیوں یا کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ سبین نے اسی موضوع کے حوالے سے ایک اہم بات بھی کی کہ ہم پہلے بلاگرز ہیں یا انسان ہیں؟ اور کچھ نہیں تو کم سے کم انسانیت ہی کے اصول کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
ان سارے سوال و جواب کے بیچ میں بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ کیا مجھے اردو بلاگنگ کے حوالے سے کوئی سوال کرنا چاہیے؟ اور اگر کرنا چاہیے تو کیا؟ اس کا ذکر میں نے شعیب اور فہیم سے بھی کیا۔ مجھے جلد ہی اس کا موقع مل گیا جب اردو بلاگنگ میں درپیش مسائل کا موضوع اٹھایا گیا اور ڈاکٹر علوی نے یہ کہا کہ نسخ فونٹ میں اردو پڑھنا بڑی مشکل ہوتی ہے اس لیے وہ اردو بلاگز نہیں پڑھتے۔ انہوں نے دعوت دی کہ کوئی شخص اس میدان میں بھی آئے اور فونٹس کے حوالے سے پیش رفت کرے تاکہ اردو بلاگز بھی پڑھے جاسکیں۔ تب میں نے جلدی جلدی اپنے ذہن میں ایک خاکہ ترتیب دیا کہ کیا کیا بتایا جاسکتا ہے اور سوال کے لیے ہاتھ اٹھادیا۔
جاری ہے۔۔۔۔