کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر تباہ کردیا گیا، چیف جسٹس

جاسم محمد

محفلین
کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر تباہ کردیا گیا، چیف جسٹس
ویب ڈیسک بدھ 16 جون 2021

2190658-cjgulzar-1623823855-522-640x480.jpg

بورڈ آف ریونیو سب سے کرپٹ ترین ادارہ ہے، زمینوں پر قبضے ممبر بورڈ کی وجہ سے ہو رہے ہیں، چیف جسٹس


کراچی: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ سندھ میں مختیار کار تو وزیر بنے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سندھ کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ دو، دو ماہ مانگ رہے تھے مگر برسوں گزر گئے، 2007 سے ریکارڈ اب تک کمپیوٹرائزڈ کیوں نہیں ہوا؟۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے جواب دیا کہ سوائے ٹھٹھہ ضلع کے تمام ریکارڈ مرتب کرلیا گیا۔

چیف جسٹس نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین سال سے ٹھٹھہ کا ریکارڈ مرتب نہ ہونا عجیب بات ہے، ہزاروں زمینوں کے تنازعات پیدا ہو رہے ہیں، کسی کی زمین کسی کو الاٹ کر دیتے ہیں آپ لوگ، زمینوں پر قبضے بھی اسی وجہ سے ہو رہے ہیں، نا کلاس (NA-Class) کیا ہوتا ہے، اس صدی میں بھی ناکلاس چل رہا ہے، کراچی میں ناکلاس کے نام پر اربوں روپے بنائے جا رہے ہیں،کراچی کا سروے کب ہوگا؟ بورڈ آف ریونیو سب سے کرپٹ ترین ادارہ ہے، زمینوں پر قبضے ممبر بورڈ آف ریونیو کی وجہ سے ہو رہے ہیں، آدھا کراچی سروے نمبر پر چل رہا ہے۔ سندھ میں مختیار کار تو وزیر بنے ہوئے ہیں، سرکاری زمینوں پر قبضے بادشاہوں کی طرح ہو رہے ہیں، یونیورسٹی روڈ پر جائیں اور دیکھ لیں کتنی عمارتیں بنی ہیں، نمائشی اقدام کے لیے دیوار گراتے ہیں پھر اگلے دن تعمیر ہو جاتی ہے۔
عدالت نے بورڈ آف ریونیو کو 3 ماہ کے اندر تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے، سرکاری اراضی کو پارکوں میں تبدیل کرنے اور سرکاری اراضی واگزار کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت میں کے پی کے میں زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے معاملہ کی بھی سماعت ہوئی۔

نمائندہ کے پی کے حکومت نے جواب جمع کرایا کہ جون 2022 میں تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرلیں گے۔ عدالت نے بلوچستان کی لینڈ سیٹلمنٹ جلد از جلد مکمل کرنے بھی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج تک پاکستان میں زمینوں کے ریکارڈ سے متعلق کچھ نہیں ہوا، جب سے پاکستان بنا، زمینوں کے ریکارڈ کے معاملے میں وہیں کھڑے ہیں۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گجر نالہ آپریشن کیس کی بھی سماعت ہوئی۔ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی نے بتایا کہ الہ دین، پویلین اینڈ کلب پر تجاوزات کے خلاف کام شروع ہوچکا، تجاوزات بہت زیادہ ہیں، مزید مہلت کی ضرورت ہے۔

یہ ابتدا ہے، سب کچھ ٹوٹے گا، 80 فیصد کے ایم سی اسٹاف کو نکالیں

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایک ذمہ دار بندے کو پکڑیں گے، یہ ابتدا ہے، سب کچھ ٹوٹے گا، یہ سب آپ لوگوں ہی نے تجاوزات کرائی ہیں، کے ایم سی کا کوئی ملازم کام کرتا نظر نہیں آتا، کے ایم سی کو کھوکلا کردیا گیا، آپ 80 فیصد کے ایم سی اسٹاف کو نکالیں، کے ایم سی کو اتنے اسٹاف کی ہرگز ضرورت نہیں، کے ڈی اے، کے ایم سی میں ہزار فیصد اوور اسٹاف بھر دیا گیا، ان اداروں کو تباہ کر دیا، کراچی برباد کردیا گیا، یہ ادارے کراچی کا قیمتی اثاثے ہوتے تھے، لائنز ایریا کو آپ کے افسران نے فروخت کردیا، آج نارتھ ناظم آباد کچی آبادی سے بھی بدتر ہے، ہر طرف مٹی نظر آتی ہے، گٹر بھرے ہوئے، سٹرکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر کو تباہ کردیا گیا، امتیاز اسٹور اور دیگر عمارتیں بنا کر تباہی مچا دی گئی۔
 

سید رافع

محفلین
*تاریخی حقائق*

08 مارچ 1975

70 کی دہائی میں ،
کراچی میں ایک با اختیار شہری حکومت قائم کرنے کی تحریک شروع ہوئی.
اسکے روح رواں ایک غیر معروف، غیرسیاسی شخصیت تھے.
انکا نام تھا مرزا جواد بیگ.
شہری حکومت کے قیام کے لیے اس تحریک کی کراچی میں بھرپور پزیرائی ہوئی.
پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،
پروفیسر اے.بی.اے حلیم
اور سید حسین امام جیسے سنجیدہ فکر بزرگوں نے بھی مرزا جواد بیگ کا ساتھ دیا،
کراچی میں دیکھتےہی دیکھتے تحریک شہری حکومت کے 60 سے زیادہ علاقائی یونٹ قائم ہوگیے،
مہاجر اکابرین نے جمع ہو کر مقامی حکومت کے لیے ایک بڑے کنونشن کی تیاری کرنے لگے۔۔
لیکن کنونشن سے صرف ایک روز قبل مرزا جواد بیگ کو گرفتار کر لیا گیا.
نہ کوئی جرم !
نہ کوئی الزام !
نہ کوئی ایف آئی آر !
ان کی گرفتاری کے ایک روز بعد ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا گیا
جس کے تحت انکے خلاف غدّاری کا مقدمہ درج کر دیا گیا اور دو سال تک انکی ضمانت کی درخواست کی سماعت ہی نہیں ہوئی.
جسٹس قریشی کی سربراہی میں اس وقت کی سندھ بلوچستان چیف کورٹ نے مرزا جواد بیگ کو 12 سال قید بامشقت اور 7 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنادی۔۔
یہ فیصلہ جسٹس قریشی کی سربراہی میں بننے والے اسپیشل بینچ نے کوئٹہ میں دیا، اس وقت سندھ بلوچستان چیف کورٹ ایک ہی ہوا کرتی تھی۔۔
بعدازاں مرزا جواد بیگ سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہوئے۔۔
مرزا جواد بیگ نے رہا ہونے کے بعد کسی بھی قسم کی عملی اور عوامی سیاست میں حصّہ لینا چھوڑ دیا اور گوشہ گمنامی اختیار کر لیا !

*کراچی کی تاریخ اس بات کی دلیل دیتی ہے کہ اس شہر کے باسیوں کو ہمیشہ ہی حقوق مانگنے کی پاداش میں غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے*

*نئی نسل کے لیے راست فیصلوں سے قبل تاریخ سے آگاہی انتہائی ضروری ہے*
 

جاسم محمد

محفلین
*تاریخی حقائق*

08 مارچ 1975

70 کی دہائی میں ،
کراچی میں ایک با اختیار شہری حکومت قائم کرنے کی تحریک شروع ہوئی.
اسکے روح رواں ایک غیر معروف، غیرسیاسی شخصیت تھے.
انکا نام تھا مرزا جواد بیگ.
شہری حکومت کے قیام کے لیے اس تحریک کی کراچی میں بھرپور پزیرائی ہوئی.
پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،
پروفیسر اے.بی.اے حلیم
اور سید حسین امام جیسے سنجیدہ فکر بزرگوں نے بھی مرزا جواد بیگ کا ساتھ دیا،
کراچی میں دیکھتےہی دیکھتے تحریک شہری حکومت کے 60 سے زیادہ علاقائی یونٹ قائم ہوگیے،
مہاجر اکابرین نے جمع ہو کر مقامی حکومت کے لیے ایک بڑے کنونشن کی تیاری کرنے لگے۔۔
لیکن کنونشن سے صرف ایک روز قبل مرزا جواد بیگ کو گرفتار کر لیا گیا.
نہ کوئی جرم !
نہ کوئی الزام !
نہ کوئی ایف آئی آر !
ان کی گرفتاری کے ایک روز بعد ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا گیا
جس کے تحت انکے خلاف غدّاری کا مقدمہ درج کر دیا گیا اور دو سال تک انکی ضمانت کی درخواست کی سماعت ہی نہیں ہوئی.
جسٹس قریشی کی سربراہی میں اس وقت کی سندھ بلوچستان چیف کورٹ نے مرزا جواد بیگ کو 12 سال قید بامشقت اور 7 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنادی۔۔
یہ فیصلہ جسٹس قریشی کی سربراہی میں بننے والے اسپیشل بینچ نے کوئٹہ میں دیا، اس وقت سندھ بلوچستان چیف کورٹ ایک ہی ہوا کرتی تھی۔۔
بعدازاں مرزا جواد بیگ سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہوئے۔۔
مرزا جواد بیگ نے رہا ہونے کے بعد کسی بھی قسم کی عملی اور عوامی سیاست میں حصّہ لینا چھوڑ دیا اور گوشہ گمنامی اختیار کر لیا !

*کراچی کی تاریخ اس بات کی دلیل دیتی ہے کہ اس شہر کے باسیوں کو ہمیشہ ہی حقوق مانگنے کی پاداش میں غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے*

*نئی نسل کے لیے راست فیصلوں سے قبل تاریخ سے آگاہی انتہائی ضروری ہے*
یہ صرف کراچی ہی نہیں پاکستان کے ہر شہر کا مسئلہ ہے۔ ملک میں مقامی حکومتیں جو جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں ناپید ہیں۔ ۱۸ ویں ترمیم نے وفاق سے اختیارات لے کر صوبائی حکومتوں کو دے دیے اور آگے مقامی شہری و بلدیاتی حکومتوں میں منتقل نہ کئے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کراچی کے انتظامی حالات مشرف دور کے سٹی ناظم سسٹم میں آج سے بہت بہتر تھے۔ جسے جمہوریت نے آکر تہس نہس کر دیا ہے۔ کیونکہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
*تاریخی حقائق*

08 مارچ 1975

70 کی دہائی میں ،
کراچی میں ایک با اختیار شہری حکومت قائم کرنے کی تحریک شروع ہوئی.
اسکے روح رواں ایک غیر معروف، غیرسیاسی شخصیت تھے.
انکا نام تھا مرزا جواد بیگ.
شہری حکومت کے قیام کے لیے اس تحریک کی کراچی میں بھرپور پزیرائی ہوئی.
پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،
پروفیسر اے.بی.اے حلیم
اور سید حسین امام جیسے سنجیدہ فکر بزرگوں نے بھی مرزا جواد بیگ کا ساتھ دیا،
کراچی میں دیکھتےہی دیکھتے تحریک شہری حکومت کے 60 سے زیادہ علاقائی یونٹ قائم ہوگیے،
مہاجر اکابرین نے جمع ہو کر مقامی حکومت کے لیے ایک بڑے کنونشن کی تیاری کرنے لگے۔۔
لیکن کنونشن سے صرف ایک روز قبل مرزا جواد بیگ کو گرفتار کر لیا گیا.
نہ کوئی جرم !
نہ کوئی الزام !
نہ کوئی ایف آئی آر !
ان کی گرفتاری کے ایک روز بعد ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا گیا
جس کے تحت انکے خلاف غدّاری کا مقدمہ درج کر دیا گیا اور دو سال تک انکی ضمانت کی درخواست کی سماعت ہی نہیں ہوئی.
جسٹس قریشی کی سربراہی میں اس وقت کی سندھ بلوچستان چیف کورٹ نے مرزا جواد بیگ کو 12 سال قید بامشقت اور 7 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنادی۔۔
یہ فیصلہ جسٹس قریشی کی سربراہی میں بننے والے اسپیشل بینچ نے کوئٹہ میں دیا، اس وقت سندھ بلوچستان چیف کورٹ ایک ہی ہوا کرتی تھی۔۔
بعدازاں مرزا جواد بیگ سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہوئے۔۔
مرزا جواد بیگ نے رہا ہونے کے بعد کسی بھی قسم کی عملی اور عوامی سیاست میں حصّہ لینا چھوڑ دیا اور گوشہ گمنامی اختیار کر لیا !

*کراچی کی تاریخ اس بات کی دلیل دیتی ہے کہ اس شہر کے باسیوں کو ہمیشہ ہی حقوق مانگنے کی پاداش میں غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے*

*نئی نسل کے لیے راست فیصلوں سے قبل تاریخ سے آگاہی انتہائی ضروری ہے*
مرزا جواد بیگ ۲۰۰۶ میں بھی ایکٹو تھے
KARACHI: 22 provinces proposed for country’s progress - Newspaper - DAWN.COM
 

سید رافع

محفلین
یہ صرف کراچی ہی نہیں پاکستان کے ہر شہر کا مسئلہ ہے۔ ملک میں مقامی حکومتیں جو جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں ناپید ہیں۔ ۱۸ ویں ترمیم نے وفاق سے اختیارات لے کر صوبائی حکومتوں کو دے دیے اور آگے مقامی شہری و بلدیاتی حکومتوں میں منتقل نہ کئے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کراچی کے انتظامی حالات مشرف دور کے سٹی ناظم سسٹم میں آج سے بہت بہتر تھے۔ جسے جمہوریت نے آکر تہس نہس کر دیا ہے۔ کیونکہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

آپ اٹھاویں ترمیم میں صوبوں کے پاس کیا جاتا نہیں دیکھنا چاہتے؟ بجلی کی پیداوار کا معاملہ صوبوں سے کیوں لینا چاہیں گے؟ بھائی اور پرائیوٹ کمپنیاں آئیں تو بجلی سستی ہو گی۔

قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ آپ صوبوں سے لینا چاہتے ہیں؟ ضیاء مشرف کی باون بی سے اتنی مشکل سے تو چھٹکارہ ملا ہے۔

آرٹیکل 142 ب اور ج کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو کریمینل قوانین، طریقہ کار اور ثبوت اور شہادت جیسے قوانین کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ہاں اس سے نواز زرداری اور فریال بچ نکل سکتے ہیں۔ لیکن اب تک اسکا غلط استعمال ہوا ہو میرے علم میں نہیں۔

باقی صدر سے اختیار پارلیمان کو منتقل کیا گیا ہے یہ بہت درست سمت قدم تھا۔

علاوہ کراچی سارے پاکستان میں برادری سسٹم ہے۔ اسکی وجہ سے وہاں سیاسی کشمکش ایسی نہیں جیسی کہ کراچی میں ہے۔ جب سیاسی کشمکش میں نیب اور فوج بھی شامل ہو جائے تو مسئلہ دو چند نہیں سہ چند ہو جاتا ہے۔

کراچی اور اسکے جزیروں کا کیک سب کھانا چاہتے ہیں۔ سندھ ریونیو بورڈ کی رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال 2020-21ء کے 11 ماہ (جولائی تا مئی) کے دوران ٹیکس محصولات کا حجم 108 ارب 68 کروڑ 60 لاکھ روپے ریکارڈ کیا گیا۔ سندھ سے فوج اور وفاق کو 108 ارب میں سے 101 ارب کراچی نے کما کر دیے۔

اب یہ کیسے طے ہو کہ کتنا پی پی پی سند ھ کو ملے، کتنا وفاق اور فوج کو اور کتنا کراچی اور ایم کیو ایم کو ملے؟

یہ ایک سخت کٹھن سوال ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب یہ کیسے طے ہو کہ کتنا پی پی پی سند ھ کو ملے، کتنا وفاق اور فوج کو اور کتنا کراچی اور ایم کیو ایم کو ملے؟

یہ ایک سخت کٹھن سوال ہے۔
۱۸ ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ میں یہ سب طے شدہ ہے۔ اگر کچھ طے نہیں ہے تو مقامی حکومتوں کو کتنا بجٹ ملے گا۔ اسی لئے تو کراچی رل گیا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
اختیارات وفاق سے سیدھا مقامی شہری و بلدیاتی حکومتوں تک جانے چاہیے تھے جو اب صوبائی حکومتوں میں آکر پھنس گئے ہیں۔

بلدیہ کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالت کب لگانی ہے؟ بات یہ ہے کہ ایوب کو بیسک ڈیموکریسی اور مشرف کو ناظم سسٹم سوٹ اس لیے کرتا تھا کہ وہ صوبائی اور قومی سیاست دانوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔ جبکہ سیاست دانوں کو پارلیمانی نظام اس لیے پسند ہے کہ اس سے فوج اور دیگر ادارے انکے ماتحت آجاتے ہیں۔

سسٹم سے زیادہ نیت سے فرق پڑتا ہے۔ کراچی میں فوج اور بلاول ایم کیو ایم کو علاقائی جماعت کے طور پر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی اصل مسئلے کی جڑ ہے کہ آپ شہر کے باسیوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔ مردم شماری اس کی گواہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلدیہ کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالت کب لگانی ہے؟ بات یہ ہے کہ ایوب کو بیسک ڈیموکریسی اور مشرف کو ناظم سسٹم سوٹ اس لیے کرتا تھا کہ وہ صوبائی اور قومی سیاست دانوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔ جبکہ سیاست دانوں کو پارلیمانی نظام اس لیے پسند ہے کہ اس سے فوج اور دیگر ادارے انکے ماتحت آجاتے ہیں۔

سسٹم سے زیادہ نیت سے فرق پڑتا ہے۔ کراچی میں فوج اور بلاول ایم کیو ایم کو علاقائی جماعت کے طور پر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی اصل مسئلے کی جڑ ہے کہ آپ شہر کے باسیوں کو تسلیم نہیں کر رہے۔ مردم شماری اس کی گواہ ہے۔
مردم شماری دوبارہ کر وا لیں پھر۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلدیہ کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالت کب لگانی ہے؟ بات یہ ہے کہ ایوب کو بیسک ڈیموکریسی اور مشرف کو ناظم سسٹم سوٹ اس لیے کرتا تھا کہ وہ صوبائی اور قومی سیاست دانوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔ جبکہ سیاست دانوں کو پارلیمانی نظام اس لیے پسند ہے کہ اس سے فوج اور دیگر ادارے انکے ماتحت آجاتے ہیں۔
یہ فضول نظریاتی بحث ہے۔ مقامی حکومتیں شہر کی ٹیکس کولیکشن کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ آدھا ٹیکس مقامی حکومت اور باقی ٹیکس وفاق کے پاس چلا جاتا ہے۔ ادھر ناروے اور دیگر مغربی ممالک میں یہی نظام ہے۔ شہری حکومتیں اپنا سارا انتظامی ڈھانچہ خود چلاتی ہیں۔ صرف بڑے بڑے منصوبے جیسے ٹرین ٹریکس، نیشنل ہائی ویز، ایئر پورٹس وغیرہ کیلئے وفاق مداخلت کرتا ہے۔ یہاں صوبائی حکومت کے پاس قوانین پاس کرنے علاوہ اور کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ جبکہ ادھر پاکستان میں صوبے شہری حکومتوں کے بجٹ اور اختیارات پر سانپ بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
یہ فضول نظریاتی بحث ہے۔ مقامی حکومتیں شہر کی ٹیکس کولیکشن کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ آدھا ٹیکس مقامی حکومت اور باقی ٹیکس وفاق کے پاس چلا جاتا ہے۔ ادھر ناروے اور دیگر مغربی ممالک میں یہی نظام ہے۔ شہری حکومتیں اپنا سارا انتظامی ڈھانچہ خود چلاتی ہیں۔ صرف بڑے بڑے منصوبے جیسے ٹرین ٹریکس، نیشنل ہائی ویز، ایئر پورٹس وغیرہ کیلئے وفاق مداخلت کرتا ہے۔ یہاں صوبائی حکومت کے پاس قوانین پاس کرنے علاوہ اور کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ جبکہ ادھر پاکستان میں صوبے شہری حکومتوں کے بجٹ اور اختیارات پر سانپ بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔

اسی لیے یہاں 22 صوبوں کا ہونا ضروری ہے۔
 
Top