کرسمس کا تہوار اور مبارکباد -- کس کھاتے میں ؟؟

25 دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس کا تہوار مناتی ہے ۔ اس تہوار کی غرض و ٍ غایت بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ مختصر یہ کہ نصاریٰ کے نزدیک اس دن اللہ کے بیٹے (نعوذ باللہ من ذالک) کی پیدائش ہوئی ۔ یہ عقیدہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ خود قرآن کریم ً میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس عقیدے کا ذکر کیا ہے اور نہایت غضب کا اظہار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرنقص سے پاک ذات ہے ۔ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے (لم یلد ولم یولد - اخلاص :3) ۔
بحمدللہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس عقیدہ پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان پر "انجیل “ نازل کی گئی جس میں بعد میں تحریف کردی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر لٹکانے کی ناکام کوشش کی اور اپنی انبیاء دشمنی کا ثبوت دیا لیکن اللہ رب العزت نے انھیں با حفاظت آسمان پر اٹھالیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت کے وقت دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے ۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے دینی شعور انتہائی کم ہے اور لوگوں میں سنی سنائی باتوں اور دوسری کی دیکھا دیکھی اعمال کرنے کی عادت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دینی تعلیم کی کمی اور خاندان یا علاقے کے بڑوں بوڑھوں کی اندھی تقلید ہے۔ہمارے معاشرے میں بیشتر رسومات صرف اپنے بڑے بوڑھوں کے کرنے کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کئی رسمیں اور کھیل تماشے دین کے نام پر کرتے ہوئے ملیں گے۔
چونکہ بات کرسمس کے حوالے سے کرنی ہے لہذا میں اپنے موضوع پر آؤں گا۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کرسمس منانے کا بنیادی مقصد کس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عقیدہ ہر مسلمان کیلئے ناقابل قبول ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود اللہ رب العزت اپنی کتاب میں اس عقیدہ فاسدہ کی مذمت اور تردید فرماچکا ہے ۔ میں یہاں صرف سورہ مریم کی آیات 88 تا 92 پیش کروں گا جس میں اللہ رب العزت اس عقیدے پر اپنے غضب کا اظہار فرما رہا ہے ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ( 88 )
اور کہتے ہیں کہ رحمن (اللہ) بیٹا رکھتا ہے
لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ( 89 )
(ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری بات (زبان پر) لائے ہو
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ( 90 )
قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں
أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ( 91 )
کہ انہوں نے رحمٰن (اللہ) کے لئے بیٹا تجویز کیا
وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ( 92 )
اور رحمٰن کیلئے شایان شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔

ان آیات میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کیلئے بیٹے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، وہ ایسی سخت بات کرتے ہیں کہ جس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اللہ رب العزت یکتا ہے اور اس کا کسی امر میں کوئی شریک نہیں۔
اسی تہوار کے دنوں میں ہمارے ''انٹرٹینمٹ '' کے چینلز جن میں جیو کا اخلاق سوز ڈرامہ '' یہ زندگی ہے'' (جس کا کام ہی لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنا ہے ۔ گالی گلوچ، لعن طعن اور لڑائی جھگڑوں کے مناظر سے یہ ڈرامہ بھرا ہوا ہے ) اول نمبر پر ہے، کرسمس کی خوشیاں بانٹتے نظر آئے۔ پروڈیوسر نے تو یہاں تک حد کردی کہ اپنی بیٹی کے ذریعے کرسمس کی ''خوشیوں'' (نعوذ باللہ) کو عوام تک پہنچایا۔ اس ڈرامے کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی خاص دن یا تہوار پر اپنی قسط میں ''ٹوئسٹ'' بھرتے ہیں۔ کبھی تو شب برات مناتے نظر آتے ہیں تو کبھی قائد اعظم کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔ کبھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد شریف مناتے ہیں اور باقاعدہ میلاد شریف کی محفلیں سجا کر ہدیہ نعت پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف کرسمس کے تہوار کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایک ''خوشی'' ہے !! انا للہ وانا الیہ راجعون
اوپر پیش کردہ آیات قرآنی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیجئے کہ ع یہ اندازِ مسلمانی ہے؟ ہم کس کی تعلیمات کی پیروی کر رہے ہیں ؟ کیا ہم واقعی طرز ِ مسلمانی اپنا رہے ہیں اور کیا واقعی یہ میڈیا اور ٹی وی چینلز ہماری تربیت کر رہے ہیں؟ یہ ہمیں کس طرف لے جارہے ہیں؟ اور عوام کیوں بے دھڑک ہر بات کو ہضم کرجاتے ہیں ؟
اقبال مرحوم کیا خوب کہہ گئے ہیں ع
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
 
کفایت ہاشمی بھائی!
دو چیزیں ہیں ایک ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جان کر ان کی ولادت منانا اور دوسرا ہے اللہ کے نبی کی پیدائش سمجھتے ہوئے ان کے میلاد کو منانا۔
اللہ کے نبی کی ولادت کی خوشی منانے میں کوئی خاص مضائقہ نہیں البتہ عقیدہ شرکیہ نہ رکھا جائے۔اور میرا نہیں خیال کہ کوئی مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ رکھتا ہو۔
 

arifkarim

معطل
ہمارے معاشرہ میں یہ بات عام ہے کہ کرسمس ایک عیسائی تہوار ہے یا یہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے، حالانکہ اسکے برعکس مغربی ممالک میں یہ تہوار اب عیسائیت سے کوسوں دور محض ثقافتی تہوار بن گیا ہے جیسا کہ یہ یہاں عیسائیت سے قبل تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Yule
 
کفایت ہاشمی بھائی!
دو چیزیں ہیں ایک ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جان کر ان کی ولادت منانا اور دوسرا ہے اللہ کے نبی کی پیدائش سمجھتے ہوئے ان کے میلاد کو منانا۔
اللہ کے نبی کی ولادت کی خوشی منانے میں کوئی خاص مضائقہ نہیں البتہ عقیدہ شرکیہ نہ رکھا جائے۔اور میرا نہیں خیال کہ کوئی مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ رکھتا ہو۔

آپ نے میرے مقصد تحریر کو سمجھا نہیں۔ میری گزارشات کا یہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو کیا ضرورت پڑی ہے نصاریٰ کے تہوار کو منانے کی ؟ جبکہ نصاریٰ کرسمس کو ولادت مسیح علیہ اسلام کے طور پر مناتے ہیں اور ان کے نزدیک مسیح علیہ السلام ٌ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔خود 25 دسمبر کی تاریخ کا کیا قطعی ثبوت ہے کہ اسی روز مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔
اگر ولادت کی خوشی منانا دین میں ہوتا تو یہ کام سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کرتے بلکہ خود اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتا۔ یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے کہ مسلمان” کرسمس“ منائیں اور یہ سمجھ کر منائیں کہ اس روز نبی اللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہ تو حد ہوجائے گی ذہنی غلامی کی۔
یقینا کوئی مسلمان سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے وہ کام کرنے دیا جائے جس سے ایک تو مشرکوں کی مشابہت ہو اور اسے دوسرا اسے شرک کے قریب لے جائے۔
 
ہمارے معاشرہ میں یہ بات عام ہے کہ کرسمس ایک عیسائی تہوار ہے یا یہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے، حالانکہ اسکے برعکس مغربی ممالک میں یہ تہوار اب عیسائیت سے کوسوں دور محض ثقافتی تہوار بن گیا ہے جیسا کہ یہ یہاں عیسائیت سے قبل تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Yule

جناب آپ تو اپنے وکی پیڈیا کے ذریعہ کو اپنے پاس ہی رکھیں۔ یہ کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے جبکہ اسی وکی پیڈیا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بدبخت جسارت کی تھی۔ اگر آپ Christmas کےلفظ پر کلک کر کے اس کی تاریخ پڑھ لیتے یا Jesus کے حوالے سے پڑھ لیتے تو آپ کو پوسٹ کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔ ویسے دیکھا گیا ہے کہ آپ تشکیک کے ماہر ہیں۔ غیر متعلقہ بات کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ جبکہ آپ کا حوالہ بھی کرسمس سے متعلق نہیں ہے۔
 
آپ نے میرے مقصد تحریر کو سمجھا نہیں۔ میری گزارشات کا یہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو کیا ضرورت پڑی ہے نصاریٰ کے تہوار کو منانے کی ؟ جبکہ نصاریٰ کرسمس کو ولادت مسیح علیہ اسلام کے طور پر مناتے ہیں اور ان کے نزدیک مسیح علیہ السلام ٌ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔خود 25 دسمبر کی تاریخ کا کیا قطعی ثبوت ہے کہ اسی روز مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔
اگر ولادت کی خوشی منانا دین میں ہوتا تو یہ کام سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کرتے بلکہ خود اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتا۔ یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے کہ مسلمان” کرسمس“ منائیں اور یہ سمجھ کر منائیں کہ اس روز نبی اللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہ تو حد ہوجائے گی ذہنی غلامی کی۔
یقینا کوئی مسلمان سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ نہیں رکھتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے وہ کام کرنے دیا جائے جس سے ایک تو مشرکوں کی مشابہت ہو اور اسے دوسرا اسے شرک کے قریب لے جائے۔
بھائی علاقائی رسم و رواج اور تہوار ہمیشہ سے منائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان پر اسلام نے کوئی قدغن لگائی۔
اگر آپ بنیادی بات کی طرف جائیں تو وہ ہے میلاد منانا جائز ہے یا نہیں صرف اس پر رائے دے دیں پھر مزید بحث کی جا سکتی ہے۔
یہ تو حد ہوجائے گی ذہنی غلامی کی۔
بھیا یہ قوم ذہنی غلام تو ہے اس میں کوئی شک نہیں۔
اسے دوسرا اسے شرک کے قریب لے جائے۔

ایسا بندہ جس کی توحید کمزور ہو اسے ان حرکات سے ممکنہ حد تک بچنا چاہیے۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عیسیٰی علیہ السلام کی پیدائش کا زمانہ جولائی یا اگست کا ہو سکتا ہے۔ دسمبر کا ہرگز نہیں۔

سورۃ مریم میں اللہ تعالٰی نے حضرت مریم علیہ السلام کو وحی کے ذریعے کہا کہ کھجور کے تنے کو زور سے ہلاؤ۔ تو پکی ہوئی کھجوریں ان پر گریں جو انہوں نے غذا کے طور پر استعمال کیں۔ اور دنیا جانتی ہے کہ عرب میں کھجوریں جولائی اگست میں ہی پکتی ہیں۔ نہ کہ دسمبر میں پکی ہوئی کھجوریں درختوں پر لگی رہتی ہیں۔
 
ہمارے ٹی وی ڈرامے کن موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ کالج کے لڑکے کو اپنی کلاس فیلو سے محبت ہوگئی ، کسی گاؤں کے وڈیرے یا با اثر شخصیت کے بیٹے یا بیٹی کو اپنی حویلی کی نوکرانی یا نوکر سے محبت ہوگئی ، کسی شہر کے بابو کو گاؤں کی اجٹ لڑکی بھا گئی، کسی لڑکی کی عصمت دری ہوگئی یا پھر طلاقیں ہوگئیں اور پھر کئی کئی ہفتوں بلکہ مہینوں کہانی اسی موضوع کے گرد گھومتی ہے۔ کبھی کسی اچھے با مقصد موضوع پر ہمارے یہاں (الا ماشاءاللہ) کچھ بھی نہیں دکھایا گیا ۔ اب تو رہی سہی کسر بھارتی اور ٹرکش ڈراموں نے پوری کردی ہے جس میں مورتیوں ، آرتیوں ، بے حیا لباس ، افعال اور باتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
 
بھائی علاقائی رسم و رواج اور تہوار ہمیشہ سے منائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان پر اسلام نے کوئی قدغن لگائی۔
اگر آپ بنیادی بات کی طرف جائیں تو وہ ہے میلاد منانا جائز ہے یا نہیں صرف اس پر رائے دے دیں پھر مزید بحث کی جا سکتی ہے۔
میرے بھائی کرسمس کا تہوار کوئی علاقائی رسم یا تہوار نہیں ہے۔ نعوذاللہ خدا کے بیٹے کی پیدائش کی خوشی ہے (نقل کفر کفر نباشد)۔ کیا یہ تہوار منانا ایک مسلمان کے شایان شان ہے ؟؟؟ فرض کریں کہ ایک شخص محض ولادت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر منا رہا ہے تب بھی یہ کفار و مشرکین کی مشابہت ہوگی جس کی حدیث شریف میں ممانعت ہے۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ 25 دسمبر ولادت مسیح علیہ السلام کی قطعی و حتمی تاریخ نہیں ہے ، نہ کوئی مستند بات ہے۔ خواہ مخواہ کسی کو شرک کے گھڑے کے قریب لانے کا کیا فائدہ !
جہاں تک نفس میلاد منانے کی بات ہے تو یہ چونکہ میرا موضوع نہیں ہے۔ میں نے جس پیغام کیلئے اپنی رائے یہاں درج کی ہے ، براہ کرم اس سے باہر نہ جائیں۔ میں ویسے بھی اختلافی اور مسلکی مسائل میں کسی سے نہیں الجھتا اور نہ مجھے اس بات کا شوق ہے کہ کوئی میری مانے یا میں کسی سے اپنی منواؤں۔

ایسا بندہ جس کی توحید کمزور ہو اسے ان حرکات سے ممکنہ حد تک بچنا چاہیے۔:)

بڑی عجیب بات کی آپ نے !! توحید کوئی پیمانہ تو نہیں جس کو تولہ جائے کہ کم ہوگئی ہے یا زیادہ۔ یہ تو انسان کے اپنے رب سے تعلق اور دینی علوم کی سمجھ بوجھ پر منحصرہے کہ آپ کتنے موحد ہیں، آپ کا عقیدہ کتنا مضبوط ہے۔
عام طور پر لوگ اپنے تئیں موحد سمجھ کر ہی شرکیات میں مبتلا ہوتے ہیں۔انہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ ہماری توحید "کمزور“ ہوگئی ہے !!
 
ہمارے معاشرہ میں یہ بات عام ہے کہ کرسمس ایک عیسائی تہوار ہے یا یہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے، حالانکہ اسکے برعکس مغربی ممالک میں یہ تہوار اب عیسائیت سے کوسوں دور محض ثقافتی تہوار بن گیا ہے جیسا کہ یہ یہاں عیسائیت سے قبل تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Yule
لیکن ہمارا ملک مغربی ملک نہیں ہے۔ اور ہماری ثقافت میں کرسمس کی کوئی جگہ نہیں۔
 
اچھا تو یہ مراد ہے مومی سے !
انا للہ و انا الیہ راجعون
میرے محترم بھائی عسکری ، اللہ آپ کو عسکرِ اسلام میں شامل فرمائے آمین ۔ ایمان بہت نازک شے ہے۔ اس کے چلے جانے میں دیر لگتی ہے نہ پتہ چلتا ہے۔ اس کی حفاظت کی ہمیشہ دعا مانگنی چاہیے۔ کرسمس کفار کا ایک تہوار ہے جس میں ملوث ہونے سے ایمان خطرے میں پڑے گا کیونکہ یہ شرک کی طرف دھکیلے گا اور شرک وہ گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ کریم قرآن میں ارشاد فرماچکا ہے کہ وہ کبھی معاف نہیں ہوگا (الا یہ کہ سچی توبہ کرکے موحد بن جائے)۔
براہ کرم اس بات کو ہلکا یا مذاق میں نہ لیں۔
 
اگر عیسائی کمیونٹی کے لوگ جو اپکے آس پاس رہتے ہوں یا کام کرتے ہوں، آپکے تہواروں یعنی عید ین اور دوسرے مواقع پر اپکو مبارکبادیں دیتے ہین تو کیا حرج ہے اگر آپ بھی انکی خوشیوں میں محض انسانیت کے ناطے اور تالیفِ قلوب کے ناطے شامل ہوجائیں۔ یعنی انکو بھی انکے اس تہوار پر مبارکباد دے دیں۔۔۔وہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشی ہی مناتے ہیں ، آپ بھی اللہ کے ایک برگزیدہ نبی کی پیدائش پر خوشی منانے والے لوگوں کو مبارکباد دے دیں تو اس میں کیا حرج ہے۔۔۔کیونکہ جب آپ ایک انسان کی پیدائش کی مبارکباد دے رہے ہیں تو اسی لمحے آپ اس عقیدے کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہاں وہ تو ایک انسان تھے۔ کیونکہ جو پیدا ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔۔۔:)
 

arifkarim

معطل
جناب آپ تو اپنے وکی پیڈیا کے ذریعہ کو اپنے پاس ہی رکھیں۔ یہ کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے
ایسے ہی مستند ذریعہ نہیں ہے؟ اگر آپکو حوالوں پر اعتراض ہے تو اسی وکی پیڈیا پر تمام حوالے بھی موجود ہیں۔ یہاں اسکینڈینیویا میں کرسمس کو اسکے عیسائیت سے قبل نام یعنی Yule ہی کہا جاتا ہے!
 

arifkarim

معطل
لیکن ہمارا ملک مغربی ملک نہیں ہے۔ اور ہماری ثقافت میں کرسمس کی کوئی جگہ نہیں۔
اگر ہماری عیسائی برادری کو ہمارے عید منانے اور عید مبارک کہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر ہم مسلمانوں کو کیوں مسیحیوں کے کرسمس منانے اور انہیں میری کرسمس کہنے پر اعتراض ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
اگر عیسائی کمیونٹی کے لوگ جو اپکے آس پاس رہتے ہوں یا کام کرتے ہوں، آپکے تہواروں یعنی عید ین اور دوسرے مواقع پر اپکو مبارکبادیں دیتے ہین تو کیا حرج ہے اگر آپ بھی انکی خوشیوں میں محض انسانیت کے ناطے اور تالیفِ قلوب کے ناطے شامل ہوجائیں۔ یعنی انکو بھی انکے اس تہوار پر مبارکباد دے دیں۔۔۔ وہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشی ہی مناتے ہیں ، آپ بھی اللہ کے ایک برگزیدہ نبی کی پیدائش پر خوشی منانے والے لوگوں کو مبارکباد دے دیں تو اس میں کیا حرج ہے۔۔۔ کیونکہ جب آپ ایک انسان کی پیدائش کی مبارکباد دے رہے ہیں تو اسی لمحے آپ اس عقیدے کو ثابت کر رہے ہیں کہ ہاں وہ تو ایک انسان تھے۔ کیونکہ جو پیدا ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔۔۔ :)
یعنی کے دوسرے کا لال منہ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑ مار مار کر لال کر لو۔

جب آپ کو معلوم ہے کہ ان کے کرسمس منانے کے پیچھے کیا جواز ہے تو آپ ان کے ساتھ ملکر اس جواز کا درست ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ آپ کا ایمان اس کو ماننے سے انکاری ہے۔
 
Top