کلام شہریار۔۔۔ انٹر نیٹ کی دنیا میں پہلی بار

الف عین

لائبریرین
صحرا کی حدوں میں داخل


صحرا کی حدوں میں داخل
جو لوگ نہیں ہو پائے
شہروں کی بہت سی یادیں
ہمراہ لئے آئے تھے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
صبح سے اداس ہوں


ہوا کے درمیان آج رات کا پڑاؤ ہے
میں اپنے خواب کے چراغ کو
جلا نہ پاؤں گا یہ سوچ کے
بہت ہی بدحواس ہوں
میں صبح سے اداس ہوں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
اے تنہائی!


کچھ لوگ تو ہوں جو سچ بولیں
یہ خواہش دل میں پھر آئی
ہے تیرا کرم، اے تنہائی!
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
خواب کا در بند ہے

میرے لئے رات نے
آج فراہم کیا ایک نیا مرحلہ
نیندوں نے خالی کیا
اشکوں سے پھر بھر دیا
کاسہ میری آنکھ کا
اور کہا کان میں
میں نے ہر اک جرم سے
تم کو بری کر دیا
میں نے سدا کے لئے
تم کو رہا کر دیا
جاؤ جدھر چاہو تم
جاگو که سو جاؤ تم
خواب کا در بند ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
وقت


نقش ہیں ہم پیروں کے اس کے
جب ہی پیچھے چھوڑ گیا ہے
اپنی راہ چلا جاتا ہے
ہم اور تم احساس کے پتلے
سوچ رہے ہیں
شاید دیکھے مڑ کے ادھر بھی
ہم سا وہ نادان نہیں ہے
وہ کوئی انسان نہیں ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
عرفان


میں اس راستے پر کھڑا ہوں جہاں سے
کسی آشنا کے گزرنے کی امید بالکل نہیں ہے
مجھے اپنی، اور اپنے جیسے
سیہ بخت انسانوں کی جستجو ہے
ازل سے ابد تک کی لمبی مسافت
اسی جستجو کے سہارے
مجھے کرنی ہو گی
مرے پاس سے جب بھی گزرا ہے کوئی
تو پوچھا ہے میں نے
مجھے اپنی، اور اپنے جیسے سیہ بخت انسانوں کی جستجو ہے
خدا کے لئے مجھ کو اتنا بتا دو
کہ اس راستے پر
مجھے منزلِ آخری کی تمنا میں
یوں ہی بھٹکنا ہے کب تک
مرے ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہ بولا
مجھے اجنبی کیوں سمجھتے ہو
میں بھی
تمہاری طرح منزلِ آخری کی طلب میں
بھٹلتا ہوں، لیکن
تمہاری طرح منزلِ آخری کی حقیقت کو
تسلیم کرنے کو راضی نہیں ہوں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
نیا دن نیا عذاب

سرد شاخوں پہ اوس کے قطرے
ہیں ابھی محوِ خواب
اور سورج
رتھ پہ اپنے سوار آتا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
فریب در فریب

دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر
ایک مبہم سا آسرا پا کر
ہم چلے آئے اس طرف۔۔۔ اور اب
رات کے اس اتھاہ دریا میں
خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سائے کی موت



دن کا دروازہ ہوا بند، شبِ تار آئی
راستے کروٹیں لینے لگے
گلیوں میں اداسی چھائی
سارے ہنگامے، وہ سب رونقیں )دن کی ہمراز(
گونگی جیلوں میں ہوئیں قید
چلو اب دیکھیں
اپنی تنہائی کے اس خول سے باہر
دیکھیں
اپنا سایہ کہاں جاتا ہے شبِ تار میں آج
کون سی یادوں کو چمکاتا ہے
کس پل کو صدا دیتا ہے
آج کیا کھوتا ہے
کیا پاتا ہے
کس طرح بڑھتا ہے، گھٹتا ہے، بکھر جاتا ہے
کیسے مر جاتا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
خوابوں کا بھکاری


اپنے معمول کے مطابق ہم
آج بھی روز کی طرح یوں ہی
وادیِ شام سے گزرتے ہوئے
رات کی سرحدوں کو چھو لیں گے
نیند کے در کو کھٹکھٹائیں گے
لاکھ روئیں گے، گڑگڑائیں گے
کاسۂ چشم میں مگر اک خواب
آج کی رات بھی نہ پائیں گے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
عرفان کی آخری منزل

کوئی رنگ اور زاویوں کی زباں جانتا ہے
کوئی تال سم کی فغاں جانتا ہے
کوئی لفظ و معنی کے جادو کو پہچانتا ہے
کوئی پتھروں میں چھپی داستانوں کے اسرار سے آشنا ہے
کوئی جسم کی مد بھری وحشتوں، کھردری کروٹوں کی ادا جانتا ہے
مگر کوئی اس سے سوا جانتا ہے
مگر کوئی خود کو خدا جانتا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
لازوال سکوت



مہیب لمبے گھنے پیڑوں کی ہری شاخیں
کبھی کبھی کوئی اشلوک گنگناتی تھیں
کبھی کبھی کسی پتے کا دل دھڑکتا تھا
کبھی کبھی کوئی کونپل درود پڑھتی تھی
کبھی کبھی کوئی جگنو الکھ جگاتا تھا
کبھی کبھی کوئی طائر ہوا سے لڑتا تھا
کبھی کبھی کوئی پرچھائیں چیخ پڑتی تھی

اور اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔ میں نے
سرہانے رکھے ہوئے تازہ روزنامے کی
ہر ایک سطر بڑے غور سے پڑھی، لیکن
خبر کہیں بھی کسی ایسے حادثے کی نہ تھی
اور اس کے بعد میں دیوانہ وار ہنسنے لگا
اور اس کے بعد ہر اک سمت لا زوال سکوت
اور اس کے بعد ہر اک سمت لا زوال سکوت
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
آشوبِ آگہی

اک گھنیرے شجر کے سائے میں
دو گھڑی بیٹھ کر یہ بھول گئے
قرض ہائے جنوں چکانے ہیں
ہم کو سورج کے ناز اٹھانے ہیں
٭٭٭

 

الف عین

لائبریرین
ہم سفرو

تشنہ لب، پا شکستہ ہمسفرو
اس طرف دیکھو میری بات سنو
دل میں امید کو جگائے رہو
مشعلِ ہجر کو جلائے رہو
پاؤں پڑتی ہیں جو صدائیں، انہیں
سر پٹکتی ہیں جو ہوائیں، انہیں
مڑ کے مت دیکھو۔۔ مڑ کے مت دیکھو
دو قدم اور۔۔ دور ہے کتنا
شب کے صحرا سے صبح کا دریا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
وہ کون تھا


وہ کون تھا، وہ کون تھا
طلسمِ شہرِ آرزو جو توڑ کر چلا گیا
ہر ایک تار روح کا جھنجھوڑ کر چلا گیا
مجھے خلا کے بازوؤں میں چھوڑ کر چلا گیا
ستم شعار آسماں تو تھا نہیں
اداسیوں کا راز داں تو تھا نہیں
وہ میرا جسمِ نا تواں تو تھا نہیں
تو کون تھا
وہ کون تھا؟
٭٭٭

 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم


مائل بکرم ہیں راتیں
آنکھوں سے کہو۔۔۔ کچھ مانگیں
خوابوں کے سوا... جو چاہیں
٭٭٭

ای بک ‘آنکھوں سے کہو‘ کا اختتام


ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ (ہندی)، مزید ٹائپنگ: اعجاز عبید
ہندی رسم الخط سے ٹرانسلٹریشن بذریعہ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
 
Top