کشکول!

"سائیکل آف رپلیسمینٹ" میں صرف محبت کی "رپلیسمینٹ" نہیں ہوتی۔ خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہے۔ ہم کبھی بھی اسے دل سے نکال کر باہر نہیں پھینک نہیں سکتے۔ تہہ در تہہ اسکے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب اس سے محبت کرتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے۔ وہی زیادہ قریب آجاتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔


اقتباس "امربیل" از عمیرہ احمد

اس فانٹ میں یہ پڑھا نہیں جا رہا اس لیے نستعلیق فانٹ میں تبدیل کرکے پوسٹ کر دیا ہے۔

سائیکل آف رپلیسمینٹ" میں صرف محبت کی "رپلیسمینٹ" نہیں ہوتی۔ خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہے۔ ہم کبھی بھی اسے دل سے نکال کر باہر نہیں پھینک نہیں سکتے۔ تہہ در تہہ اسکے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب اس سے محبت کرتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے۔ وہی زیادہ قریب آجاتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔


اقتباس "امربیل" از عمیرہ احمد
 

شیزان

لائبریرین
معصوم بستیوں کو سمندر نگل گیا
سیلاب کا بھی زور غریبوں پہ چل گیا

پانی نے گاؤں بھر کا صحن یکجا کر دیا
اِک رات میں حویلی کا نقشہ بدل گیا

چاول ، اَچار ، دالیں ، مربے ، اَناج ، گڑ
برسوں کا رِزق چٹکی بجاتے نکل گیا

مونجی ، کپاس ، گنا ، گھنے کھیت ، سبزیاں
پانی میں تیرتا ہوا رَبّ کا فضل گیا

کینو ، کھجور ، موسمی ، اَمردو ، آم ، سیب
پھل صبر کا ہی رِہ گیا ، باقی تو پھل گیا

پانی کا رِزق ہو گیا گڑیا کا کل جہیز
اَفسوس ، بے بسی کے سمندر میں ڈَھل گیا

مٹی کے کچھ کھلونے تھے ، مٹی میں مل گئے
ممتا کی آرزُو کا جنازہ نکل گیا

بن جاتے کاش جانور سارے ہی مچھلیاں
بے بس مویشی دیکھ کے پتھر پگھل گیا

اِن کشتیوں کے نیچے کئی لوگ رہتے تھے
میں نے جو آج سوچا مرا دل دہل گیا

پرکھوں کی آج ہم کو بہت یاد آئی قیس
جن کی لحد بھی پانی کا ریلا نگل گیا
شہزاد قیس
 

شیزان

لائبریرین
بِکھرتا پُھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عُمر بھر اچھا نہیں لگتا

بِکھرنے اور بھٹکنے کے لیے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہو تو ہمسفر اچھا نہیں لگتا

میں اُس کو سوچتا کیوں ہوں، اگر ندرت نہیں اُس میں
میں اُس کو دیکھتا کیوں ہوں، اگر اچھا نہیں لگتا

اِسی باعث میں تیری یادوں میں مصروف رہتا ہوں
مجھے بے دھیان رہنے کا ہُنر اچھا نہیں لگتا

وہ جس کی دلکشی میں غرق ہونا چاہتا ہوں میں
وہی منظر مجھے بارِ دگر اچھا نہیں لگتا

کِسی صُورت تعلق کی مُسافت طے تو کرنی ہے
مجھے معلوم ہے تجھ کو سفر اچھا نہیں لگتا

مرا دُکھ بانٹنے والے بہت احباب ہیں میرے
رکھوں میں ساتھ کوئی نوحہ گر، اچھا نہیں لگتا

نِکل کے جب میں ویرانے سے آبادی میں آیا ہوں
رہوں بے گانۂ دیوار دِر، اچھا نہیں لگتا

ہزار آوارگی ہو بے ٹھکانہ زندگی کیا ہے
وہ انساں ہی نہیں ہے جس کو گھر اچھا نہیں لگتا

نئی تخلیق سے باقی جہاں میں حُسن ہے سارا
شجر چاہے کوئی ہو، بے ثمر اچھا نہیں لگتا

وہ چاہے فصل پک جانے پہ سارے کھیت چگ جائیں
پرندوں کو کروں بے بال و پَر، اچھا نہیں لگتا

سِتم جو ہو رہا ہے در حقیقت، وہ خدا جانے
مگر کوئی سِرے سے بے خبر اچھا نہیں لگتا

وہ اِک اِسم مُبارک دل پہ لکھنا چاہیئے جس کو
وہ پیشانی پہ لکھ تو لوں مگر اچھا نہیں لگتا

وسیلہ راستے کا چھوڑ کر منزل نہیں ملتی
خدا اچھا لگے کیا ، جب بشر اچھا نہیں لگتا

صابر ظفر
 

حسینی

محفلین
شدید گرمی میں بس اسٹاپ پہ لوگ بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔
۔
۔
ایک فقیر آیا
۔
۔
سب سے بھیک لی
۔
۔
۔
۔
اور رکشہ کر کے گھر چلا گیا۔
 

حسینی

محفلین
ایک شخص ہمیشہ ریت کی بوری سائیکل پر رکھ کر بارڈر کراس کرتا تھا۔

بہت دفعہ تلاش کے باوجود بارڈر پولیس کو اس کی بوری میں سے کچھ نہ ملا۔

آخر تنگ آکر پولیس نے ایک دن اس شخص کو روک کر پوچھ لیا: تم آخرکس چیز کی اسمگلنگ کرتے ہو؟

وہ آدمی بولا: سائیکل کی۔
 

شیزان

لائبریرین
راہ چلتے ہوئے راہی کا گِلہ کون کرے
دل کی بے صرفہ تباہی کا گِلہ کون کرے

داغ اُس دل کی ضرورت بھی ہیں، سرمایہ بھی
پھر مقدر کی سیاہی کا گِلہ کون کرے

سخت منزل ہو تو سائے بھی بچھڑ جاتے ہیں
تُجھ سے بے ربط نگاہی کا گِلہ کون کرے

شہر کیا ہے، کوئی الزام سرا ہے جیسے
اپنی ناکردہ گناہی کا گِلہ کون کرے

آنکھ آئینے سے کترا کے گزرتی ہے یہاں
وقت کی کور نگاہی کا گِلہ کون کرے

درد اشعار میں خُود عکس کشی کرتا ہے
چشمِ بے بس کی گواہی کا گِلہ کون کرے

ہم بھی اُس غفلت خُود سوز میں شامل ہیں سعید
اب یہاں چور سپاہی کا گِلہ کون کرے

سعید خان
 

حسینی

محفلین
کل رات میرے بستر پہ
اک آہٹ نے چونکا دیا۔۔۔

پھر اک نرم ہوا کا جھونکا
میری پیشانی کو چھو گیا۔۔

آنکھ کھلی تو ماں کو دیکھا
کچھ ہلتے لب۔۔۔۔۔
کچھ پڑھتے لب۔۔۔
میں دیرے سے مسکرا دیا

ماں آج بھی راتوں میں اٹھ کر
میری پیشانی کو چومتی ہے
اور اپنے حصے کی سب دعائیں
مجھ پر پھونکا کرتی ہے

میں نے بچپن میں بس ایک بار کہا تھا:
ماں مجھے ڈر لگتا ہے
ماں مجھے نیند نہیں آتی۔!
 

حسینی

محفلین
باپ اور بیٹی کا مکالمہ

حضرت زینب کبری علیہا السلام نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ
بابا کیا آپ مجھے دوست رکھتے ہیں؟
حضرت علی (ع): ہاں، میں ضرور دوست رکھتا ہوں۔
زینب کبری (ع): کیا آپ میری مادر گرامی اور حسنین (ع) کو بھی دوست رکھتے ہیں؟
حضرت علی (ع): ہاں، انہیں بھی دوست رکھتا ہوں۔
زینب کبری (ع): کیا ہمارے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو بھی دوست رکھتے ہیں؟
حضرت علی (ع): بے شک انہیں بھی دوست رکھتا ہوں۔
زینب کبری (ع): کیا آپ حق سبحانہ وتعالی کو بھی دوست رکھتے ہیں؟
حضرت علی (ع): بلا شبہ میں خداوند متعال کو بھی دوست رکھتا ہوں۔
زینب کبری (ع):بابا کیونکر ممکن ہے کہ ایک دل میں دو محبتوں کا اجتماع ہو؟
حضرت علی (ع): یہ مسئلہ بہت نازک ہے، مگر یوں سمجھ لو کہ سوائے خدا کے جس سے بھی محبت کرتا ہوں اس سے خدا کے واسطے ہی کرتا ہوں۔
 
Top