کلام فیصل عظیم فیصل

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کافی عرصے سے میرا کلام جمع کرنے کا کام جاری تھا ۔ آج رفقاء محفل کی خدمت میں دیوان کے طور پر پیش خدمت ہے۔ امید ہے پسند آوے گا

شکر گزار
فیصل عظیم فیصل

کلام فیصل عظیم فیصل تبصروں کے لیے دھاگہ
 
مدیر کی آخری تدوین:
دلوں کے اندر بدلتے موسم




فیصل عظیم فیصل













بے شک ہر اک امید کا مرکز وہ خدا ہے
امید کا رکھنا بھی مرے رب کی عطا ہے


بندے اسی خدا کے ہیں واعظ خدا نہیں
بخشش ،کرم عطا کبھی اس کے سوا نہیں​
 
توبہ

حیات اگر چہ مختصر ہے آدمی کی مگر
امید رب سے کرو تو بلاحساب کرو

یہ جان لو کہ فنا ہے فنا تو ہونی ہے
سوال رب سے کرو تو مری جناب کرو

اگرچہ ہم ہیں گنہ گار دنیا داری میں
رجوع از گنہ گاری برِ شباب کرو





 

دل

قربان ہوا حق پہ حسیں دل حسین کا
ملعون تا حشر ہوالعنت سے مرا دل
فرعون ہے نمرود ہے اس دل کی ضلالت
صدیق ہے فاروق ہے ایمان بھرا دل
عاجز یہ ہوا تو بنا الله کا ولی
ہو ذکر الہی سے جو معمور ترا دل
منصور بنادے گا اگر عشق میں گم ہو
ابلیس بنا دے گا تکبرسے بھرا دل
 

راہ حق

خوب صورت موسموں میں بارشیں نفاق کی
محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے

سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

یہ تو ممکن ہی نہیں ہے غیب ہم بھی جان لیں
آج دعوے علم کے، سب قبضہ جاہل میں ہے

گفتگو ہے گفتگو ہے خامشی ہر دل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے
 

راہ حق

خوب صورت موسموں میں بارشیں نفاق کی
محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے

سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے

محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے

یہ تو ممکن ہی نہیں ہے غیب ہم بھی جان لیں
آج دعوے علم کے، سب قبضہ جاہل میں ہے

گفتگو ہے گفتگو ہے خامشی ہر دل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے
 

امت معصوم
کس طرح بیاں ہو کہ میری سوچ پریشاں
بس گھوم رہی ہے کہ یہاں گھوم رہی ہے

دستار کے پردے میں ہوس ناک ہیں واعظ
حق بات تو بازار میں مذموم رہی ہے

ہر سو یہ تماشا ہے یہاں چاک گریباں
مدہوش ہے رقصاں ہے جو مظلوم رہی ہے

امت کو ملے ہر جگہ فتنوں کے ہدایا
سمجھی نہیں اب بھی بڑی معصوم رہی ہے

ہر شخص جو اللہ کا لیئے نام ملے ہے
جنت کی تمنا میں اسے چوم رہی ہے

خاکم بدہن اب بھی اگر ہم نے نہ سمجھا
تقدیر امم سب کو یہ معلوم رہی ہے

لٹنا اسے مقبول ہے منظور ہے فیصل
تفریق شدہ امتِ معدوم رہی ہے
 

اچھی بری

اچھی بات یہاں تم رہتے اور مجھے مل جاتے ہو
اور بری سی بات یہاں کی روز بچھڑنا پڑتا ہے

اچھی بات محبت بھی ہے اور اسے جتلاتے ہو
اور بری سی بات ہماری روز مکرنا پڑتا ہے

اچھی بات کہ اچھے بھی ہو اورنظر بھی آتے ہو
اور بری سی بات تغافل بھی تو کرنا پڑتا ہے

اچھی بات تری چاہت میں فیصل یہ فرماتے ہیں
میری جان محبت میں ہر روز ہی مرنا پڑتا ہے
 

مجھ سے مجھ کو چھین لیا ہے

مجھ سے مجھ کو چھین لیا ہے
اور کہو تم کیا چاہو
میری روح تماشا کر دی
اور کہو تم کیا چاہو
پیار کا دھوکہ دے کرمجھکو
ناگوں والے جنگل جیسی
اس دنیا میں تنہا چھوڑا
اور کہو تم کیا چاہو
تیرے پیا رمیں ایسا گم ہوں
دنیا والے مجھ کو اب بھی
تیرا پاگل کہتے ہیں
اور کہو تم کیا چاہو
مجھ سے مجھ کو چھین لیا ہے
اور کہو تم کیا چاہو
 

لاہور

دیکھنے کی ہے خواہش آپ کو ہڑتال کی
آئیے لاہور میں ہڑتال دیکھا کیجیئے

انکی ہڑتالیں بھی حضرت اسطرح کی ہوگئیں
جسطرح لنگر میں بٹتی دال دیکھا کیجئے

ڈھول بجتا ہے چراغاں میں مرے لاہور میں
اور رونق خوب مال و مال دیکھا کیجئے

کربلا گامے کی دیکھو اور در دربار کا
اور لوہاری پٹھورے نال دیکھا کیجئے

گر دھرم پورے گئے اور گول گپے نہ ملے
جاکے پھر شاہ نور یخنی حال دیکھا کیجئے

آئیے پھجے کے پائے ، اور نہاری "حاج" کی
جی حضوری باغ کے پنڈال دیکھا کیجئے

مسجد شاہی کے سائے میں ہے بازار گناہ
ظلم و مجبوری میں لتھڑی شال دیکھا کیجئے
 

پرویز مشرف

ساٹھ برس کا ملک ہمارا
فوجی لے گئے تینتیس سال

فوج ہماری سب سے اعلیٰ
قوم کا گرتا ہے مورال

آزادی نہ کوئی عدالت
ہونے والے ہیں نو سال

آٹا،بجلی جنس عدم ہیں
یہ بھی اس کی فوجی چال

چاچا جان وطن کی چھوڑو
بہت کمایا تم نے مال


یہ تحریر پرویز مشرف کے آخری دور کی ہے جب ملک میں دہشتگردی کا دور دورہ تھا اور عوام پریشان تھی
 

حالات وطن


اب کہ خود سے فرار مانگے ہے
سوچ میں خلفشار مانگے ہے

یہ خزاں آکے جم گئی ہے یہاں
ہر کوئی اب بہار مانگے ہے

پاک ملت کا حاکم ناپاک
دو کو کھائے ہے چار مانگے ہے

مولوی نام لے کے مولا کا
خود کشی کر کے نار مانگے ہے

اب تو فیصل عجیب راہوں پر
دودھ پینے کو مار❂ مانگے ہے



❂ مار سے مراد سانپ ہے

یہ تحریر پرویز مشرف کے آخری دور کی ہے جب ملک میں دہشتگردی کا دور دورہ تھا اور عوام پریشان تھی
 

گم گشتہ پاکستان


روٹی کپڑا رہنے کو جگہ عزت سے ہماری عمر کٹے
یہ خواب نہیں حق اپناہے مانگیں کس سے حیران ہیں ہم

یہ ملک بنا آزاد ہوئے ہوتے ہی ہمارا باپ مرا
اقبال گئے جینا بھی گئے مقتول لیاقت خان ہیں ہم

آئے ایسے لیڈر ہم میں جنہوں نے ہمیں پھر کاٹ دیا
لبریز شباب لٹا کھل کر برباد ہوئی مسکان ہیں ہم

ہم سارے ایک ہی وحدت ہیں لیکن اتنا تو سیکھ چکے
بلتی ہیں اور مہاجر ہیں ۔ سندھو پختونستان ہیں ہم

فرقوں میں بٹے صوبوں میں کٹے قانون شکن ظالم ہیرو
معصوم سرئیکی پٹی کےبےحق بےبس انسان ہیں ہم

خادم ہیں دین کے دہشت ہے فرقہ بندی ہتھیار بنا
پنجاب بلوچ کے جھگڑے میں گم گشتہ پاکستان ہیں ہم
 


قومی ہاضمہ



ہاضمہ کچھ عجیب پایا ہے
ہم نے یہ دیس لوٹ کھایا ہے

جب سے جمہوریت بلائی ہے
چور ہر بار لا بٹھایا ہے

کچھ تو لسانیت کے دل دادہ
کچھ کو ملا نے اب ڈرایا ہے

قوم محکوم ہو گئی ایسے
حاکموں نے یہ گھر جلایا ہے

فرد اقوام کا اثاثہ ہیں
یہ تو اقبال نے بتایا ہے

قوم و ملت کا شاعر مشرق
کچھ کتابوں میں ہم نے پایا ہے
 


حاجت



یہ جانتا ہوں کہ تم نہیں ہو
حیات من میں شریک میرے
اگر کبھی تم سمجھ سکو تو
سمجھ دکھانا طریق میرے
طویل عرصہ حیات میں سے
تمہیں دیا تھا فریق میرے
رحم دکھانا نہ ہمدرد ہونا
نہیں ہے حاجت رفیق میرے
 



انتظار


تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں

اب بات کرو ہم سے
ہم انتظار میں ہیں

جب عمر ختم ہوگی
ہم موت سے کہ دیں گے

مت جان ہماری لو
ہم انتظار میں ہیں

پھر بہ نکلیں آنسو
سب لوگ کہیں گے یوں

تم لوٹ کے آجاؤ
ہم انتظار میں ہیں
 

آسان


اتنے برس کے بعد بچھڑنا
اتنا بھی آسان نہیں ہے

سانسوں سے خوشبو کا نکلنا
اتنا بھی آسان نہیں ہے

تم کو تیری باتیں بھولیں
اتنا بھی آسان نہیں ہے

تیرے بن تو زندہ ہوں میں
اتنا بھی آسان نہیں ہے
 


اعتبار


بنائے عمر میں گر اعتبار ہی کم ہو
شکستگی ہے مقدر تمہیں بتا دیں ہم

اگریہ شک ہےمری چاہتیں بناوٹ ہیں
فصیل شک یہ عبث ہے اسے گرا دیں ہم

فضا میں ایک کدورت عجیب پھیلی ہے
لکیر شک نے بنا دی ہے جو مٹا دیں ہم

ہمارے دل میں محبت کا رنگ کیوں بدلا
ہزار رنگ کے چشمے ذرا اٹھا دیں ہم

چلودیکھیں ہماری چاہتوں کاکون دشمن ہے
شکوک و شبہ کے بادل ذرا ہٹا دیں ہم

مجھے یقین ہے اب بھی تمہیں محبت ہے
یہ زندگی ابھی ممکن ہے اب دکھا دیں ہم
 

ممکن


مرے عزیز مرے ہمسفر مرے ساتھی
تمہارا ساتھ نبھاؤں کہاں یہ ممکن ہے

مری حیات بھی تیری طرح سے مشکل ہے
اسے میں سہل بناؤں کہاں یہ ممکن ہے

یہ سچ کہ تو مرا ساتھی ہے دوسری جانب
ندی کے پار میں آؤں کہاں یہ ممکن ہے

تڑپ تڑپ کے مری زیست ناتمام رہے
یہ با کمال بناؤں کہاں یہ ممکن ہے

تری حیات میں جو رنگ زندگی کے ہیں
مری حیات میں لاؤں کہاں یہ ممکن ہے

رفاقتیں ہیں مری زندگی میں کچھ پہلے
رفیق تجھ کو بناؤں کہاں یہ ممکن ہے

یہ زندگی کا سفر بھی عجیب ہے فیصل
میں تجھ سےہاتھ چھڑاؤں کہاں یہ ممکن ہے
 


سزا


محبت ساتھ ہو تو زندگی بے حد حسیں ہوگی
مگر ساتھی کی نفرت موت کا سامان ہوتی ہے

وہی جو چاہتوں کو نفرتوں کی مار دیتی ہے
سبھی کہتے ہیں ایسی عورتِ نادان ہوتی ہے

مجھے افسوس اپنی چاہتوں کا کیوں ذرا ہوگا
تِری نفرت ہماری جان پر احسان ہوتی ہے

مرے مرنے پہ شاید آنکھ تیری ہی ذرا نم ہو
تو ایسی موت میرے درد کا درمان ہوتی ہے

مری روح شکستہ تم نے دیکھی ہی نہیں ابتک
بتا کیسے کہوں تجھ کو مری پہچان ہوتی ہے

چلوخودکوسزادے دی ہمیشہ تجھ سے دوری کی
اگر ایسے تمہاری زندگی آسان ہوتی ہے
 
Top