فیصل عظیم فیصل
محفلین
خود گوئی
کچھ باتیں میں خود ہی خود سے کر جاتا ہوں
کوئی نہ جانے ان کو اس سے گھبراتا ہوں
دور ہے منزل میں صحرا میں ننگے پاؤں
بس پاگل چلنے کی جرات کر جاتا ہوں
کاش کوئی ہمدرد زمانے میں مل جاتا
ہمدردوں کا سوچتے ہی میں ڈر جاتا ہوں
لوگ کہیں گے دہری سوچیں بے منزل ہیں
اسی سبب یہ باتیں خود سے کرپاتا ہوں
فیصل تیری سوچ پریشاں عمر تماشا
سچی بات ہے لیکن کہتے شرماتا ہوں
خود کو خود ہی جان بوجھ کر دھواں بنایا
سچائی کی آگ میں خود ہی مر جاتا ہوں