کلام شہریار۔۔۔ انٹر نیٹ کی دنیا میں پہلی بار

الف عین

لائبریرین
بدن پاتال


ہوس آکاش کے نیچے بھی اتروں
بدن پاتال میں تا دیر ٹھہروں
میں اپنے آپ کو جی بھر کے دیکھوں۔
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تجھے کچھ یاد آتا ہے


میں تیرے جسم تک کن راستوں سے
ہوکے پہنچا تھا
زمیں، آواز اور گندم کے خوشوں کی مہک
میں ساتھ لایا تھا
تجھے کچھ یاد آتا ہے۔
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
جینے کی لت


مجھ سے ملنے آنے والا کوئی نہیں ہے
پھر کیوں گھر کے دروازے پر تختی اب ہے
جینے کی لت پڑ جائے
تو چھوٹتی کب ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین

عجیب کام


ریت کو نچوڑکر پانی کو نکالنا
بہت عجیب کام ہے
بڑے ہی انہماک سے یہ کام کر رہا ہوں میں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ازل کی نغمگی




چھپائی اس نے نہ مجھ سے کبھی کوئی بھی بات
میں رازدار تھا اس کا، وہ غم گسار مرا
کئی جنم کا بہت پائدار رشتہ تھا
میرے سوا بھی ہزاروں سے اس کی قربت تھی
شماخت اس کی اگر تھی تو بس محبت تھی
سفر میں زیست کے وہ تیز گام تھا اتنا
رکا نہ واں بھی جہاں پر قیام کرنا تھا
خبر یہ مجھ کو ملی کتنی دیر سے که اسے
ازل کی نغمگی مسحور کرتی رہتی تھی
دلِ کشادہ میں اس نے اجل کو رکھا تھا
عذابِ ہجر مقدر میں میرے لکھا تھا
سو باقی عمر مجھے یہ عذاب سہنا ہے
فلک کو دیکھنا ہر دم، زمیں پر رہنا ہے
خبر یہ مجھ کو ملی کتنی دیر سے که اسے
اجل کی نغمگی مسحور کرتی رہتی تھی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کس طرح نکلوں


میں نیلے پانیوں میں گھر گیا ہوں
کس طرح نکلوں
کنارے پر کھڑے لوگوں کے ہاتھوں میں
یہ کیسے پھول ہیں؟
مجھے رخصت ہوئے تو مدتیں گزریں۔
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
رینگنے والے لوگ


چلتے چلتے رینگنے والے یہ لوگ
رینگنے میں ان کے وہ دم خم نہیں
ایسا لگتا ہے که ان کو ذلتیں
مستحق مقدار سے کچھ کم ملیں۔
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ایک سچ


شور سماعت کے در پہ ہے، جانتے ہو
موت کے قدموں کی آہٹ پہچانتے ہو
ہونی کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا
یہ اک ایسا سچ ہے، تم بھی مانتے ہو
٭٭٭

 

الف عین

لائبریرین
زندہ رہنے کی شرط


ہر ایک شخص اپنے حصے کا عذاب خود سہے
کوئی نہ اس کا ساتھ دے
زمیں پہ زندہ رہنے کی یہ ایک پہلی شرط ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دیر تک بارش ہوئی


شام کو انجیر کے پتوں کے پیچھے
ایک سرگوشی برہنہ پاؤں
اتنی تیز دوڑی
میرا دم گھٹنے لگا
ریت جیسے ذایقے والی کسی مشروب کی خواہش ہوئی
وہ وہاں کچھ دور ایک آندھی چلی
پھر دیر تک بارش ہوئی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
اس اداس شام تک


لذتوں کی جستجو میں اتنی دور آ گیا ہوں
چاہوں بھی تو لوٹ کے جا نہیں سکوں گا میں
اس اداس شام تک
جو میرے انتظار میں
رات سے نہیں ملی
٭٭٭

 

الف عین

لائبریرین
میں ڈرتا ہوں


میں ڈرتا ہوں،
میں ڈرتا ہوں، ان لمحوں سے
ان آنے والے لمحوں سے
جو میرے دل اور اس کے اک اک گوشے میں
بڑی آزادی سے ڈھونڈیں گے
ان خوابوں کو، ان رازوں کو
جنہیں میں نے چھپاکر رکھا ہے اس دنیا سے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
میرے حافظے میرا ساتھ دے


کسی ایک چھت کی منڈیر پر
مجھے تک رہا ہے جو دیر سے
مرے حافظے مرا ساتھ دے
یہ جو دھند سی ہے ذرا، ہٹا
کوئی اس کا مجھ کو سراغ دے
که میں اس کو نام سے دوں صدا
٭٭٭

 

الف عین

لائبریرین
جو انسان تھا پہلے کبھی


شہر سارا خوف میں ڈوبا ہوا ہے صبح سے
رتجگوں کے واسطے مشہور ایک دیوانہ شخص
ان سنی، ان دیکھی خبریں لانا جس کا کام ہے
اس کا کہنا ہے که کل کی رات کوئی دو بجے
تیز یخ بستہ ہوا کے شور میں
اک عجب دل دوز، سہمی سی صدا تھی ہر طرف
یہ کسی بت کی تھی جو انسان تھا پہلے کبھی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سحر کا خوف


شام کا ڈھلنا نئی بات نہیں
اس لئے خوفزدہ ہوں اتنا
آنے والی جو سحر ہے اس میں
رات شامل نہیں
یہ جانتا ہوں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
عذاب کی لذت


پھر ریت بھرے دستانے پہنے بچوں کا
اک لمبا جلوس نکلتے دیکھنے والے ہو
آنکھوں کو کالی لمبی رات سے دھو ڈالو
تم خوش قسمت ہو، ایسے عذاب کی لذت
پھر تم چکھوگے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین

پانی کی دیوار کا گرنا


بامِ خلا سے جاکر دیکھو
دور افق پر سورج سایہ
اور وہیں پر آس پاس ہی
پانی کی دیوار کا گرنا
بولو تو کیسا لگتا ہے؟
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین

سزا پاؤ گے


بیچی ہے سحر کے ہاتھوں
راتوں کی سیاہی تم نے
کی ہے جو تباہی تم نے
کس روز سزا پاؤ گے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تسلسل کے ساتھ


وہ، ادھر سامنے ببول تلے
اک پرچھائیں اور اک سایہ
اپنے جسموں کو یاد کرتے ہیں
اور سرگوشیوں کی ضربوں سے
اک تسلسل کے ساتھ وجد میں ہیں
٭٭٭

 
Top