سید شہزاد ناصر
محفلین
پاکستان کی کامیڈی کے کینوس پر چند ایسے رنگ بکھرے ہیں جن کے بغیر پاکستانی شوبز کامیڈی ادھوری ہے ۔مصنف لفظ تو لکھ ہی دیتا ہے مگر لکھے ہوئے لفظ کے تقاضے پورے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔معین اخترایک ایسا نام ، جنہوں نے اسٹینڈ اپ کامیڈی سے کیرئیر کا آغاز کیا۔ بعد ازاںکمپیئرنگ اورایکٹنگ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔معین نے 1000سے زائد کردار نبھا ئے اور ہر کردار دوسرےسے مختلف اور منفرد رہا ۔
وہ جس قدر عمدہ اداکارتھےاتنے ہی اعلی انسان بھی۔ آج وہ ہم میں نہیں رہے یہ کہنا بہت تکلیف دہ ہے لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مفر نہیں ۔ان کی وفات سے چند دن پہلے ان سے کی گئی ایک ملاقات میں شوبز انڈسٹری کے مسا ئل اور ان کی ذاتی زندگی پر بات چیت کی گئی ۔جو پیش ِ خدمت ہے ۔
سوال:آپ نے بے شمار کردار کیے ،کردار کو خود پر طاری کرلینا کیا آسان کام ہے ؟
جواب :کوئی بھی کردار جب کیا جاتا ہے تو اس کومحسوس کرنا پڑتا ہے ۔تب ہی وہ اچھے طریقے سے ادا ہوسکتا ہے۔اداکاری میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے کردار میں ڈوبنا پڑتا ہے اور یہ کام محسوسات کے بغیر ناممکن ہے ۔ایک مرتبہ میں ''لوز ٹاک''کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے گیا ،میک اپ ہوگیا ،ساری تیاری مکمل ہوگئی،میں نے انور مقصود سے کہا کہ آج موڈ نہیں ہورہا ،تو انھوںنے کہا کہ آج پھر رہنے دیتے ہیں کیونکہ جب تک طبیعت مائل نہیں ہوگی ،اچھا کردار نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے احساسات کی بہت اہمیت ہے۔
سوال :کردار کی نفسیات پر توجہ دینا اداکار کا کام ہے یا ڈرامہ نگار کا ؟
جواب :ڈرامہ نگار تو اپنے لحاظ سے لکھ دیتا ہے ،مثا ل کے طورایک کردار جس کی عمر 70برس ہے تو اب یہ اداکار ہی طے کرے گا کہ اس کی عادتیں کیسی ہونی چاہیں ،اس کا لب و لہجہ ،چال ڈھال وغیرہ پراداکار ہی کام کرے گا۔ڈرامہ نگار کا تعاون بھی اداکار کو درکار ہوتا ہے لیکن اداکار کو خود بھی بہت سی چیزیں طے کرنا پڑتی ہیں ۔
سوال :موجودہ ڈرامے کے حوالے سے چل چلائو والا کام زیادہ نظر آتا ہے،آپ کا اس حوالے سے کیا موقف ہے ؟
جواب :ہم جس دور میں زندہ ہیں ،وہاں کوئی کلاسیکل کام دیکھنے کو نہیں ملے گا۔میں اس کی تفصیل میں جائوں گا تو بات طویل ہوجائے گی…مثال کے طورپر اگر ڈرامے میں 1955ء کا کوئی منظر دکھانا ہے تو پھر تمام چیزیں ،حلیہ اور سیٹ وغیرہ بھی 1955ء کا ہونا چاہیے اوراس کے لیے بہت سے پیسے درکار ہیں۔ہمارے جتنے بھی چینل ہیں،وہ صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن خرچ نہیں کرنا چاہتے ۔ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہندوستانی فلمیں اور ڈرامے پاور فل ہوتے ہیں مگروہ کیوں مختلف ہوتے ہیں ؟سیدھی سی بات ہے کہ وہ محنت کرتے ہیں ۔کھیل پر مختلف پہلوئوں سے کام کرتے ہیں ،مثال کے طورپر کوئی کردار مسٹر'اے' سے کروانا ہے تو پھر وہ کردار مسٹر'بی'سے نہیں کروائیں گے۔یہاں معاملہ مختلف ہے ،میں نے اگر یہاں تھوڑا سا نخرہ دکھایا تو مجھے بھگا دیں گے اور میرا کردار کسی سے بھی کروالیں گے۔اس طرح آپ نے ایک شخص کو ماردیا ،اس کا جو کام تھا ،وہ آپ نے کسی اور سے کروالیا۔آئیکون کسی بھی ملک کی انڈسٹری کا سرمایہ ہوتے ہیں اور یہ بنتے نہیں ہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔جب آدمی ایک مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے نخرے ہوتے ہیں ۔فنکار محنت کرکے کوئی مقام حاصل کرتا ہے تو یہ اُس کا حق ہے ۔ہمارے ہا ںنخرے برداشت کرنے کی قوت ختم ہوگئی ہے اور اگر آپ نخرے برداشت نہیں کریں گے تو آئیکون نہیں بنا سکتے۔
سوال :اس کے باوجود پی ٹی وی نے تو بہت سے آئیکون بنائے ،آپ بھی ان میں سے ایک ہیں ؟
جواب :پی ٹی وی کے زمانے میں جولوگ کچھ بنے ،وہ اسکرپٹڈ تھے کیونکہ ایک چینل تھا ۔اس پر لوگ کام کرتے تھے اور جن میں فنکارانہ صلاحیتیں ہوتی تھیں ،ان کو پی ٹی وی پرموٹ کرتا تھا ۔ہمارے ہاں ایسے بے شمار لوگوں کی مثالیں ہیں جن میں ،شفیع محمد مرحوم ،طلعت حسین ،محمد قوی خان،فاروق ضمیر،جمشید انصاری مرحوم اور دیگر لوگ شامل ہیں ،میں بھی ان میں سے ایک ہوں ۔اب یہ رویہ ختم ہوگیا ہے ،پی ٹی وی پہ اب معاوضہ نہ ملنے کے برابر ہے ۔آئیکون بنانے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے اور اس کا نقصان یہ ہوگا یہ دوسری انڈسٹری کے لوگ آپ کی جگہ لے لیں گے اور دوسروں کا آرٹ اور آرٹسٹ ہماری انڈسٹری پر غالب آجائے گا۔
سوال :پی ٹی وی کے دور میں اچھا ڈرامہ دیکھنے والے ناظرین نجی چینلز کی طرف کیوں چلے گئے خاص طور پر انڈین چینلز پر؟ ۔
جواب :اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہمارے چینل اور انڈین چینل بھی جو چیزیں چلاتے ہیں ،وہ میں دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس کی تعریف کررہے ہوتے ہیں اور ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اس کی ریٹنگ دیکھواور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ تو وہی دیکھیں گے جو آپ دکھائو گے۔میڈیا تو دنیا بھر میں قوم کو تربیت دیتا ہے ،ہمارے میڈیا نے سوائے آزادی کا استعمال غلط کرنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ٹیلی ویژن کے لیے کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہے۔سیاست کے نام پر جو پروگرام ہیں ،ان میں جس طرح کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں ،وہ بد تہذیبی ہے ۔مجھے انڈیا سے لافٹر چیلنج کے کئی پروگرامز میں جج کی حیثیت سے مدعو کرنے کی پیشکش کی گئی مگر میں نے قبول نہیں کی کیونکہ وہاں جیسا مذاق ہورہا ہوتا ہے،میں اگر اس پر ہنسوں گا تو میرے لوگ کہیں گے کہ دیکھو معین اختر کو کیا ہوگیا ہے اور اگر نہیں ہنسوں گا تو یہی لوگ کہیں گے دیکھو فرعون بنا بیٹھا ہے ،میں دونوںصورتوں میں پھنستا ،اس لیے میں نے منع کردیا۔
سوال :کیا مخصوص انداز میں ہی کام کرنے سے آدمی کو شہرت ملتی ہے جیسے آپ نے جس طرز کا مخصوص کام انور مقصود کے ساتھ کیا ؟
جواب :میں نے انور مقصود کے علاوہ بھی بہت کام کیا اور وہ کافی مقبول بھی ہوا۔میں نے مجموعی طورپر جتنا بھی کام کیا ،اس میں کئی مدوجز ر ہیں ،جب میں شوبز میں آیا تھا تو اسٹینڈاپ کامیڈی کرتا تھاپھر میں نے کمپیئرنگ شروع کی ،یس سر نوسر،معاف کیجیے گا،معین اخترشواور اس طرح کے بے شمار شوز کیے۔ پھر ٹریک بدل کر اداکاری پر آگیا،روزی،ہاف پلیٹ جیسا کام کیا ۔انور مقصود سے میری کیمسٹری میچ کرتی ہے۔ہم 34سال سے اکٹھے کام کررہے ہیں ۔انور مقصود نے وہ لکھا جو عوام چاہتے تھے پھر وہ متنازع ہوگیا ،اس وقت شیخ رشید انفارمیشن منسٹر تھے ،کچھ پوائنٹ ان کے اور عمران خان کے بارے میں تھے،اس پر وہ لوگ ناراض ہوگئے ۔وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم معافی مانگیں لیکن انور مقصودنے ایسی کسی بھی بات کو ماننے سے انکار کردیا۔اسی طرح اور بہت سے پروگرامز کیے ، پونے 7سال سے لوز ٹاک چل رہا ہے اور میں اس پروگرام میں 370کردار ادا کرچکا ہوں ۔
سوال :اتنے سارے کردارکیسے نبھالیئے ؟
جواب :میں کچھ نہیں کرتا ،بس اپنے کردار کا تجزیہ کرتا ہوں ۔انورمقصود مجھے سیٹ پر ہی اسکرپٹ دیتے ہیں،ہم دو مرتبہ پڑھتے ہیں ،انور مجھے کردار کی ٹائپ سمجھاتے ہیں اور یوں میں کرلیتا ہوں ۔مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ اداکار مجھے اداکار ہی نہیں مانتے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں یہ کام صرف فزیکلی کرتاہوں جبکہ میں 1000 کے قریب کردار نبھا چکا ہوں، جن میں سے 370کردار ''لوز ٹاک''کے لیے کیے اور یہ مجھے کوئی کرکے دکھادے ۔لوز ٹاک ہمارا ایسا پروگرام ہے جو صرف تفریحی پروگرام نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ ہے پاکستان کی ،جو لوگ ملک سے باہر رہتے ہیں ،وہ اگر یہ جاننا چاہیں کہ پچھلے سات سال میں پاکستا ن کے بڑے بڑے مسائل کیا تھے ،تووہ صرف لوز ٹاک دیکھ لیں ،ان کو سب پتہ چل جائے گا۔یہ پروگرام بہت سنجیدہ ہے اور اس لطیف پیرائے میں کیا جاتا ہے ۔
سوال :معاشرے میں جو ''ڈرامہ'' ہورہا ہے ،اس پر کبھی دکھ نہیں ہوا کیونکہ آپ تو اسی معاشرے کے کرداروں کی نمائندگی اپنے پروگرامز میں کرتے ہیں ؟
جواب :بات یہ ہے کہ ہم اب ایک قوم نہیں رہے ہیں ،ہم گروہوں میں بٹ چکے ہیں ،صوبائیت میں تقسیم ہوگئے ہیں ،ہر آدمی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے ،پاکستان کہاں ہے ؟ آنے والا وقت بہت اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔جس سڑک سے آنا چاہیے ،ہم جارہے ہوتے ہیں اور جس سڑک سے جانا ہوتا ہے،اس کی طرف سے آرہے ہوتے ہیں ،بے ایمانی،رشوت،جھوٹ ،دھوکہ ،ڈکیتی ،اغوا ،قتل ہورہے ہیں ،ہم کدھر جارہے ہیں ؟سیاست پر تو چینلز پروگرام کرلیتے ہیں مگر عوام کی ضرورتوں اور تکالیف پر کوئی مذاکرہ یا پروگرام ہوا؟بات صرف اتنی ہے ،ہر آدمی اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کررہا ہے ،جب تک ہم سادگی اختیار نہیں کریں گے اور ایماندار نہیں ہونگے ،کچھ نہیں ہوسکتا۔
سوال : فلم کا تجربہ کیسا رہا ؟
جواب :کا م کیا اور ناکامی ہوئی ۔یہ بھی ایک میڈیم ہے ،میرے مداحوں نے کہا کہ آپ ٹی وی پر ہی اچھے لگتے ہیں ،فلم کے چکر میں نہ پڑیں ،میں نے کہا جہاں دوسرے میڈیم میں کا م کیا ،وہیں اس میں بھی کام کر کے دیکھ لیتے ہیں ،یہ بھی ایک تجربہ تھا سوکیا۔
سوال :آپ کی نظر میں ایکٹر کی تعریف کیا ہے؟
جواب :ایکٹر کے پانچ ایلفا بیٹس ہیںاور ان میں ان پانچوں لفظوں کے لحاظ سے خوبیاں ہیں اور وہ خوبیاں یہ ہیں کہ وہ اچھا ایکٹر ہے جس میں،ایکشن کری ایشن،ٹون،اورینٹیشن،ردھم ہو۔ ہمیں اچھی اداکاری کے لیے خود کوپالش کرنا پڑتا ہے ۔
سوال :انڈیا جاکر کام کرنا ہمارے بہت سے اداکار قابلِ فخر کیوںسمجھتے ہیں ؟
جواب :میں نے اُس وقت انڈیا جاکر کام کیا جب پاکستان اور انڈیا کے سفارتی تعلقات بہتر نہیں تھے اور میں نے جن کے ساتھ کام کیا ان میں انڈیا کے بڑے نام شامل ہیں جیسے لتا،دلیپ کمار،مادھوری،منیشا،اکشے کمار،انوپم کھیر اور دیگر لوگ جن سے مختلف شوز میں ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔میں نے جتنا کام بھی کیا،وہ سب برابری کی سطح پر تھا۔ابھی کامیڈی شوز کے جج کی آفرز آئیں لیکن میں نے منع کردیا۔مجھے انوپم کھیر نے ایک فلم میں کردار کی آفر کی ،میں نے کردار کا پوچھا کہ مرکزی کردا رہے تو کروں گا ورنہ نہیں کروں گااور پھر میں نے وہ پیشکش بھی ٹھکرا دی ۔
سوال :موجودہ کامیڈی کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟
جواب :اس کامیڈی کی پہلی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جو یہ کروا رہے ہیں ،پھر ان پر جو کررہے ہیں۔ہماری قوم بھی عجیب ہے جس چیز پر اعتراض کرتے ہیں ،اس کو دیکھتے بھی ہیں،ہمارے ہاں قول و فعل کا تضاد ہے ،ہم اپنی شناخت خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔
سوال :اجتماعی طورپر ہم کنفیوژن کا شکار ہیں ،ہم نے اپنی ڈرامہ انڈسٹری تباہ کرلی اور فلم انڈسٹری پہلے ہی تباہ شدہ تھی۔یہ سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟
جواب :ان تمام باتوں کے درمیان ایک نقطہ ہے جو ہم میں نہیں ہے اور اُسی کی وجہ سے ہم مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ،وہ نقطہ ہے ''قوم پرستی''۔ ہم احساس سے عاری ہیں ،ہم خود سے سچ نہیں بولتے ،اپنے ملک کی چیزوں کو فروغ نہیں دیتے ،بجلی چوری کرتے ہیں ،دھوکہ دیتے ہیں ۔میرے ایک دوست نے بہت اچھی بات کی کہ ہمارے ہاں اسی فیصد لوگ بے ایمانی میں ملوث ہیں اور بیس فیصد جو بچ گئے ہیں وہ ایماندار نہیں ہیں بلکہ اُن کو موقع نہیں ملا۔انڈیا میں پاکستان کا کوئی چینل نہیں چلتا جبکہ آپ کے ہاں اُن کی فلمیں اور ڈرامے سب کچھ چلتا ہے ،وہ لوگ آپ کے چند آرٹسٹوں کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ۔یہ بات ہمیں اور ہماری سرکار کو سمجھنی چاہیے ۔دوستی ون وے ٹریک نہیں ہوتی، یہاں وہی قوم پرستی والا معاملہ ہے ۔
سوال :ہمارے ملک میں اپنا فن منتقل کرنے کی روایت کم ہی رہی ہے ،سینئر اداکاروں نے جونیئر اداکاروں کو اپنا فن نہیں دیا،کیا آپ بھی انہیں میں سے ایک ہیں ؟
جواب :اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ میں ابھی خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کیونکہ میں خود ابھی تک سیکھ رہاہوں ،اس لیے کسی کو کیا سکھائوں گا۔
سوال :آپ کا مطالعہ سے گہر اشغف ہے اور آپ اب خود نوشت بھی لکھ رہے ہیں ،یہ احساس آپ کے اندر کب جاگا؟
جواب :مجھے مطالعہ کا شوق ہمیشہ سے ہی تھا،میں ابن ِ صفی سے بہت متاثررہا ،ان کے کرداروں میں قوم پرستی کا جذبہ تھا اور میں چاہوں گا کہ آج کا طالب علم اور ہمارے سیاستدان وہ کہانیاں پڑھیں کہ جب ملک پر کوئی برا وقت آجائے تو کس طرح کا ردعمل کرنا چاہیے۔میں نے پوری دنیا میں سفر کیا اور جہاز میں مجھے نیند نہیں آتی ،اس لیے مطالعہ کی عادت پختہ ہوتی گئی ،اب میں اپنی خود نوشت لکھ چکاہوں ،بہت جلد وہ شائع ہوجائے گی۔لکھنے کی شوق بھی مجھے کافی تھا،میں نے ایک مقامی اخبار میں دو ڈھائی سال تک کالم بھی لکھا،اس لیے میں نے بہت آسانی سے اپنی خودنوشت قلم بند کرلی ۔جس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ میں نے اس میں کسی کے خلاف کوئی بات نہیں لکھی،یہی اس خود نوشت کی خاص بات ہے ۔تلخیوں کو نظر انداز کرکے مثبت باتیں لکھی ہیں ۔
تحریر
نوشین نقوی
ربط
http://www.urdutimes.com/content/39387