مونس کی گلستاں میں ابھی آنکھ لگی ہے
اے بلبلوں یہ شور مچانا نہیں اچھا
(مونس ، میر محمد نواب صاحب مونس ، میر خلیق کے چھوٹے فرزند اور میر ببر علی انیس کے چھوٹے بھائی تھے۔ شاعری میں ان کا مرتبہ میر انیس سے کم نہ تھا۔ لیکن گوشہ نشینی نے ان کی شہرت کو مسدود رکھا - وضع کے نہایت پابند تھے۔ یہ بات مشہور ہے کہ میر مونس سے بڑھ کر کسی نے مر ثیہ نہیں پڑھا۔ )
کلام تو بہرحال خوبصورت ہے ہی لیکن ایک اچنبھے کی بات اس میں یہ بھی ہے کہ مقطع کی بحر باقی اشعار سے مختلف ہے۔ باقی تمام اشعار بحر "رمل مسدس محذوف" میں ہیں جب کہ مقطع بحر "رمل مثمن محذوف"میں۔یاد ہیں سب گلعذار لکھنؤ
پھول سے بہتر ہیں خار لکھنؤ
گل سے رنگیں تر ہیں خار لکھنؤ
نشے سے بہتر خمار لکھنؤ
سارے نقشے سامنے آنکھوں کے ہیں
نقش ہیں نقش و نگارلکھنؤ
ہم صفیر اپنا وطن ہے لکھنؤ
ہم تو بلبل ہیں چمن ہے لکھنؤ
آسماں کی کب ہے طاقت جو چھڑائے لکھنؤ
لکھنؤ مجھ پر فدا ہے میں فدائے لکھنؤ
(ناسخ)
واہ بہت عمدہ کاشفی صاحب۔ اگر ہو سکے تو میر مونس کا کوئی مرثیہ ضرور شریکِ محفل کیجیے۔ چاہے چند اشعار ہی کیوں نہ ہوں