مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

فرخ منظور

لائبریرین
کشاکش

شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اڑ گئی اوس کی مانند ہر انگڑائی بھی!
اور ترا دل تو بس اک حجلۂ تاریکی ہے،
جس میں کام آ نہیں سکتی مری بینائی بھی!

یہ تجسس مجھے کیوں ہے کہ سحَر کے ہنگام
کون اٹھّا ترے آغوش سے سرمست جوانی لے کر:
کیا وہ اس شہر کا سب سے بڑا سوداگر تھا؟
(تیرے پاؤں میں ہے زنجیر طلائی جس کی)
یا فرنگی کا گرانڈیل سپاہی تھا کوئی؟
(جن سے یہ شہر ابلتا ہوا ناسور بنا جاتا ہے)
یا کوئی دوست، شب و روز کی محنت کا شریک؟
(میرے ہی شوق نے ترغیب دلائی ہو جسے!)
یہ تجسس مجھے کیوں ہے آخر،
جبکہ خود میرے لیے دور نہ تھا، دور نہیں،
کہ میں چاہوں تو ترے جسم کے خم خانوں کا محرم بن جاؤں؟

جس کی قسمت میں کوئی موجِ تبسم بھی نہ ہو،
قہقہوں کا اُسے ذخّار سمندر مل جائے،
مبتلا کیوں نہ وہ اوہام کے اس دام میں ہو،
کہ وہی ایک وہی ہے تری ہستی پہ محیط،
اور تُو عہدِ گزشتہ کی طرح
کارواں ہائے تمنا کی گزرگاہ نہیں!
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اور نمودار بھی ہو جائیں تو کیا،
آگہی ہو بھی، تو حاصل نہیں کچھ اس کے سوا
کہ غمِ عشق چراغِ تہِ داماں ہو جائے،
زندگی اور پریشاں ہو جائے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
خرابے

اک تمنا تھی کہ میں
اک نیا گھر، نئی منزل کہیں آباد کروں،
کہ مرا پہلا مکاں
جس کی تعمیر میں گزرے تھے مرے سات برس
اک کھنڈر بنتا چلا جاتا تھا
یہ تمنا تھی کہ شوریدہ سری
خشت اور سنگ کے انبار لگاتی ہی رہے
روز و شب ذہن میں بنتے ہی رہیں
دَر و دیوار کے خوش رنگ نقوش!
مجھ کو تخیل کے صحرا میں لیے پھرتا تھا
ایک آفت زدہ دیوانے کا جوش،
لے گئے میرے قدم آخرِ کار
ایک دن اپنے نئے گھر میں مجھے
خیر مقدم کو تھیں موجود جہاں
میری گل چہرہ کنیزیں، مرے دل شاد غلام،
دیکھ کر اپنی تمناؤں کی شادابی کو
میرے اندیشے کی دہلیز سے معدوم ہوئے
میرے ماضی کے سیہ تاب، الم ناک نشاں!

یہ مگر کیا تھا؟ خیالات تھے، اوہام تھے دیوانے کے
نہ وہ گل چہرہ کنیزیں تھیں، نہ دل شاد غلام
در و دیوار کے وہ نقش، نہ دیواریں تھیں
سنگ اور خشت کے ڈھیروں پہ تھا کائی کا نزول
اور وہ ڈھیر بھی موجود نہ تھے!
کھل گئے تھے کسی آئندہ کی بیداری میں
میرے خود ساختہ خواب
میں اُسی پہلے خرابے کے کنارے تھا نگوں
جس سے شیون کی شب و روز صدا آتی ہے!

کس لیے ہے مری محرومی کی حاسد اب بھی
کسی منحوس ستارے کی غضب ناک نگاہ
اور اِدھر بندۂ بدبخت کی تنہائی کا یہ رنگ ۔۔ کہ وہ
اور بھی تیرہ و غمناک ہوئی جاتی ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
داشتہ
میں ترے خندۂ بے باک سے پہچان گیا
کہ تری روح کو کھاتا سا چلا جاتا ہے،
کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے، کوئی المِ زہرہ گداز
میں تو اس پہلی ملاقات میں یہ جان گیا!
آج یہ دیکھ کے حیرت نہ ہوئی
کہ تری آنکھوں سے چپ چاپ برسنے لگے اشکوں کے سحاب؛
اس پہ حیرت تو نہیں تھی، لیکن
کسی ویرانے میں سمٹے ہوئے خوابیدہ پرندے کی طرح
ایک مبہم سا خیال
دفعتاً ذہن کے گوشے میں ہوا بال فشاں:
کہ تجھے میری تمنا تو نہیں ہو سکتی
آج، لیکن مری باہوں کے سہارے کی تمنا ہے ضرور،
یہ ترے گریۂ غمناک سے میں جان گیا

تجھ سے وابستگیِ شوق بھی ہے،
ہو چلی سینے میں بیدار وہ دل سوزی بھی
مجھ سے مہجورِ ازل جس پہ ہیں مجبورِ ازل!
نفسِ خود بیں کی تسلی کے لیے
وہ سہارا بھی تجھے دینے پہ آمادہ ہوں
تجھے اندوہ کی دلدل سے جو آزاد کرے
کوئی اندیشہ اگر ہے تو یہی
تیرے ان اشکوں میں اک لمحے کی نومیدی کا پرتو ہو تو کہیں،
اور جب وقت کی امواج کو ساحل مل جائے
یہ سہارا تری رسوائی کا اک اور بہانہ بن جائے!
جس طرح شہر کا وہ سب سے بڑا مردِ لئیم
جسم کی مزدِ شبانہ دے کر
بن کے رازق تری تذلیل کیے جاتا ہے
میں بھی باہوں کا سہارا دے کر ۔۔۔
تیری آئندہ کی توہین کا مجرم بن جاؤں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
سرگوشیاں

"پھر آج شام گاہ سرِ رہگزر اُسے
دیکھا ہے اس کے دوشِ حسیں پر جھکے ہوئے!"
"یارو وہ ہرزہ گرد،
ہے کسبِ روزگار میں اپنا شریکِ کار،
راتوں کو اُس کی راہگزاروں پہ گردشیں
اور میکدوں میں چھپ کے مے آشامیِ طویل
رسوائیوں کی کوئی زمانے میں حد بھی ہے!"
"یہ غصہ رائیگاں ہے، ہمیں تو ہے یہ گلہ
وارفتہ کیوں اُسی کے لیے ہے وہ عشوہ ساز
کیوں اتنی دلکشی بھی خدا نے نہ دی ہمیں
تسخیر اُس کا خندۂ بے باک کرسکیں؟"

"اب تو کسی نوید کا امکان ہی نہیں
جب اُس کا، دل کی آرزوؤں کے حصول تک،
ایک اپنے یارِ غار سے ہے ربطِ شرمناک
اک رشتۂ ذلیل"

"یہ اُس کی شاطری ہے، کہ "زلفِ عجم" کا دام؟"
"کچھ بھی ہو، اس میں شائبۂ شاعری نہیں
برسوں کا ایک ترسا ہوا شخص جان کر
پہچانتی ہے دور سے عورت کی بُو اُسے"

"اور کررہا ہے اس کا نصیبہ بھی یاوری!"
"اس رشکِ بے بسی سے مرے دوست، فائدہ؟
ہے کچھ تو اپنا زور گریباں کے چاک پر!
حاصل نہیں ہے ہم کو اگر وہ شرابِ ناب
تو بام ودر کی شہر میں کوئی کمی نہیں
دو ’پول‘ ایک پیکرِ یخ بستہ، ایک رات!"
 

فرخ منظور

لائبریرین
رقص کی رات
رقص کی رات کسی غمزۂ عریاں کی کرن
اس لیے بن نہ سکی راہِ تمنا کی دلیل
کہ ابھی دور کسی دیس میں اک ننھا چراغ
جس سے تنویر مرے سینۂ غمناک میں ہے
ٹمٹماتا ہے اس اندیشے میں شاید کہ سحر ہو جائے
اور کوئی لوٹ کے آ ہی نہ سکے!

رقص کی رات کوئی دَورِ طرب
بن نہ سکتا تھا ستاروں کی خدائی گردش؟
محورِ حال بھی ہو، جادۂ آئندہ بھی
اور دونوں میں وہ پیوستگیِ شوق بھی ہو
جو کبھی ساحل و دریا میں نہ تھی،
پھر بھی حائل رہے یوں بُعدِ عظیم
لب ہلیں اور سخن آغاز نہ ہو
ہاتھ بڑھ جائیں مگر لامسہ بے جان رہے؟

تجھے معلوم نہیں،
اب بھی ہر صبح دریچے میں سے یوں جھانکتا ہوں
جیسے ٹوٹے ہوئے تختے سے کوئی تِیرہ نصیب
سخت طوفان میں حسرت سے افق کو دیکھے:
____کاش ابھر آئے کہیں سے وہ سفینہ جو مجھے
اس غمِ مرگِ تہِ آب سے آزاد کرے____
رقص کی شب کی ملاقات سے اتنا تو ہوا
دامنِ زیست سے میں آج بھی وابستہ ہوں،
لیکن اس تختۂ نازک سے یہ امید کہاں
کہ یہ چشم و لبِ ساحل کو کبھی چوم سکے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
آواز
۔۔۔ یہ دلّی ہے
اپنے غریب الوطن بھائیوں کے لیے
ہار غزلوں کے لائی ہے ان کی بہن
اور گیتوں کے گجرے بنا کر:
"چھما چھم چھما چھم دلہنیا چلی رے"
"یہ دنیا ہے طوفان میل"
"اے مدینے کے عربی جواں"
تیری زلفیں ہمیں ڈس گئیں ناگ بن کر___"
مگر اس صدا سے بڑا ناگ ممکن ہے
جو لے گیا ایک پل میں
ہزاروں کو غارِ فراموش گاری
میں یوں کھینچ کر ساتھ اپنے
کہ صدیاں گزرنے پر اُن کی
سیہ ہڈیوں بھی نہ شاید ملیں گی؟

جہاں سے یہ آواز آئی
اُسی سرزمیں میں،
سمندر کے ساحل پہ، لاکھوں گھروں میں
دیے ٹمٹمانے لگے
اور اک دوسرے سے
بہت د ھیمی سرگوشیوں میں
یہ کہنے لگے:
"لو سنو، اب سحر ہونے والی ہے لیکن
مسافر کی اب تک خبر بھی نہیں ہے!"
 

فرخ منظور

لائبریرین
دوری
مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو،
وہ پہلی شبِ مہ شبِ ماہِ دو نیم بن جائے گی
جس طرح سازِ کہنہ کے تارِ شکستہ کے دونوں سرے
دو افق کے کناروں کے مانند
بس دور ہی دور سے تھرتھراتے ہیں اور پاس آتے نہیں ہیں
نہ وہ راز کی بات ہونٹوں پہ لاتے ہیں
جس نے مغنّی کو دورِ زماں و مکاں سے نکالا تھا،
بخشی تھی خوابِ ابد سے رہائی!

یہ سچ ہے تو پھر کیوں
کوئی ایسی صورت، کوئی ایسا حیلہ نہ تھا
جس سے ہم آنے والے زمانے کی آہٹ کو سن کر
وہیں اُس کی یورش کو سینوں پہ یوں روک لیتے:
کہ ہم تیری منزل نہیں، تیرا ملجا و ماویٰ نہیں ہیں؟

یہ سوچا تھا شاید
کہ خود پہلے اس بُعد کے آفرینندہ بن جائیں گے
(اب جو اِک بحرِ خمیازہ کش بن گیا ہے!)
تو پھر از سرِ نَو مسرت سے، نورس نئی فاتحانہ مسرت سے
پائیں گے بھولی ہوئی زندگی کو،
وہی خود فریبی، وہی اشک شوئی کا ادنیٰ بہانہ!

مگر اب وہی بُعد سرگوشیاں کر رہا ہے:
کہ تُو اپنی منزل کو واپس نہیں جا سکے گا،
نہیں جا سکے گا۔۔۔
مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو
یہ عفریت پہلے ہزیمت اٹھائے گا، مٹ جائے گا!
 

فرخ منظور

لائبریرین
زنجیر

گوشۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش ہویدا ہو چلی،
سنگِ خارا ہی سہی، خارِ مغیلاں ہی سہی،
دشمنِ جاں، دشمنِ جاں ہی سہی،
دوست سے دست و گریباں ہی سہی
یہ بھی تو شبنم نہیں___
یہ بھی تو مخمل نہیں، دیبا نہیں، ریشم نہیں___
ہر جگہ پھر سینۂ نخچیر میں
اک نیا ارماں، نئی امید پیدا ہو چلی،
حجلۂ سیمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل،
وہ حسیں اور دور افتادہ فرنگی عورتیں
تو نے جن کے حسنِ روز افزوں کی زینت کے لیے
سالہا بے دست و پا ہو کر بُنے ہیں تار ہائے سیم و زر
اُن کے مردوں کے لیے بھی آج اک سنگین جال
ہو سکے تو اپنے پیکر سے نکال!

سُکر ہے دنبالۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش، نئی لرزش ہویدا ہو چلی
کوہساروں، ریگزاروں سے صدا آنے لگی:
"ظلم پروردہ غلامو! بھاگ جاؤ
پردۂ شب گیر میں اپنے سلاسل توڑ کر،
چار سُو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ
اور اس ہنگامِ باد آورد کو
حیلۂ شب خوں بناؤ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
سومنات
نئے سرے سے غضب کی سج کر
عجوزۂ سومنات نکلی،
مگر ستم پیشہ غزنوی
اپنے حجلۂ خاک میں ہے خنداں____
وہ سوچتا ہے:
"بھری جوانی سہاگ لوٹا تھا میں نے اِس کا،
مگر مرا ہاتھ
اس کی روحِ عظیم پر بڑھ نہیں سکا تھا،
اور اب فرنگی یہ کہہ رہا ہے:
"کہ آؤ آؤ اس ہڈیوں کے ڈھانچے کو
جس کے مالک تمھیں ہو
ہم مل کے نورِ کمخواب سے سجائیں!"
وہ جانتا ہے،
وہ نورِ کمخواب چین و ما چین میں نہیں ہے
کہ جس کی کرنوں میں
ایسا آہنگ ہو کہ گویا
وہی ہو ستّارِ عیب بھی
اورپردۂ ساز بھی وہی ہو!

عجوزۂ سومنات کے اس جلوس میں ہیں
عقیم صدیوں کا علم لادے ہوئے برہمن
جو اک نئے سامراج کے خواب دیکھتے ہیں
اور اپنی توندوں کے بل پہ چلتے ہوئے مہاجن
حصولِ دولت کی آرزو میں بہ جبر عریاں،
جو سامری کے فسوں کی قاتل حشیش پی کر
ہیں رہگزاروں میں آج پا کوب ومست و غلطاں
دف و دہل کی صدائے دلدوز پر خروشاں!
کسی جزیرے کی کور وادی کے
وحشیوں سے بھی بڑھ کے وحشی،
کہ اُن کے ہونٹوں سے خوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں
اور اُن کے سینوں پہ کاسۂ سر لٹک رہے ہیں
جو بن کے تاریخ کی زبانیں
سنا رہے ہیں فسانۂ صد ہزار انساں!
اور اُن کے پیچھے لڑھکتے، لنگڑاتے آ رہے ہیں
کچھ اشتراکی،
کچھ اُن کے احساں شناس مُلّا
بجھا چکے ہیں جو اپنے سینے کی شمعِ ایقاں!
مگر سرِ راہ تک رہے ہیں
کبھی تو دہشت زدہ نگاہوں سے
اور کبھی یاسِ جاں گزا سے
غریب و افسردہ دل مسلماں،
جو سوچتے ہیں،
کہ "اے خدا
آج اپنے آبا کی سر زمیں میں
ہم اجنبی ہیں،
ہدف ہیں نفرت کے ناوکِ تیز و جانستاں کے!

منو کے آئیں کا ظلم سہتے ہوئے ہریجن
کہ جن کا سایہ بھی برہمن کے لیے
ہے دزدِ شبِ زمستاں"
وہ سوچتے ہیں:
"کہیں یہ ممکن ہے:
بیچ ڈالے گا
ہم کو بردہ فروشِ افرنگ
اب اسی برہمن کے ہاتھوں
کہ جس کی صدیوں پرانے سیسے سے
آج بھی کور و کر ہیں سب ہم!
جو اَب بھی چاہے
تو روک لے ہم سے نورِ عرفاں!‘‘
ستم رسیدہ نحیف و دہقاں
بھی اس تماشے کو تک رہا ہے،
اُسے خبر بھی نہیں کہ آقا بدل رہے ہیں
وہ اس تماشے کو
طفلِ کمسن کی حیرتِ تابناک سے محض دیکھتا ہے!
جلوس وحشی کی آز سے
سب کو اپنی جانب بلا رہا ہے
کہ "ربّۂ سومنات کی بارگاہ میں آکے سرجھکاؤ!"

مگر وہ حسِ ازل
جو حیواں کو بھی میسر ہے
سب تماشائیوں سے کہتی ہے:
"اس سے آگے اجل ہے
بس مرگِ لم یزل ہے!"
اسی لیے وہ کنارِ جادہ پر ایستادہ ہیں، دیکھتے ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ویران کشید گاہیں

مَری کی ویراں کشید گاہوں میں
اُس فتیلے کو ڈھونڈتا ہوں
جو شیشہ و جام و دستِ ساقی کی منزلوں سے
گزر کے جب بھی بڑھا ہے آگے
تو اُس کے اکثر غموں سے اُجڑے ہوئے دماغوں
کے تیرہ گوشے
اَنا کی شمعوں کی روشنی سے جھلک اٹھے ہیں!

میں اس فتیلے کے اس سرے پر،
کھڑا ہوں، مجذوب کی نظر سے
مَری کی ویراں کشید گاہوں میں جھانکتا ہوں!
میں کامگاری کے انتہائی سرور سے کانپنے لگا ہوں
جہان بھر کے عظیم سیاح دیر تک یہ خبر نہ لائے
کہ نیل،
جو بے شمار صدیوں سے،
مصر کے خشک ریگزاروں کو،
رنگ و نغمہ سے بھر رہا تھا
کہاں سے ہوتی تھی اس کی تقدیر کی روپہلی سحر ہویدا؟
میں آج ایسے ہی نیل کی وسعتوں
کی دہلیز پر کھڑا ہوں!
کھنڈر جو صبحِ ازل کی مانند
ایستادہ ہیں،
اِس یقیں سے،
کہ ابتدا ہی اگر ہیولائے انتہا ہے
تو انتہا بھی کبھی وہی نقطہ بن گئی ہے،
جہاں سے سالک ہو اوّلیں بار جادہ پیما!
کھنڈر جو صبحِ ازل کی مانند دیکھتے ہیں،
یہ دیکھ کر مضمحل نہیں ہیں،
کہ اُن کے آغوش کے فتیلے کی روشنی
سرد پڑ چکی ہے
وہ اس فتیلے کی
سرکشی کو بھی جانتے ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
نمرود کی خدائی

یہ قدسیوں کی زمیں
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں،
ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جانفروز کی آرزو کا پرتو!
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:
"وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟
___وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟"
اے فلسفہ گو،
کہاں وہ رویائے آسمانی!
کہاں یہ نمرود کی خدائی!
تو جال بنتا رہا ہے، جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے
ہم اُس یقیں سے، ہم اُس عمل سے، ہم اُس محبت سے،
آج مایوس ہو چکے ہیں!

کوئی یہ کس سے کہے کہ آخر
گواہ کس عدلِ بے بہا کے تھے عہدِ تاتار کے خرابے؟
عجم، وہ مرزِ طلسم و رنگ و خیال و نغمہ
عرب، وہ اقلیمِ شیر و شہد و شراب و خرما
فقط نوا سنج تھے در و بام کے زیاں کے،
جو اُن پہ گزری تھی
اُس سے بدتر دنوں کے ہم صیدِ ناتواں ہیں!

کوئی یہ کس سے کہے:
در و بام،
آہن و چوب و سنگ و سیماں کے
حُسنِ پیوند کا فسوں تھے
بکھر گیا وہ فسوں تو کیا غم؟
اور ایسے پیوند سے امیدِ وفا کسے تھی!

شکستِ مینا و جام برحق،
شکستِ رنگ عذارِ محبوب بھی گوارا
مگر__یہاں تو کھنڈر دلوں کے،
(____یہ نوعِ انساں کی
کہکشاں سے بلند و برتر طلب کے اُجڑے ہوئے مدائن____)
شکستِ آہنگ حرف و معنی کے نوحہ گر ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک شہر
یہ سب سے نیا، اور سب سے بڑا اور نایاب شہر
یہاں آکے رکتے ہیں سارے جہاں کے جہاز
یہاں ہفت اقلیم کے ایلچی آ کے گزرانتے ہیں نیاز
درآمد برآمد کے لاریب چشموں سے شاداب شہر
یہ گلہائے شبّو کی مہکوں سے، محفل کی شمعوں سے، شب تاب شہر
یہ اک بسترِ خواب شہر
دیبا و سنجاب شہر!

یہاں ہیں عوام اپنے فرماں روا کی محبت میں سرشار
بطبیب دلی، قیدِ زنجیر و بند سلاسل کے ارماں کے ہاتھوں گرفتار
دیوانہ وار!
یہاں فکر و اظہار کی حریت کی وہ دولت لٹائی گئی
کہ اب سیم و زر اور لعل و گہر کی بجائے
بس الفاظ و معنی سے
اہل قلم کے، خطیبوں کے، اُجڑے خزانے ہیں معمور
خیالات کا ہے صنم خانۂ نقش گر میں وفور
مغنّی ہے فن کی محبت میں چُور
سلاخوں کے پیچھے فقط چند شوریدہ سر بے شعور!

مسافت یہاں صدر سے تابہ نعلین بس ایک دو گام
یہاں میزبان اور مہمان ہیں، ایک ہی شہد کے جام سے شاد کام
اگر ہیں برہنہ سرِ عام تو سب برہنہ
کہ یہ شہر ہے، عدل و انصاف میں
اور مساوات میں
اور اخوّت میں
مانندِ حمام!
یہاں تخت و دیہیم ہوں یا کلاہِ گلیم
ہے سب کا وہی ایک ربِّ کریم!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
اِنقلابی

"مورّخ"، مزاروں کے بستر کا بارِ گراں،
عروس اُس کی نارس تمناؤں کے سوز سے
آہ برلب
جدائی کی دہلیز پر، زلف در خاک، نوحہ کناں!
یہ ہنگام تھا، جب ترے دل نے اس غمزدہ سے
کہا: "لاؤ، اب لاؤ، دریوزۂ غمزۂ جانستاں!"

مگر خواہشیں اشہبِ باد پیما نہیں،
جو ہوں بھی تو کیا
کہ جولاں گۂ وقت میں کس نے پایا ہے
کس کا نشاں؟

یہ تاریخ کے ساتھ چشمک کا ہنگام تھا؟
یہ مانا تجھے یہ گوارا نہ تھا،
کہ تاریخ دانوں کے دامِ محبت میں پھنس کر
اندھیروں کی روحِ رواں کو اُجالا کہیں
مگر پھر بھی تاریخ کے ساتھ
چشمک کا یہ کون ہنگام تھا؟

جو آنکھوں میں اُس وقت آنسو نہ ہوتے،
تو یہ مضطرب جاں،
یہ ہر تازہ و نو بہ نو رنگ کی دل ربا،
تری اس پذیرائیِ چشم و لب سے
وفا کے سنہرے جزیروں کی شہزاد ہوتی،
ترے ساتھ منزل بہ منزل رواں و دواں!
اسے اپنے ہی زلف و گیسو کے دامِ ازل سے
رہائی تو ملتی،

مگر تو نے دیکھا بھی تھا
دیوِ تاتار کا حجرۂ تار
جس کی طرف تو اسے کر رہا تھا اشارے،
جہاں بام و در میں کوئی روزن نہیں ہے
جہاں چار سو باد و طوفاں کے مارے ہوئے راہ گیروں
کے لیے بے انتہا استخواں ایسے بکھرے پڑے ہیں
ابد تک نہ آنکھوں میں آنسو، نہ لب پر فغاں؟
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
سوغات

زندگی ہیزمِ تنّورِ شکم ہی تو نہیں
پارۂ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
سیم و زر کی جو وہ سوغات صبا لائی تھی
ہم سہی کاہ، مگر کاہ ربا ہو نہ سکی
دردمندوں کی خدا ہو نہ سکی
آرزو ہدیۂ اربابِ کرم ہی تو نہیں!

ہم نے مانا کہ ہیں جاروب کشِ قصرِ حرم
کچھ وہ احباب جو خاکسترِ زنداں نہ بنے
شبِ تاریکِ وفا کے مہِ تاباں نہ بنے
کچھ وہ ا حباب بھی ہیں جن کے لیے
حیلۂ امن ہے خود ساختہ خوابوں کا فسوں
کچھ وہ احباب بھی ہیں، جن کے قدم
راہ پیما تو رہے، راہ شناسا نہ ہوئے
غم کے ماروں کا سہارا نہ ہوئے!

کچھ وہ مردانِ جنوں پیشہ بھی ہیں جن کے لیے
زندگی غیر کا بخشا ہوا سم ہی تو نہیں
آتشِ دَیر و حرم ہی تو نہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ظلم رنگ

"یہ میں ہوں!"
"اور یہ میں ہوں!" ۔۔۔
یہ دو میں ایک سیمِ نیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہیں شرق و غرب کے مانند،
لیکن مِل نہیں سکتے!
صدائیں رنگ سے نا آشنا
اک تار اُن کے درمیاں حائل!
مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،
مشرق کے جواں سورج کی تابانی
کبھی ان نرم و نازک، برف پروردہ حسیں باہوں
کو چھو جائیں،
محبت کی کمیں گاہوں کو چھو جائیں___
یہ نا ممکن! یہ ناممکن!
کہ "ظلم رنگ" کی دیوار ان کے درمیاں حائل!
"یہ میں ہوں!"
"اور یہ میں ہوں!"
اَنا کے زخمِ خوں آلودہ، ہر پردے میں،
ہر پوشاک میں عریاں،
یہ زخم ایسے ہیں جو اشکِ ریا سے سل نہیں سکتے
کسی سوچے ہوئے حرفِ وفا سے سِل نہیں سکتے!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
طلسمِ ازل

مجھے پھر طلسمِ ازل نے
نئی صبح کے نور میں نیم وا،
شرم آگیں دریچے سے جھانکا!
میں اس شہر میں بھی،
جہاں کوئے و برزن میں بکھرے ہوئے
حُسن و رقص و مَے و نور و نغمہ
اُسی نقشِ صد رنگ کے خطّ و محراب ہیں، تار و پو ہیں،
کہ صدیوں سے جس کے لیے
نوعِ انساں کا دل، کان، آنکھیں،
سب آوارۂ جستجو ہیں،
میں اس شہر میں تھا پریشان و تنہا!

یہاں زندگی ہے اک آہنگِ تازہ،
مسلسل، مگر پھر بھی تازہ
یہاں زندگی لمحہ لمحہ، نئے، دم بہ دم تیز تر
جوش سے گامزن ہے،
یہاں وہ سکوں، جس کے گہوارۂ نرم و نازک
میں پلتے ہیں ہم ایشیائی
فقط دور ہی دور سے خندہ زن ہے،
مگر میں اسی شہر میں تھا پریشان و غمگین و تنہا!

پریشان و غمگین و تنہا
کہ ہم ایشیائی
جو صدیوں سے ہیں خوابِ تمکیں کے رسیا
یہ کہتے رہے ہیں:
ہمارا لہو زخمِ افرنگ کی مومیائی
ہمارے ہی دم سے جلالِ شہی، فرّۂ کبریائی!
پریشان و غمگین و تنہا
کہ ہم تابکے اپنے اوہامِ کہنہ کے دلبند بن کر،
یونہی عافیت کی پُر اسرار لذت کے آغوش سے
زہرِ تقدیر پیتے رہیں گے
ابھی اور کَے سال دریوزہ گر بن کے جیتے رہیں گے!

اسی سوچ میں تھا کہ مجھ کو
طلسمِ ازل نے نئی صبح کے نور میں نیم وا،
شرم آگیں دریچے سے جھانکا ____
مگر اس طرح، ایک چشمک میں جیسے
ہمالہ میں الوند کے سینۂ آہنی سے
محبت کا اک بے کراں سَیل بہنے لگا ہو
اور اس سَیل میں سب ازل اور ابد مل گئے ہوں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
سبا ویراں

سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبارِ بے پایاں!
گیاہ و سبزہ و گُل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنۂ باراں،
طیور اِس دشت کے منقار زیرِ پر
تو سرمہ در گلو انساں
سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں!
سلیماں سر بزانو، تُرش رو، غمگیں، پریشاں مُو
جہانگیری، جہانبانی، فقط طرارۂ آہو،
محبت شعلۂ پرّاں، ہوس بوئے گُلِ بے بُو
ز رازِ دہرِ کمتر گو!
سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں
کسی عیّار کے غارت گروں کے نقشِ پا باقی
سبا باقی، نہ مہروئے سبا باقی!
سلیماں سر بہ زانو،
اب کہاں سے قاصدِ فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مَے آئے؟
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
سایہ

کسی خواب آلودہ سائے کا پیکر
کہاں تک ترے گوش شِنوا، تری چشمِ بینا، ترے قلبِ دانا
کا ملجا و ماویٰ بنے گا؟
تجھے آج سائے کے ہونٹوں سے حکمت کی باتیں گوارا،
تجھے آج سائے کے آغوش میں شعر و نغمہ کی راتیں گوارا،
گوارا ہیں اُس زندگی سے کہ جس میں کئی کارواں راہ پیما رہے ہیں!
مگر کل ترے لب پہ پہلی سی آہوں کی لپٹیں اٹھیں گی،
ترا دل اُنہی کاروانوں کو ڈھونڈے گا،
اُن کو پکارے گا،
جو جسم کی چشمہ گاہوں پر رکتے ہیں آ کر
جنھیں سیریِ جاں کی پوشیدہ راہوں کی ساری خبر ہے!

یہ تسلیم، سائے نے تجھ کو
وہ پہنائیاں دیں
افق سے بلند اور بالا
جو تیری نگاہوں کے مرئی حجابوں میں پنہاں رہی تھیں،
وہ اسرار تجھ پر ہویدا کیے، جن کا ارماں
فلاطوں سے اقبال تک سب کے سینوں کی دولت رہا ہے؛
وہ اشعار تجھ کو سنائے، جو حاصل ہیں ورجل سے لے کر
سبک مایہ راشد کے سوز ِ دروں کا
کہ تُو بھول جائے وہ صرصر، وہ گرداب جن میں
تری زندگی واژگوں تھی،
تری زندگی خاک و خوں تھی!
تُو اسرار و اشعار سنتی رہی ہے،
مگر دل ہی دل میں تُو ہنستی رہی ہے
تو سیّال پیکر سے، سائے سے، غم کے کنائے سے کیا پا سکے گی؟
جب اس کے ورا، اس سے زندہ توانا بدن
رنگ و لذت کے مخزن، ہزاروں،
تمنا کے مامن ہزاروں!

کبھی خواب آلودہ سائے کی مہجور و غم دیدہ آنکھیں
ترے خشک مژگاں کو رنجور و نم دیدہ کرتی رہی ہیں
تو پھر بھی تُو ہنستی رہی ہے!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

لب بیاباں، بوسے بے جاں
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
جسم کی یہ کار گاہیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!
نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے
کہ جیسے دزدِ شب گرداں کوئی!
شام سے تھے حسرتوں کے بندۂ بے دام ہم
پی رہے تھے جام پر ہر جام ہم
یہ سمجھ کر، جرعۂ پنہاں کوئی
شاید آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے!

مطلب آساں، حرف بے معنی
تبسّم کے حسابی زاو یے
متن کے سب حاشیے،
جن سے عیشِ خام کے نقشِ ریا بنتے رہے!
اور آخر بعُد جسموں میں سرِ مُو بھی نہ تھا
جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
قربِ چشم و گوش سے ہم کونسی الجھن کو سلجھاتے رہے!
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم؟
زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو
یا زوالِ عمر کا دیِو سبک پا رُو برُو
یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
خود سے ہم دُور نکل آئے ہیں

میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی
سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے
اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا
کوئی روئے گزراں تھی گویا
ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے
آلام کے اشجار وہاں
برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،
کبھی ارمانوں کے آوارہ، سراسیمہ طیور
کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر
ان کی شاخوں میں اماں پاتے تھے، سستاتے تھے،
اور کبھی شوق کے ویرانوں کو اڑ جاتے تھے،
شوق، بے آب و گیاہ
شوق، ویرانۂ بے آب و گیاہ،
ولولے جس میں بگولوں کی طرح ہانپتے تھے
اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے تھے

ہم کہ اب میں سے بہت دور نکل آئے ہیں
دور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے
کروٹیں لیتے ہیں جس منزل میں
عشقِ گم گشتہ کے افسانوں کے خواب
ولولوں کے وہ ہیولے ہیں جہاں
جن کی حسرت میں تھے نقّاش ملول
جن میں افکار کے کہساروں کی روحیں
سر و روبستہ ہیں،
اوّلیں نقش ہیں ارمانوں کے آوارہ پرندوں کے جہاں
خواہشوں اور امیدوں کے جنیں!

اپنی ہی ذات کے ہم سائے ہیں
آج ہم خود سے بہت دور نکل آئے ہیں!
 
آخری تدوین:
Top