کلاچی کے ساحل پر لنگر انداز جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے یکبارگی وہ رُکا، پلٹ کر مفتوح شہر کی جانب دیکھا اور پھر ایک بار بوجھل قدموں سے اوپر کی جانب چڑھنے لگا۔ عرشے پر پہنچ کر اس سے رہا نہ گیا اور وہ ایک بار پھر شہر کی طرف منہ کیے کھڑا ہوگیا ۔ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھادیئے اور چیح کر بولا۔
الوداع اے شہرِ بے مثال!
کاش۔ اے کاش کہ میں تجھے تیری عظمت کے دنوں میں دیکھ سکتا۔
آج وہ اس شہرِ بے مثال سے رخصت ہورہاتھا لیکن چشمِ تصور سے اس کی عظمت کے دنوں کو دیکھ رہا تھا۔
۱۔خواب
عروس البلاد کراچی کے عین قلب میں واقع چڑیا گھر جو کبھی گاندھی گارڈن کہلاتا تھا، آج بھی شہر کی سستی ترین اور خوبصورت ترین تفریح گاہ کے طور پرموجود ہے اور روزآنہ لاکھوں بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کی تفریح ِ طبع کا باعث بنتا ہے، شہر کے قدیم اور خوبصورت باغوں میں سے ایک ہے ۔ یہ باغ ۔۔۔ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں دسیوں اقسام کے جانور، پرندے نیز درندے وغیرہ موجود ہیں۔ اس باغ کی داغ بیل اب سے کوئی ڈیڑھ دو سو برس قبل انگریزوں نے ڈالی جب وہ اِس شہرِ بے مثال کو خوبصورت عمارتوں، چمکتی ہوئی سڑکوں اور ہرے بھرے باغات سے سجانے لگے۔
ہندوستان بھر سے مسلمان اور ہندو رہنماؤں نے تحریکِ آزادی شروع کی اور آخرِ کار انگریزوں کو ملک چھوڑکر جانے پر مجبور کردیا۔ انگریز سرکار نے ہندوستانیوں کے بے انتہاء دباؤ کے تحت بالآخر انھیں آزادی کی نوید سنادی اور خود بوریا بستر سمیٹ کر جہاںسارے ہندوستان کو خالی کرگئے وہیں اِس شہرِ بے مثال سے بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ کر چلتے بنے۔ گاندھی گارڈن انھی انمٹ نقوش میں سے ایک نقش ہےجس کا نام بعد میں پاکستان سرکار نے بدل کر چڑیا گھر رکھ دیا۔