السلام علیکم۔ایڈمن صاحب سے درخواست ہے کہ یہاں پشتو کوڈ انسٹال کریں تاکہ پشتو ٹھیک سے لکھی جائے۔
روحانی باباحسان بھائی بالکل ایسا ہی ہے کلاسیکل ادب و اسلوب کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے لیکن میرے دوست وہ لوگ کہاں سے لائیں وہ چیز اب ناپید ہوگئی ہے پشتو اب میں تقریبا 50 فیصد اردو و انگریزی کے الفاظ استعمال ہورہے ہیں اصلی پشتو سیکھنے کے لیئے آپ کو افغانستان ریاست ننگرہار یا پھر قندھار جانا پڑے گا ۔
مجھے پشتو سے بالکل بھی کوئی شغف نہیں ہے اور نہ ہی اس طرف کوئی رحجان ہے چھوٹا بھائی پشتو زبان کو بہت اچھا سمجھتا ہے اور جانتا ہے اور مشاعروں وغیرہ میں شرکت بھی کرتا رہتا ہے لیکن اس کو کمپیوٹر نہیں آتا ہے۔ دراصل میری والدہ پشتو زبان کو بہت اچھے طریقے سے بولتی اور سمجھتی ہیں اور ہمارے گھر میں سارا دن پشتو چینل ہی لگا رہتا ہے۔
حسان بھائی پنجاب میں ایک کلچر ہوتا ہے جس کو چوپال کہتے ہیں یا سندھ میں اوطاق ہوتی ہے اسی طرح ہمارے پشاور میں ایک حجرہ کلچر ہوا کرتا تھا لیکن اب وہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ پشاور شہر اتنا پھیل گیا ہے کہ اس کے ارد گرد کے تمام گاؤں وغیرہ میں کیبل کی بیماری پہنچ گئی ہے اور حجرہ کلچر تقریبا نابود ہوگیا ہے اور اقدار تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اس وجہ سے پشتو زبان بھی تیزی سے متاثر ہورہی ہے۔
حمزہ خان شینواری نے تقریبا 30 یا شائد 50 برس پہلے کہا تھا۔
ستا پہ اننگو کہ سرہ دی دہ حمزہ
تہ شوے دا پختو غزل زوان زہ دکڑم بابا
یعنی اے پشتو زبان تمہارے شاداب رخساروں پر جو جوانی کی سرخی ہے وہ میرے خون ہے میں نے اپنے خون سے سینج کر تیری آبیاری کی ہے لیکن تونے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔
بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے ماضی(1988 تا 1990) ایک فلم کی رفتار سے نگاہوں میں گھومنے لگا مجھے ستار شاہ بادشاہ (ڈبگری گارڈن پشاور شہر) کا عرس یاد آنے لگا وہ آستانہ وہ خانقاہ وہ لوگ نہ جانے کدھر چلے گئے۔روحانی بابا
ایک تصحیح معذرت کے ساتھ ۔ ۔ ۔
ستا پہ اننگو کے د حمزہ د وینو سرہ دی
تہ شوے د پختو غزلہ زوان، زہ دے باباکڑم
یہ حمزہ بابا کی ایک بہت ہی بہترین غزل کا شعر ہے
غزل کا مطلع کچھ یوں ہے کہ ۔ ۔
پریگدہ چہ لوظونہ د دروغو د رختیا کڑم
تہ راتہ سبا سبا کوہ،زہ بہ بیگا کڑم
بہت خوب ، زبردست ۔ ۔ ۔ ۔بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے ماضی(1988 تا 1990) ایک فلم کی رفتار سے نگاہوں میں گھومنے لگا مجھے ستار شاہ بادشاہ (ڈبگری گارڈن پشاور شہر) کا عرس یاد آنے لگا وہ آستانہ وہ خانقاہ وہ لوگ نہ جانے کدھر چلے گئے۔
بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے
نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے
نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار
نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے
نہ با یزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز ، نہ آہیں ، نہ ہا و ہو خانے
خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے
نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے
بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے
(نصیرگولڑوی)
حمزہ خان شینواری کی یہ مشہور زمانہ غزل متعدد بار دربارعالیہ ستاریہ میں قوالی کے اسلوب میں سماعت کی ہے اور ان کے مرید خاص رفیق شینواری کی زبانی ہی سنی ہے آپ کی تصحیح بالکل درست ہے۔
کچھ اشعار آپ کے ذوق لطیف کے نذر
خہ د ما تہ چی داسے پریدے پریدے اخکارےگی
ستا ہُم دے ادا خو زہ ستا سرہ اشنا کڑم
پام لرمہ دا چی دا ماضی نا خراج واخلم
ز بہ پخوانے شمہ ستا مینہ بہ پخلا کڑم
ستا دا طوفانی نظر بہ سا شی لنڈا گنڈہ
داسے نوئی نوئی اسیلی درلہ پیدا کڑم
لا یم دا سپین مخ خالونہ شمارمہ اوزگار نہ یم
پریدہ الوتنہ دا سپوگمی پہ لوری بیا کڑم
یو تہ اے چی قدر ہیس زما دا اخکو نہ کڑے
وایا کانہ سومرا مشتری در لہ پیدا کڑم
خوش رہیں آباد رہیں
خاطر کی رنگین غزل پر انگشت بدنداں ہوواہ
د خاطر رنگین غزل تہ حیرانیگم
پہ دے خڑ خیبر کے سہ دی. بے د خاورو
بہت عمدہ ۔۔۔۔ویسے حیرانگی کی بات ہے کہ مغل جی کو بھی پشتو آتی ہے۔بہت خوب ، زبردست ۔ ۔ ۔ ۔
پتا ہے کیا؟ روحانی بابا ۔ ۔ ۔ ۔
آپ نے جس اندازو لہجے کے ساتھ یہ غزل یہاں لکھی ہے ناں بالکل ایسے ہی محمود بھی پشتو بولتا ہے
مجھے پڑھتے ہوئے یوں لگا جیسے محمود کی زبانی سن رہی ہوں
بہت اچھی لگی آپ کی کاوش کہ آپ نے حمزہ بابا کی یہ پوری غزل یہاں محفل پہ ہم سے شئیر کی
یہ غزل ایک تو ہے ہی حمزہ بابا کی ایک شاہکار غزل اور سونے پہ سہاگہ مرحوم رفیق شنواری کی آواز میں اس کی گائیکی ہے
یوں لگتا ہے جیسے رفیق شنواری مرحوم کی آواز نے حمزہ بابا کی اس غزل کو گویائی عطا کی ہے۔ ۔
حمزہ بابا کی ایک غزل ۔ ۔
چہ دنیا د آب و گِل تہ انسان راغے
مینہ راغلہ،فتنہ راغلہ،طوفان راغے
ما بیگا پہ خوب خوَرے زلفے لیدلے
خدائے دِ خیر کڑی چہ قاصد پریشان راغے
گورا سترگے چہ مہ ڈکے ڈکے کیگی
نوم د تگ پہ خلہ وا نخلے باران راغے
ما حمزہ چہ د بیلتون تیَرے جڑلے
لکہ شمع زما کور تہ خندان راغے
امیر حمزہ شنواری