ازل کی نغمگی
چھپائی اس نے نہ مجھ سے کبھی کوئی بھی بات
میں رازدار تھا اس کا، وہ غم گسار مرا
کئی جنم کا بہت پائدار رشتہ تھا
میرے سوا بھی ہزاروں سے اس کی قربت تھی
شماخت اس کی اگر تھی تو بس محبت تھی
سفر میں زیست کے وہ تیز گام تھا اتنا
رکا نہ واں بھی جہاں پر قیام کرنا تھا
خبر یہ مجھ کو ملی کتنی دیر سے که اسے
ازل کی نغمگی مسحور کرتی رہتی تھی
دلِ کشادہ میں اس نے اجل کو رکھا تھا
عذابِ ہجر مقدر میں میرے لکھا تھا
سو باقی عمر مجھے یہ عذاب سہنا ہے
فلک کو دیکھنا ہر دم، زمیں پر رہنا ہے
خبر یہ مجھ کو ملی کتنی دیر سے که اسے
اجل کی نغمگی مسحور کرتی رہتی تھی
٭٭٭