کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

محمدصفدر
SAM_Michelangelo_sketch.jpg


ادب برائے ادب کہ ادب برائے زندگی، دونوں مفروضے مکمل طور پر درست ہیں نامکمل طور پر غلط ۔ ادب کی ذمہ داری اخلاقی محاسن کا پیدا کرنا ہے نہ ہی ادب زندگی کے اس رُخ سے منہ پھیر سکتا ہے ۔ادیب خلا میں رہتا ہے اور نہ خیال آسمان سے وارد ہوتا ہے ۔ زندگی کا مکمل تجربہ جب گہرے مشاہدے کی کوکھ سے پل کرنکلتا ہے تو ادب تخلیق ہوتا ہے ۔ شاعری ادب کاانتہائی تخلیقی جزو ہے ۔ شاعر زندگی کی زمین کے بنجر پن سے بھی شعر نکال لاتا ہے اور فطرت کی رنگینیاں بھی اسے شعری مواد مہیا کرتی ہیں ۔ معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی تمنا بھی شعروں میں بولتی ہے ، ذاتی زندگی کے کرب ، محبوب سے وصل وفراق کے تعلق ، قومی زندگی کے آلام اور بین الاقوامی حالات وواقعات بھی شعری اظہار کی صورت جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ اگر بڑی شاعری کو توضیحات کے دائروں میں پر کھنے کی کوشش کی جائے تو متعین شدہ تعریف کا کوئی نہ کوئی ایسا جزو ضرور ہوتا ہے جو بڑے شاعر کی شاعری میں غیر حاضر ہوتا ہے ۔ غالب اگرآج پیدا ہوتا تو کیاشعر کہتا ، اقبال آج ہوتا تو کیا لکھتا یہ سوال پوچھنے میں محمل لگتا ہے ،مگر ہے بڑا اہم ۔ ایک عزیز کا کہنا ہے کہ برقی پیغامات (ایس ایم ایس)کے ذریعے فراز کے شعروں کی جو درگت بنی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ فراز جسم کا شاعر تھا ، ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلائی گئی ساری یا دہ گوئی ثابت کرتی ہے کہ وہ جذبات کی نمائندگی کرنے والے شاعروں میں سے ہے ۔
مجھے اس مفروضے سے اختلاف ہے ۔ احمد فراز نے بہت لکھا۔ اس افراط کو دیکھ کرا کثرگمان ہوتا ہے کہ یہ ایسے شخص کی شاعری ہے جو بہت کچھ کہناچاہتا ہے لیکن اس کے پاس وقت کم ہے ۔ فراز نے جدید انسان کے نہاں خانوں میںاٹھتے ہر جذبے، ہر خوف ،ہر خواہش، ہر لالچ ، ہر غصے کو شعری روپ دینے کی کوشش کی ۔ مے کدوں سے نیم وا آنکھوں سے ٹپکتی شراب کے نشے تک ہر نشے سے سیراب رہنے والے تخلیقی آدمی کی کاوش کو اگر قبول عام کی سند ملی تو اس میں کچھ تو ایسا تھا جو ''ازدل خیزدبردل رینرد'' کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ موسم کی بدلتی ادا دیکھ کر لوگوں کو بدلتا دیکھنا ایک شاعرانہ خیال ہی نہیں ایک پوری الف لیلوی داستان ہے ۔ فراز کی تمام شاعری ایسے ہی جذبوں کی نمائندہ ہے جو عام لوگوں کے دلوں میں پرورش پاتے ہیں۔نقادوں کی اکثریت فراز کوبڑے شاعروں کی صف میں رکھنے سے شاید اس لیے کتراتی ہے کہ وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ ریڑھی لگانے والوں کی زبان بولتا ہے نہ کہ شاہ کے درباروں میں مستعمل بناوٹی زبان ۔ اگربڑی شاعری پُر تکلف زبان کے استعمال کا ہی نام ہے اوریہی شرط بڑے شاعروں کی صف میں شامل ہونے کا وسیلہ ہے تو بلا شبہ فراز کو بڑے شاعروں میں شامل نہ کیا جائے مگر لوگوں کے زبان پرجاری فراز کے مصرعے کچھ اور چغلی کھاتے ہیں،کسی اور سمت میںاشارہ کرتے ہیں ۔ زندگی نہ مکمل دکھ ہے ، نہ مکمل عیش ۔ دن رات کی تقسیم کی طرح زندگی بھی غم وعیش کا نام ہے ۔ یہی دو جذبے ادب کی ہر صنف میں موجزن ملتے ہیں اور انہی دو جذبوں کا اظہار ہمارے شعرا کرتے نظر آتے ہیں ۔ فراز نے زندگی کے ان دونوں رخوں کو دیکھا ، مشاہدہ کیا، تجزیہ کیا، میزان حرف پر تولا اور قاری کے لیے پیش کردیا ۔ فرازکا مشاہدہ سائنسی ہوسکتا ہے مگر اس کا اظہار بے ساختہ ہے ۔ فراز کے خیالات معروضی ہو سکتے ہیں مگر ان کا اسلوب غیر معروضی ہے ۔ جذبات معروض کی کیفیت بدل دیتے ہیں اور آدمی جذباتی حیوان ہے ۔ فرازکی شاعری میں سائنسی تفکر نہیں جذبے کی گہرائی ہے ۔ یہی جذبہ وہ توانائی ہے جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے ۔
پاپولر شاعری لکھنا اور کلاسیکی روایت پر سختی سے کاربند رہنا دو متضاد نظریات نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے تکمیلی اجزا ہیں ۔ پاپولر شاعری اگر روایتی سانچوں میںڈھلی تخلیق کے مراحل طے کرے تو پھر وہ زندہ رہتی ہے ، پاپولر بھی رہتی ہے اور تخلیقی بھی ثابت ہوتی ہے۔ فراز ان معدودے چند خوش قسمت شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے روایتی رنگ میں رنگے ایسے شعر کہے جو پاپولر بھی ہوئے اور کلاسکس میں بھی شامل رہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے گلوکاروں کی آواز نے فراز کو شہرت دوام کی سند دی ہے لیکن دوسری طرف دیکھیے تو یہ بھی کھلے گا کہ فراز کے لفظوں کی طاقت نے ان گلوکاروں کو زندہ جاوید رکھنے میںبھرپور جدوجہد کی ہے۔
فراز فیض سے متاثر ہے یا نہیں ۔ یہ سوال ادب کے نقادوں کے لیے چھوڑتے ہوئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ فراز اپنی فطرت میں ایک رومانوی شاعر ہے جسے ماضی کی یادیں شعری مواد مہیا کرتی ہیں ۔ محبوب کی زلفیں ، عارض اور سراپا جس کے بیان کو توانائی دیتے ہیںمگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ فراز کا سیاسی یا شعری شعور ناپختہ ہے ۔ ان کی نظم محاصرہ پڑھیے اور ضیا الحق کے تاریک دور کو یاد کیجئے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ فراز ترقی پسندوں کا نمائندہ ہے جب وہ للکار کر کہتا ہے :
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کومحصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سرکا
جو غاصبوں کو قصیدہ سے لے کر سرفراز کرے
اس للکار میںنری جذباتیت نہیں ، ترقی پسندی کا مقامِ فراز بھی ہے اور پختہ سیاسی نقطہ نظر بھی ۔ آمریت کے خلاف ایک قلم کار کی یہ پکار عوامی حاکمیت کے اس اعلیٰ سماجی جذبے کا اظہار ہے جو عالمی سطح پر مستند بھی ہے اورمصروف بھی ۔ ایک شاعر زندگی کے مختلف مرحلوں میں سوچ کے کئی زاویوں کودریافت کرتا ہے ۔ غم جاں سے غم جاناں اور غم جہاں تک کا یہ سفر فراز کی شاعری میں بولتا نظر آتا ہے ۔
فیض کی طرح فراز بھی ایسے شاعر ہیں جو ترقی پسند مکتبہ فکر کی حمایتی ہونے کے باوجود نعرے بازی نہ کرسکے ۔ ان کی سادگی ، جذبوں کی گہرائی ،اظہار کی بے ساختگی ، کلاسیکی روایت سے وابستگی اور جدید نظریات سے آشنائی ، انہیں بڑے شاعروں میں شامل کرتی ہے ۔ ایسے بڑے شاعر جنہیں قبولیت عام کی سند ہی نہیں ملی بلکہ ادب کے خزانے میں ان کی سعی قابل قدر ہیرے جواہر کے اضافے کا سبب بھی بنی ۔ خیال پرانا ہوسکتا ہے ، مشاہدہ تشنہ ہوسکتا ہے مگر شاعرانہ اظہار ہمیشہ مکمل ہوتا ہے جو مشاہدے اور خیال کے کسی ایک رُخ کو اپنے قاری پر واضح کردیتا ہے جن شاعروںمیں یہ خصوصیات موجود ہوتی ہیں وہ بڑے شاعر ہوتے ہیں اور فراز میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ آئندہ آنے والا ادبی مورخ رتبہ بندی میں فراز کے مقام کا تعین کرتے وقت کن تعصبات سے گریزکرے گا اورکن بنیادو ںپر فیصلہ کرے گا ، اس بات سے قطع نظر ایک بات حتمی ہے کہ فراز ان خوش قسمت تخلیق کاروں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں شہرت کے آسمان کی بلندیاں نصیب ہوئیں ۔
ادبی حلقے عام طور پر شخصیات سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تنقید کا رخ متعین کرتے ہیں اس لیے بعض اوقات بڑے شاعر بھی بُری طرح نظرانداز ہو جاتے ہیں ۔ ادب کی تاریخ کے ایک مستند کتاب پڑھتے ہوئے میںنے خاص طور پر نوٹ کیا کہ ان کو فراز سے کوئی کد ہے جسکا اظہار وہ فراز کے ذکر کو محدود رکھ کر کررہا ہے ۔ کسی مصنف یا شاعر کے مقام کا تعین تو ناقدین کرام کی ذمہ داری ہے مگر شہر ت اور قبول عام کی جو سند فراز کو مل چکی ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتا ۔
فراز اب کوئی سودا ، کوئی جنوں بھی نہیں
اور چین سے کٹ رہے ہوں دن ، یوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں مری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہوں بھی نہیں

لنک
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں تو احمد فراز جیسی شخصیت کے متعلق انہی کے اشعار میں بات کرتا ہوں کہ
فراز صاحب کی تعریف تو ہم نہیں کر سکتے، ہمارا اتنا معیار ہی نہیں ہے، خود فراز صاحب کا یہ شعر اُن کی درست عکاسی کرتا ہے کہ

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں، سورج کو دکھاتے ہیں چراغ

اور وہ لوگ جو فراز صاحب پہ الزام لگاتے ہیں، ان کے متعلق میں تو یہ کہتا ہوں کہ
ایسی الزام تراشی سے تو اچھا ہوتا
"اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے"

کسی پہ الزام لگانا بہت آسان ہے۔ احمد فراز کے اپنا آپ خود منوایا تھا۔
صفدر صاحب نے بہت اچھا مضمون لکھا ہے۔

فراز صاحب سا شاعر جدید اردو نے پیدا نہیں کیا، جس کو اتنی مقبولیت ملی ہے، اگر میں یہ کہوں کہ عوامی مقبولیت میں احمد فراز نے فیض احمد فیض کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے تو یہ بےجا نہ ہو گا۔

اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی

کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے، جنبش نہیں کی

میرا خیال ہے کہ فراز صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ قوم محسنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، تبھی انہوں نے کہا تھا کہ
ہم کو اُس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چُن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بلاشبہ بہت اعلیٰ مضمون ہے احمد فراز کے فن پر ۔۔۔ احمد فراز کو گزرے بہت زیادہ وقت نہیں گزرا ۔۔۔ اس لیے اُن کی شاعری پر نقادوں کی طرف سے ابھی کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔ ذاتی طور پر مجھے اُن کی شاعری بہت پسند ہے ۔۔۔وہ ایک خاص لب و لہجے کے شاعر تھے اور یہی بات اُن کو ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ اُن کے کلام میں معنی کی تکثیریت عنقا معلوم ہوتی ہے جو ایک بڑے شاعر کا وصفِ خاص ہوا کرتی ہے ۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بلاشبہ بہت اعلیٰ مضمون ہے احمد فراز کے فن پر ۔۔۔ احمد فراز کو گزرے بہت زیادہ وقت نہیں گزرا ۔۔۔ اس لیے اُن کی شاعری پر نقادوں کی طرف سے ابھی کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔ ذاتی طور پر مجھے اُن کی شاعری بہت پسند ہے ۔۔۔ وہ ایک خاص لب و لہجے کے شاعر تھے اور یہی بات اُن کو ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ اُن کے کلام میں معنی کی تکثیریت عنقا معلوم ہوتی ہے جو ایک بڑے شاعر کا وصفِ خاص ہوا کرتی ہے ۔۔۔
شکریہ شہزاد صاحب
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اور وہ لوگ جو فراز صاحب پہ الزام لگاتے ہیں، ان کے متعلق میں تو یہ کہتا ہوں کہ
ایسی الزام تراشی سے تو اچھا ہوتا
"اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے"

ادبی حلقے عام طور پر شخصیات سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تنقید کا رخ متعین کرتے ہیں اس لیے بعض اوقات بڑے شاعر بھی بُری طرح نظرانداز ہو جاتے ہیں ۔ ادب کی تاریخ کے ایک مستند کتاب پڑھتے ہوئے میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ ان کو فراز سے کوئی کد ہے جسکا اظہار وہ فراز کے ذکر کو محدود رکھ کر کررہا ہے ۔ کسی مصنف یا شاعر کے مقام کا تعین تو ناقدین کرام کی ذمہ داری ہے مگر شہر ت اور قبول عام کی جو سند فراز کو مل چکی ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتا ۔


آہ۔ محمد بلال اعظم صاحب، آپ نے تو فراز کے ناقدین غریبوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا۔ ذرا سا اختلاف کرنے کی گنجائش بھی چھوڑیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جسے آپ "کدورت" سمجھ رہے ہوں، وہ مخلصانہ رائے ہی ہو؟ کم عمری میں انسان کی رائے اکثر جذبات کے تابع ہوتی ہے۔ مگر جن ناقدین کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں، وہ عام طور پر جذباتی عمر سے گزر چکے ہوتے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تمام ناقدین تعصب سے بالا تر ہو کر لکھتے ہیں۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ سب کے سب ہی بے ضمیر ہوں۔

میں خود فراز کے ناقدین میں شامل ہوں۔ ناقد شاید مناسب لفظ نہ ہو، کیونکہ حقیقت میں تو میں اسے چند منٹ سے زیادہ پڑھ بھی نہ سکا۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے جب مجھے پہلی بار فراز کی ایک کتاب دیکھنا نصیب ہوئی، اس وقت تک میں اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم ترین ادیبوں کی کافی تخلیقات سے واقف ہو چکا تھا۔ اب آپ خود سوچیئے کہ میرے جیسے ایک شخص کو جو "بساط" پر ہی نہیں، فراز یا کسی اور شاعر سے کیا کدورت ہو سکتی ہے؟

سچ یہی ہے کہ فراز کے کلام میں ایک پختہ ذہن لیے کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی فلسفہ، نہ خیال کی گہرائی، نہ زندگی کا عمیق مطالعہ۔ وہ بنیادی طور پر کچی عمر کے لوگوں کا شاعر ہے۔ یا پھر بڑی عمر کے لڑکوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود وہ ناقدین کی نظر میں کوئی بہت اعلیٰ مقام بنا پایا، نہ کبھی بنا سکے گا۔ اگر کوئی مجھے نیچے دیے گئے اشعار کے میعار کے چند اشعار فراز کے کلام سے نکال کر دکھا دے، تو میں اپنی رائے واپس لے لوں گا:
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے​
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے​
(میر)​
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا​
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو​
(غالب)​

But, oh! That deep, romantic chasm which slanted​
Down the green hill, athwart a cedarn cover:​
A savage place! As holy and enchanted​
As e’er beneath the waning moon was haunted​
By woman wailing for her Demon Lover!​
(S. T. Coleridge - Kubla Khan)​


اس اختلاف کا مقصد آپ کی دل شکنی ہرگز نہیں۔ مگر مجھے مناسب لگا کہ کم سے کم وہ وجوہات ہی بیان کر دوں، جن کے سبب ہم ایسے غریب، فراز یا چند دیگر "مقبول" شعرا کو اساتذہ کی فہرست میں شامل نہیں کرتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ فراز شاعر ہی نہیں یا تیسرے درجے کا شاعر ہے۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ میرا کہنے کا مطلب صرف یہ ہے، کہ اسے آپ صفِ اول کے اساتذہ میں بھی شامل نہیں کر سکتے۔ نہ اس کا کام اوپر ذکر کیے استادوں کی مانند صدیوں زندہ رہنے والی خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے۔جب مجھے اساتذہ کو پڑھنے کے بعد، فراز، قتیل، مصطفےٰ زیدی کو پڑھنا "مشکل" لگے، تو میں یا مجھ سا کوئی اور ناقد کیسے کہہ دے، کہ یہ سب "استادوں" میں شامل ہیں؟

ویسے میرا ایک اور دوستانہ اور مخلصانہ مشورہ ہے، کہ ادیبوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے کچھ اور عرصہ انتظار کر لیں۔ ابھی آپ نوجوان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج سے دس سال بعد آپ کی رائے یہ نہ ہو گی، جو آج ہے۔ شاید تب آپ کو میری بات کا اصل مطلب پتا چلے گا۔​

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں​
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے​
 
متفق ہوں کاشف صاحب سے۔
مگر ایک بات یہ کہنا چاہونگا کہ ایک تو استادی یا سند ہے۔ دوسری بات یہ ہے کوئی کتنا اچھا شاعر ہے۔ میرا موقف بھی سن لیجے۔ اتفاق یا اختلاف آپ کا حق ہے۔۔
پہلی بات۔ استاد شاعر کس معنوں میں استاد ہوتا ہے؟
مضامین میں استاد؟ میرے خیال میں استاد کی استادی اور سند کا دار و مدار زبان و بیان، فصاحت و بلاغت پر ہے۔
میرا نظریہ اس معاملے میں یہ ہے کہ آج کے دور میں، یا اس صدی میں (1930(ع) کے بعد سے) کوئی مطلق مجتہد پیدا نہیں ہوا ہے۔ اور ہوگا بھی نہیں۔ آج کے دور میں پچھلے پانچ خدایان سخن (یعنی میر، غالب، سودا، درد اور حسرت) جیسا یا ان سے بڑا کوئی شاعر پیدا ہو بھی جائے تو اس کو سند یا استاد نہیں مانا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کے فیض، اقبال، اور فراز وغیرہ یا ان جیسے دیگر مشہور و معروف شعرا کو جمہور ناقدین استاد یا سند کا درجہ نہیں دیتے۔ وجہ یہی کہ یہ شعرا مجتہد مطلق نہیں۔ اور یہ اس لئے ہے کیونکہ آج کے دور میں، اس صدی میں، یا آنے والے دور میں اگر کوئی مجتہد پیدا ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ وہ کرے گا کیا؟؟؟ اس کے آنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ جبکہ زبان پر جتنا نکھار آنا تھا آ چکا ہے۔ تو اب کسی مجتہد کے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہوا کے اس کے تصرفات، اس کے رد و بدل کو سند مانا جائے گا۔ مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوگا۔ نکھری نکھرائی اردو میں جو اساتذہ اپنے کلام کے پہاڑ لاد گئے ان سب کو دریا برد کر دیا جائے؟ یہی وجہ ہے کہ شاعر کا مقام اپنی جگہ بلند ہے۔ مگر استاد اور سند۔ یہ دوسری باتیں ہیں۔ فراز یقیناً بہت بڑا شاعر ہے۔ لیکن سند نہیں ہے۔ اسی طرح اقبال اور فیض وغیرہ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آہ۔ محمد بلال اعظم صاحب، آپ نے تو فراز کے ناقدین غریبوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا۔ ذرا سا اختلاف کرنے کی گنجائش بھی چھوڑیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جسے آپ "کدورت" سمجھ رہے ہوں، وہ مخلصانہ رائے ہی ہو؟ کم عمری میں انسان کی رائے اکثر جذبات کے تابع ہوتی ہے۔ مگر جن ناقدین کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں، وہ عام طور پر جذباتی عمر سے گزر چکے ہوتے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تمام ناقدین تعصب سے بالا تر ہو کر لکھتے ہیں۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ سب کے سب ہی بے ضمیر ہوں۔

میں خود فراز کے ناقدین میں شامل ہوں۔ ناقد شاید مناسب لفظ نہ ہو، کیونکہ حقیقت میں تو میں اسے چند منٹ سے زیادہ پڑھ بھی نہ سکا۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے جب مجھے پہلی بار فراز کی ایک کتاب دیکھنا نصیب ہوئی، اس وقت تک میں اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم ترین ادیبوں کی کافی تخلیقات سے واقف ہو چکا تھا۔ اب آپ خود سوچیئے کہ میرے جیسے ایک شخص کو جو "بساط" پر ہی نہیں، فراز یا کسی اور شاعر سے کیا کدورت ہو سکتی ہے؟

سچ یہی ہے کہ فراز کے کلام میں ایک پختہ ذہن لیے کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی فلسفہ، نہ خیال کی گہرائی، نہ زندگی کا عمیق مطالعہ۔ وہ بنیادی طور پر کچی عمر کے لوگوں کا شاعر ہے۔ یا پھر بڑی عمر کے لڑکوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود وہ ناقدین کی نظر میں کوئی بہت اعلیٰ مقام بنا پایا، نہ کبھی بنا سکے گا۔ اگر کوئی مجھے نیچے دیے گئے اشعار کے میعار کے چند اشعار فراز کے کلام سے نکال کر دکھا دے، تو میں اپنی رائے واپس لے لوں گا:
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے​
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے​
(میر)​
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا​
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو​
(غالب)​

But, oh! That deep, romantic chasm which slanted​
Down the green hill, athwart a cedarn cover:​
A savage place! As holy and enchanted​
As e’er beneath the waning moon was haunted​
By woman wailing for her Demon Lover!​
(S. T. Coleridge - Kubla Khan)​


اس اختلاف کا مقصد آپ کی دل شکنی ہرگز نہیں۔ مگر مجھے مناسب لگا کہ کم سے کم وہ وجوہات ہی بیان کر دوں، جن کے سبب ہم ایسے غریب، فراز یا چند دیگر "مقبول" شعرا کو اساتذہ کی فہرست میں شامل نہیں کرتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ فراز شاعر ہی نہیں یا تیسرے درجے کا شاعر ہے۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ میرا کہنے کا مطلب صرف یہ ہے، کہ اسے آپ صفِ اول کے اساتذہ میں بھی شامل نہیں کر سکتے۔ نہ اس کا کام اوپر ذکر کیے استادوں کی مانند صدیوں زندہ رہنے والی خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے۔جب مجھے اساتذہ کو پڑھنے کے بعد، فراز، قتیل، مصطفےٰ زیدی کو پڑھنا "مشکل" لگے، تو میں یا مجھ سا کوئی اور ناقد کیسے کہہ دے، کہ یہ سب "استادوں" میں شامل ہیں؟

ویسے میرا ایک اور دوستانہ اور مخلصانہ مشورہ ہے، کہ ادیبوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے کچھ اور عرصہ انتظار کر لیں۔ ابھی آپ نوجوان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج سے دس سال بعد آپ کی رائے یہ نہ ہو گی، جو آج ہے۔ شاید تب آپ کو میری بات کا اصل مطلب پتا چلے گا۔​

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں​
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے​
ہو سکتا ہے کہ شاید دس سال بعد کیا اگلے سال ہی میری رائے یکسر بدل جائے۔
کیونکہ کل جو شاعر مجھے بہت اچھے لگتے تھے، آج مجھے حیرت ہوتی ہے میری پسند کیسی تھی۔
باقی کلاسیکی ادب مجھے اتنا پسند نہیں آتا، اس کی سیدھی سی ایک دو وجوہات ہیں کہ میر، غالب وغیرہ کے اکثر اشعار میری سمجھ میں ہی نہیں آتے، ان شعراء میں سوائے علامہ محمد اقبالؒ کے کوئی مجھے اتنا پسند نہیں آیا، اقبالٌ سی معنی کی تکثیریت تو کہیں نظر نہیں آتی مجھے۔
فراز نے خالصتا مومن خان مومن والی غزل کہی ہے، یہ مجھے لگتا ہے ہو سکتا ہے میں غلطط بھی ہوں۔
جس طرح مومن کے ہاں حسن و عشق کے علاوہ دوسرے اشعار خال خال نظر آتے ہیں، یہی صورتِ حال فراز کے ہاں ہے۔
میں فراز کو اول درجے کا شاعر نہیں کہتا، شہزاد بھائی کی بات درست ہے کہ فراز کے ہاں معنی کی تکثیریت عنقا ہے لیکن ہم کم از کم فراز کی نظموں کو تو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ نظم لکھنے والے شعراء میں یقینا فراز کا مقام کافی بلند ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرے خیال میں استاد کی استادی اور سند کا دار و مدار زبان و بیان، فصاحت و بلاغت پر ہے۔
مزمل شیخ بسمل بھائی، کاشف عمران بھائی، محمد یعقوب آسی صاحب
ایک سوال کہ اگر سند کا دارومدار زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت پر ہے، تو پھر یقینا اقبالؒ اس فہرست میں آتے ہیں۔
آپ سب کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔
 
مزمل شیخ بسمل بھائی، کاشف عمران بھائی، محمد یعقوب آسی صاحب
ایک سوال کہ اگر سند کا دارومدار زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت پر ہے، تو پھر یقینا اقبالؒ اس فہرست میں آتے ہیں۔
آپ سب کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے

اس شعر میں کیا غلطی ہے؟؟؟
 
مزمل شیخ بسمل بھائی، کاشف عمران بھائی، محمد یعقوب آسی صاحب
ایک سوال کہ اگر سند کا دارومدار زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت پر ہے، تو پھر یقینا اقبالؒ اس فہرست میں آتے ہیں۔
آپ سب کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے

اس شعر میں کیا غلطی ہے؟؟؟
آپ ہی بتادیں؟
 
جناب محمد بلال اعظم ۔
اقبال کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے! کہ وہ استادی، شاگردی، فصاحت و بلاغت کی پیمائشوں میں نہیں الجھا۔ اور یوں اس نے بہت سے ’’دوست‘‘ پیدا کر لئے، یہ الگ بات ہے کہ اس نے ایسے ’’دوستوں‘‘ کی کتنی پروا کی۔ میرا مسئلہ شاید اقبال کے مسئلے سے بڑا ہے، وہ صاحبِ علم تھا، جانتا تھا کہ کہاں کچھ نہیں کہنا اور کہاں کیا کہنا ہے۔ میں اس معاملے میں کورا ہوں، اور بسا اوقات غلط بات درست موقعے پر یا درست بات غلط موقعے پر کر جاتا ہوں۔
 
اقبال اور سند ۔ اس نکتے پر پہلے بھی ایک طویل بحث ہو چکی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اس کو دہرانے کی بجائے اس تاگے کے اقتباسات یہاں بہم پہنچا دئے جائیں۔ اس تاگے کی ابتداء اس بات سے ہوئی تھی کہ استاد شعراء کی فہرست بنائیں۔


محمد بلال اعظم
 
فراز پر لکھا گیا مضمون ’’کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں‘‘ بہر حال ایک عمدہ مضمون ہے، اور ناقدانہ ذہنوں میں بہت سے سوال پیدا کرتا ہے۔ ایسے سب سوال اور جواب اپنے معتبر نقادوں پر چھوڑتے ہوئے، اپنا ایک رویہ یہاں بیان کر دوں۔

میں نئے (شعر: خاص طور پر غزل) لکھنے والوں کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ احمد فراز اور ناصر کاظمی کو پڑھیں۔

مجھے تسلیم ہے کہ میں نے آج تک کوئی تنقیدی مضمون نہیں لکھا، صرف تقریظیں لکھی ہیں۔ کتنا آسان کام ہے کہ کسی بھی شاعر کی کوئی سی کتاب اٹھا لوں اور اس میں اچھی اچھی باتیں ڈھونڈ کر اپنے دوستوں تک پہنچا دوں۔ شاعر بھی خوش، میں بھی خوش، اور میری لکھی ہوئی تقریظ کا قاری بھی خوش۔
 
جناب محمد بلال اعظم ۔
اقبال کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے! کہ وہ استادی، شاگردی، فصاحت و بلاغت کی پیمائشوں میں نہیں الجھا۔ اور یوں اس نے بہت سے ’’دوست‘‘ پیدا کر لئے، یہ الگ بات ہے کہ اس نے ایسے ’’دوستوں‘‘ کی کتنی پروا کی۔ میرا مسئلہ شاید اقبال کے مسئلے سے بڑا ہے، وہ صاحبِ علم تھا، جانتا تھا کہ کہاں کچھ نہیں کہنا اور کہاں کیا کہنا ہے۔ میں اس معاملے میں کورا ہوں، اور بسا اوقات غلط بات درست موقعے پر یا درست بات غلط موقعے پر کر جاتا ہوں۔

صد فیصد درست فرمایا آپ نے۔ میں بھی اقبال کی افکار کی اورانکے رتبے کی دل و جان سے قدر کرتا ہوں۔
 
Top