مغزل
محفلین
حیرت ہے کہ کیا بحث ہوترہورہی ہے یہاں ۔۔۔ مجھے اس علاقے میں کئی برس ہوگئے آتے جاتے ہوئے کہ یہاں ابو الحسن اصفہانی روڈ پر ایک کوئٹہ وال کا ہوٹل ہے جہاں کی چائے شہر بھر کے ادیبوں کو اپنی جانب کھینچتی تھی شہر بھر کے شاعروں ادیبوں سے سیکڑوںملاقاتیں ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع ہوٹل پر ہوئیں ، جو اقراء سٹی اور رابعہ فلاور کے درمیان واقع ہے اور اتفاق سے اللہ نے کرم کیا اور اس سانحے سے کوئی 35 منٹ قبل بزرگ شاعر شاہد حمید اور خاکہ نگار ممتاز رفیق سے ملاقات ہوئی۔ واقعے کے بعد فوراً میں نے اپنے چھوٹے بھائی ہارون کو بھی فون کیا اور ان صاحبان کو بھی جن کے تئیں یہ واقعہ عباس ٹاؤن میں ہی ہوا ہے ۔۔ جبکہ یہ مراسلات اور سنی کلنگ نیوز کچھ اور فرما رہے ہیں، جس سے معاملہ کے رخ کو خوامخواہ نیا موڑ دیا جارہا ہے اس میں تو سو فیصدصداقت ہے کہ یہاں کی اکثریت سنی اور شیعہ خاندانوں پر مشتمل ہے ، اقراء سٹی اور رابعہ فلاور کو عباس ٹاؤن کا نام دینا کوئی بد نیتی نہیں ہے بلکہ کراچی میں جیسے کے عام طور پر رواج ہے کہ جگہوں کے نام بسوں کے اسٹاپ کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں عباس ٹاؤن اور پیراڈائز بیکرزاسٹاپس اس سڑک پر مشہور ہیں جسے میڈیا نے عباس ٹاؤن کے طور پر پیش کیا ۔ اس لڑی میں میرا دخل خوامخواہ ہی تصور کیا جائے سبھی احباب کو رائے زنی کا حق ہے اور حقائق جیسے چاہیں جس ڈگر پر چاہیں لے جائیں مگر :::
میرا سوال صرف اتنا ہے چہ جائیکہ مرنے والے شیعہ تھے سنی تھے وہابی تھے بریلوی تھے عیسائی تھے سکھ تھے جو بھی تھے ۔۔۔
کیا ان کی مائیں نہیں ہمارے جیسی ؟ کیا ان کی بہنیں ہماری بہنوں جیسی نہیں ؟ کیا ان کے خون کا رنگ سرخ نہیں ؟
ہم کیوں لاشوں پر زبان کے چٹخارے لینے کو اپنی عقل پر دال یا صاد کرتے پھرتے ہیں ؟؟؟
الخ
میرا سوال صرف اتنا ہے چہ جائیکہ مرنے والے شیعہ تھے سنی تھے وہابی تھے بریلوی تھے عیسائی تھے سکھ تھے جو بھی تھے ۔۔۔
کیا ان کی مائیں نہیں ہمارے جیسی ؟ کیا ان کی بہنیں ہماری بہنوں جیسی نہیں ؟ کیا ان کے خون کا رنگ سرخ نہیں ؟
ہم کیوں لاشوں پر زبان کے چٹخارے لینے کو اپنی عقل پر دال یا صاد کرتے پھرتے ہیں ؟؟؟
الخ