ش
شوکت کریم
مہمان
بی بی سی تازہ ترین 5 فروری 2010
موجود صورتحال میں جب کہ سیکورٹی کی اتنی ناقص صورتحال ہےکہ سیکورٹی کے ادارے خود اپنی سیکورٹی کرنے سے معذور ہیں اور اپنی عمارتوں کو قلعوں میں تبدیل کر رہے ہیں اور ملک میں جہاں پہلے ہی سڑکیں ٹریفک کا بڑھتا ہوا بوجھ برداشت کرنے سے معذور ہیں مزید سڑکیں سیکورٹی کے نام پر مستقل بند کی جا رہی ہیں۔
ان حالات میں کیا ہمارے علمائے کرام کا فرضنہں کہ وہ اجتہاد کریں اور مذہبی عبادات کے لیے سڑکوں پر جلوسوں کےبجائے کوئی اور طریقہ اختیار کرنے پر عوام کو تعلیم دیں کہ اس سے بے شمار معصوم انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ کیا ان ناقص حالات میں عوام کی جان بچانا اور اس کےلیے راستے تلاش کرنا حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور عوام کا بھی فرض نہیں کہ اس طرح ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر جمع کر کے دہشت گردوں کے لیے آسان ٹارگٹ فراہم کر دیا جاتا ہے۔
اور دہشت گردوں کی ہائی سیکورٹی کے اداروں پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی انفارمیشن اور تربیت نہایت ہی جدید انداز میں ہوئی ہےاوران کاکسیمذہب و تہذیب سے تعلق نہیں بلکہ انسانیت سے بھی ان کا تعلق نہیں۔
کراچی کی شاہراہِ فیصل پر شیعہ عزاداروں کی بس کو دھماکے کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں کئی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ جے پی ایم سی کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک بارہ لاشیں ہسپتال لائی جا چکی ہیں جبکہ 40 کے قریب افراد زخمی ہیں۔
اس سے پہلےڈی آئی جی ساؤتھ غلام نبی میمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دھماکہ بس کے ساتھ موٹر سائیکل ٹکرانے سے ہوا۔ پولیس ذرائع کے مطابق جس بس کو نشانہ بنایا گیا اس میں شیعہ مسلمان سوار تھےاور ان میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ یہ بس زائرین کو امام حسین کے چہلم کے سلسلے میں برآمد ہونے والے جلوس کی جانب لے جا رہی تھی۔
دھماکے کے بعد شیعہ عزاداروں نےاحتجاج کیا ہے۔ دس محرم کو بھی شیعہ مسلمانوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ عاشورہ کے جلوس میں شریک تھے۔
جس مقام پر دھماکہ ہوا ہے وہ شاہراہِ فیصل سے شاہراہِ قائدین کی طرف جانے والا موڑ کہلاتا ہے۔
ڈی آئی جی ایسٹیبلشمنٹ جاوید اکبر ریاض کے مطابق ’خود کش حملہ آور نے موٹر سائکل بس کے ساتھ ٹکرا دی۔‘
دھماکے کی اطلاع ملتے ہیں کراچی میں کچھ دیر کے لیے مختف شاہراؤں پر نکلے ہوئے جلوس روک دیے گئے۔
موجود صورتحال میں جب کہ سیکورٹی کی اتنی ناقص صورتحال ہےکہ سیکورٹی کے ادارے خود اپنی سیکورٹی کرنے سے معذور ہیں اور اپنی عمارتوں کو قلعوں میں تبدیل کر رہے ہیں اور ملک میں جہاں پہلے ہی سڑکیں ٹریفک کا بڑھتا ہوا بوجھ برداشت کرنے سے معذور ہیں مزید سڑکیں سیکورٹی کے نام پر مستقل بند کی جا رہی ہیں۔
ان حالات میں کیا ہمارے علمائے کرام کا فرضنہں کہ وہ اجتہاد کریں اور مذہبی عبادات کے لیے سڑکوں پر جلوسوں کےبجائے کوئی اور طریقہ اختیار کرنے پر عوام کو تعلیم دیں کہ اس سے بے شمار معصوم انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ کیا ان ناقص حالات میں عوام کی جان بچانا اور اس کےلیے راستے تلاش کرنا حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور عوام کا بھی فرض نہیں کہ اس طرح ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر جمع کر کے دہشت گردوں کے لیے آسان ٹارگٹ فراہم کر دیا جاتا ہے۔
اور دہشت گردوں کی ہائی سیکورٹی کے اداروں پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی انفارمیشن اور تربیت نہایت ہی جدید انداز میں ہوئی ہےاوران کاکسیمذہب و تہذیب سے تعلق نہیں بلکہ انسانیت سے بھی ان کا تعلق نہیں۔