کفایت ہاشمی
محفلین
25 دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس کا تہوار مناتی ہے ۔ اس تہوار کی غرض و ٍ غایت بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ مختصر یہ کہ نصاریٰ کے نزدیک اس دن اللہ کے بیٹے (نعوذ باللہ من ذالک) کی پیدائش ہوئی ۔ یہ عقیدہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ خود قرآن کریم ً میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس عقیدے کا ذکر کیا ہے اور نہایت غضب کا اظہار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرنقص سے پاک ذات ہے ۔ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے (لم یلد ولم یولد - اخلاص :3) ۔
بحمدللہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس عقیدہ پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان پر "انجیل “ نازل کی گئی جس میں بعد میں تحریف کردی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر لٹکانے کی ناکام کوشش کی اور اپنی انبیاء دشمنی کا ثبوت دیا لیکن اللہ رب العزت نے انھیں با حفاظت آسمان پر اٹھالیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت کے وقت دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے ۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے دینی شعور انتہائی کم ہے اور لوگوں میں سنی سنائی باتوں اور دوسری کی دیکھا دیکھی اعمال کرنے کی عادت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دینی تعلیم کی کمی اور خاندان یا علاقے کے بڑوں بوڑھوں کی اندھی تقلید ہے۔ہمارے معاشرے میں بیشتر رسومات صرف اپنے بڑے بوڑھوں کے کرنے کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کئی رسمیں اور کھیل تماشے دین کے نام پر کرتے ہوئے ملیں گے۔
چونکہ بات کرسمس کے حوالے سے کرنی ہے لہذا میں اپنے موضوع پر آؤں گا۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کرسمس منانے کا بنیادی مقصد کس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عقیدہ ہر مسلمان کیلئے ناقابل قبول ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود اللہ رب العزت اپنی کتاب میں اس عقیدہ فاسدہ کی مذمت اور تردید فرماچکا ہے ۔ میں یہاں صرف سورہ مریم کی آیات 88 تا 92 پیش کروں گا جس میں اللہ رب العزت اس عقیدے پر اپنے غضب کا اظہار فرما رہا ہے ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ( 88 )
اور کہتے ہیں کہ رحمن (اللہ) بیٹا رکھتا ہے
لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ( 89 )
(ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری بات (زبان پر) لائے ہو
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ( 90 )
قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں
أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ( 91 )
کہ انہوں نے رحمٰن (اللہ) کے لئے بیٹا تجویز کیا
وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ( 92 )
اور رحمٰن کیلئے شایان شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔
ان آیات میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کیلئے بیٹے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، وہ ایسی سخت بات کرتے ہیں کہ جس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اللہ رب العزت یکتا ہے اور اس کا کسی امر میں کوئی شریک نہیں۔
اسی تہوار کے دنوں میں ہمارے ''انٹرٹینمٹ '' کے چینلز جن میں جیو کا اخلاق سوز ڈرامہ '' یہ زندگی ہے'' (جس کا کام ہی لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنا ہے ۔ گالی گلوچ، لعن طعن اور لڑائی جھگڑوں کے مناظر سے یہ ڈرامہ بھرا ہوا ہے ) اول نمبر پر ہے، کرسمس کی خوشیاں بانٹتے نظر آئے۔ پروڈیوسر نے تو یہاں تک حد کردی کہ اپنی بیٹی کے ذریعے کرسمس کی ''خوشیوں'' (نعوذ باللہ) کو عوام تک پہنچایا۔ اس ڈرامے کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی خاص دن یا تہوار پر اپنی قسط میں ''ٹوئسٹ'' بھرتے ہیں۔ کبھی تو شب برات مناتے نظر آتے ہیں تو کبھی قائد اعظم کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔ کبھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد شریف مناتے ہیں اور باقاعدہ میلاد شریف کی محفلیں سجا کر ہدیہ نعت پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف کرسمس کے تہوار کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایک ''خوشی'' ہے !! انا للہ وانا الیہ راجعون
اوپر پیش کردہ آیات قرآنی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیجئے کہ ع یہ اندازِ مسلمانی ہے؟ ہم کس کی تعلیمات کی پیروی کر رہے ہیں ؟ کیا ہم واقعی طرز ِ مسلمانی اپنا رہے ہیں اور کیا واقعی یہ میڈیا اور ٹی وی چینلز ہماری تربیت کر رہے ہیں؟ یہ ہمیں کس طرف لے جارہے ہیں؟ اور عوام کیوں بے دھڑک ہر بات کو ہضم کرجاتے ہیں ؟
اقبال مرحوم کیا خوب کہہ گئے ہیں ع
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
بحمدللہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس عقیدہ پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان پر "انجیل “ نازل کی گئی جس میں بعد میں تحریف کردی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر لٹکانے کی ناکام کوشش کی اور اپنی انبیاء دشمنی کا ثبوت دیا لیکن اللہ رب العزت نے انھیں با حفاظت آسمان پر اٹھالیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت کے وقت دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے ۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے دینی شعور انتہائی کم ہے اور لوگوں میں سنی سنائی باتوں اور دوسری کی دیکھا دیکھی اعمال کرنے کی عادت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دینی تعلیم کی کمی اور خاندان یا علاقے کے بڑوں بوڑھوں کی اندھی تقلید ہے۔ہمارے معاشرے میں بیشتر رسومات صرف اپنے بڑے بوڑھوں کے کرنے کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کئی رسمیں اور کھیل تماشے دین کے نام پر کرتے ہوئے ملیں گے۔
چونکہ بات کرسمس کے حوالے سے کرنی ہے لہذا میں اپنے موضوع پر آؤں گا۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کرسمس منانے کا بنیادی مقصد کس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عقیدہ ہر مسلمان کیلئے ناقابل قبول ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود اللہ رب العزت اپنی کتاب میں اس عقیدہ فاسدہ کی مذمت اور تردید فرماچکا ہے ۔ میں یہاں صرف سورہ مریم کی آیات 88 تا 92 پیش کروں گا جس میں اللہ رب العزت اس عقیدے پر اپنے غضب کا اظہار فرما رہا ہے ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ( 88 )
اور کہتے ہیں کہ رحمن (اللہ) بیٹا رکھتا ہے
لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ( 89 )
(ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری بات (زبان پر) لائے ہو
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ( 90 )
قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں
أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ( 91 )
کہ انہوں نے رحمٰن (اللہ) کے لئے بیٹا تجویز کیا
وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ( 92 )
اور رحمٰن کیلئے شایان شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔
ان آیات میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کیلئے بیٹے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، وہ ایسی سخت بات کرتے ہیں کہ جس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اللہ رب العزت یکتا ہے اور اس کا کسی امر میں کوئی شریک نہیں۔
اسی تہوار کے دنوں میں ہمارے ''انٹرٹینمٹ '' کے چینلز جن میں جیو کا اخلاق سوز ڈرامہ '' یہ زندگی ہے'' (جس کا کام ہی لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنا ہے ۔ گالی گلوچ، لعن طعن اور لڑائی جھگڑوں کے مناظر سے یہ ڈرامہ بھرا ہوا ہے ) اول نمبر پر ہے، کرسمس کی خوشیاں بانٹتے نظر آئے۔ پروڈیوسر نے تو یہاں تک حد کردی کہ اپنی بیٹی کے ذریعے کرسمس کی ''خوشیوں'' (نعوذ باللہ) کو عوام تک پہنچایا۔ اس ڈرامے کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی خاص دن یا تہوار پر اپنی قسط میں ''ٹوئسٹ'' بھرتے ہیں۔ کبھی تو شب برات مناتے نظر آتے ہیں تو کبھی قائد اعظم کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔ کبھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد شریف مناتے ہیں اور باقاعدہ میلاد شریف کی محفلیں سجا کر ہدیہ نعت پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف کرسمس کے تہوار کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایک ''خوشی'' ہے !! انا للہ وانا الیہ راجعون
اوپر پیش کردہ آیات قرآنی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیجئے کہ ع یہ اندازِ مسلمانی ہے؟ ہم کس کی تعلیمات کی پیروی کر رہے ہیں ؟ کیا ہم واقعی طرز ِ مسلمانی اپنا رہے ہیں اور کیا واقعی یہ میڈیا اور ٹی وی چینلز ہماری تربیت کر رہے ہیں؟ یہ ہمیں کس طرف لے جارہے ہیں؟ اور عوام کیوں بے دھڑک ہر بات کو ہضم کرجاتے ہیں ؟
اقبال مرحوم کیا خوب کہہ گئے ہیں ع
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر