سید زبیر
محفلین
کرنل محمد خان کی کتاب " بزم آرائیاں " سے ایک اقتباس
کار بکاؤ ہے
" ہم سے پہلے بھی کوئی صاحب گزرے ہیں جنہوں نے بیٹھے بٹھائے بکری پال لی تھی اور پھر عمر بھر اس کے زانو پر سر رکھے منمناتے رہے تھے ۔ہمیں غیب سےیہ سوجھی کہ اتفاق سے ولائت جا رہے ہیں 'کیوں نہ وہاں سے نئی کار لائی جائے ؟ یعنی کیوں نہ جانے سے پہلے پرانی کار بیچ دی جائے ؟ اور یہ سوچنا تھا کہ جملہ اندیشٔہ شہر کو لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیا اور کار بیچنا شروع کردی ۔بوٹی بوٹی کر کے نہیں سالم ! ۔ ہمارے کار فروشی کے فعل کو سمجھنے کے لیے کار سے تعارف لازم ہے یہ کار ان کاروں میں سے نہ تھی جو خود بک جاتی ہیں اس متاع ہنر کے ساتھ ہمارا اپنا بکنا بھی لازم تھا یعنی اس کا ر کے بیچنے کے لیے ایک پنج سالہ منصوبے کی ضرورت تھی لیکن ہمارے پاس صرف تین دن تھے کہ چوتھے روز ہم نے فرنگ کو پرواز کر جانا تھا سو ہم نے از راہ ِ مجبوری ایک سہ روزہ کریش پروگرام بنایا جس کا مختصر اور مقفٰی لب لباب یہ تھا :آج اشتہار 'کل خریدار اور پرسوں تیس ہزار !سو ہم نے اشتہار دے دیا
کار بکاؤ ہے
' ایک کار 'خوش رفتار 'آزمودہ کار 'قبول صورت ' فقط ایک مالک کی داشتہ 'مالک سمندر پار جارہا ہے ۔فون نمبر ۶۲۲۰۹ سے رابطہ کریں '
یہ سب کچھ صحیح تھا لیکن جو اس سے بھی صحیح تر تھا ۔۔۔۔۔اور جسے ہم اشتہار میں بالکل گول کر گئے تھے وہ موصوفہ کی عمر تھی جس کا صحیح اندازہ حضرت خضر کے سوا کسی کو نہ تھا وہ طویل مسافت تھی جو محترمہ طے کرتے کرتے لڑکھڑانے لگی تھی اور اس کے اندرونی اعضاء کی وہ باہمی شکر رنجیاں تھیں جنہیں شیر و شکر کرنے میں ممدوحہ کے مالک اور گردونواح کے جملہ مستری بے بس تھے ۔ دوسری صبح اشتہار کے جواب میں ٹیلیفون آیا "السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ' اس متشرع سلام کے جواب میں ہم نے صرف وعلیکم السلام کہا جو بہت ناکافی محسوس ہوا ہمیں ذرا شک سا تھا کہ وعلیکم السلام کے ساتھ بھی برکاتہ 'وغیرہ لگ سکتاے ہیں یا نہیں ورنہ جی تو چاہا کہ سلام کا دمدار ستارہ بنا کر پیش کریں اتنے میں ادھر سے آواز آئی ' بندہ پرور یہ کار کا اشتہار آپ نے دیاہے ' ۔۔۔۔جی ہاں ۔۔۔کس ساخت کی ہے؟۔۔۔ فوکس ویگن ہے جناب آجکل بڑی مقبول ہے ۔۔۔ بجا فرمایا آپ نے ، کون سا ماڈل ہے ؟۔۔۔ایسا پرانا نہیں نئے ماڈل سے ملتا جلتا ہے ۔۔۔' میرا مطلب ہے کس سال کی ساخت ہے ؟۔۔۔ اب ساخت تو دس سال پہلے کی تھی لیکن جواب میں یوں کھلم کھلا سچ بولنا ہمیں موافق نہ تھا ۔۔ادھر جھوٹ بولنا بھی نا واجب تھا ۔ معاً ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ خریدار کے شرعی رجحانات کے پیش نظر کار کی تاریخ عیسوی کی بجائے سال ہجری میں بتائی جائے ۔ شاید شعائر اسلامی کے احترام میں مزید موشگافی نہ کرے ۔ بد قسمتی سے ہمیں موجودہ سال ہجری کا صحیح علم نہ تھا کچھ اندازہ سا تھا اس سے آٹھ سو سال سے منہا کرکے کہا ' قبلہ ۱۳۷۷ ہجری کی ساخت ہے ۔ الحمد و للہ ، آ پ تو بڑے صالح مسلمان معلوم ہوتے ہیں ، ہاں تو آپ نے فرمایا ۱۳۷۷ ہجری ، موجودہ سال ۱۳۹۰ گویا تیرہ سال پہلے کا ماڈل ہے ؟ ہم اپنے پھیلائے ہوئے دام تزویر میں پھنس چکے تھے بہر حال ہم نے پھڑ پھڑ ا کر نکلنے کی کوشش کی یعنی جب ہجری کا آلۂ کار نہ بنا سکے تو سیکولر پینترا بدلا ' جناب معاف فرمائیے گا ، صرف دس سال پہلے کا ماڈل ہے ۔'۔۔۔۔دس اور تیرہ میں کوئی خاص فرق نہیں ۔۔کتنے میل کر چکی ہے ِ ۔۔۔ہمیں اسی سوال کا ڈر تھا حقیقت یہ تھی کہ گزشتہ دس سال میں اگر ہماری کار ادھر ادھر چلنے کی بجائے خط مستقیم میں چلتی رہتی اور تیر بھی سکتی تو بحر الکاہل کے رستے دنیا کے چار چکر کاٹ چکی ہوتی یعنی ویر چکر کی مستحق ہوتی۔ اس کا سپیڈومیٹر ننانوے ہزار نو سو ننانوے میل بتاتا تھا کہ اس سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکتا تھا ورنہ حقیقت تو یہ تھی کہ نکل گیا تھا وہ کوسوں دیار حرماں سے ، اور اس حقیر کرہ ار ض کا محیط زبوں تو فقط پچیس ہزار میل ہے اور اگر اڑ بھی سکتی تو تو کون کہہ سکتا ہے کہ جب نیل آرمسٹرانگ چاند پر اترتے تو تو پہلی چائے غریب خانے پر نہ پیتے الغرض ہماری کار اب دشت امکاں عبور کرنے کے بعد تمنا کا دوسرا قدم تول رہی تھی مگر افسوس کہ ہمارے گاہک کو کار کی ان ماورائی صفات میں دلچسپی نہ تھی ' چنانچہ اس سوال کا جواب دیتے ہوے کہ کتنے میل کر چکی ہے ، زبان میں رعشہ پیدا ہونے لگا بہر حال ہم نے اللہ کا نام لےکر ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا تقریباً ننانوے ہزار نو سو ننانوے میل ' ہمیں یقین تھا کہ کہ یہ سن کر یا تو اپنا فون توڑ ڈالیں گے یا گریبان پھاڑ ڈالیں گے لیکن خلاف توقع ادھر سے توڑ پھوڑ کی کوئی آواز نہیں آئی بلکہ ایک امید افزا سوال سنائی دیا : کتنی قیمت ہے ؟ ، ،،،تیس ہزار ۔۔۔ یہ ہم نے آدھے سانس میں کہا اور کامیابی سے اچھو کو روکا ادھر سےمولانا صاحب کی آواز آئی ؛ جناب بندہ ، آپ کی کار دس سال پرانی ہے ایک کم ایک لاکھ میل چلی ہوئی ہے آپ کے کہنے کے مطابق حالت اچھی ہے مجھے آپ پر اعتبار ہے تین ہزار روپے قبول فرمائیے گا ؟ ۔۔ کیا فرمایا آپ نے ؟ یہ جملہ ہمارے منہ سے اضطراراً نکلا تھا ورنہ ہم نے تین ہزار کی پیشکش اچھی طرح سن لی تھی فقط ہمارے دل میں ایک فوری قہر نے کرو ٹ لی تھی وہ قہر جو کبھی پطرس کے دل میں ابھرا تھا جب خدا بخش کے ساتھی نے ان کی تاریخی سائیکل کی قیمت چند ٹکے تجویز کی تھی اور پطرس نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا : ' او صنعت و حرفت سے پیٹ پالنے والے انسان ! مجھے اپنی توہین کی تو پرواہ نہیں لیکن تو نے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بے زبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے اس کے لیےمیں تجھے قیامت تک معاف نہیں کروں گا ' ہمارے غیر ارادی سوال کے جواب میں آواز آئی : میں نے عرض کیا تھا تین ہزار ۔۔لیکن آپ کو اس سے بہتر قیمت مل سکے تو بڑے شوق سے دوسری جگہ بیچ دیں ویسے زحمت نہ ہو تو میری پیشکش بھی کسی کونے میں نوٹ کرلیں ۔ میرا فون نمبر یہ ہے اور میرا نام عبدالغفور ہے خاکسار کو مولوی عبدالغفور کہتے ہیں ، تو یہ مولوی تھے ،جبھی تو فرفر ہجری کی عیسوی بنا ڈالی بہر حال ہم نے اپنے سارے غصے کا ایک فقرہ بنا کر مولوی صاحب کو پیش کیا : آپ سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے ؟'۔۔ جواب میں ہلکی سی ہنسی سنائی دی اور ہ کچھ اس قسم کی گنگناہٹ کہ جواب تلخ مے زیبد لبِ لعلِ شکر خارا اور پھر آہستگی سے فون بند ہوگیا ۔ بڑا طناز مولوی تھا ظالم!
تھوڑی دیر بعد ایک اور خریدار کا انگریزی بولتا ہوا فون آیا ۔ ' چھوٹے والا اشتہار موٹر کے بارے میں آپ لوگ دیا ؟ ۔۔ جی ہاں ! میں نے ہی دیا ہے ۔۔۔کون والا کار ہے ؟ ، ' فوکس ویگن والا ۔۔ اس میں ریڈیو ہے ؟ ۔ جی نہیں ۔۔۔ یہ تو بڑا بیک ورڈ ہے ہم سمجھ گئے یہ اینگلو ورنیکلر صاحب محض ٹیلیفون قریب ہونے کی وجہ سے گاہک بن بیٹھے ہیں اور مطلب کار خریدنا نہیں خریدنے کا سودا لینا ہے عرض کیا : جناب اس کار کا بڑا نقص یہ نہیں کہ ریڈیو نہیں رکھتی بلکہ یہ کہ رولز رائس نہیں ۔ فوکس ویگن میں بھی ریڈیو لگ سکتا ہے '۔۔۔ لگنے کو تو شہد کا چھتہ بھی لگ سکتا ہے مگر خاکسار کی کار میں یہ ایکسٹرا فٹنگ نہیں ، گڈ بائی ' ایک دو اور فون آئے لیکن کار کی عمر رفتہ اور سفر گذشتہ کا ذکر آیا تو با مقصد گفتگو کا سلسلہ ٹوٹ گیا اس طرح شام ہو گئی ،شام کی صبح ہوئی ٹیلیفون ہمارے پہلو میں پڑا تھا لیکن چپ ، سامنے آخری شب تھی یعنی پرواز میں چند ساعتیں باقی تھیں ہم نے سوچا کہ اگر کار نہ بکی اور اس عالم پیری میں اسے تین ماہ گیراج میں گزارنے پڑے تو جوڑوں کے درد کا شکار ہوجائے گی اور پھر شاید کوئی مولوی غفور بھی میسر نہ آئے چلو مولوی صاحب سے ہی رجوع کریں لیکن فو ن اٹھا یا تو ساتھ ہی مولوی صاحب کی ہنسی اور گنگاہٹ یا د آئی ۔ سوچا سبک سر ہو کر کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو ، مگر اندر سے آواز آئی میاں غالب کا پرابلم تمہارے پرابلم سے سراسر مختلف تھا وہ عشق کا معاملہ تھا یہ تجارت کی بات تھی بے تکلف فون کرو ہم نے بے تکلف مولوی صاحب کا فون نمبر ملایا اور سلام اور رحمتیں اور برکات بھیجنے کے بعد کہا : مولانا ساڑھے تین ہزار میں کار آپ کی ہے ، چاہیں تو آج ہی لے جائیں ۔ تین پر ساڑھ کا اضافہ مولوی صاحب کی فتح کو جزوی شکست دینے کی خاطر تھا ۔لیکن قاری محترم ' قصہ کوتاہ اسی شام مولوی صاحب ایک سو کم تین ہزار میں کار لے گئے ایک سو کم اس لیے کہ بقول مولوی صاحب پچھلی بات چیت کے بعد کار چند قدم چل کر اور بوڑھی ہو چکی تھی اور کچھ یہ بھی کہ مولوی صاحب کی خودی ہماری خودی سے ٹکرا کر ذرا زیادہ پائیدار نکلی تھی ۔۔ "پس تحریر : اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی گاڑی میں نے گذشتہ ماہ فروخت کی ہے مگر میری گاڑی شاید اچھی بک گئی