کلائمیٹ لیڈرشپ ڈویلپمنٹ انٹرنشپ پروگرام

الف نظامی

لائبریرین
میرا پنجاب سموگ فری کے تحت صوبے میں چیف منسٹر کلائمیٹ لیڈرشپ ڈویلپمنٹ انٹرنشپ پروگرام کا آغاز ہوگیا۔

وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ سموگ کے مستقل سدباب کے لیے مل جل کر اقدامات کرنا ہوں گے، سموگ فری پنجاب انیشی ایٹو کے تحت ینگ گریجوایٹس کمیونٹی سروس کی منفرد خدمات سر انجام دیں گے۔

مریم نواز نے بتایا کہ گزشتہ 2 سال میں اپنی ڈگری مکمل کرنے والے گریجوایٹ اپلائی کر سکتے ہیں، چیف منسٹر پنجاب کلائمیٹ لیڈر شپ ڈویلپمنٹ انٹرنشپ پروگرام کے تحت انٹرنز کو ماہانہ 25 ہزار سکالر شپ دیا جائے گا۔ کلائمیٹ لیڈر شپ ڈویلپمنٹ انٹرن شپ پروگرام کمیونٹی سروس اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کلائمٹ لیڈرشپ ڈویلپمنٹ انٹرن شپ پروگرام میں 20 جولائی 2024 تک رجسٹریشن کروائی جا سکتی ہے، انٹرن شپ مکمل کرنے والے 18 تا 25 سال تک نوجوانوں کو کمیونٹی سروس سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کمیونٹی سروس سرٹیفکیٹ ملے گا-

مریم نواز شریف نے اپیل کی کہ عوام سموگ کے سنجیدہ مسئلے کے حل کے لیے حکومت کا ساتھ دیں، گاڑیوں اور کارخانوں سے دھویں کے اخراج کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے۔ پلاسٹک کے استعمال میں کمی لائی جائے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے سے گریز کیا جائے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج ہم اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو کب اور کون کرے گا؟ انشاء اللہ اس سال پنجاب حکومت کے اقدامات سے سموگ میں کمی آئے گی۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
مریم نواز شریف نے اپیل کی کہ عوام سموگ کے سنجیدہ مسئلے کے حل کے لیے حکومت کا ساتھ دیں، گاڑیوں اور کارخانوں سے دھویں کے اخراج کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے۔ پلاسٹک کے استعمال میں کمی لائی جائے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے سے گریز کیا جائے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج ہم اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو کب اور کون کرے گا؟ انشاء اللہ اس سال پنجاب حکومت کے اقدامات سے سموگ میں کمی آئے گی۔
متعلقہ:
پاکستان میں دھند کا سبب کوئلے کے بھارتی بجلی گھر ہیں
ساہیوال کول پاور پلانٹ اور سموگ
 

الف نظامی

لائبریرین
میرا پنجاب سموگ فری کے تحت صوبے میں چیف منسٹر کلائمیٹ لیڈرشپ ڈویلپمنٹ انٹرنشپ پروگرام کا آغاز ہوگیا۔

وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ سموگ کے مستقل سدباب کے لیے مل جل کر اقدامات کرنا ہوں گے، سموگ فری پنجاب انیشی ایٹو کے تحت ینگ گریجوایٹس کمیونٹی سروس کی منفرد خدمات سر انجام دیں گے۔

مریم نواز نے بتایا کہ گزشتہ 2 سال میں اپنی ڈگری مکمل کرنے والے گریجوایٹ اپلائی کر سکتے ہیں، چیف منسٹر پنجاب کلائمیٹ لیڈر شپ ڈویلپمنٹ انٹرنشپ پروگرام کے تحت انٹرنز کو ماہانہ 25 ہزار سکالر شپ دیا جائے گا۔ کلائمیٹ لیڈر شپ ڈویلپمنٹ انٹرن شپ پروگرام کمیونٹی سروس اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کلائمٹ لیڈرشپ ڈویلپمنٹ انٹرن شپ پروگرام میں 20 جولائی 2024 تک رجسٹریشن کروائی جا سکتی ہے، انٹرن شپ مکمل کرنے والے 18 تا 25 سال تک نوجوانوں کو کمیونٹی سروس سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کمیونٹی سروس سرٹیفکیٹ ملے گا-
یہ بہت اچھا اقدام ہے۔
اس طرح معاشرے میں کمیونٹی سروس کو فروغ ملے گا اور ماحول میں بہتری کی طرف عوامی سطح پر کچھ نہ کچھ کام ہوگا۔
دوسرے صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
بہت خوشی ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ کراچی کا ٹیکس پنجاب میں لگ رہا ہے۔ تابش ہاشمی :)
ایک زمانے تک میں بھی یہی سمجھتا رہا کہ اصل میں کراچی کما رہا ہے اور باقی ملک بیٹھا کھا رہا ہے۔ اس کے بعد ایک تحقیقی رپورٹ پڑھی تو اپنی رائے کو تبدیل کیا۔ اب تابش صاحب کا چٹکلا پڑھا تو خیال آیا کہ کراچی میں اب تک یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
یہ الگ بات کہ کراچی کے ساتھ وفاق اور بالخصوص سندھ کے حکمرانوں نے بہت برا سلوک روا رکھا ہے۔ اس شہر کے ساتھ جی بھر کر ناانصافیاں کی گئی ہیں۔
بات اس لڑی کے موضوع سے ہٹ جائے گی اس لیے کسی اور لڑی میں مزید بات کرنا چاہوں گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت خوشی ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ کراچی کا ٹیکس پنجاب میں لگ رہا ہے۔ تابش ہاشمی :)
تابش ہاشمی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی ، آپ خود یہ بات کہتے لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ دعوی کو ثابت بھی کرنا پڑتا۔
:)
لہذا بار ثبوت تابش ہاشمی کے ذمہ لگایا اور اپنی جلن کو تسکین دے لی۔

یا اللہ پنجاب کو مزید ترقی عطا فرما اور جلنے والوں کو سکون دے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ دعوی کو ثابت بھی کرنا پڑتا۔
یہ تو کم از کم ثابت ہے ہی کہ سندھ سب سے زیادہ ٹیکس کما کر ملک کو دے رہا ہے۔

چار سال قبل 2020 کی یہ خبر ملاحظہ کریں:

سندھ نے سب سے زیادہ انکم ٹیکس کا حصہ دیا — 44.91 فیصد — اس کے بعد پنجاب (34.99 فیصد)، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (14.77 فیصد)، خیبر پختونخواہ (3.54 فیصد)، بلوچستان (1.67 فیصد) اور گلگت بلتستان (0.12 فیصد) شامل ہیں۔

لیکن پنجاب کا 34.99 فیصد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ سندھ کا 44.91 فیصد سندھ کے علاقوں میں لگایا جا رہا ہے یا پنجاب میں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ تو کم از کم ثابت ہے ہی کہ سندھ سب سے زیادہ ٹیکس کما کر ملک کو دے رہا ہے۔
اس سے تابش ہاشمی کا مندرجہ ذیل جھوٹ کیسے ثابت ہوگیا؟
بہت خوشی ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ کراچی کا ٹیکس پنجاب میں لگ رہا ہے۔ تابش ہاشمی:)
 

سید رافع

محفلین
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
نہیں جناب یہ جھوٹ نہیں۔ NFC ایوارڈ کے ذریعے جمع شدہ ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ 51.74% پنجاب کو جاتا ہے۔

پنجاب: 51.74%
سندھ: 24.55%
خیبر پختونخوا: 14.62%
بلوچستان: 9.09%
آپ کے ہی ربط کے مطابق این ایف سی تین اشیاء کا مجموعہ ہے ،taxes and duties and straight transfers
اور جس سے آپ تقابل کر رہے ہیں وہ صرف ٹیکس ہے۔
تقابل کرنا ہے تو ڈیوٹیز اور سٹریٹ ٹرانسفرز کو منہا کیجیے پھر درست عدد ملے گا۔
 

سید رافع

محفلین
آپ کے ہی ربط کے مطابق این ایف سی تین اشیاء کا مجموعہ ہے ،taxes and duties and straight transfers
اور جس سے آپ تقابل کر رہے ہیں وہ صرف ٹیکس ہے۔
تقابل کرنا ہے تو ڈیوٹیز اور سٹریٹ ٹرانسفرز کو منہا کیجیے پھر درست عدد ملے گا۔
آپ یہ تو مان رہے ہیں کہ پنجاب کو ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ دیا جاتا ہے جو کراچی اور دیگر شہر کما کر دیتے ہیں۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ یہ تو مان رہے ہیں کہ پنجاب کو ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ دیا جاتا ہے
ایسے کیسے ؟
ارے بھائی ڈیٹا تو درست کرلو ، پھر بات کریں گے۔

این ایف سی ایوارڈ صرف ٹیکس نہیں بلکہ تین اشیا کا مجموعہ ہے اور آپ اس کو صرف ٹیکس سے تقابل کر رہے ہیں۔

آپ کی منطق سے تو پھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا این ایف سی حصہ بھی ان کے جمع کردہ ٹیکس سے زیادہ ہے۔

متعلقہ:
ایکسائز ڈیوٹیز : پنجاب

جو کراچی اور دیگر شہر کما کر دیتے ہیں۔ :)
این ایف سی صوبوں سے متعلقہ ہے ، شہروں سے نہیں۔ آپ سندھ کا نام لینا پسند کریں گے یا صرف کراچی کو ہی آپ سندھ سمجھتے ہیں یا شاید سندھ کو کراچی سمجھتے ہیں
:)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
ایسے کیسے ؟
ارے بھائی ڈیٹا تو درست کرلو ، پھر بات کریں گے۔

این ایف سی ایوارڈ صرف ٹیکس نہیں بلکہ تین اشیا کا مجموعہ ہے اور آپ اس کو صرف ٹیکس سے تقابل کر رہے ہیں۔

آپ کی منطق سے تو پھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا این ایف سی حصہ بھی ان کے جمع کردہ ٹیکس سے زیادہ ہے۔
متعلقہ:
ایکسائز ڈیوٹیز : پنجاب
آپ صوبائی اور وفاقی ٹیکس کو خلط ملط کر گئے۔ :) :)

این ایف سی کے ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ پنجاب کو دیا جاتا ہے۔

این ایف سی کا دوسرا حصہ ڈیوٹی ہے۔ اسکا سب سے بڑا حصہ پنجاب کو دیا جاتا ہے۔

این ایف سی کا تیسرا حصہ وفاقی حکومت کی "براہ راست منتقلیاں" ہیں جو کہ :خام تیل کی رائلٹی، قدرتی گیس ،گیس ڈویلپمنٹ سرچارج، قدرتی گیس پر ایکسائز ڈیوٹی۔ اسکا بھی سب سے بڑا حصہ پنجاب کو دیا جاتا ہے۔

پنجاب کی آبادی سب سے بڑی ہے اس لیے این ایف سی سب سے زیادہ اسی کو ملے گا۔

فارمولا یہ ہے۔

10 ویں این ایف سی ایوارڈ فارمولے کے اہم اجزاء

آبادی:
وزن: 82%
تفصیلات: سب سے اہم عنصر، جو ہر صوبے کی آبادی پر مبنی ہے جیسا کہ تازہ ترین مردم شماری میں طے کیا گیا ہے۔


غربت اور پسماندگی:
وزن: 10.3%
تفصیلات: ہر صوبے میں غربت اور پسماندگی کی سطح کی بنیاد پر وسائل مختص کرتا ہے، جس کا مقصد عدم مساوات کو دور کرنا ہے۔

ریونیو جمع/پیداوار:
وزن: 5%
تفصیلات: ایک صوبے کے ذریعے پیدا ہونے والی آمدنی پر غور کرتا ہے۔ وہ صوبے جو ٹیکسوں اور دیگر ذرائع سے قومی آمدنی میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں، انہیں زیادہ حصہ ملتا ہے۔

آبادی کی الٹ کثافت:
وزن: 2.7%
تفصیلات: کسی صوبے کی آبادی کی کثافت کا حساب لیتا ہے۔ کم آبادی کی کثافت والے صوبوں (اور اس طرح فی کس سروس کی فراہمی کے زیادہ اخراجات) کو اضافی وسائل ملتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ کا طریقہ کار Methodology یہ رہی:

تحقیق سے پہلے اعتراض ۔

پھر اعتراض کو ثابت کرنے کے لیے دو مختلف چیزوں کا تقابل کرنا۔

جب معلوم ہوا کہ اس منطق سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو بھی جمع کردہ ٹیکس سے زیادہ مل رہا ہے تو

پھر تلاش کیا کہ این ایف سی کی تقسیم کا فارمولا کیا ہے

نتیجہ: اخبار سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی نتائج اور اصل ڈیٹا پر مبنی نتائج میں کافی فرق ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
آپ کا طریقہ کار Methodology یہ رہی:

تحقیق سے پہلے اعتراض ۔

پھر اعتراض کو ثابت کرنے کے لیے دو مختلف چیزوں کا تقابل کرنا۔

جب معلوم ہوا کہ اس منطق سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو بھی جمع کردہ ٹیکس سے زیادہ مل رہا ہے تو

پھر تلاش کیا کہ این ایف سی کی تقسیم کا فارمولا کیا ہے

نتیجہ: اخبار سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی نتائج اور اصل ڈیٹا پر مبنی نتائج میں کافی فرق ہوتا ہے۔
بہرحال تابش صحیح کہہ رہا ہے۔ 🙂🙂🙂
 

الف نظامی

لائبریرین
بہرحال تابش صحیح کہہ رہا ہے۔ 🙂🙂🙂
تحقیق میں بہرحال سے کام نہیں چلتا۔

ثابت کرنا ہو تو ڈیٹا کی بات ہوتی ہے جو ڈیٹا آپ کو مل نہیں سکا ہوگا اگر ملا ہوگا تو وہ بھی نامکمل اور پرانا۔

مثال کے طور پر:
آپ ہی کے مراسلے میں بتائی گئی چیزوں کا ڈیٹا آپ فراہم نہیں کر سکتے جیسے سٹریٹ ٹرانسفر اور ڈِیوٹیز کا ڈیٹا۔

اخبار معتبر ڈیٹا سورس نہیں ہوتا۔ اور اس کے اعداد و شمار یا تو پرانے ہوتے ہیں یا غیر مکمل یا ان میں ابہام پایا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top