السلام علیکم
میری آج کل پشتو کے گراں بہا کلاسیکی ادب میں دلچسپی جاگی ہوئی ہے، دراصل میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ فارسی کی روایات پشتو شاعری پر کس طرح اثر انداز ہوئی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، اجداد کی زبان ہونے کے باوجود، میری پشتو سے ایک فیصد بھی واقفیت نہیں ہے۔ اگر کوئی نیک دل پشتون بھائی بابائے پشتو خوشحال خان خٹک (رح) اور پشتو کے دیگر کلاسیکی شعرائے کرام کی کچھ نمائندہ غزلیں اور نعتیں وغیرہ اردو ترجمے کے ساتھ یہاں محفل پر پوسٹ کرے تو نہایت شکر گزار ہوں گا۔
حسان خان آپ کی فرمائش پر خوشحال خان خٹک کی ایک شوخ غزل کا اردو نثری ترجمہ پیش خدمت ہے۔ امید ہے پسند آئے گا۔ آپ کی سہولت کے لئے پشتو متن کو اردو رسم الخط میں لکھا ہے
سو پہ باغ کے لا یؤ گل دَ نو بہار شتہ
دَ بلبلو د طوطیانو پرے چغار شتہ
جب تک باغ میں نو بہار کا ایک بھی پھول باقی ہے
عنادل اور طوطوں کے چہچہے رہیں گے۔
نن دے غم لہ ما نہ زان ساتی کہ خہ کا
چی پہ سیل د بہار را سرہ یار شتہ
آج غم مجھ سے دور ہی رہے تو اچھا ہے
کہ سیرِ بہار کے وقت یار میرے پاس موجود ہے
چی لہ یارہ سرہ مست د گلو گشت کڑم
محتسب کہ را نیزیدی شی پائے زار شتہ
اس عالم میں کہ یار کے سنگ محوِ گل گشت ہوں
محتسب کے مار بھگانے کے لئے میرے پاس جوتا(دستیاب) ہے
شیخ ملا دے زما غم پہ بہار نہ خوری
چی رباب اؤ سریندے غوندے غم خوار شتہ
شیخ و ملا کو وقتِ بہار میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں
کیوں کہ رباب اور سارنگی جیسے غم خوار موجود ہیں
نہ بہ زہ د میو جام کیگدم د لاسہ
نہ زما د پارسائیہ سرہ کار شتہ
نہ میں مے کا جام ہاتھ سے رکھوں گا
اور نہ میرا پارسائی سے کچھ سرو کار ہے
ما وَ خپلے پارسائی تہ رخصت ور کڑ
پہ دا نورو پارسایانو مے اوس ڈار شتہ
میں اپنی پارسائی کو رخصت دے چکا ہوں
البتہ دیگر پرہیزگاروں (کے بہکنے کا میرے دل میں) اندیشہ ہے۔
ساقی بیا زما د شہر خبر واخلہ
لا یؤ سو پہ کوسو پاتے پرہیز گار شتہ
ساقی میرے شہر کی پھر کچھ خبر لے
کہ ابھی گلی کوچوں میں چند پرہیز گار باقی ہیں۔
گل مل، ساز و سرود، ساقی سرے سترگے
لا بہ ڈیر عالَم رسوا کا چی دا چار شتہ
گل و نرگس، ساز و سرود، ساقی کی سرخ آنکھیں
اگر یہی عالَم رہا تو بہت سے لوگ رسوا ہو جائیں گے
چی پہ ہرہ پیالہ عقل زما زدوئی
د ساقی منت را باندے پہ بار بار شتہ
جب ہر جام کے ساتھ میرے عقل کو سلب کرتا ہے
اسی خاطر میں ساقی کا ہمیشہ زیرِ احسان ر ہوں گا۔
د گلونو پہ موسم کے خوار ہغہ دے
چی ئے نہ پیالہ پہ لاس نہ ئے نگار شتہ
فصلِ گل میں خوار و زار وہی شخص ہے
جس کے ہاتھ میں نہ جام ہے نہ اس کا کوئی نگار ہے
نن ہغہ شاہِ جہان د زمانے دے
چی دستہ ئے د گلونو پہ دستار شتہ
آج وہی ’شاہجہانِ عصر‘ ہے
جس کے دستار پر گلدستہ ٹنگا ہے
نن خوشحالہ! د زڑہ داد د عشرت ور کڑہ
دا سو ورزے غنیمت دی سو گلزار شتہ
آج اے خوشحالؔ دل سے داد عیش کر
یہ چند دن غنیمت ہیں اگر گلزار پر بہار ہے