فرخ منظور
لائبریرین
کشاکش
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اڑ گئی اوس کی مانند ہر انگڑائی بھی!
اور ترا دل تو بس اک حجلۂ تاریکی ہے،
جس میں کام آ نہیں سکتی مری بینائی بھی!
یہ تجسس مجھے کیوں ہے کہ سحَر کے ہنگام
کون اٹھّا ترے آغوش سے سرمست جوانی لے کر:
کیا وہ اس شہر کا سب سے بڑا سوداگر تھا؟
(تیرے پاؤں میں ہے زنجیر طلائی جس کی)
یا فرنگی کا گرانڈیل سپاہی تھا کوئی؟
(جن سے یہ شہر ابلتا ہوا ناسور بنا جاتا ہے)
یا کوئی دوست، شب و روز کی محنت کا شریک؟
(میرے ہی شوق نے ترغیب دلائی ہو جسے!)
یہ تجسس مجھے کیوں ہے آخر،
جبکہ خود میرے لیے دور نہ تھا، دور نہیں،
کہ میں چاہوں تو ترے جسم کے خم خانوں کا محرم بن جاؤں؟
جس کی قسمت میں کوئی موجِ تبسم بھی نہ ہو،
قہقہوں کا اُسے ذخّار سمندر مل جائے،
مبتلا کیوں نہ وہ اوہام کے اس دام میں ہو،
کہ وہی ایک وہی ہے تری ہستی پہ محیط،
اور تُو عہدِ گزشتہ کی طرح
کارواں ہائے تمنا کی گزرگاہ نہیں!
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اور نمودار بھی ہو جائیں تو کیا،
آگہی ہو بھی، تو حاصل نہیں کچھ اس کے سوا
کہ غمِ عشق چراغِ تہِ داماں ہو جائے،
زندگی اور پریشاں ہو جائے!
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اڑ گئی اوس کی مانند ہر انگڑائی بھی!
اور ترا دل تو بس اک حجلۂ تاریکی ہے،
جس میں کام آ نہیں سکتی مری بینائی بھی!
یہ تجسس مجھے کیوں ہے کہ سحَر کے ہنگام
کون اٹھّا ترے آغوش سے سرمست جوانی لے کر:
کیا وہ اس شہر کا سب سے بڑا سوداگر تھا؟
(تیرے پاؤں میں ہے زنجیر طلائی جس کی)
یا فرنگی کا گرانڈیل سپاہی تھا کوئی؟
(جن سے یہ شہر ابلتا ہوا ناسور بنا جاتا ہے)
یا کوئی دوست، شب و روز کی محنت کا شریک؟
(میرے ہی شوق نے ترغیب دلائی ہو جسے!)
یہ تجسس مجھے کیوں ہے آخر،
جبکہ خود میرے لیے دور نہ تھا، دور نہیں،
کہ میں چاہوں تو ترے جسم کے خم خانوں کا محرم بن جاؤں؟
جس کی قسمت میں کوئی موجِ تبسم بھی نہ ہو،
قہقہوں کا اُسے ذخّار سمندر مل جائے،
مبتلا کیوں نہ وہ اوہام کے اس دام میں ہو،
کہ وہی ایک وہی ہے تری ہستی پہ محیط،
اور تُو عہدِ گزشتہ کی طرح
کارواں ہائے تمنا کی گزرگاہ نہیں!
شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،
تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،
اور نمودار بھی ہو جائیں تو کیا،
آگہی ہو بھی، تو حاصل نہیں کچھ اس کے سوا
کہ غمِ عشق چراغِ تہِ داماں ہو جائے،
زندگی اور پریشاں ہو جائے!