فاتح
لائبریرین
عبید اللہ علیم کے تیسرے شعری مجموعے "نگارِ صبح کی امید میں" سے ایک غزل
کس خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی
زندان نظر آیا، زنجیر نظر آئی
سب اپنے عذابوں میں سب اپنے حسابوں میں
دنیا یہ قیامت کی تصویر نظر آئی
کچھ دیکھتے رہنے سے، کچھ سوچتے رہنے سے
اک شخص میں دنیا کی تقدیر نظر آئی
جلتا تھا میں آگوں میں، روتا تھا میں خوابوں میں
تب حرف میں یہ اپنی تصویر نظر آئی
دربار میں حاضر ہیں پھر اہلِ قلم اپنے
کیا حرف و بیاں میں ہے تاثیر، نظر آئی
کچھ خواب گلاب ایسے، کچھ زخم عذاب ایسے
پھر دل کے کھنڈر میں اک تعمیر نظر آئی
اک خواب کے عالم میں دیکھا کیے ہم دونوں
لو شمع کی شب ہم کو شمشیر نظر آئی
آبا کی زمینوں میں وہ کام کیا ہم نے
پھر ان کی زمیں اپنی جاگیر نظر آئی
1988
زندان نظر آیا، زنجیر نظر آئی
سب اپنے عذابوں میں سب اپنے حسابوں میں
دنیا یہ قیامت کی تصویر نظر آئی
کچھ دیکھتے رہنے سے، کچھ سوچتے رہنے سے
اک شخص میں دنیا کی تقدیر نظر آئی
جلتا تھا میں آگوں میں، روتا تھا میں خوابوں میں
تب حرف میں یہ اپنی تصویر نظر آئی
دربار میں حاضر ہیں پھر اہلِ قلم اپنے
کیا حرف و بیاں میں ہے تاثیر، نظر آئی
کچھ خواب گلاب ایسے، کچھ زخم عذاب ایسے
پھر دل کے کھنڈر میں اک تعمیر نظر آئی
اک خواب کے عالم میں دیکھا کیے ہم دونوں
لو شمع کی شب ہم کو شمشیر نظر آئی
آبا کی زمینوں میں وہ کام کیا ہم نے
پھر ان کی زمیں اپنی جاگیر نظر آئی
1988