کلام فیصل عظیم فیصل


خود گوئی


کچھ باتیں میں خود ہی خود سے کر جاتا ہوں
کوئی نہ جانے ان کو اس سے گھبراتا ہوں

دور ہے منزل میں صحرا میں ننگے پاؤں
بس پاگل چلنے کی جرات کر جاتا ہوں

کاش کوئی ہمدرد زمانے میں مل جاتا
ہمدردوں کا سوچتے ہی میں ڈر جاتا ہوں

لوگ کہیں گے دہری سوچیں بے منزل ہیں
اسی سبب یہ باتیں خود سے کرپاتا ہوں

فیصل تیری سوچ پریشاں عمر تماشا
سچی بات ہے لیکن کہتے شرماتا ہوں

خود کو خود ہی جان بوجھ کر دھواں بنایا
سچائی کی آگ میں خود ہی مر جاتا ہوں
 

دائرے


گھپ اندھیرا اور جنگل ، مَیں اکیلا ہی چلا
نور کی مدھم کرن کی آس میں چلتا رہا

لوگ کہتے تھے اندھیرے ختم ہوجائیں گے سو
خوش امیدی کا دیا میرے لئے جلتا رہا

آبلہ پا ہُوں ، نمی آنکھوں میں لے کر یاس کی
دل جگر جلتے تھے دونوں ہاتھ میں ملتا رہا

کب تلک کانٹوں پہ چلنا مجھ پہ فیصل فرض ہے
لوگ منزل پا گئے میرا سفر چلتارہا

دو پہر کی رات بیتی تب کوئی رہبر ملا
پھر یہ جانا دائروں میں اب تلک چلتا رہا
 


تذکرے


تذکرے یار کے لوگوں سے نہیں ہم کرتے
لٹ گئے تب بھی کسی گھات کاحصہ نہ بنے

لوگ کہتے رہے "بے نام" جفا قاتل ہے
پھر بھی خاموش رہے بات کا حصہ نہ بنے

چشم نم ہے، بند کمرہ اور تکئے کی تری
وہ ترے خواب مری رات کا حصہ نہ بنے

یہ تومعلوم ہے صحرامیں ترا ساتھ سراب
پھر بھی ہم تنگئ جذبات کا حصہ نہ بنے
 

دوری


دوری ہے اور تجھ سےطبیعت اداس ہے
لگتا ہے یوں کہ اب تو میرے آس پاس ہے

روح و بدن میں ایک عجب کشمکش رہی
تو پاس ہے بھی اور نہیں ، دل اداس ہے

بیتے ہیں چند دن یہ مرے تجھ سے دور جو
بتلا کہاں یہ ماہ و برس مجھ کو راس ہے

سنتے ہیں مئے پئییں گے تجھے بھول جائیں گے
مجھ کو نہیں ہےمئے کی طلب تیری پیاس ہے

دوری ہے قید و بند و اذیت دماغ کی
تیرے سوا کوئی نہ مرا غم شناس ہے
 

کہانی

کہانی تو ہماری ہےذرا ان کی زبانی ہے
کوئی جھگڑا نہیں شاید ہماری بد گمانی ہے

یہ دونوں ہی نرالے ہیں کسی کو بیچ میں رکھ کر
ذرا دب کر ذرا جھک کرکوئی راضی نہیں مانے

کہ دونوں کے اصولوں پرنہیں ممکن گوارا ہو
کسی کا بھی دخل دینا یا ثالث ہی بنا لینا

اکیلی جاں ہمیشہ سے اکیلی تھی اکیلی ہے
اسی رستے پہ شاید آج بھی اٹکن نکیلی ہے
 

رنگ


خوف مجبوری انا نفرت محبت کا خمار
لب کی لرزن کے یہ کتنے رنگ ہم دیکھا کیے

مال عزت شہرتوں کی بھوک میں بے تاب سے
لوٹنے لٹنے کے کتنے ڈھنگ ہم دیکھا کیے

طاقتیں بھی طاقتوں کے در پہ سجدہ ریز ہیں
دولتوں کو دولتوں کے سنگ ہم دیکھا کیے

موت کی لپکن فرارے عزت و ناموس بھی
ہارتے کمزور حق کو جنگ ہم دیکھا کیے

گو کہ اب تک خواب ہے کمزور طاقتور بنے
پھر بھی ایسا خواب شوخ و شنگ ہم دیکھا کیے
 

روشنی


موت مظلوم کا مقدر ہے
چشم ظالم تو نم نہیں ہوتی

دست بستہ ہزار سالوں کی
قید دینی کرم نہیں ہوتی

کور چشموں کو آنکھ دینے سے
روشنی ایک دم نہیں ہوتی
 

لڑکیاں

ٹوٹ کر چاہتی ہیں بابا کو
اس لیے روٹھ روٹھ جاتی ہیں

ماں کی آنکھوں کا نور ہوتی ہیں
اس لیے گھر میں جگمگاتی ہیں

بھائیوں کا غرور ہوتی ہیں
ان کو اس واسطے ستاتی ہیں

اپنی خواہش ہے آخری انکی
اس لیے سب سے یہ چھپاتی ہیں

لڑکیاں نازک مزاج ہوتی ہیں
اس لیئے ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہیں
 

زندگی

تو ساتھ ہے میرے صنم
تمہارا ساتھ زندگی
جو کٹ رہی تھی بن تیرے
بڑی اداس زندگی
اداسیاں مری بھی تھیں
اداسیاں تری بھی تھیں
یہ دور ہو چکی ہیں سب
آ میرے پاس زندگی
مجھے امید تک نہ تھی
سمندروں میں یاس کے
تمھارے ہاتھ سے مٹے
مری یہ پیاس زندگی
تجھی کو دیکھ کر مجھے
لگی ہے آس زندگی
امید نو تمہی تو ہو
نوید خاص زندگی

 

انکار

وہی لمحے وہی رونق وہی زندہ دلی میری
بھری محفل میں تو اب بھی میرے دل میں سمایا ہے

وہی خوشیاں وہی جذبے وہی سوچیں ہیں تمہاری
صنم میں نے تمہیں اب ہی بھری محفل میں پایا ہے

تمھارے عشق کی ہم کو وہی ہے جان جاں حسرت
یہ مجھ میں نوجوانوں کا سا دم خم لوٹ آیا ہے

وہی دل ہے وہی دن ہیں وہی انسان وہی رشتے
تیرے اقرار کی خاطر یہ سب میں نے منگایا ہے

وہی گھڑیاں وہی تارے وہی تیور ہیں تمھارے
تیرے انکار کو سن کر کہ فیصل مسکرایا ہے

وہی میں ہوں ، وہی تو ہے ، وہی شب ہے وہی محفل
مگر اس آج کی محفل میں تو نے سب گنوایا ہے
 

نسل کا سوال

١٩٩٥

پرانی نسلو ، جو نسل نو ہے اسے سمجھنا محال ہوگا
الجھ گئے ہیں خیال اس کے انہیں سلجھنا محال ہوگا
تم ان کی آنکھوں میں خواب بھر دو جو خواب کل کا عظیم تر ہو
تو دیکھنا دم بدم سے ان کے طلوع روشن جمال ہوگا

فضائیں بارود سونگھتی ہیں ہوا میں آنسو بکھر رہے ہیں
دکھاؤ ہم کو وہ اپنا تحفہ نظر میں انکی سوال ہوگا
جو تم نے کچھ بھی کیا نہ اب بھی تو دوکھنا دم بدم دھماکے
لہو کی رنگت لبوں پہ ہو گی دلوں کے اندر جلال ہوگا

ہماری عمروں کی جو کمائی ہے اس کی کوئی قدر نہیں ہے
ہمیں نہ رستہ دکھاؤ گے تو تمہارا جینا محال ہوگا
ہماری سوچیں بکھر گئی ہیں اسی سیاست کی آندھیوں میں
یہ بکھری سوچیں ہیں جسکی ساتھی وہ شخص زندہ سوال ہوگا

نہیں خیالوں کی زندگی میں حقیقتوں کا کریہہ منظر
شکم میں گر بھوک ناچتی ہو کہاں پہ تیرا کمال ہوگا
بتاؤ ہم کو پرانی نسلو ہمارا جرم عظیم کیا ہے
ہمارا رستہ دکھاؤ سیدھا وگرنہ پھر نہ سنبھال ہوگا
 
آخری تدوین:
دسمبر




دسمبر کیوں نہیں دکھتا
کسی کی آنکھ میں دیکھو
زمانے بھر کی خنکی ہے
کہیں بے روک بارش ہے
اگر نظروں میں طاقت ہے
دسمبر دکھ ہی جائے گا
محبت کی جو چاہت ہے
دسمبر دکھ ہی جائے گا
مجھے تو سال بھر ہر جا
دسمبر سا ہی دکھتا ہے
 
وعدے


رات کے پہلے پہر
سردیوں کے کہرے میں
سنسان راہوں پر
کوشش کروں اس کو
شاید میں مل پاؤں
کچھ ساتھ چل پاؤں
یہ سوچ کر نکلا
لیکن کہیں پر
میری جبیں پر
وہ خط نہیں تھاکہ جس کی منزل وہ ہمسفر تھا
میں رات بھر ہونہی چلتا رہا اور جلتا رہا
مجھے ملا وہ سحر سے پہلے
تھوڑا سا رستہ باقی ہے میرے ساتھی بن جاؤ نا
وہ ہنس پڑا تھاکہ میرا کہنا بہت بڑا تھا
جواب اس نے مجھے دیا تھا
جو اگلی شب کو ملیں گے ہم تو
سفر اکٹھے کیا کریں گے
پھر اسکے وعدے پہ کتنی شامیں
گزر گئی تھیں
مگر مجھے وہ نہیں ملا تھا نہیں ملا تھا
کہیں بھی ہمدم نہیں ملا تھا
 
ویران


دفتر بیٹھا سوچ رہا ہوں
میں نے تم بن چائے پی لی
ٹھنڈی شربت چائے بالکل
تیری یادوں جیسی ہے
کاغذ سارے بکھر گئے ہیں
ٹیبل بے ترتیب ہوئی ہے
پھر بھی ایسا لگتا مجھ کو
پاس کہیں تم بیٹھی ہو
سوچ ذرا سی بکھر گئی ہے
تم سے دور ہوئے تو جانا
سچ میں تم بن دنیا خالی
آنکھ نمی سے شاید بچ لے
لیکن دل ویران ہوا ہے
سچ میں دل ویران ہوا ہے
 
بیگم

دفتر سے میں نکل رہا ہوں
کدھر چلا ہوں کس کی خاطر
بھرا ہوا یہ شہر تمہارا
تم بن سونا سونا ہے
گاڑی میں بیٹھوں تو تم ہو
باہر نکلوں تو بھی تم ہو
سونا مشکل ہو جاتا ہے
چلنا مشکل ہوجاتا ہے
تم بن دفتر بوجھل بوجھل
تم بن گھر بھی کیسا گھر ہے
بیگم سچی بات کہوں میں
تم بن فیصل آدھا ہے
 
احساس

مجھ کو یہ احساس ہوا ہے
میری سوچ کے ہر پرتو پر
تیری چھاپ ہے کتنی گہری
گھر آنگن سنسان ہوا ہے
دل میرا شمشان ہوا ہے
جب تم میرے پاس نہیں ہو
مجھ کو یہ احساس ہوا ہے
تم بن گھڑیاں کیسے بیتیں
تم بن کھانا پینا مشکل
تم بن دنیا ہے پردیس
تم بن میرا دل انجان
آؤ کاٹیں مل جل کرہم
ان پردیسی لمحوں کو
آج مجھے احساس ہوا ہے
تم بن میری دنیا سونی
تم بن میں کاغذ کا ٹکڑا
تیز ہوا میں اڑتا اڑتا
دور کہیں جا گرتا ہوں
اور یہی کہ پاتا ہوں
تم بن میری دنیا سونی
جب تم میرے پاس نہیں ہو
 
فوجی


ہم پھر ملنے والے ہیں
لیکن اب کے وصل کا موسم تھوڑا ہوگا
اپنے گلشن کے اکلوتے پھول کو رکھنا
احتیاط سے اسے بتانا
تیرے پاپا دیس کی خاطر چلے گئے ہیں
دور یہاں سے بہت زیادہ
آج ہمیں ایسا لگتا ہے پاس نہیں ہیں
لیکن ایسی بات نہیں ہے
آپ کے پاپا یہیں کہیں ہیں
پاک وطن کو لہو کی حاجت ہوا کیئے تھی
اسی لیئے تمہارے پاپا نکل گئے تھے
کچھ دہشت کے چیلوں سے یہ ملک بچانے
ملک ہمارا جس کی خاطر
اللہ نے ہردور میں بیٹے عطا کیئے ہیں
پاک وطن کی خاک پہ واری
روح ہماری جان ہماری
اللہ رکھنا اس کو آمن
کیونکہ اس سے اس دنیا میں
زندہ ہے پہچان ہماری
روح ہے پاکستان ہماری
 
سال نو


نئے سال کے پہلے دن
صبح سویرے جب تم جاگو
اٹھنا تیرا خوش خوش سا ہو
رنگ دھنک کا تم پر چھائے
گئے سال کی ہر ان چاہی
آنے والا سال بچائے
تیری سوچ میں جو خواہش ہے
اللہ اگلے سال ملائے
ان سے جن سے تیرا جھگڑا
اللہ ان سے صلح کرائے
یہ جان لینا تمہاری خاطر
کوئی ہے اپنے ہاتھ اٹھائے
خدائے سبحان تم کو اپنی امان دے دے
وہ ہر خوشی جو تمہارا حق ہے تمہیں ملائے
عمر کا جتنا سفر ہے باقی ترے سفر میں
ہرایک پل رب ہو تجھ سے راضی
ہر ایک پل تیری زندگی کا نجات پائے
سبھی دکھوں سے سبھی غمو ں سے
اندھیری راتوں کے رت جگوں سے
میری خدا سے یہی ہے التجا خدایا
سبھی کو اپنی پناہ دینا سبھی دکھوں سے
سبھی اندھیروں سے ظلمتوں سے
میرے خدایا سبھی کو اپنی پناہ دینا
غرور و نفرت ،ضلالتوں سے
میرے خدایا سبھی کو دینا تیرے ہدایا ہدایتوں کے
تمہیں بھی اتنا کہوں کہ سمجھو
خدا سے مانگو اور اسکے درپر سوال کرنا
اسی کی خاطر کرو محبت اسی کی خاطر قتال کرنا
مگر کبھی بھی حدود رب کو نہ کم سمجھ کر پامال کرنا
خدا سے ڈرنا اسی سے اپنے سوال کرنا
حبیب رب سے کرو محبت سبھی سے بڑھ کے
مگر خدا سے بڑھے محبت کبھی نہ ایسی مجال کرنا
اسی طرح سے شروع اپنا یہ سال کرنا
یہ سال کرنا
 
مجھے تم یاد مت کرنا


کبھی میں یاد آؤں تو
مجھے تم یاد مت کرنا
میری ہر سخت گوئی کو
میری ہر بے وفائی کو
نگاہوں میں بسا لینا
میری جو اچھی باتیں تھیں
انہیں تم بس بھلا دینا
مجھے ہرگز کسی اچھی کسی اپنائیت والی
تمہاری یاد میں رہنے کا حق ہو
میں نہ چاہوں گا
مگر تم یاد کر مجھ کو
غزالی نم سی آنکھوں سے
زمیں کو دیکھ کر اپنے
حسین و خوبرو پاؤں
کے انگوچھے سے کچھ کھرچو
کبھی ایسا نہ چاہوں گا
اسی خاطر تمہیں کہتا ہوں
مجھے تم ہی بھلا دینا
کبھی میں یاد آؤں تو
مجھے تم یاد مت کرنا
 
Top