محمد بلال اعظم
لائبریرین
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
محمدصفدر
ادب برائے ادب کہ ادب برائے زندگی، دونوں مفروضے مکمل طور پر درست ہیں نامکمل طور پر غلط ۔ ادب کی ذمہ داری اخلاقی محاسن کا پیدا کرنا ہے نہ ہی ادب زندگی کے اس رُخ سے منہ پھیر سکتا ہے ۔ادیب خلا میں رہتا ہے اور نہ خیال آسمان سے وارد ہوتا ہے ۔ زندگی کا مکمل تجربہ جب گہرے مشاہدے کی کوکھ سے پل کرنکلتا ہے تو ادب تخلیق ہوتا ہے ۔ شاعری ادب کاانتہائی تخلیقی جزو ہے ۔ شاعر زندگی کی زمین کے بنجر پن سے بھی شعر نکال لاتا ہے اور فطرت کی رنگینیاں بھی اسے شعری مواد مہیا کرتی ہیں ۔ معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی تمنا بھی شعروں میں بولتی ہے ، ذاتی زندگی کے کرب ، محبوب سے وصل وفراق کے تعلق ، قومی زندگی کے آلام اور بین الاقوامی حالات وواقعات بھی شعری اظہار کی صورت جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ اگر بڑی شاعری کو توضیحات کے دائروں میں پر کھنے کی کوشش کی جائے تو متعین شدہ تعریف کا کوئی نہ کوئی ایسا جزو ضرور ہوتا ہے جو بڑے شاعر کی شاعری میں غیر حاضر ہوتا ہے ۔ غالب اگرآج پیدا ہوتا تو کیاشعر کہتا ، اقبال آج ہوتا تو کیا لکھتا یہ سوال پوچھنے میں محمل لگتا ہے ،مگر ہے بڑا اہم ۔ ایک عزیز کا کہنا ہے کہ برقی پیغامات (ایس ایم ایس)کے ذریعے فراز کے شعروں کی جو درگت بنی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ فراز جسم کا شاعر تھا ، ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلائی گئی ساری یا دہ گوئی ثابت کرتی ہے کہ وہ جذبات کی نمائندگی کرنے والے شاعروں میں سے ہے ۔
مجھے اس مفروضے سے اختلاف ہے ۔ احمد فراز نے بہت لکھا۔ اس افراط کو دیکھ کرا کثرگمان ہوتا ہے کہ یہ ایسے شخص کی شاعری ہے جو بہت کچھ کہناچاہتا ہے لیکن اس کے پاس وقت کم ہے ۔ فراز نے جدید انسان کے نہاں خانوں میںاٹھتے ہر جذبے، ہر خوف ،ہر خواہش، ہر لالچ ، ہر غصے کو شعری روپ دینے کی کوشش کی ۔ مے کدوں سے نیم وا آنکھوں سے ٹپکتی شراب کے نشے تک ہر نشے سے سیراب رہنے والے تخلیقی آدمی کی کاوش کو اگر قبول عام کی سند ملی تو اس میں کچھ تو ایسا تھا جو ''ازدل خیزدبردل رینرد'' کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ موسم کی بدلتی ادا دیکھ کر لوگوں کو بدلتا دیکھنا ایک شاعرانہ خیال ہی نہیں ایک پوری الف لیلوی داستان ہے ۔ فراز کی تمام شاعری ایسے ہی جذبوں کی نمائندہ ہے جو عام لوگوں کے دلوں میں پرورش پاتے ہیں۔نقادوں کی اکثریت فراز کوبڑے شاعروں کی صف میں رکھنے سے شاید اس لیے کتراتی ہے کہ وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ ریڑھی لگانے والوں کی زبان بولتا ہے نہ کہ شاہ کے درباروں میں مستعمل بناوٹی زبان ۔ اگربڑی شاعری پُر تکلف زبان کے استعمال کا ہی نام ہے اوریہی شرط بڑے شاعروں کی صف میں شامل ہونے کا وسیلہ ہے تو بلا شبہ فراز کو بڑے شاعروں میں شامل نہ کیا جائے مگر لوگوں کے زبان پرجاری فراز کے مصرعے کچھ اور چغلی کھاتے ہیں،کسی اور سمت میںاشارہ کرتے ہیں ۔ زندگی نہ مکمل دکھ ہے ، نہ مکمل عیش ۔ دن رات کی تقسیم کی طرح زندگی بھی غم وعیش کا نام ہے ۔ یہی دو جذبے ادب کی ہر صنف میں موجزن ملتے ہیں اور انہی دو جذبوں کا اظہار ہمارے شعرا کرتے نظر آتے ہیں ۔ فراز نے زندگی کے ان دونوں رخوں کو دیکھا ، مشاہدہ کیا، تجزیہ کیا، میزان حرف پر تولا اور قاری کے لیے پیش کردیا ۔ فرازکا مشاہدہ سائنسی ہوسکتا ہے مگر اس کا اظہار بے ساختہ ہے ۔ فراز کے خیالات معروضی ہو سکتے ہیں مگر ان کا اسلوب غیر معروضی ہے ۔ جذبات معروض کی کیفیت بدل دیتے ہیں اور آدمی جذباتی حیوان ہے ۔ فرازکی شاعری میں سائنسی تفکر نہیں جذبے کی گہرائی ہے ۔ یہی جذبہ وہ توانائی ہے جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے ۔
پاپولر شاعری لکھنا اور کلاسیکی روایت پر سختی سے کاربند رہنا دو متضاد نظریات نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے تکمیلی اجزا ہیں ۔ پاپولر شاعری اگر روایتی سانچوں میںڈھلی تخلیق کے مراحل طے کرے تو پھر وہ زندہ رہتی ہے ، پاپولر بھی رہتی ہے اور تخلیقی بھی ثابت ہوتی ہے۔ فراز ان معدودے چند خوش قسمت شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے روایتی رنگ میں رنگے ایسے شعر کہے جو پاپولر بھی ہوئے اور کلاسکس میں بھی شامل رہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے گلوکاروں کی آواز نے فراز کو شہرت دوام کی سند دی ہے لیکن دوسری طرف دیکھیے تو یہ بھی کھلے گا کہ فراز کے لفظوں کی طاقت نے ان گلوکاروں کو زندہ جاوید رکھنے میںبھرپور جدوجہد کی ہے۔
فراز فیض سے متاثر ہے یا نہیں ۔ یہ سوال ادب کے نقادوں کے لیے چھوڑتے ہوئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ فراز اپنی فطرت میں ایک رومانوی شاعر ہے جسے ماضی کی یادیں شعری مواد مہیا کرتی ہیں ۔ محبوب کی زلفیں ، عارض اور سراپا جس کے بیان کو توانائی دیتے ہیںمگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ فراز کا سیاسی یا شعری شعور ناپختہ ہے ۔ ان کی نظم محاصرہ پڑھیے اور ضیا الحق کے تاریک دور کو یاد کیجئے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ فراز ترقی پسندوں کا نمائندہ ہے جب وہ للکار کر کہتا ہے :
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کومحصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سرکا
جو غاصبوں کو قصیدہ سے لے کر سرفراز کرے
اس للکار میںنری جذباتیت نہیں ، ترقی پسندی کا مقامِ فراز بھی ہے اور پختہ سیاسی نقطہ نظر بھی ۔ آمریت کے خلاف ایک قلم کار کی یہ پکار عوامی حاکمیت کے اس اعلیٰ سماجی جذبے کا اظہار ہے جو عالمی سطح پر مستند بھی ہے اورمصروف بھی ۔ ایک شاعر زندگی کے مختلف مرحلوں میں سوچ کے کئی زاویوں کودریافت کرتا ہے ۔ غم جاں سے غم جاناں اور غم جہاں تک کا یہ سفر فراز کی شاعری میں بولتا نظر آتا ہے ۔
فیض کی طرح فراز بھی ایسے شاعر ہیں جو ترقی پسند مکتبہ فکر کی حمایتی ہونے کے باوجود نعرے بازی نہ کرسکے ۔ ان کی سادگی ، جذبوں کی گہرائی ،اظہار کی بے ساختگی ، کلاسیکی روایت سے وابستگی اور جدید نظریات سے آشنائی ، انہیں بڑے شاعروں میں شامل کرتی ہے ۔ ایسے بڑے شاعر جنہیں قبولیت عام کی سند ہی نہیں ملی بلکہ ادب کے خزانے میں ان کی سعی قابل قدر ہیرے جواہر کے اضافے کا سبب بھی بنی ۔ خیال پرانا ہوسکتا ہے ، مشاہدہ تشنہ ہوسکتا ہے مگر شاعرانہ اظہار ہمیشہ مکمل ہوتا ہے جو مشاہدے اور خیال کے کسی ایک رُخ کو اپنے قاری پر واضح کردیتا ہے جن شاعروںمیں یہ خصوصیات موجود ہوتی ہیں وہ بڑے شاعر ہوتے ہیں اور فراز میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ آئندہ آنے والا ادبی مورخ رتبہ بندی میں فراز کے مقام کا تعین کرتے وقت کن تعصبات سے گریزکرے گا اورکن بنیادو ںپر فیصلہ کرے گا ، اس بات سے قطع نظر ایک بات حتمی ہے کہ فراز ان خوش قسمت تخلیق کاروں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں شہرت کے آسمان کی بلندیاں نصیب ہوئیں ۔
ادبی حلقے عام طور پر شخصیات سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تنقید کا رخ متعین کرتے ہیں اس لیے بعض اوقات بڑے شاعر بھی بُری طرح نظرانداز ہو جاتے ہیں ۔ ادب کی تاریخ کے ایک مستند کتاب پڑھتے ہوئے میںنے خاص طور پر نوٹ کیا کہ ان کو فراز سے کوئی کد ہے جسکا اظہار وہ فراز کے ذکر کو محدود رکھ کر کررہا ہے ۔ کسی مصنف یا شاعر کے مقام کا تعین تو ناقدین کرام کی ذمہ داری ہے مگر شہر ت اور قبول عام کی جو سند فراز کو مل چکی ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتا ۔
فراز اب کوئی سودا ، کوئی جنوں بھی نہیں
اور چین سے کٹ رہے ہوں دن ، یوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں مری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہوں بھی نہیں
لنک
محمدصفدر
ادب برائے ادب کہ ادب برائے زندگی، دونوں مفروضے مکمل طور پر درست ہیں نامکمل طور پر غلط ۔ ادب کی ذمہ داری اخلاقی محاسن کا پیدا کرنا ہے نہ ہی ادب زندگی کے اس رُخ سے منہ پھیر سکتا ہے ۔ادیب خلا میں رہتا ہے اور نہ خیال آسمان سے وارد ہوتا ہے ۔ زندگی کا مکمل تجربہ جب گہرے مشاہدے کی کوکھ سے پل کرنکلتا ہے تو ادب تخلیق ہوتا ہے ۔ شاعری ادب کاانتہائی تخلیقی جزو ہے ۔ شاعر زندگی کی زمین کے بنجر پن سے بھی شعر نکال لاتا ہے اور فطرت کی رنگینیاں بھی اسے شعری مواد مہیا کرتی ہیں ۔ معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی تمنا بھی شعروں میں بولتی ہے ، ذاتی زندگی کے کرب ، محبوب سے وصل وفراق کے تعلق ، قومی زندگی کے آلام اور بین الاقوامی حالات وواقعات بھی شعری اظہار کی صورت جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ اگر بڑی شاعری کو توضیحات کے دائروں میں پر کھنے کی کوشش کی جائے تو متعین شدہ تعریف کا کوئی نہ کوئی ایسا جزو ضرور ہوتا ہے جو بڑے شاعر کی شاعری میں غیر حاضر ہوتا ہے ۔ غالب اگرآج پیدا ہوتا تو کیاشعر کہتا ، اقبال آج ہوتا تو کیا لکھتا یہ سوال پوچھنے میں محمل لگتا ہے ،مگر ہے بڑا اہم ۔ ایک عزیز کا کہنا ہے کہ برقی پیغامات (ایس ایم ایس)کے ذریعے فراز کے شعروں کی جو درگت بنی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ فراز جسم کا شاعر تھا ، ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلائی گئی ساری یا دہ گوئی ثابت کرتی ہے کہ وہ جذبات کی نمائندگی کرنے والے شاعروں میں سے ہے ۔
مجھے اس مفروضے سے اختلاف ہے ۔ احمد فراز نے بہت لکھا۔ اس افراط کو دیکھ کرا کثرگمان ہوتا ہے کہ یہ ایسے شخص کی شاعری ہے جو بہت کچھ کہناچاہتا ہے لیکن اس کے پاس وقت کم ہے ۔ فراز نے جدید انسان کے نہاں خانوں میںاٹھتے ہر جذبے، ہر خوف ،ہر خواہش، ہر لالچ ، ہر غصے کو شعری روپ دینے کی کوشش کی ۔ مے کدوں سے نیم وا آنکھوں سے ٹپکتی شراب کے نشے تک ہر نشے سے سیراب رہنے والے تخلیقی آدمی کی کاوش کو اگر قبول عام کی سند ملی تو اس میں کچھ تو ایسا تھا جو ''ازدل خیزدبردل رینرد'' کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ موسم کی بدلتی ادا دیکھ کر لوگوں کو بدلتا دیکھنا ایک شاعرانہ خیال ہی نہیں ایک پوری الف لیلوی داستان ہے ۔ فراز کی تمام شاعری ایسے ہی جذبوں کی نمائندہ ہے جو عام لوگوں کے دلوں میں پرورش پاتے ہیں۔نقادوں کی اکثریت فراز کوبڑے شاعروں کی صف میں رکھنے سے شاید اس لیے کتراتی ہے کہ وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ ریڑھی لگانے والوں کی زبان بولتا ہے نہ کہ شاہ کے درباروں میں مستعمل بناوٹی زبان ۔ اگربڑی شاعری پُر تکلف زبان کے استعمال کا ہی نام ہے اوریہی شرط بڑے شاعروں کی صف میں شامل ہونے کا وسیلہ ہے تو بلا شبہ فراز کو بڑے شاعروں میں شامل نہ کیا جائے مگر لوگوں کے زبان پرجاری فراز کے مصرعے کچھ اور چغلی کھاتے ہیں،کسی اور سمت میںاشارہ کرتے ہیں ۔ زندگی نہ مکمل دکھ ہے ، نہ مکمل عیش ۔ دن رات کی تقسیم کی طرح زندگی بھی غم وعیش کا نام ہے ۔ یہی دو جذبے ادب کی ہر صنف میں موجزن ملتے ہیں اور انہی دو جذبوں کا اظہار ہمارے شعرا کرتے نظر آتے ہیں ۔ فراز نے زندگی کے ان دونوں رخوں کو دیکھا ، مشاہدہ کیا، تجزیہ کیا، میزان حرف پر تولا اور قاری کے لیے پیش کردیا ۔ فرازکا مشاہدہ سائنسی ہوسکتا ہے مگر اس کا اظہار بے ساختہ ہے ۔ فراز کے خیالات معروضی ہو سکتے ہیں مگر ان کا اسلوب غیر معروضی ہے ۔ جذبات معروض کی کیفیت بدل دیتے ہیں اور آدمی جذباتی حیوان ہے ۔ فرازکی شاعری میں سائنسی تفکر نہیں جذبے کی گہرائی ہے ۔ یہی جذبہ وہ توانائی ہے جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے ۔
پاپولر شاعری لکھنا اور کلاسیکی روایت پر سختی سے کاربند رہنا دو متضاد نظریات نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے تکمیلی اجزا ہیں ۔ پاپولر شاعری اگر روایتی سانچوں میںڈھلی تخلیق کے مراحل طے کرے تو پھر وہ زندہ رہتی ہے ، پاپولر بھی رہتی ہے اور تخلیقی بھی ثابت ہوتی ہے۔ فراز ان معدودے چند خوش قسمت شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے روایتی رنگ میں رنگے ایسے شعر کہے جو پاپولر بھی ہوئے اور کلاسکس میں بھی شامل رہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے گلوکاروں کی آواز نے فراز کو شہرت دوام کی سند دی ہے لیکن دوسری طرف دیکھیے تو یہ بھی کھلے گا کہ فراز کے لفظوں کی طاقت نے ان گلوکاروں کو زندہ جاوید رکھنے میںبھرپور جدوجہد کی ہے۔
فراز فیض سے متاثر ہے یا نہیں ۔ یہ سوال ادب کے نقادوں کے لیے چھوڑتے ہوئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ فراز اپنی فطرت میں ایک رومانوی شاعر ہے جسے ماضی کی یادیں شعری مواد مہیا کرتی ہیں ۔ محبوب کی زلفیں ، عارض اور سراپا جس کے بیان کو توانائی دیتے ہیںمگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ فراز کا سیاسی یا شعری شعور ناپختہ ہے ۔ ان کی نظم محاصرہ پڑھیے اور ضیا الحق کے تاریک دور کو یاد کیجئے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ فراز ترقی پسندوں کا نمائندہ ہے جب وہ للکار کر کہتا ہے :
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کومحصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سرکا
جو غاصبوں کو قصیدہ سے لے کر سرفراز کرے
اس للکار میںنری جذباتیت نہیں ، ترقی پسندی کا مقامِ فراز بھی ہے اور پختہ سیاسی نقطہ نظر بھی ۔ آمریت کے خلاف ایک قلم کار کی یہ پکار عوامی حاکمیت کے اس اعلیٰ سماجی جذبے کا اظہار ہے جو عالمی سطح پر مستند بھی ہے اورمصروف بھی ۔ ایک شاعر زندگی کے مختلف مرحلوں میں سوچ کے کئی زاویوں کودریافت کرتا ہے ۔ غم جاں سے غم جاناں اور غم جہاں تک کا یہ سفر فراز کی شاعری میں بولتا نظر آتا ہے ۔
فیض کی طرح فراز بھی ایسے شاعر ہیں جو ترقی پسند مکتبہ فکر کی حمایتی ہونے کے باوجود نعرے بازی نہ کرسکے ۔ ان کی سادگی ، جذبوں کی گہرائی ،اظہار کی بے ساختگی ، کلاسیکی روایت سے وابستگی اور جدید نظریات سے آشنائی ، انہیں بڑے شاعروں میں شامل کرتی ہے ۔ ایسے بڑے شاعر جنہیں قبولیت عام کی سند ہی نہیں ملی بلکہ ادب کے خزانے میں ان کی سعی قابل قدر ہیرے جواہر کے اضافے کا سبب بھی بنی ۔ خیال پرانا ہوسکتا ہے ، مشاہدہ تشنہ ہوسکتا ہے مگر شاعرانہ اظہار ہمیشہ مکمل ہوتا ہے جو مشاہدے اور خیال کے کسی ایک رُخ کو اپنے قاری پر واضح کردیتا ہے جن شاعروںمیں یہ خصوصیات موجود ہوتی ہیں وہ بڑے شاعر ہوتے ہیں اور فراز میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ آئندہ آنے والا ادبی مورخ رتبہ بندی میں فراز کے مقام کا تعین کرتے وقت کن تعصبات سے گریزکرے گا اورکن بنیادو ںپر فیصلہ کرے گا ، اس بات سے قطع نظر ایک بات حتمی ہے کہ فراز ان خوش قسمت تخلیق کاروں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں شہرت کے آسمان کی بلندیاں نصیب ہوئیں ۔
ادبی حلقے عام طور پر شخصیات سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تنقید کا رخ متعین کرتے ہیں اس لیے بعض اوقات بڑے شاعر بھی بُری طرح نظرانداز ہو جاتے ہیں ۔ ادب کی تاریخ کے ایک مستند کتاب پڑھتے ہوئے میںنے خاص طور پر نوٹ کیا کہ ان کو فراز سے کوئی کد ہے جسکا اظہار وہ فراز کے ذکر کو محدود رکھ کر کررہا ہے ۔ کسی مصنف یا شاعر کے مقام کا تعین تو ناقدین کرام کی ذمہ داری ہے مگر شہر ت اور قبول عام کی جو سند فراز کو مل چکی ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتا ۔
فراز اب کوئی سودا ، کوئی جنوں بھی نہیں
اور چین سے کٹ رہے ہوں دن ، یوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں مری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہوں بھی نہیں
لنک